حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے خواہشات کے بل بوتے پر کامیابی کی توقع رکھنا ناکامی کا سبب بنتا ہے کوئی بھی عمل موضوعی و معروضی حوالے سے کامیابی کے لیے بہتر منصوبہ بندی معاملہ فہمی کا تقاضا کرتا ہے اگر آپ موضوعی و معروضی حالات کو سمجھنے سے قاصر رہے تو ناکامی کے بھیڑیے سے بچنا ناممکن ہوگا موضوعی و معروضی حالات دونوں ایک دوسرے پر منعصر ہے اور کوئی بھی متحرک عمل ان حالات پر منعصر ہے اگر موضوعی حالات بہتر نہیں ہونگے تو معروض براہ راست آپ کے لیے پیچیدہ حالات پیدا کرے گا اور اسی طرح معروض کے بغیر موضوعی حالات کس حد تک بہتر بن سکتے ہیں یہ آپ کی منصوبہ بندی و حکمت عملی پر منعصر ہے اس طرح حالات کے ساتھ چلنا یا حالات کو بدلنا دو علیحدہ صورتیں ہیں اور خواہشات کو حقیقت یا فکر سمجھ کر ان پر عمل کرنا وقتی طور آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کر سکتا ہے لیکن ابدی نہیں۔ اور یہ خوش فہمی ایک فرد و ایک گروپ کی حد تک ممکن ہے لیکن اجتماعی حوالے سے یہ خوش فہمی کسی بھی سوچ کے لیے انتہائی خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے اگر کوئی فرد کوئی بھی عمل مثبت یا منفی کرے اس سے ایک گروہ متاثر ہو تو قابل برداشت ٹھہرتا ہے لیکن اگر یہ مثبت یا منفی عمل کوئی تنظیم کرے تو وہ قابل احترام ٹھہرتا ہے اس بیچ فرق کا منبہ ادارہ ہی ہوتا ہے اور وہ عمل ہوتا ہے کہ اسکے مثبت و منفی اثرات کس حد تک معاشرے کو متاثر کرتے ہیں اس متاثر کرنے کے پیچھے وہ سماجی شعور کارفرما ہوتی ہے جو ہمیں اس سماج کی سیاسی ادبی اخلاقی معاشی و ثقافتی ادارے دیتے ہیں اور وہی سے اس سماج کے افراد کی سیاسی سماجی اپروچ بنتی ہے اسی تناظر میں 65 سالہ غلامی میں زندگی گزارنے کے بعد کچھ لوگ متحرک ہوتے ہیں اور ان کا متحرک ہونا اجتماعی سوچ کے تحت شروع ہوتا ہے جو کہ بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے جسے ہم بلوچ قومی تحریک کا نام دیتے ہیں اگر دیکھا جائے تو جس سوچ و نظریے کو لیکر کچھ لوگ قومی دائرہ بناتے ہیں جہاں قبائلیت گروہیت نمود ونمائش ذات پات کو پیچھے دھکیل کر اجتماعی قومی مفاد کو سامنے رکھ کر اس دائرے میں گھومنے لگتے ہیں اور ہر ایک کے پیٹھ پر اس کے وزن سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے وہ اپنے خلوص کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھا کر چلتا ہے اور الیکٹران پروٹان و نیوٹران کی طرح آپس میں ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں اور ایک ہی مدار میں چلتے ہیں مرکزی نقطہ ہر عمل کا بنیادی اکائی ہوتی ہے کہ اس اکائی کے بغیر کوئی سفر یا عمل خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکتا اسی تناظر میں ہم مجموعی حوالے سے حالیہ تحریک پر نظر ڈالیں تو نتائج کچھ اچھے نہیں ہیں سب سے پہلے مرکزی نقطے کو چھوڑ کر علیحدہ مرکزی نقطہ بنایا گیا اسکے بعد اپنے اس نقطے کو وسعت دی گئی کامیابی ملی اور اسطرح یہ سلسلہ چلتا رہا تنظیمیں بنتے گئے ہر ایک علیحدہ مرکز بن گیااس مدار کو چھوڑ کر ہر ایک اپنے مدار میں گردش کرتا رہا لیکن وہ مدار انھی خوش فہمیوں کا گھڑ اس وقت ثابت ہوا جب موضوعی و معروضی حالات میں تبدیلی آئی اسطرح زیادہ زور اس دائرے کا رہا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے دائرے کو وسعت دینے کی کوشش میں وہ اجتماعی خیال فکر سوچ نظریہ دوسرے کنارے تک سرک گیا ۔کہنے کا مقصد دائرے کا ہے اور اس مرکز کا ہے کہ جہاں سے آپ حرکت میں آتے ہیں دشمن اسی تاڑ میں رہا جب خارج میں تقسیم کو سمجھ کر بیچ میں طریقہ کار کے فرق کو بھانپ لیا تو دشمن کو آسانی سے وہ موقع مل گیا وہ یکے بعد دیگرے حملہ کرتا رہا اور نقصان ہوتا رہا اور وہ دائرے سکڑتے گئے اتنے سکڑ گئے کہ اب اپنے وجود کو ثابت کرنے کی تگ و دو میں ہیں اگر اسطرح اب ایک مرکزی نقطے پر جم نہ ہوئے تو عین ممکن ہے کہ کوئی بھی مرکزی نقطہ اس لائق نہ رہے کہ وہ منزل کو حاصل کر سکے وقتی طور چھوٹی بڑی کامیابیاں ضرور حاصل کر سکیں گے لیکن منزل تک پہنچنا یا حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔مفادات مشترکہ سوچ ایک نظریہ ایک اگر کئی فرق نظر آتا ہے تو وہ طریقہ کار و انتظامی حوالے سے دیکھنے کو ملتا ہے اگر موجودہ صورتحال پر سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کی جائے اور ماضی کی غلطیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ غلطیاں شعوری طور سرزد ہوئے یا لاشعوری طور پر۔ اگر اس کو مجموعی طور سمجھ پائے تو پیچیدگی سے بچ سکتے ہیں نہ کہ ایک بھول بھلیوں میں گردش کرتے رہیں گے اور کسی منطقی نتیجے پر پہنچ نہیں پائیں گے غلطیاں ہر حال میں ہوئے ہیں اور لازمی طور آگے بھی ہونگے کیونکہ جب کوئی شخص یا ادارہ کوئی بھی عمل کرے گا تو وہاں غلط فیصلہ کرنے یا غلط حکمت عملی بنانا اچنبھے کی بات نہیں وہ شخص یا ادارہ جو کوئی عمل ہی نہیں کرتا اس سے کسی بھی حال میں کوئی غلطی سرزد نہیں ہوگی کیونکہ وہ متحرک نہیں بلکہ منجمد ہے اور منجمد شے تبدیلی نہیں لاسکتی اگر اپنے معاشرتی اداروں و اپنے تربیت کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھیں تو مختلف الخیال لوگ ایک نظریے کے تحت یکجاہ ہوئے اور ہر ایک اپنے علیحدہ شعور کے ساتھ جدوجہد کو سمجھتا رہا اور اپنے ہی شعور کے سطح کے مطابق معاشرے میں نظریے کو لوگوں تک پہنچاتا رہا اور جب تحریک میں وسعت آتی گئی تو لوگ جوک درجوک جہد کا حصہ بنتے گئے تو انھیں سنبھالنا اور ایک ہی ڈگر پر لے جانے میں دشواری کا سامنا ہوتا رہا کیونکہ ایک سے دو اور دو سے گروہ کی صورت میں ہر بااختیار اپنے شعور کے مطابق انکی تربیت کرتا رہا اور ایک گروہ علیحدہ شعور کے ساتھ دوسرے کے مدمقابل رہا اور بعض اپنے خواہشات کے تحت چلتے رہے اور اپنے خواہشات کو لیکر طریقہ کار وضع کرتے رہے اور زمینی حقائق سے نابلد ہو کر اپنے تصورات کو حقیقت کا روپ دیتے رہے اور اس بیچ زمینی حقائق کے برعکس انکے خیالات نوجوانوں میں پھلتے رہے اور شعور پر جذبات کا غلبہ رہا اور مختلف فکر و مختلف طریقہ کار و مختلف سوچ سامنے آئے اور سوچ کا یہ فرق ہر سطح پر رہا اور ان میں ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی اور اسطرح اختلاف رائے پر بحث اور اسکے منفی و مثبت پہلو اختلافات تک پہنچ گئے اور دوریاں بڑھتے گئے اور بداعتمادی پھلتا پھولتا رہا اور اختلافات شدت کے ساتھ جاری رہے جبکہ اس بیچ ایسا قابل اعتبار ادارہ یا فرد نہیں تھا جو ان مسائل کو سمجھ کر انھیں حل کرنے کی کوشش کرتا جھنوں نے کوششیں کی وہ بھی کامیاب نہ ہو پائے البتہ اس دوران دیگر باصلاحیت افراد کی بھی کمی رہی جو ان مسائل کی تہہ تک پہنچ کر انھیں سمجھ پاتے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے البتہ بد اعتمادی و دوریاں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ واپسی کا راستہ ممکن نظر نہ آیا اب وقت ہے کہ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے ایک دوسرے پر اعتماد کر کے ایک ساتھ بیٹھ کر ان مسئلوں کی تہہ تک پہنچ جائیں اور مشترکہ پالیسی ترتیب دے کر ان اندرونی مسائل سے جان چھڑا سکتے ہیں اور مشترکہ طریقہ کار و حکمت عملی کے تحت اسرنو نئے حالات کے ڈھانچے کو سمجھ کر جہد کے طریقہ کار کو وضع کریں اور ایک ہی پالیسی کے تحت پوری دنیا میں ایک ساتھ سامنے آئیں تو ممکنات کامیابی کے ہی بڑھیں گے اب وقت ہے نہ کہ اب نہیں تو پھر کھبی نہیں۔ وقت جب گزر جائے گا تو پچھتاوے سے کچھ نہیں بنے گا حالات کو بدلنا اور انھیں اپنے ماتحت کرنا کامیابی کے لیے راہیں متعین کرے گا اگر حالات کے رحم و کرم پر رہ کر خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے تو خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا خوش فہمی میں رہنے کی بجائے اگر حقیقی بنیاد پر حالات کی جانچ پڑتال کی جائے اور اندرونی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی طرف پیش قدمی کی جائے تو ان مسائل کا حل ممکن ہوگا اور ایک دوسرے پر اعتماد ہی ان مسئلوں کو حل کی طرف لے جا سکتا ہے دشمن کی آئے روز بڑتے جبر و تشدد نے ثابت کر دیا ہے کہ انکی نظر میں آزادی پسند ہی مجرم ہیں اور وہ اپنے پالیسی کے تحت ہر اس بلوچ کو نشانہ بناتا ہے جو آزادی کا دعویدار یا عمل کرنے والا ہوتا ہے کیونکہ دشمن کے لیے ہر وہ فرد مجرم کی حیثیت رکھتا ہے جو اس نام نہاد غیر فطری ریاست کے خلاف کام کرتا ہے دشمن ان دس سالوں میں اپنی پالیسیوں میں ہر وقت و حالات کے تحت تبدیلی لاتی رہی ہے لیکن بلوچ مسلح و غیر مسلح دونوں محاذوں میں ایک ہی سوچ و ایک ہی حکمت عملی کے تحت دشمن سے برسر پیکار رہے دشمن نے آزادی پسندوں کو سکھڑ کر ایک ہی سانچے میں بند کرنے میں کامیاب ہوا اگر دیکھا جائے تو یہ دشمن کی قابلیت سے زیادہ ہماری نالائقی تھی کہ بروقت دشمن کے چال کو سمجھنے سے قاصر رہے دشمن کی طاقت سے نقصان اٹھانا تکلیف دہ نہیں کیونکہ جہاں آپ بے بس ہوتے ہیں وہاں طاقت کا کھیل چلتا ہے لیکن جب کوئی اپنی لاپرواہی سے نقصان اٹھاتا ہے وہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ اس ناکامی یا نقصان میں دشمن کی قابلیت و حکمت عملی نہیں بلکہ آپ کی لاپرواہی ہے اور بلوچ جہد کو تقسیم در تقسیم تک پہنچانے میں دشمن کی سازش نہیں بلکہ بلوچ کی نالائقی ہے کیونکہ ہماری نالائقی و لاپرواہی سے دشمن کامیاب ہوتا ہے جہد کے تمام ادوار اسی ایک ہی نقطے پر منحصر رہے ہر دور میں اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے ایک دوسرے پر ریاستی کارندے کا الزام لگاتے رہے اور دوست و دشمن کے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے آج کے تقسیم کا ذمہ دار دشمن نہیں بلکہ ہمارے اندر کی وہ غلامانہ سوچ ہے کہ جو صدیوں سے ہمارے اندر پنھپ رہا ہے اور اسی غلامانہ سوچ کی وجہ سے ہم جلد سکھڑ جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کیے جنہوں نے سمجھا وہ دوسروں کے لیے قابل اعتبار نہ تھے اور دشمن ان تمام حالات سے فائدہ حاصل کرتا رہا اور اپنے حکمت عملی میں تبدیلی لاتا رہا ابتدا میں شہروں سے آزادی پسندوں کو دیہاتوں کی طرف دکھیلتا رہا اور پھر دیہاتوں سے پہاڑوں کی طرف اور پھر پہاڑوں سے بیس کیمپوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اگر دیکھا جائے تو دشمن یہ تمام کام منصوبہ بندی کے تحت مرحلہ وار کرتا رہا ہے اور آزادی پسندوں کی وسعت کو روکنے اور انھیں نقصان پہچاننے کے لیے ماحول کو آزادی پسندوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ منظر پر آ جائیں اور پھر مرحلہ وار غیر مسلح محاذ پر پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور انکی لیڈر شپ کو اشتہاری قرار دے دیا تاکہ وہ شہروں سے دور رہے اور دیگر ورکروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اسکے بعد مسلح محاذ کو یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کرتا رہا اسطرح 2005 سے 2016 تک ریاست نے مرحلہ وار اپنے کام کو انجام دیتا رہا اور بلوچ دشمن ریاست کی ان پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر رہے اگر سمجھے بھی۔ تو اسکے خلاف بہتر حکمت عملی نہ بنا سکے بلکہ اپنے اندرونی مسائل میں الجھے رہے انھیں حل کرنے میں ناکام رہے اور خارجی دنیا میں دشمن کو موقع ملا۔ جہاں وہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف پروپگنڈہ کرتا رہا اسطرح اسکے حصے میں کامیابی آئی جبکہ جو توقع قوم جہد سے رکھ رہی تھی وہ کامیابی جہد کے حصے میں نہ آسکی اور خارجی دنیا میں بھی طریقہ کار و سوچ کے حوالے سے تقسیم رہے اس تقسیم و سوچ کے فرق نے جہد کے لیے حالات کو گنجلک بنا دیا اور دشمن انھی مسائل و حالات کو بلوچ جہد کے خلاف استعمال کرتا رہا اور جہد سے جڑے رشتوں کو کمزور کرتا رہا اس میں کچھ دشمن کی قابلیت و کچھ ہمارے اپنوں کی گروہی سوچ کی وجہ سے ایسے حالات بنے اب ان دس پندرہ سالوں کے دورانیے کو دیکھیں تو ہمیں مجموعی حوالے سے بہت سے محاذوں پر کامیابی ملی ہے لیکن اس کامیابی کے تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکے ہیں اور ہمارے ایک دوسرے پر بداعتمادی و دوری کی وجہ سے دشمن کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اگر موجودہ حالات میں اثر نو نئے حکمت عملی کے ساتھ سامنے نہ آئے تو نقصانات کا لامتناہی سلسلہ ہمارا منتظر ہوگا۔