تقریباً دو ہفتے پورے ہوچکے تھے کہ میں حاجی کے باغیچے میں نہیں گیا تھا جسے ہم باغ یا بکل کہتے ہیں۔بلوچستان کے آج کے ان حالات میں یہی باغ ہی ہمارا وہ واحد ذریئعہ تھا جو ہمیں انٹر ٹین بھی کرتا تھا اور آپس میں مل بیٹھ کے کھتارسس بھی ہوتی تھی،کیونکہ حالات کی وجہ سے پہلے دور کی طرح کی کسی کے بیٹھک یا دکان میں وقت گزاری کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ ریاستی مخلوق کسی بھی حال میں کسی دو چار بلوچ کو کہیں اکھٹے بیٹھنے پر راضی نہیں تھی اور کہیں سے بھی نازل ہو کر کشت خون کرنے پر دیر نہیں کرتی،اس لئے یہی بکل ہمارا سایہ تھا اور میڈیا بھی،جہاں ہر طبقے کے لوگ آتے تھے جیسے کسی کلب کے ممبر کی طرح، دو گریڈ سے لیکر اٹھارہ گریڈ کے سرکاری لوگ، مزدور ،دکاندار سے لیکر بزنس مین تک،سارے اپنی شامیں گزارنے کے لئے اپنے پروفیشن کالباس اُتار کر ایک عام بلوچ کی حیثیت سے وہاں وقت گزاری کے لئے آیا کرتے تھے ۔ خاص بات یہ تھی کہ وہاں صرف اٹھارہ سال کے کم نوجوانوں کی آمد پہ پابندی تھی کیونکہ وہاں ساٹھ سے ستر سال کے عمر کے لوگ بھی آکر اپنی ذاتی زندگی کو انجوائے کرتے تھے۔اور بلوچ سماج میں ہمیشہ سفید ریش خود کو نو عمر لڑکوں سے الگ مخلوق سمجھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ نجی زندگی کے ان لمحوں میں وہ پروفیشنل لائف کی طرح reserve ہو کے رہیں یا یہاں وہ سماجی پابندیوں میں قید رہنا نہیں چاہتے تھے،کوئی سگریٹ پیتا تھا تو کوئی اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا دیسی تھادل،کچھ لوگ بیٹھ کے تاش کے پتوں سے دماغ لڑاتے تھے کچھ لوگ میری طرح اخبار اور موبائل نٹ سے خود کو مصروف رکھتے تھے ۔علاقے میں کوئی چوری ہوتی تھی یا کسی کا قتل،فوجیوں کا آپریشن ہوتا یا کسی مسخ شدہ لاش کے ملنے کی خبر،تنظیموں کی طرف سے کسی کا قتل ہوتا یا فوجیوں پر حملہ،پارلیمنٹ سے لیکر مسجد تک،گلیوں سے لیکر پہاڑوں تک ،ہر جگہ ہونے والی جنگ اور نیوز ایکدوسرے کو وہاں ملتی تھی اور ہر کوئی اپنی ذہنی بساط کے مطابق اچھا خاصا تبصرہ بھی کرتا تھا ،ہر جمعہ یا اتوار کو سب ملکر وہاں پکنک جیساماحول بناتے تھے، جو آپس میں چندہ کرکے خریداری ہوتی تھی، کیونکہ اب پہاڑوں پرپکنک پوائینٹ میں پکنک منانا کسی کے بس کی بات نہیں رہی ،اور بلوچستان کی ہر بازگشت یہاں ہی پہنچتی تھی،روز کسی نہ کسی کے پاس ایسی خبر ہوتی جو اُس شام کو گرم یا سرد بنا ڈالتی۔
ٹھنڈے پانی کی کاریز کے پاس چٹائی بچھا کر توت کے درختوں کے نیچے کمر ذانی باندھ کر ایسے گفتگو کرتے جیسے کسی ملک کے سینیٹ کے اجلاس میں دلائل کی بھر مار ہوتی ہے ۔بظاہر تو کوئی پولیس میں تھا تو کوئی دکاندار کوئی کلرک تھا تو کوئی ٹیچر ،مزدور،اور کوئی انجینئر ،ڈاکٹر تھا تو کوئی لیکچرر،مگر ذہنی طور پر وہ سب سرمچارہی تھے۔اور اسی سرمچاری نے انکو عام سماج سے الگ رکھا تھا اور حاجی کا یہ بکل(باغ) انکے لئے وہ واحد پلیٹ فارم تھا جہاں یہ مل بیٹھ کراپنے اندر کے اُس بچے کو تھپکی دے کر سُلاتے تھے جو ہر آہٹ پر اُنکی نیند بھگا دیتا تھا۔ اور حاجی صاحب نے بھی بکل میں ہر وہ سہولت مہیا کی تھی جو سب کی ضرورت تھی ۔وقتاً فوقتاً قہوہ، چائے،تاش کے پتے،بجلی سے لایا ہوا وہ تار جو موبائل چارجنگ کے لئے کجھور کے درخت پر بورڈ پر ایسے لگا تھا جو کسی کو بھی استعمال کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی،موسمیاتی پھلوں میں کجھور ،انجیر توت،انار اور انگور کے درخت بھی لگے تھے ،اور توت کے درختوں کے نیچے چٹائی بچھا کرایسی جگہ بنائی تھی کہ بیک وقت پندرہ سے بیس لوگ تک آسانی سے دیوان میں کمر زانی یا بالشتوں سے ٹھیک لگا کے بیٹھ سکتے تھے،مسجد بھی قریب تھی اور پانی تو ایک میٹر کی دوری پر دستیاب تھا،جمعے کے علاوہ اکثر یہ لوگ باغ ہی میں اپنی نمازیں پڑھتے تھے جس کے لئے حاجی صاحب نے الگ سے انتظامات کئے ہوتے تھے۔ پورے دو ہفتے کے بعد جب آج جب میرا من کہیں نہیں لگ رہا تھا تو میں بھی بِنا کسی سوچ کے وہاں جا پہنچا،جیسے اُنکو میرا ہی انتظار تھا،انکو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ ضرور یہ آج کسی بحث مباحثہ میں اُلجھے ہوئے ہیں ،مجھے دیکھنے پر اسی لئے انکی آنکھوں سے روشنی چھلکنے لگی جیسے اُنکو معلوم تھا کہ میں ان ہی کے حق میں کچھ بولنے والا ہوں،میرے آنے سے پہلے ٹھیکیدار بول رہا تھانان اسٹاپ بول رہا تھا،جیسے پہلی بار اُسے بولنے کا موقع مل گیا ہو،کبھی غصے میں ،کبھی دھیمے لہجے میں ،اپنی دانائی کا ثبوت دینے کیلئے کسی نہ کسی واقع کا ذکر بھی شامل گفتگو کرنا اُنکی فطرت میں شامل تھا جو ریٹائرڈ ماسٹر کو بلکل پسند نہیں تھا،کچھ دیر سننے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ بلوچ عسکری قوتوں کے ا تحاد کے حوالے سے گفت و شُنید میں لگے ہیں،کیونکہ مسلح تنظیموں کی آپس کی نا اتفاقی کو دیکھ کے انکو وہ باز گشت سنائی دے رہی تھی جو آج تک آئی ہی نہیں تھی،یہ اس معاملے میں اتنے حساس تھے جیسے وہ خود ہی بندوق کے ساتھ مورچے میں تھے،کسی بھی نا آسودہ یا حوصلہ شکن لمحہ کے لئے کبھی تیار نہیں تھے ۔اس جنگ کی پسپائی یا بلوچ جنگ کی شکست کا تصور بھی اُنھیں زندہ جلا ڈالنے کا مترادف تھا اور یہ بلوچ کو کسی بھی طرح کمزور ماننے پر تیار نہیں تھے بلکہ وہ آذادی کو شام کی دہلیز پردیکھتے تھے انکا خیال تھا کہ صبح کے سورج سے پہلے آزادی بلوچستان کی درودیوار پر منڈلاتی نظر آئے گی۔اسی لئے مسلح تنظیموں کی طرف سے آپس کی بیان بازی انھیں ذہنی طور پر کوسوں میل پیچھے لے جاتا تھا جو یہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے۔ موجودہ جہد کا بنیاد رکھنے والا کماش حیر بیار مری کی طرف سے مسلح تنظیموں کے اتحاد کی پیش کش کو سراہتے ہوئے ٹھیکدار بول رہا تھاکہ کوئی شرط شرائط رکھنے کی ضرورت نہیں،جب مقصد ایک ہے منزل ایک ہے تو کیوں درمیان میں پیچ و تاب رکھتے ہیں ،انکی آنکھوں سے اس خوف کا سایہ چھلک رہا تھا کہ کہیں پھر سے اتحاد کی گھنگرو بجتے بجتے خاموش نہ ہوجائیں۔ حاجی صاحب ہمیشہ بہت ہی کم بولتے تھے،شاید وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ کہ اسکی کسی بات پر کسی کی دل آزاری ہو،اور میزبانی کی روایات نبھانے میں کمی آجائے،مگر آج وہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے پہلی صف میں بول رہے تھے،ٹھیکدار کی گفتگو کو منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ کہ جن لوگوں پر ہم نے امیدیں وابستہ رکھی ہیں وہ تو ایکدوسرے پر بندوق تان کے بیٹھے ہیں،ہم نے سُنا ہے کہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے مگر یہ تو ایک ہی نظرئیے کے مالک ایک ہی دھرتی کے فرزند اور ایک ہی مقصد کے تحت جدوجہد میں لگے ہیں اور یہ بھی پارلیمانی امیدواروں کی طرح ایکدوسرے کے خلاف خود کو ضائع کر رہے ہیں،انکے چہرے پہ مایوسی کے آثار تھے اور وہ مسلح تنظیموں کے مابین کسی فرق کو نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی عسکری قوتوں کو منشوری طور پر جانتے تھے،وہ یہی سمجھتے تھے کہ بی ایل ایف ، بی آر ائے،بی ایل ائے سب ایک ہی ہیں۔بلکہ زیادہ تر بلوچ عوام تمام مسلح تنظیموں کو بی ایل ائے کے نام سے جانتے ہیں۔
انہی نا اتفاقیوں کی وجہ سے آج ہمارے ہاں سرنڈر کی روایات عام ہورہی ہیں مایوس ہو کر بلوچ روایات کے خلاف اپنے ہتھیار انکے قدموں میں ڈال رہے ہیں جو انہی کے قتل کے پیاس میں جاگ رہے ہیں ،اور پھر سرکاری کارندے بن کر بلوچ عوام پر اپنا غصہ اُتار رہے ہیں گُرو گلزار نے سگریٹ بجھاتے ہوئے اپنی انٹری کو اس بحث کا ضروری حصہ سمجھا جو کافی دیر سے خاموشی سے سُن رہا تھا۔یہ آپس کی رسہ کشی اور ایکدوسرے کو قبول نہ کرنے کے اسباب کیا ہیں؟یکدم اُس نے سولات کی چیھنٹیں پھینک کر مجھے خاموشی سے جگانے کی طاقتور کوشش کی جسکے لئے میں بلکل تیار نہیں تھا۔دوسری طرف سے میر ذہرو نے بھی رُخ میری طرف پلٹا کے بولا ہاں ذربار تم بتاؤ کہ کیا وجہ ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کے بجائے مزید درمیان میں فصیلیں کھڑی کر رہے ہیں کہ جسکی وجہ سے بلوچ عوام کے دلوں میں عدم تحفظی کے احساسات جنم لے رہے ہیں،اور ہر دل میں مایوسی کی فضا مقیم ہورہی ہے؟؟تاش کھیلتے ہوئے دوستوں نے اپنی توجہ مجھ پر مرکوز رکھی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے ،اس لئے مجھے بھی ان سب کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے کچھ کہنا پڑا۔۔۔۔میں نے موبائل نیچے رکھتے ہوئے ماحول کو پھر سے سنجیدگی طرف لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،کہ پہلی بات یہ ہے کہ یہ ایک قومی جنگ ہے جو کسی ریاست سے لڑی جارہی ہے اور یہ جنگ بندوق سے کم دماغ سے زیادہ لڑی جاتی ہے ۔ معمولی سی غلطی، چھوٹی سی کوتاہی ،ہمیں بہت بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے،اور یہ جنگ ہمیں عالمی سطح پر انسانی جنگی قوانین کے مطابق لڑنی ہے۔اس سے پہلے ہمیں خود کو دنیا کے سامنے انسانی معیار کے سانچے میں ڈالنا ہوگا،اور آج کی انسانی تہذیبی حوالے سے انسان خود کو کس زاویئے میں تولتا ہے ،ہمیں اُسی ترازو کے سنگ میں خود کو پارسَنگ کرنا ہوگا،کیونکہ ہم اُس ریاست سے جنگ لڑ رہے ہیں جو ہماری زمین پر قابض ہے۔ اور ہم اپنی اس ریاست کو قابض ریاست سے آزادکرانے کی جدوجہد میں لڑ رہے ہیں جو پہلے سے ایک وجود رکھتی تھی، اس کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ہم عالمی دنیا کے لئے کوئی بوجھ کوئی ناہموار ماحول تخلیق نہ کریں جو اس وقت دشمن ریاست نے قائم کی ہے ،اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے قومی جنگ لڑنے کے لئے کسکو بااختیار کریں گے ،کل کے دن دشمن ریاست بھی اپنے چند بندوق برداروں کو آزادی کی جنگ لڑنے کے بہانے پہاڑوں پر بھیج دے تو کیسے انکی شناخت ہوگی،جب تک ہم اپنا کوئی مخصوس قالب نہیں بنائیں گے،جیسا کہ ابھی نیشنل پارٹی نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اپنے چند لوگوں کو پہاڑوں پہ بھیجا اور انہی کو سرنڈر کرواکے فرمانبردار ہونے کا سرٹیفیکٹ لیا، کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے لئے کہ آزادی کے متوالے تھک کے دشمن کے قدموں میں سانس کی بھیک مانگنے لگے ہیں۔ عدم توجہی اور ڈسپلن کی کمزوری ، ہماری مسلح تنظیموں کی کمان کی کمزوری ہے،کہ جسکی وجہ سے یہ حالات پیش آئے،قومی جنگ لڑنے والے جو ہماری دھرتی ماں اور ہماری ماؤں کی ننگ کے محافظ سمجھے جاتے تھے، خود دشمن کے سائے میں پناہ لینے لگے،اور جب یہی لوگ اگر اپنے اختیارات کو منفی استعمال کر کے لوٹ کھسوٹ میں سر گرم رہیں تو باقی کیا رہ جائیگا ہماری قوم کے لئے؟حیر بیار نے جو شرائط رکھی ہیں اس نے کسی کا بھی نام مینشن نہیں کیا ہے اس نے تمام مسلح تنظیموں کے مستقبل اور بلوچ عوام کے اُس احساس کو زندہ رکھنے کے لئے رکھی ہیں جو انکو اپنا محافظ سمجھتے ہیں،غلطیاں اور کمزوریاں سب سے سرزد ہوئی ہیں۔بی ایل ائے کے حمایتیوں نے سوشل میڈیا کو غلط استعمال کیا ہے۔بی ایل ایف اور بی آر اے نے گراؤنڈ میں بہت ساری غلطیاں کی ہیں کسی نے بھی کوئی غلطی نہ کرنے کی کسر نہیں چھوڑی ۔ ہر کسی کو قومی فوج میں بھرتی کرنا اور وہی اختیار دینا جو سنٹرل کمان کے پاس ہیں،جوکہ ناصرف ڈسپلن کی کمزوری بلکہ سب سے بڑی کوتاہیوں میں سے ایک تھی ،جسکی وجہ سے تنظیم کے نام پر چوری ۔اغواء، قتل اور دیگر سماجی برائیاں سرزدہوئیں، اور عوامی ہمدردی لوگوں کے دلوں سے اُترنے لگی۔بی ایل اے کے کچھ ہمدردوں نے سوشل میڈیا کو غلط استعمال کر کے عوام کو مایوسی کی طرف دکھیل دیا۔اب جو غلطیاں کوتاہیاں ہوئی ہیں انکو دوباہ نہ کرنے کے عمل کو دانشمندی کہتے ہیں،اور یہ شرائط خود کو ریفارم کرنے کی وہ کڑی ہے جو سب کو ایک ڈسپلن کی زنجیر میں جکڑے رکھے گی۔ پھر کیا آپس کی لڑائی ہماری تحریک کو منجمد کرنے کا باعث نہیں ہوگی؟اور اس طرح کے اختلافات سے عوام میں مایوسی پیدا نہیں ہوگی؟مرزا گبول نے یکدم ایک اور سوال میرے پیشانی پہ مارا۔اس میں مایوسی کی کیا بات ہے؟ میں نے پھر سے اپنی باتوں کا ربط جاری رکھا کہ ریٹائرڈ ماسٹر ایک اور سوال نہ پوچھے جو بے قراری سے اسی انتظار میں مجھے گھور رہا تھا کہ تھوڑا سا وقفہ ملنے پروہ جھٹ سے اپنی بات کا گولہ داغ دے۔ اسی لئے میں نے اسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ واجہ عام لوگ جو پڑھے لکھے نہیں ہیں وہ تو ضرور کسی حد تک حوصلہ شکنی میں مبتلا ہو سکتے ہیں مگر دنیا کی تحریکوں سے تم واقف ہو۔فلسطین میں آپکو یہ مثال ملیگی کہ وہاں آپس کی دو تنظیموں میں کتنے تضادات تھے، کتنی دوریاں تھیں مگر جب انکو سمجھ آگئی تو وہ اپنی کمزوریوں کو مانتے ہوئے متحد ہو گئے ۔ایری ٹیریا، جسکو آزاد ہوئے اتنا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ وہاں بھی دو مسلح تنظیمیں ۔ایک ایری ٹیرین پیپل لبریشن فرنٹ اور دوسری ایریٹیرین لبریشن فرنٹ،ایک ہی مقصد کے تحت اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے تھے ،مگر درمیان میں وہ آپس میں اس حد ٹکرائے کہ آپس کی جنگ میں انکے اپنے ہزاروں سپاہیوں کی جان چلی گئی، پھر وہ متحد ہوئے اور اپنی آزادی حاصل کی۔ہنگولہ کی بھی یہی مثال ہے کہ انکی تنظیموں کی سوچ اور نظرئیے میں بھی فرق تھا آپس کی ایک بہت بڑی جنگ کاشکار ہوئے ۔جب انھیں اپنی کمزوریاں نظر آئیں ،تو انھوں نے بھی خود کو پھر سے ریفارم کر کے متحد ہو کے لڑنے لگے۔ہمارے لوگوں میں تو اختلافات ہیں اور اختلافات رکھنے کا ہر اس سپاہی کا حق ہے جو قومی جنگ میں شامل ہے اور اختلاف رائے کا احترام کرنا باشعور علمی پختگی کا ثبوت ہے،اور یہ اختلافات اس وقت ختم ہو سکتے ہیں جب ہر کسی کو اپنے اندر کی کمزوریاں دل سے نظر آجائیں اور وہ انکو ماننے پر تیار بھی ہوجائیں۔اور آج کے حالات ہمیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہماری عسکری قوتوں نے بھی اپنی کمزوریوں کو محسوس کیا ہے، اس لئے یہ بات ہمارے لئے خوش آئند بات ہے کہ بِناء کسی کے خون بہا کے اپنی کمزوریوں کو realize کر کے متحد ہونے کی کوشش میں لگے ہیں۔اور یہ تو فطری بات ہے کہ دشمن ریاست اپنے آخری ہتکھنڈوں پہ اُتر آئیگی ۔یہ ریاست ہمیشہ سے جھوٹ اورdisiformatiom کو سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور وہ اپنے تمام ہتھیاروں کو استعمال کر کے اس اتحاد کو ناکام بنانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے ، کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ مسلح تنظیموں کے متحد ہونے کے بعد انکا مقابلہ کرنا نا صرف مشکل بلکہ ناممکنات میں شمارہوگا۔ اس لئے،اہم بات یہ ہے کہ مسلح تنظیموں کو نہ صرف اپنے بندوق برداروں کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا بلکہ انکی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان بلوچوں پر بھی کام کرنا ہے جو خود کو درمیانہ سمجھتے ہیں تاکہ دشمن قوت کی طرف سے وہ انہی کے طرف لوٹ نہ جائیں اور ان پر بھی کام کرنا ہے جو عوامی سطح پر انکے خلاف بولتے ہیں اور اپنے کردار سے ان بلوچوں کو بھی مطمئن رکھنا ہے کہ وہ انکے حق میں عوامی سطح پر انکی حمایت میں بولتے ہیں اور لکھتے ہیں اور اپنا ڈسپلن اس حد تک مضبوط رکھنا ہوگا کہ کوئی تیسرا شخص آزادی کے نام پر بلوچ عوام کی آنکھوں سے یہ خواب نہ چھین لیں، جسے ہر شخص نے اپنے بیٹوں کا لہو دیکر سجایا ہے۔میری باتیں سُن کر جیسے دیوان میں موجود ہر شخص کے چہرے سے اداسی اُتر گئی ، اتحاد کی بازگشت قومی آزادی کے پُر سوز سُروں کے ساتھ سب کے کانوں میں گونجنے لگی اور وہ خود کو آزادی کے سائے تلے محسوس کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔