دنیا کی مختلف تحریکوں میں بعض اوقات ایسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں جو بظاہر عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، مگر درپردہ ریاست یا کسی طاقتور ادارے کے مفادات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان تحریکوں کو اکثر “ریاستی آلہ کار تحریکیں” یا “کنٹرولڈ اپوزیشن” کہا جاتا ہے۔
ایسی تحریکوں کی کچھ نمایاں خصوصیات اور مثالیں درج ذیل ہو سکتی ہیں:
1. ظاہری عوامی حمایت مگر اصل میں ایجنڈا مختلف
یہ تحریکیں عوامی مسائل کا نعرہ لگاتی ہیں جیسے مہنگائی، بے روزگاری، یا آزادی۔
لیکن ان کا اصل مقصد کسی مخصوص گروہ یا ریاستی ادارے کا ایجنڈا آگے بڑھانا ہوتا ہے۔
2. ان تحریکوں کے لیڈرز کے ساتھ اکثر حکومتی اداروں کی طرف سے نرم رویہ اپنایا جاتا ہے۔
اگر کوئی ایسی لیڈر حکومت کی طرف سے گرفتار ہو بھی جائے تو اسے جلد رہا کر دیا جاتا ہے اور میڈیا پر بھر پور کوریج بھی دی جاتی ہے۔
3. تحریک کا رخ عوامی مطالبات سے ہٹا کر ریاستی مفاد کی طرف موڑنا
جب عوامی جذبات عروج پر ہوں تو یہ تحریکیں انہیں کمزور کر کے ریاست کو موقع دیتی ہیں کہ وہ اصل تحریکوں کو دبائے۔
4. کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق، تاریخ میں بعض مذہبی یا قوم پرست تنظیمیں ایسی رہی ہیں جو ابتدا میں عوام کے جذبات کو استعمال کرتی تھیں مگر بعد میں ریاستی مفاد میں کام کرتی نظر آئیں۔
مثلاً کچھ ادوار میں بعض “انقلابی تحریکیں” صرف اس وقت تک فعال رہیں جب تک وہ ریاستی ایجنڈا پورا کر رہی تھیں۔
5. ایسی تحریکوں کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ جذباتی ہونے کے بجائے ان کے عمل، بیانیہ، اور اثرات کو غور سے دیکھا جائے۔دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں عوام کو بے وقوف بنا کر، جذباتی نعروں، مذہب، قوم پرستی یا خوف کے ذریعے استعمال کیا گیا — کبھی کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے، کبھی اقتدار کو دوام دینے کے لیے، اور کبھی بیرونی پالیسیوں کو جواز دینے کے لیے۔
جرمن نازی حکومت نے قوم پرستی، یہودیوں کے خلاف نفرت، اور “جرمن عظمت” کا نعرہ لگا کر عوام کو جنگ اور قتلِ عام کے لیے تیار کیا۔
لاکھوں افراد مارے گئے، عالمی جنگ چھڑ گئی، اور خود جرمنی بھی اس جنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
امریکہ عراق جنگ 2003 میں امریکہ نے جھوٹے دعوے کیے کہ عراق کے پاس “تباہ کن ہتھیار” ہیں۔
9/11 کے بعد عوام جذباتی تھے اور حکومت نے ان کے جذبات کو جنگ کے حق میں موڑ دیا۔
عراق پر حملہ، لاکھوں کی ہلاکت، تباہی — اور بعد میں خود امریکی میڈیا اور حکومت نے تسلیم کیا کہ جنگ جھوٹ پر مبنی تھی ، شمالی کوریا ریاست نے مکمل کنٹرول کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا کہ لیڈر “خدائی” صفات رکھتا ہے، باقی دنیا دشمن ہے۔ پروپیگنڈہ کے ذریعے عوام کو غلامی کی حد تک وفادار بنا دیا گیا۔مشرقِ وسطیٰ وہ خطہ ہے جہاں عوام کو جذباتی، مذہبی، اور قوم پرستانہ نعروں کے ذریعے بارہا استعمال کیا گیا — اور اکثر ریاستوں، بادشاہتوں، یا بیرونی طاقتوں کے مفادات کے لیے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔
سعودی عرب میں مذہب کا استعمال وہابی نظریے کے ذریعے عوام کو مخصوص سوچ تک محدود کیا گیا۔ حکومت پر سوال اٹھانا “گناہ” یا “فتنہ” قرار دیا گیا۔ اکثر و بیشتر معاملات میں امریکی مفادات کے ساتھ چلنے کے باوجود عوامی بیانیہ امریکہ مخالف رکھا گیا تاکہ عوام کو اصل حقیقت معلوم نہ ہو۔
ایران میں عوامی جذبات سے فائدہ اٹھا کر انقلاب کے بعد مذہبی جذبے کو اس قدر ابھارا گیا کہ عوام ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو گئے۔
نوجوانوں کو “شہادت” کا خواب دکھا کر عراق-ایران جنگ میں جھونکا گیا۔
بلوچ ، عرب ، اہواز اور کردوں کو “دشمن کا ایجنٹ” کہہ کر دبا دیا گیا۔
فلسطینی عوام کی حالتِ زار کو کئی عرب حکومتوں نے صرف بیانات کے لیے استعمال کیا، مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔
ان جذبات کو اپنے اپنے داخلی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ فلسطینی عوام مسلسل مشکلات میں رہے۔
2011 شام جب عوام نے آزادی مانگی تو حکومت نے ریاستی پروپیگنڈہ سے عوام کو “دہشتگردی” اور “فتنے” کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی۔خانہ جنگی، لاکھوں ہلاکتیں، بیرونی مداخلت، عوام برباد مہاجرین کی صورت میں دربدر ہوگئے۔
لبنان عوام کو شیعہ، سنی، عیسائی گروہوں میں بانٹ کر سیاست دانوں نے اقتدار سنبھالے رکھا ، جیسے مہنگائی، بدعنوانی — ان پر بات نہیں، صرف مذہبی شناخت کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا۔
یمن حوثی، سعودی اتحاد، ایران — سب نے عوام کو اپنے نظریے اور ایجنڈے کے لیے استعمال کیا۔ بدترین انسانی بحران، بھوک، بیماری، پسماندگی کا شکار بنایا اور عوام اج بھی جزباتی ہو کر چیزوں کو پرکھتے اور اپنی رائے بناتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اکثر حکومتیں یا بیرونی طاقتیں عوام کو “اسلام”، “قوم”، “امن”، یا “سازش” جیسے بیانیوں سے قابو میں رکھتی ہیں۔
اصل مسائل تعلیم، صحت، آزادی، عدل و انصاف— پسِ پشت چلے جاتے ہیں، اور عوام بار بار قربانی دیتے ہیں، مگر فائدہ حاکم یا بیرونی طاقتیں اٹھاتی رہی ہے۔
ایشیاء ایک وسیع و عریض خطہ ہے جس میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ) شامل ہیں۔ اس پورے خطے میں بھی عوام کو مختلف ادوار میں جذبات، خوف، مذہب، اور قوم پرستی کے نام پر استعمال کیا گیا ہے — اکثر اوقات طاقتور اشرافیہ یا ریاستی اداروں کے مفاد کے لیے عوام کو بےوقوف بنایا گیا۔
عوام کا استعمال: ایک ظالمانہ نظام کی حفاظت کے لیے، جہاں بھوک سے مرنے والوں کو بھی زبان کھولنے کی اجازت نہیں۔
ہندوستان میں مذہب اور قوم پرستی: عوامی جذبات کو ہندو مسلم تقسیم اور قوم پرستی کے نعروں سے بھڑکایا گیا۔
افغانستان میں اسلام کےنام پر مختلف ادوار میں عوام کو “اسلام خطرے میں ہے” جیسے بیانیے کے تحت جذباتی کر کے فوجی یا سیاسی طاقت کے مفاد میں استعمال کیا گیا۔
1980s “جہاد” کے نام پر روس کے خلاف ا
میں پاکستان امریکہ اور چین کی مشترکہ کاوشوں سے افغانوں کو جہاد کے نام پر دکھیلا گیا جس کی بھاری قیمت افغانوں کو ادا کرنی پڑھی ‘ پھر طالبان، پھر امریکہ — ہر دور میں عوام کو “آزادی” یا “شریعت” کے نام پر جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔
روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام: بودھ قوم پرستی کے جذبات کو استعمال کر کے ریاست نے عوامی حمایت حاصل کی اور اقلیتوں پر ظلم کیا۔
روہنگیا کو “غیر ملکی” قرار دے کر نفرت کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ سری لنکا نے تاملوں کی نسل کشی کو یہ جواز فراہم کی کہ یہ دہشت گرد ہے جس کا اختتام بہت ہی بھیانک انداز میں ہوا اور تاملوں کی نسل کشی کو قانونی قرار دے کر دنیا کو خاموش کرایا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں عوام کو بارہا مختلف مذہبی، قومی، اور نظریاتی نعروں کے ذریعے استعمال کیا گیا — اکثر اوقات طاقت کے ایوانوں، سیاسی اشرافیہ یا بیرونی مفادات کے تحفظ کے لیے۔
“اسلام خطرے میں ہے” کا نعرہ مختلف حکومتوں اور جماعتوں نے بارہا لگایا — کبھی اپوزیشن کو دبانے کے لیے، کبھی عوام کو اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے۔
پاکستان نے بیرونی آقاوں کی خوشنودی کے لئے “جہاد” کے نام پر عوام، طلبہ اور مدارس کو روس کے خلاف کھڑا کیا گیا۔
کارگل جنگ 1999کشمیر کی آزادی” کی امید دے کر عوامی جذبات ابھارے گئے۔
حقیقت میں فوجی مہم جوئی تھی، سیاسی قیادت کو اندھیرے میں رکھا گیا۔کیونکہ پاکستان میں فوج سرکار میں نہیں رہ کر اصل سرکارہے۔
عالمی سطح پر تنقید، فوجی اور سیاسی نقصان، اور پاکستان کودنیا میں سرگرداں مانا گیا ،
مارشل لا ادوار (1958، 1977، 1999)
عوام کو بیوقوف بنانے کی تکنیک:
پاکستان کی اصلاح”، “بدعنوانی کا خاتمہ”، “ترقی کا نیا دور” جیسے وعدے کئے گئے۔
میڈیا پر کنٹرول، مصنوعی سکون، اور ترقی کے خواب دکھائے گئے۔
وقتی نظم و ضبط، مگر طویل مدتی نقصان — جمہوریت، ادارے اور عوامی شعور کمزوراپنے مسلک کی حفاظت” کے نام پر عام عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کیا گیا۔شدت پسندی، قتل و غارت، اور عالمی بدنامی پاکستان کا مقدر بن گیا۔
روٹی، کپڑا، مکان (پیپلز پارٹی) — جو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹی کا مقصد بلوچ ، پشتون کو یہ باور کرانا تھا کہ تمھارے حقوق تمھارے دہیلز پر رکھے جاہیں گے مگر بلوچ اور پشتون کسی حد تک اس فریب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر سندھی ابھی تک پنجابی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے جبکہ بلوچ اور پشتون بھٹو کو فنکار جانتے مگر سندھیوں نے بھٹو جیسے فریبی کو مرشد بنا دیا۔
پاکستانی ریاست میڈیا کو استعمال کر کے مخصوص بیانیہ پھیلاتا جبکہ اصل مسائل جیسے غربت، تعلیم، صحت، اور انصاف کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم ایک فریب ہے جبکہ تاریخ میں پاکستانی قوم کا وجود ہی نہیں ہے ، پاکستانی ریاست نے تاریخ کے ہر موڑ پر جذبات، مذہب، حب الوطنی، اور سازشی نظریات کو استعمال کیا ہے ، بلوچ قوم اور پاکستان کا تعلق ایک پیچیدہ، حساس، اور تاریخی طور پر متنازع موضوع ہے۔
27 مارچ 1948 میں پاکستان نے بلوچستان پر جبرا قبضہ کیا اس دن سے لیکر اج تک بلوچ قوم تسلسل سے بلوچستان کے دفاع کے لئے مزاحمت کر رہی ہے۔
مقبوضہ بلوچستان میں گیس ‘ کوئلہ ، سونا، یورینیم ، تانبا ، سنگ مرمر اور کئی اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہے بندر عباس سے لیکر مائی کولاچی ( کراچی ) تک ساحلی پٹی جیسی اہم دولت کا گھر ہے۔بلوچ آزادی پسندوں کا مؤقف ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کا فائدہ صرف پنجابی اٹھا رہا ہے جبکہ بلوچ قوم فاکہ کشی سے دوچار ہیں۔
تاریخ میں بلوچستان میں کئی بار فوجی کارروائیاں ہو چکی ہیں:
1948، 1958، 1963، 1973، اور 1999 کے بعد سے جاری شورش پر قابو پانے میں پاکستان دفاعی پوزیشن پر پہنچ چکا ہے بلوچ قوم میں شعور کا پیمانہ کافی بلند ہے مگر بلوچ پارلیمانی پارٹیوں نےبلوچ قوم کو ہر موڑ پردھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں کیا بلکہ بلوچ،قوم جب بھی ریاست پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو بلوچ پارلیمانی پارٹیاں ریاست پاکستان کا آلہ کار بن کر اور بلوچ کا ہمدرد بن کر بلوچ قوم کے پیٹھ میں چرا گھومپتے ہیں ، پاکستان اور ایران نے بلوچ قوم کے ہزاروں نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا۔یاستدان، طالب علم، صحافی ، وکیل ،ڈاکٹر، انجینر اور عام بلوچ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ، بلوچ قوم کو متحدہ بلوچستان کی آزادی کے لئے ا دنیا کو باور کرانا ہو گا کہ بلوچ ایک قوم ہے اس کی اپنی تاریخ ‘ جغرافیہ ، ثقافت ، زبانیں اور پہچان ہے پاکستان اور ایران بلوچستان پر قابض ہے اور بلوچ قوم 1928 سے لیکر 1948 تک اور اس کے بعد تسلسل سے اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے مزاحمت کر رہی ہے۔