درمیانے قد، سانوالا رنگت اور لمبے بالوں کے ساتھ بندوق بغل میں لیے اپنے خیالوں میں گم سم وہ دنیا کے تمام دکھ تکلیفوں سے بے نیاز کھلی آنکھوں کے ساتھ وطن کی آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا صوفیانہ طبیعت رکھنے والا یہ نوجوان کی 2008 میں پہاڑوں سے شناسائی ہوئی، وہ اپنے دیگر دوستوں کو ٹریننگ کے لیے لائے تھے وہ خاموش طبیعت کے مالک تھے اور ہر وقت اپنی پاؤں کی تکلیف کا رونا روتے تھے. وہ ایک اچھے فٹبالر تھے لیکن وقت نے اس کا ساتھ نہ دیا اور گھٹنے میں تکلیف کے سبب وہ اپنے شوق کو برقرار نہ رکھ سکے اور اپنے شوق کو فٹبال کے میچز دیکھ کر ہی پورا کرتے تھے وہ 2006 کو بلوچ وطن کی آزادی کے لیے بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے منسلک ہو چکے تھے اور تنظیم میں وحید بلوچ سے محترم بنے. کچھ دن پہاڑوں میں پُرکٹھن و تاریک راتیں گزارنے کے بعد پھر شہر کے پررونق و روشن زندگی میں داخل ہوئے وہ سوچتے رہے اور ہر طرف دشمن کی نقل عمل و دشمن کی بربریت و غلامی کا احساس اسے ستائے رکھا، تاریک راتیں کتنے روشن تھے اور یہاں اتنی روشن راتیں بھی تاریک ہیں وہ خود سے سوال کرتے رہے اور اسکے جوابات وہ شہید رشید عرف شیدے کے ساتھ دشمن پر حملوں میں تلاش کرتے رہے وہ اپنی انھی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے تاکہ شہر میں یہ روشن مگر تاریک راتوں کو حقیقی روشنی کی طرف لیجانے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں اور شہر کے ہو کر رہ گئے. دشمن کی ظلم و بربریت دن بہ دن بڑھتی گئی اور شہر میں کاروائیاں جاری رہیں. وہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ دشمن کو کاری ضربیں لگانے میں کامیاب رہے. لیکن وہ زیادہ دیر تک شہر میں اپنے قومی ذمہ داریوں کو سنبھال نہ سکے. دشمن کے دلال و قوم کے غدار و مخبروں کی وجہ سے وہ شہر سے پہاڑوں میں اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے آگئے. کچھ دن پہاڑ میں وہ الگ تھلگ رہ کر کتابوں سے اپنی پیاس بجھاتے رہے اور پہاڑوں کی زندگی کو اپنانے میں اسے کچھ وقت لگا. ابتدا تو مشکل تھی. لیکن جوں ہی اسی زندگی کو مقدر سمجھ کر اپنانے کا فیصلہ کروگے تو زندگی آسان ہو جائے گی. وہ بھی کچھ وقت کے بعد کیمپ کے ماحول میں خود کو ڈھال لیے. وہ ایسے ڈھل گئے کہ پہچانے نہیں گئے. بندوق کاندھے پر لٹکائے وہ کیمپ میں روزمرہ کے ہر کام کو ایک گوریلا جہد کار بن کر کرتے رہے. لیکن اسکی آنکھیں کتاب کے لفظوں پر ٹکی رہتی تھیں اور وہ اپنی سوچوں میں گم سم دنیا کے برابری میں اپنے قوم کو کھڑا کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا. بندوق کاندھے پر وہ تیزی کے ساتھ ایسے چلتے تھے کہ گمان ہی نہیں ہوتا تھا کہ کبھی اسکے پاؤں میں تکلیف رہی ہے. جوں ہی وہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے یا اترتے تو ایک لاٹھی اسکے ہاتھ میں ہوتا اور اسکی رفتار سست ہوجاتی وہ اپنے پاؤں سے گلہ کرتا ہوا آگے بڑھتا تھا وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے اپنی اس تکلیف کو اپنی کمزوری نہیں بناتے تھے بلکہ اس نے اپنی اس تکلیف پر اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے فتح پایا اور لمبے سے لمبے پیدل سفر میں وہ بنا شکایت کیے آہستہ آہستہ پیچھے چلتا رہا منزل پر پہنچنے کے بعد وہ اپنے پاؤں پھیلاتا اور ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتا اور انھیں مالش کرتا رہتا وہ اس دوران ہر گشت کا حصہ رہا وہ جلد ہی ہر گشت کا خاص کردار بنا. اور کیمپ کے منیجمنٹ کے تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اسکے کندھوں پر ڈالا گیا اور وہ جلد ہی کیمپ میں ایک ذمہ دار ساتھی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتا رہا اور میدان جنگ میں بھی وہ اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے رہے اور کیمپ کے ساتھیوں کا محترم بنا. وہ محترم تھا وہ علمی بحث میں اپنے دلیل بہت ہی شائستگی سے دیتا تھا اور ہر کسی کے ہاتھ کی لکیروں کو غور سے دیکھ کر کہتا کہ آپ کی زندگی اور آنے والے حالات کیسے رہیں گے وہ آزادی کا سپاہی تھا اس نے اپنی زندگی وطن کے نام کر دی تھی اور دیگر شہدا کی طرح اپنی شہادت کا منتظر تھا وہ بہت ہی خوش قسمت لوگ ہوں گے جو آزادی کے اس پُر کٹھن راستے پر سفر کرتے ہوئے میدان جنگ سے زندہ سلامت واپس آتے ہیں اور جنگی اصولوں میں انھیں غازی کے لقب سے نوازا جاتا ہے. شہید محترم بھی کئی محاذوں سے غازی بن کر آئے وہ بلوچستان کے کئی محاذوں پر اپنا بے لوث و جانثارانہ کردار ادا کرتے رہے تھے وہ قلات و نوشکی کے پہاڑوں سے لیکر بولان و کوہلو تک انتھک محنت و اپنے پُرخلوص کردار کے ساتھ میدان جنگ میں بہادری کی مثال بنے تھے وہ پڑھے لکھے ساتھی تھے وہ ایم اے نہ کر سکے، بلوچ وطن و تنظیمی کاموں نے ان کیلئے مزید پڑھائی کی گنجائش نہ چھوڑی تھی اور اس نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر اور پہاڑوں کا رخ کیا. وہ شہروں میں شہید رشید کے ساتھ کئی چھوٹے بڑے محاذوں میں اپنے قومی فرائض سرانجام دے چکا تھا شہر سے پہاڑ اور پھر پہاڑ میں اپنے قومی ذمہ داریاں وہ بخوبی نبھاتا رہا. کسی بھی سپاہی کو دشمن کے پیدا کردہ حالات اس وقت تک کمزور نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے وطن کی محبت و آزادی کے جذبے سے سرشار ہو. وہ انتہائی خلوص و ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا. بولان کے وسیع چٹانوں پر بندوق بغل میں لیے وہ دوستوں پر اپنے علم کی روشنی پھیلا رہا تھا وہ جانتا تھا کہ جس رفتار سے دشمن کی طاقت روز بروز بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے اپنی طاقت بڑھانی ہوگی. وہ اکثر انھی خیالوں کے بیچ قومی طاقت کو بڑھانے و اپنے پالیسیوں میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہا تھا. اسکی باریک نظر ہر غلطی پر تھی وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن کی طاقت کو زیر کرنے کے لیے تنظیمی طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے. وہ وقت و حالات سے بخوبی واقف تھے. حالات حاضرہ پر اسکی گہری نظر تھی. وہ جانتے تھے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو بدلنا کتنا ناگزیر ہو چکا ہے. وہ بندوق کی طاقت کو ایک پختہ شعور کے تابع کرنا چاہتے تھے. وہ جانتے تھے کہ منزل دور ہی سہی لیکن پہنچنا ضروری ہے وہ اپنے پختہ فکر کے ساتھ منزل کی جانب دوستوں کے ساتھ چل رہے تھے. 2016 ہی میں وہ شہر کی جانب قدم اٹھا کر چل رہا تھا. وہ شادی کا فیصلہ کر چکا تھا تاکہ زندگی کی اس تلخی کو چکا جائے اور زندگی کو ایک ڈگر پر لے کر چلا جائے. وہ شہر آئے اور زندگی کو ایک اور خوبصورت فرض سے آشنا کر لیا اور آزادانہ وطن کے پہاڑوں گھومنے پھرنے والا وطن کا یہ عاشق گھر کے ذمہ داریوں سے آشنا ہو گیا اور شریقہ حیات کی مہر و محبت کی گہرائی میں اتر گیا گھوم پھر کر وہ پھر سے وطن کے فرائض کی طرف پلٹا. وہ دیگر سے یکسر مختلف تھا وہ ہنستا ہوا کہتا وطن کی محبت کی سامنے سارے محبتیں بے جان سے لگتے ہیں وہ اپنے چھٹیاں گزارنے کے بعد پختہ یقین کے ساتھ واپسی کی تیاریاں کرنے لگا. وہ شریکہ حیات سے رخصتی لے کر واپسی کا وعدہ کر کے پہاڑوں کی طرف چل پڑا اور وہ چلتا رہا آنسوؤں کا انبار گھر پر چھوڑ کر وہ پھر سے پہاڑوں کی زینت بنا اور اس دوران کئی محاذوں پر ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرتا رہا شادی کے بعد وہ مزید مصمم ارادوں کے ساتھ دوستوں سے روبرو ہوا جب اس سے شادی کا سوال ہوتا وہ ہنستے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتا دو فرائض کے بیچ وطن کا فرض نبھانا ہی حقیقی زندگی ہے وہ اپنے فرائض سنجیدگی و مخلصی کے ساتھ نبھا رہا تھا وہ کسی کام کے سلسلے میں مارگٹ کے پہاڑوں میں تھا اور اس محاذ کی تیاری کر رہا تھا. اس علاقے میں گزشتہ کئی دنوں سے دشمن کی نقل و عمل جاری تھی وہ اپنے ٹھکانے پر دشمن کی نقل و عمل کا جائزہ لیتا رہا اور دیگر دوستوں کو دشمن کی نقل و عمل کا پتہ دیتا رہا یہ سلسلہ دو تین دنوں تک چلتا رہا 3 مئی 2017 کو پہاڑی علاقے مارواڑ انڈس میں دشمن کے ساتھ شدید جھڑپوں میں وحید بلوچ شہید ہو گئے.کئی گھنٹوں کی لڑائی میں شہید بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے اور اس جھڑپ میں دشمن کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور شہید وحید بلوچ عرف متحرم اپنا فرض نبھا کر ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے اور اسکی قربانیاں رہتی دنیا تک امر ہوگئے. وطن کا یہ جانباز عاشق اپنی قوم کے لیے روشن ستارہ بن کر تاں ابد چمکتا رہے گا جس پر وطن کا ہر عاشق نازاں رہے گا.