دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeآرٹیکلزبی ایل اے اور اسکی فن حرب اور عمل درآمدکا علم :تحریر...

بی ایل اے اور اسکی فن حرب اور عمل درآمدکا علم :تحریر میران بلوچ

بی ایل اے بلوچ قومی تحریک کا ماس تنظیم ہے جس نے تیس سال بعد کی مسلح شعلوں کو پھر سے چنگاری دیکر قابض کی نشانیوں کو ایک کے بعد ایک بلوچستان میں جلاڈالنے کا شعوری اور پختگی کے ساتھ عمل شروع کیا ،دوستوں سے سنا ہے کہ بی ایل اے کا بنیاد اسکی سخت ڈسپیلن ہے جس سے وہ تامل تحریک کے بعد قومی تحریکوں کے حوالے خطے میں مثالی تنظیموں میں شمار ہوتا ہے ۔اس تنظیم کی ایک انمول چیز ہے کہ یہ وقت وحالات کے مطابق اور قابض کی نت نئی حربوں کے تحت خود کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے ،قابض کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بلوچ قومی تنظیم اپنی حکمت عملی بھی اسی کے مطابق تبدیل کرتے ہوئے قابض کو نئی روپ اور شکل میں نئی چلنج دیکر مسلح جدوجہد کو اسی کے مطابق چلاتا آرہا ہے ،جدوجہد کو کامیاب کروانے کا راز بھی لوگوں کو ترغیب دیکر محرک بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت عملی حالات کے مطابق بدلنا بھی ہے تب جاکر وہ جہد کامیاب ہوسکتے ہیں ورنہ ایک ہی رخ پر جہد کرنا اور نقصان پہ نقصان اٹھانا نادانی اور بے وقوفی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ وہ قومی جہد کے تقاضے پورے نہیں کرتا ہے ۔ حکمت عملی اور فن حرب اور عمل درآمد کا علم ایک سائنس سے بھی زیادہ ہم علم ہے یہ علم کو عمل میں اطلاق کرنے کا نام ہے اور سوچ بچار اور خیالات کو بڑھانے اور موجودہ رہنما سوچ بچار اور خیالات کو تبدیل شدہ حالات میں ترمیم اور اصلاح کرنے کا نام ہے یہ بہت ہی مشکل وقت میں عمل کرنے کا ارٹ ہے اور جو تنظیمیں حکمت عملی کے فن سے لیس ہیں وہ کھبی بھی شکست نہیں کھا سکتے ہیں اور وہ ہر مشکل حالات میں اپنی حکمت عملی سے دشمن سے مقابلہ کرسکتے ہیں بی ایل اے باقی تنظیموں میں اپنی ڈسپلین اور حکمت عملی کی وجہ سے منفرد اور بیمثال ہے جب پاکستان نے اپنا ریاستی پیسہ اور اختیار استعمال کرتے ہوئے قومی دلالوں سے کام لینا شروع کیا تو ریاستی مشنری کے لیے کئی لوگوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ منہ کالی کرتے ہوئے ریاست کا دلال بن کر کام کرنے لگے جنھوں نے کئی بلوچوں کا قتل عام کیا اور جنھوں نے ریاستی دلالی کرتے ہوئے کئی جہدکاروں کو شہید کرواکر بلوچ جہدکاروں کی سرخ خون سے اپنے ماتھے اور پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لعنتی اور دلالی کے نشانات چھوڑے ۔ان ریاستی دلالوں کے خلاف بی ایل اے نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور مجید کے بعد پہلی بار درویش کی شکل میں گلزمین کے فرزندوں کی حفاظت کی خاطر ریاستی بڑے دلال شفیق مینگل کے خلاف کاروئی کی گئی اور درویش نے اپنی زندگی تیاگ کر باقی جہدکاروں کی زندگیاں اس دلال سے محفوظ کی ،اس کے بعد نفاظ آمن کے غازی خان جسکا اصل نام مظفر جمالی تھا جنھوں نے غازی خان کے نام سے دلالی میں نوجوانوں کو شہیدکر واکر میڈیا میں انکی زمداری بھی لیتا تھا بی ایل اے نے اسکا بھی راستہ روکا پھر ثنازہری کے خاندان والے دلالی میں اپنی منہ کے ساتھ ساتھ پورا جسم بھی کالی کرچکے تھے جنھوں نے دلالی میں دودھ خان کے ریکارڈ بھی دوڑ دیے،جھنوں نے دلالی کی نمائشی شو اور دوڑ میں ہیرہ منڈی کے بازار حسن کو سجانے والے مہارت یافتہ دلالوں کو مات دی لیکن یہ دلال بھی بی ایل اے کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے کالی منہ اور جسم لیکر ہمشہ ہمیشہ کے لیے دلالوں کے لیے نشان عبرت بن گئے ۔کیونکہ بی ایل اے قابض کا ہر ہر بہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت پسپاکرتا رہا بی ایل اے حکمت عملی تبدیل کرتا رہتا ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ اور حکمت عملی لازم ملزام ہیں اور جنگ کا طلب اور مانگ حقیقت پسندی اور حقیقت شناسی ہے ،حالات شناس ہی نت نئی حکمت عملی سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں جبکہ اسکے برعکس تصوریت اورآدرشیت کسی بھی جہد کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے ،حقیقت شناس لوگ زمینی حالات کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیکر فن تدبیرات سے اپنی منزل کو حاصل کر سکتے ہیں بی ایل اے کو بلوچستان میں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ قابض کے ہر چلنچ کو اپنی نت نئی فن تدبیر سے قبول کرتے ہوئے قابض کے جنگی داوُں پیچ اور چالیں سمجھتے ہوئے پھر حکمت اور تدبر سے انکا توڑ نکال کر قابض کو پھر سے غیریقینی صورت حال کا شکار کرسکتا ہے جس طرح جنرل جیاف نے دنیا کے سب سے بڑے سپرپاور کو ویت نام میں کیا تھا بلکل اسی طرح کی کم وبیش صورت حال سے بی ایل اے نے پاکستانی فوج کو کیا ہوا ہے۔ ہاں بی ایل اے میں حکمت عملی کے حوالے سے نہیں بلکہ جنگی چالوں اور داوُپیچ کے حوالے زیادہ تر غلطیاں سرزد ہوئے ہیں ،کیونکہ جنگ کے پانچ اصول جنگی دانشوروں نے دیے ہیں 1چیزوں کو حالات کے مطابق دیکھنا آپنی خوہشات اور جزبات کے مطابق نہیں پھر انکا حل اپنی جزبات سے ہٹ کر جن حالات میں چیزیں چل رہی ہیں انکے مطابق انکا حل ڈھونڈ نکالنا 2موجودہ حالات اور تبدیلوں کی وجہ سے اپنے اندرونی احساس کو رنگ بھرنا 3لوگوں کے بارے میں انکے عمل کی وجہ سے رائے قائم کرنا 4اپنے قوم لوگوں اور اپنی ہی فوج اور ہتھیاروں پر انحصار کرنا 5اپنی جنگ کو روحانی جنگ بنانا اپنے قوم اور لوگوں میں امید پیدا کرنا کہ وہ اس جنگ کو جیت سکتے ہیں ،ان مسلمہ اصولوں پر چل کر بہت سی جنگیں جیتی گئی ہیں کیونکہ کسی بھی جنگ میں حکمت عملی ہی کمانڈ کا ہنر اور فن ہے جبکہ جنگی چالیں اور داوُ پیچ فوج کو وقتی مہرکہ سے لڑنے کا ہنرمندی ہے ہموماََزیادہ تر لوگ تدبیرکار ہوتے ہیں لیکن تزوبرکار نہیں ہوتے ہیں جس میں وہ وقتی مہرکہ کو زیادہ تر جیت سکتے ہیں مگر پوری جنگ نہیں جیت سکتے ہیں جس طرح کے تامل تھے ،بی ایل اے اور باقی تمام جہدکاروں کو تدبیرکار نہیں بلکہ تزوبرکار بن کر پوری جنگ جیتنی ہے کیونکہ اس جنگ کے ساتھ بلوچ قوم کی وجود ، شناخت ،تاریخ ،روایات ،یادیں اور قومی ،سمبل،بندھی ہوئی ہیں اور بلوچ قومی لیڈر حیربیار مری اور اب بی ایل اے نے موجودہ حالات،بلوچ قوم کو درپیش مشکلات،سرنڈر کی آڑ میں قوم کو جہد سے مایوس کرنے کا ریاستی چالبازیاں اورداوُپیچ ،چین اور پاکستان کی اشتراک سے گوادر کی تعمیر کی آڑ میں بلوچ قوم کی تبائی ،کچھ بلوچوں کی وطن دشمن سرگرمیوں میں دشمن سے تعاون اور ریاستی لوگوں کی جہدکی آڑ میں قومی جہد میں شامل ہوکر قوم اور لوگوں کو تحریک سے مایوسی کی طرف لے جانے والے منصوبوں کی توڑ اور ایک نئی حکمت عملی کا ترتیب بھی وقت و حالات کا تقاضہ کررہا تھا اور موجودہ حالات کو سمجھتے ہوئے حیربیار مری اور اب بی ایل اے نے اتحاد کا جو پیغام دیا ہے یہ ریاستی سازشوں اور چالوں کو ناکام کرسکتا ہے اور باقی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ پوری جنگ جیتنے کے لیے قوم کی حمایت اور ہمدردی کی ضرورت ہے اور قوم کو مایوسی سے نکالتے ہوئے متحدہ قومی طاقت وقوت کی ضرورت ہے جو حکمت عملی سے پوری جنگ جیت سکے اور دنیا کے حالات بھی بلوچ قوم کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اگر قوم نے گروئی اور ذاتی جھگڑوں میں مصروف ہوکر دروازے کو وقت پر نہیں کھولا پھر سب نے سنا ہے کہ گزرا ہوا وقت مردے کی طرح واپس نہیں آتا ہے اور اس بار کی غلطی پوری قوم کی تبائی وبربادی کا سبب بھی بن سکتا ہے اگر قومی جہدکاروں نے اصولی اتحاد کیا اور موجودہ دنیا کے حالات کو اپنے حق میں ہموار کیا تو بلوچ قوم یہ پوری جنگ جیت سکتا ہے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز