بلوچ جہد آزادی جو اپنی تاریخی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے افغان جلاوطنی کے بعد جمود کا شکار ہوئی اور ہر طرف پارلیمانی سیاست کے شادیانے بجنے لگے اور جہد آزادی کے راہ میں دربدر ہونے والے بلوچ بیس سال کے بعد پھر اپنے وطن کے پہاڑوں میدانوں میں سانس لینے لگے اور جلاوطنی دربدری کی زندگی کے بعد انھیں سکون نصیب ہوا لیکن جلد ہی انھیں پھر سے یہ احساس ستانے لگا کہ وہ وطن کی آزادی کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر افغانستان جلاوطن ہوئیں اور بلوچ وطن کے ساتھ آزادی کا سوگند کرتے ہوئے چلے تھے لیکن بیس سال کے بعد واپسی پر بلوچ وطن کو غلامی میں پانے پر وہ جوش جذبہ و احساس پھر سے پنپنے لگا جلاوطنی کے پر کھٹن حالات میں درجنوں لوگوں کی اموات مجاہدین کے ساتھ جھڑپوں میں شہادتوں کی یادیں انکی نیندیں حرام کرنے لگے اور وہ پھر سے آزادی کی امنگ لیے نواب خیربخش مری کے اسٹڈی سرکلز میں شامل ہوتے رہے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس سے پہلے افغانستان میں جب ہزار خان بجارانی کے ساتھ اختلافات شروع ہوئے تھے اور تقسیم کا عمل جاری تھا تو واجہ حیربیار مری کی سرکردگی میں اٹھارہ ساتھیوں نے افغانستان سے قومی اسلحہ جات کو بلوچ وطن تک پہنچانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیا۔ ریگستان کے تپتی ریت پر کئی دنوں کا فاصلہ طے کرنے میں انھیں کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ناموافق موسمی حالات رستوں پر مجاہدین کا قبضہ راستوں میں مائن کاری جیسے سخت حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ قومی وسائل کو بلوچستان کے کھونے کھونے تک پہنچانے میں کامیاب ہوئیں،ان اٹھارہ ساتھیوں میں کچھ تو شہید ہوئے کچھ گمنام سپاہی بن کر موت سے بغل گیر ہوئے کچھ ابھی تک وطن کی آزادی کے لیے میدان جنگ کا حصہ ہیں شہید نورا مری انھی اٹھارہ ساتھیوں میں شامل تھا جو ابتدائی مراحل سے تحریک سے جڑا ہوا تھا اس وقت اسکی عمر قریبا بیس بائیس سال تھی جب وہ افغانستان سے قومی اسلحہ جات کو بلوچستان پہنچاتے رہے قریبا ایک سال سے زاہد عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہزارخان بجارانی اپنے لشکر کے ساتھ وطن واپس لوٹے اور نورا مری اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ قومی وسائل کو وطن پہنچانے میں مصروف عمل رہے اور پھر رفتہ رفتہ نواب خیر بخش مری بھی اپنے کیمپ کے ساتھ واپس وطن لوٹے وطن واپسی پر نواب خیر بخش مری کو مختلف القابات سے نوازا گیا کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ نواب خیر بخش مری کیا سوچ کر وطن لوٹے ہیں وہ تو بعد کے حالات کے ثابت کر دیا کہ وہ آزادی کی امنگ لیے وطن میں پھر سے آزادی کی سوچ کر لوٹے ہیں اور حیر بیار مری اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ قومی کاموں میں جٹے رہے نورا مری اس وقت تک قابل بھروسہ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے افغانستان سے قریبا ایک سال سے زاہد عرصے تک وسائل کی ڈھلائی کرنے میں انھوں نے جو تجربہ حاصل کیا تھا وہ اسی تجربے کو لیکر بلوچستان کے دیگر علاقوں تک قومی اسلحہ جات کو پہنچاتا رہا اور مخلصی و ایمانداری کے ساتھ اپنا کام سر انجام دیتا رہا اتنے عرصے میں وہ نواب خیر بخش مری و حیر بیار مری کے قابل اعتماد ساتھیوں میں اپنا مقام بنا چکے تھے اور اپنی صلاحیتوں کے بدولت وہ ہر کام کو بخوبی انجام دیتے رہے۔جب بلوچستان میں جدوجہد آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کی بنیاد رکھی جاررہی تھی تو یہ ذمہ داری بھی اس وقت نورا مری کے کندھوں پر تھا اور اس وقت دوستوں کو سنبھالنے ،رابطہ کرنے، کام کے لیے نئے طریقہ کار وضع کرنے میں نورا مری پیش پیش رہے اور وہ بلوچستان میں مسلح مزاحمت کے حوالے سے بلوچستان کے کھونے کھونے تک گئے۔ تاکہ لوگوں سے رابطہ کر کے جہد آزادی کے لیے انھیں رضا مند کر سکے اور وہ اس دوران بلوچستان کے کئی علاقوں و کئی لوگوں سے ملے جو کچھ 1973میں جہد آزادی کا حصہ رہے تھے لیکن افغانستان میں تقسیم کے عمل کے بعد اب مایوس ہو کرخاموشی کی زندگی گزار رہے تھے اور کچھ دیگر نئے سیاسی لوگوں سے ملے جو اس وقت دیگر پارلیمانی پارٹیوں میں تھے لیکن پارلیمانی سیاست سے مطمئن نہ تھے اسطرح لوگوں سے ملنے اور ان کے سامنے اپنا پروگرام رکھتے رہے جس میں اسے کامیابی ملی اور یہ سلسلہ اسکی گرفتاری تک جاری رہا۔جسٹس نواز مری کے قتل کے بعدتنظیم کے زیادہ تر ساتھی گرفتار کئے گئے پھر تمام تنظیمی کاموں کی ذمہ داری نورا مری کے کاندھوں پر آ گئی وہ کام جس کے لیے انھیں مزید کچھ عرصہ درکار تھا تاکہ وہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنے کیمپوں کو ترتیب دیتے رابطوں کا سلسلہ بحال کرتے اور تنظیم کے دیگر چھوٹے اداروں کے ساتھ مکمل تنظیمی ڈھانچے کو انجام دیتے انھیں وہ وقت نہ ملانورا مری اس دوران قومی اسلحہ جات کو پھر سے نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ اسلحہ جات کو محفوظ مقامات کی طرف پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا اور تمام وسائل جو اس وقت دیگر دوستوں کی کمک سے مدفون کیے گئے تھے جو اب زندان کی کالی کھوٹری میں تھے اور شہید نورا مری ان اسلحہ جات کو محفوظ جگہوں پر چھپاتے رہے اور یہ سلسلہ اسکی گرفتاری کے وقت تک جاری رہا۔ نواب خیر بخش مری بھی جسٹس نواز مری کے قتل میں گرفتار کئے گئے اور حیر بیار مری کے وارنٹ بھی جاری کئے گئے اس دوران جہاں ایک طرف زیادہ تر ساتھی زندان میں تھے تو سارے کاموں کی ذمہ داری نورا مری کے کاندھوں پر تھا اور وہ اس دوران مکران تک گئے استاد واحد قمبر سے ملے وہاں پر کام کے حوالے سے بات چیت کی اور کوہستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے رہے لوگوں سے ملتے رہے اور انھیں جہد آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہتے رہے وہ لوگ جو ماضی کے تلخ تجربات سے گزر چکے تھے اور افغانستان جلاوطنی کے بعد خاموش زندگی گزار رہے تھے ان سے مل کر ان کے جذبات کو پھر سے زندہ رکھنا اور انھیں آزادی کے جہد کا ہمسفر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے اس دوران انھوں نے دیگر دوستوں کی مدد و کمک سے تنظیم کو پاؤں پہ کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے وہ اس دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں سے ملے قلات میں وہ شہید گل بہار و دیگر دوستوں کے ساتھ کام کرتے رہے اور کام کے حوالے سے مشکے گئے جہاں وہ اسلم جان گچکی سمیت دیگر لوگوں سے ملے تاکہ انھیں جہد آزادی کی تحریک کے لیے آمادہ کر سکے وہ مشکے میں سردار علی حیدر محمد حسنی سے بھی ملے تھے اور انھی بھی قومی جہد آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی، جنگ آزادی کے لیے کام کرنا اور دشمن سے خود کو محفوظ رکھنا ایک ہنر مندی ہے اور یہ کام انتہائی کھٹن اور مشکل ہے کیونکہ اعتماد و بے اعتمادی کا دور دورہ ہوتا ہے اور اعتماد و بے اعتمادی کی کیفیت ہر اس شخص کے ذہن میں چکر لگاتا ہے جو آزادی کے لیے کام کرتا ہے شہید نورا مری بھی انھی کیفیات سے دو چار رہے تھے کہ کس پر اعتماد کیا جائے کس پر نہیں کیونکہ اعتماد کیے بغیر آپ کسی کے بارے میں جان نہیں سکتے۔ وہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ اعتماد نہ کرنے سے کام نہیں ہوپائے گا اور ابتدائی ایام میں وہ انھی حالات کا تجربہ حاصل کرچکے تھے کیونکہ کسی شخص کے بارے میں عوامی رائے مختلف ہوتی ہے جبکہ ایک جہد کار کی رائے مختلف ہوتی ہیں کیونکہ جہد کار کی نظر عام لوگوں سے کئی گناہ باریک ہوتی ہے وہ جانتا تھا کہ بھروسہ کرکے ہی کام کو آگے لے جایا جاسکتا ہے اور بے اعتمادی میں آپ صرف اپنے آپ پر بھروسہ کرسکتے ہیں اور جہد آزادی صرف ایک فرد کا کام نہیں جسے وہ انجام تک پہنچا سکے آپ کو ہر حالت میں لوگوں پر اعتماد کرنا ہوتا ہے شہید نورامری کو ان تمام حالات و تجربات کا اچھی طرح سے علم تھا وہ انھی حالات میں بعض لوگوں پر بھروسہ کرکے انھیں تحریک میں لے آئے تھے اس دوران بھی وہ اسی کیفیت کا شکار رہے تھے وہ قریبا دو تین بار شہید گل بہار و دیگر دوستوں کے ساتھ مشکے گئے تھے اور علی حیدر محمد حسنی سے ملے تھے اور صابر محمد حسنی سے رابطہ کا سلسلہ بحال ہوا تھا صابر محمد حسنی وہی شخص ہے جسے بلوچ لبریشن آرمی نے مخبری کے جرم خضدار میں قتل کردیا تھا شہید نورا مری اپنے دوست کے ساتھ مشکے گئے تاکہ تنظیمی کام کو تیز کر سکے لیکن اس بار وہ دھوکہ کھا گئے اور مشکے سے واپسی پر ریاستی فورسزنے انھیں گرفتار کر لیا اور اس سازش کے پیچھے صابر محمد حسنی و علی حیدر محمد حسنی کا ہاتھ تھاکچھ دنوں تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ نورا مری اپنے ساتھی سمیت گرفتار کیے جاچکے ہیں دیگر دوستوں کی محنت و کوششوں کے بعد نورا مری کی گرفتاری کا سراغ لگ گیا اسکی گرفتاری کے بعد کام مکمل طور پر بند ہوگیا نورا مری کئی عرصے تک منظر عام سے غائب رہے فورسزز انکی گرفتاری سے انکاری رہے جبکہ انھیں فورسزز نے اغواء کیا تھا وہ پاکستان کی بدنام زمانہ ٹارچر سیل قلعی کیمپ میں تھے قلعی کیمپ میں کئی وقت وہ زندگی و موت کی کشمکش میں رہے ان پر جسٹس نواز مری کے قتل کا کیس تھا لیکن ریاست کو بھنک لگ چکی تھی کہ بلوچ جہد آزادی کے لیے مسلح مزاحمت شروع ہوچکی ہے اور کوئٹہ و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور نورا مری زندان میں ریاستی ظلم و جبر سہہ رہے تھے وہ قومی راز اپنے سینے میں مدفون کر چکے تھے وہ کئی عرصے تک دشمن کی اذیت ناک تکالیف کو وطن کی آزادی کے لیے برداشت کرتے رہے دشمن انھیں توڑنے میں ناکام رہا وہ دشمن کے تکالیف کو سہتے رہے انھیں شکست دیتے رہے دشمن یہ سمجھ چکا تھا کہ وہ نورا مری سے راز نہیں اگلوا سکتے انھوں نے شہید نورا مری کے ریڈ کی ہڈی میں چھید کرنے لگے تاکہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرسکے اور راز اگل دے لیکن وہ ناکام رہے شہید نورا مری کی صحت دن بدن بدتر ہوتی رہی تو دشمن نے انھیں ہدہ جیل منتقل کر دیا تاکہ وہ نورا مری کی شہادت کا الزام اپنے سر پر نہ لے جبکہ دشمن نے بڑے چالاکی سے یک دم موت کے بدلے انھیں آہستہ آہستہ موت دی تھی نورا مری کو ہدہ جیل کوئٹہ میں لانے کے بعد وہ کچھ عرصہ تک ہدہ جیل میں رہے اور پھر ضمانت پر انھیں رہا کردیا گیا ۔اسکی رہائی کا مقصد یہی تھا کہ وہ اب مفلوج ہو چکا تھا اور اب وہ ایک زندہ لاش بنکر زندگی جیتا رہاکیونکہ اسکی ریڈ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوچکی تھی اسکی شہادت اسی دن ہوئی تھی جب انھیں گرفتار کیاگیا تھا اور دشمن نے جب اس سے کچھ اگلوا نہ سکا تو انھیں مر مرکر زندہ رکھا، تاکہ رہائی کے بعد وہ آہستہ آہستہ موت سے ازیتناک حالت میں ہر روز ملے اور شہید نورا رہائی کے بعد کافی عرصے تک زندہ رہے لیکن نہ وہ بول سکتے تھے نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ ہی اپنے تکالیف کا اظہار کر سکتے تھے بلکہ وہ ایک زندہ لاش تھے دشمن نے انھیں ایک زندہ لاش بنا دیا۔ شہید نورا مری کے قریبی دوست کہتے تھے کہ وہ پرخلوص ایماندار بہادر ساتھی تھے وہ ایک ایسے ساتھی تھے جسے حالات کا ادراک تھا وہ انتہائی سمجھدار تھے وہ ساتھیوں کے ساتھ دوستانہ رویے سے پیش آتے تھے اور ان سے کام لیتے تھے وہ انتہائی ذمہ دار تھے اسکے ذمے جو بھی کام سونپا جاتا وہ ذمہ داری کے ساتھ اسے نبھاتے تھے اپنی انھی خوبیوں کی بدولت و دیگر ساتھیوں میں ہر دلعزیز تھے وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے جنہوں نے کھٹن سے کھٹن حالات کا مقابلہ کر کے تحریک کی بنیاد رکھنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ،اور جن اوقات میں وہ آزاد رہے انھوں نے ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیے وہ اپنی شہادت کے دن تک بستر پر رہے اسکی موت ایک المیہ ہے جب تک وہ زندہ رہے لیکن اسکی موت گرفتاری کے دن ہوچکی تھی لیکن اس زندہ لاش کو دیکھ کر اسکے کارناموں کی داستان رقم ہوتی رہی آج وہ شہادت کے عظیم رتبے تک پہنچ چکے ہیں اسکے قربانیوں کی گواہی سرزمین دے رہی ہیں کہ افغانستان سے لیکر بلوچستان کے کھونے کھونے تک اسکی محنت خلوص ایمانداری و بے لوث جذبے کی داستان رقم ہوتی رہی ایسے کردار قوموں میں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے اور ایسے ہی کردار تاریخ رقم کرتے ہیں بلکہ خود تاریخ بن جاتے ہیں تحریک کی شروعاتی دنوں سے لیکر اپنی گرفتاری تک ناموافق حالات میں شہید نورا مری نے اپنے قومی جذبے و اپنی صلاحیتوں کے بدولت دوستوں کو سنبھالتے رہے اور تحریک کو سہارا دیتے رہے جہد آزادی کے اس سفر میں کئی دوست شہادت کے عظیم رتبے تک پہنچ گئے نورا مری انھی ساتھیوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی نوجوانی سے لیکر جوانی تک تحریک سے جڑے رہے اور شہید نورا جیسے کردار جو کہ ان حالات میں تحریک کا حصہ بنے جب ہر طرف پارلیمانی جدوجہد زور و شور سے جاری تھی اور کسی کے وہم و گمان میں تک نہیں تھا کہ وطن کے کچھ دیوانے سر پرے آزادی کے لیے میدان عمل میں آئیں گے کیونکہ اس وقت پوری بلوچ قوم پارلیمانی سیاست کے نرغے میں تھا واجہ حیر بیار مری کی سرکردگی میں کچھ نوجوان وطن کی آزادی کا امنگ لیے جہد آزادی کے لیے میدان میں آتے ہیں اور نورا مری بھی وطن کے محبت میں دیوانوں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں اور اپنا قومی فرض پورا کرتے ہیں اسکے زیر تربیت بہت سے ساتھی آج بھی انکی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور نورا مری کی شہادت کو المیہ سمجھتے ہیں کہ ایسے عظیم دوستوں کو تحریک کے آخر تک رہنا تھا تاکہ وہ کھٹن و پیچیدہ حالات میں ہماری رہنمائی کر سکتے وہ ایک رہنما تھے لیکن قوم و دنیا کی نظروں سے اوجھل تھے وہ ایک رہنما ہوتے ہوئے بھی ایک گمنام سپاہی کی موت مرتے ہیں شہید نورامری کی شہادت پر سرزمین سوگی ہے اور اپنے ہی فرزندوں پر سرزمین میں سوگ کا عالم ہوتا ہے جو وطن کی حرمت و دفاع میں اپنی جان نچاور کرتے ہیں اپنے ایسے ہی فرزندوں پر تاریخ نازاں رہتی ہیں اور ایسے ہی فرزند قوم کی پہچان بن جاتے ہیں جو تاریخ کے ابواب میں روشن استارے کی طرح چمکتے ہیں۔