گوریلا جنگ کی کامیابی اور ناکامی پر کتاب Guerrilla Warfare: A Historical and Critical Studyمیں Walter Laqueurلکھتے ہیں کہ بہت سے گوریلا جنگیں غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے ناکام ہوئیں اور ان میں گوریلا جنگ کو دہشت گردی کی طرح استعمال کرنے کے عمل نے بہت سی بڑی بڑی تحریکوں کا ستایا ناس کردیاجس میں میانمار کے خلاف جنگ لڑنے والی کرن تحریک ،تاجکستان کے خلاف لڑنے والی جنگ،سری لنکا کے خلاف تاملوں کی جنگ،میکسیکو کے خلاف زی پستا کی جنگ ،پیرو کے خلاف لڑنے والی سندرو لیمونوس کی جدوجہد لبنان میں حزب اللہ کی جنگ اور انڈیا کے خلاف لڑنے والی کشمیری تحریک شامل ہیں جنھوں نے جدوجہد میں گوریلا اور دہشت گردی کی حکمت عملی ایک ساتھ اپنائی جنہوں نے قومی تحریک کو دہشت گردی کی نظر کرتے ہوئے ان تحریکوں کا بیڑہ غرق کیااور کچھ تحریک دنیا کی کمک اور مدد نہ ملنے کی وجہ سے ناکام ہوئے کیونکہ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ دنیا کی مدد اور کمک کے بغیر کوئی بھی گوریلا جنگ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے لیکن دنیا کی مدد پراکسی کے بغیر صرف اور صرف قومی آزادی کے تحت استعمال ہونے کے لیے لیا جاتا ہے فلسطینوں کا عرب ملکوں سے فنڈز اور مدد لینا ،تامل کا انڈیا ،چیچن کا ترکی ،الجیریں کا ایران اور بنیاد پرست عربوں ،حزب اللہ کا ایران ،طالبان اور کشمیریوں کا پاکستان سے مدد اورکمک لینا شامل ہے اور تاریخی تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخالف قوت کی بیرونی تصادم سے بھی محکوم کی کامیابی کا راز چھپا ہوتا ہے ۔ چھان کائی شیک کی حکومت اگر جاپان کے قبضہ سے کمزور نہ ہوتا تو کیا ماؤ کی کامیابی ممکن ہوسکتا ،اگر جرمن دوسری جنگ عظیم میں یوگوسلاویہ میں زیادہ فوجیں رکھتے تو کیا ٹیٹو کامیاب ہوسکتا تھا ٹیٹو اور ماؤ دونوں کی کامیابی بیرونی اثرات سے ممکن ہوئے ۔ ۔ مونٹینگروتحریک 15صدی سے 18صدی تک جاری رہا لیکن کوئی بیرونی مدد کے نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا لیکن جب انھیں روس کی مدد ملی انھوں نے جدوجہد کا رُخ تبدیل کیا اور انھیں بلوچوں کی طرح ان کے کالے پہاڑوں جس میں چیرناگورا کی وجہ سے بھی جنگ کرنے کا بہتر سپورٹ ملا Francisco Espoz y Minaجو اسپین میں فرانس کے خلاف گوریلا جنگ کی کمان کرچکے ہیں بہتریں گوریلا کمانڈر رہ چکے ہیں کم لوگ جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ ہی اسپین سے فرانس کے خلاف جنگ سے شروع ہوا اور اس میں فرانسسکو نے بڑا کردار ادا کیا جب اسے اسپین کی جنگ آزادی کا کمانڈر بنایا گیا تو اس نے پہلا جو کام کیا اس نے اسپین میں لوگوں پر غضب اور قہر ڈالنے والے ایچوریہ پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا اس نے غریب اور عوام کی بہت زیادہ مدد کی اور لوگوں کا ہیرو بن گیا جب عوام نے مینا کو سپورٹ کیا اور اسکی مدد کی جس کے رد عمل میں فوج نے انھیں مارنا شروع کیا تو مینا نے بدلے میں فرانسیسی فوجیوں کو اغوا کرنا شروع کیا اور ان پر اپنی قوم پر ظلم اور جبر کے بدلے سخت حملہ کیا جہاں پر فرانس نے معاہدہ کیا کہ وہ عام عوام پر حملہ نہیں کرے گا ،مینا کی بہادرانہ اور جرت مندانہ حملوں نے فرانس کو جنگی طور پر مفلوج کیا اور انکے لوگوں کوتازہ دم حوصلہ دیا اور اسے اسکی زندگی میں اسکے ہنر مندارگنائزر کردار نے ایک لیجینڈ بنادیا ۔گوریلا جنگ کا ایک اصول ہے کہ یہ قومی مدد اور کمک سے لڑا جاتا ہے اس میں عوامی حمایت اور مدد بے حد ضروری ہے عوامی حمایت کے بغیر کوئی بھی گوریلا جنگ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے گوریلا سرمچار اگر جسم ہے تو عوامی کمک اور مدد اسکی روح ہے اور روح کے بغیر جسم بے کار چیز ہوتا ہے ۔کامیاب سرمچار اور گوریلا عوام سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور عوامی حمایت انھیں حاصل ہوتا ہے اس لیے وہ عوامی کمک سے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں جبکہ جدید دور میں عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ دنیا کی کمک اور مدد کے بغیر کسی بھی جدوجہد کی کامیابی مشکل ہے اس لیے جدید تمام تحریکں دنیا کی مدد وکمک سے آزادی کی منزل تک پہنچ چکے ہیں بلوچ قومی تحریک میں عوامی حمایت کا جنازہ نکالا جاچکا ہے طاقت دُشمن کے بجائے عوام کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے 20دن تک ہڑتال کیاجارہا ہے عوام کی بردداشت اور صبر کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے قابض کے ، قہر کا بدلہ عوام سے لیا جارہا ہے اور عوام کو ریلیف کے بجائے تنگ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ناکام تحریکوں کی طرح بلوچ قومی تحریک کو مسلح کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے ساتھ مکس کرتے ہوئے صحافیوں اور عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے اسے دنیا کی نظروں میں دہشت گرد گر وہ کے طور پر ظاہر کیا جارہاہے ،حالانکہ جنگی علم یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیا پالیسی ہونا ہے اور جنگی حکمت یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہوکہ کب کیا کرنا ہے ،یہاں نہ جنگی پالیسی ہے اور نہ ہی صحیح حکمت عملی بس جزبات اورتھکاوٹ سے جان چھڑانے کے لیے 20دن تک ہڑتالیں کر کے عوامی حمایت کا ستیاناس کیا جارہا ہے اور صحاٖفیوں کو مار کر ببانگ دھل دھمکیاں دیکر قابض کے بجائے بلوچ مسلح تحریک کو جنگی جرائم کے زمرے میں لانے کی بے وقوفانہ طریقہ سے کوشش کی جارہی ہے ۔جب دلیل سے ان کے غلطیوں پر لکھا جاتا ہے تو انکا غصہ مزید بڑھتا ہے اور گالی گلوچ پر ختم ہوتا ہے بقول ایک دانشور کہ کہ جاہلوں کا طریقہ یہ ہے ’’جب ان کی دلیل مقابل کے آگے نہیں چلتی تو یہ لڑنا شروع کردیتے ہیں اور وہ گالیوں پر اترآتے ہیں ایسے کرداروں اور پہچان سے بچنے کے لیے کسی دانا نہ کیا خوب نصیحت کی ہے کہ اپنے خیالوں کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمھارے الفاظ بن جاتے ہیں ،اپنے الفاظ کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمھارے اعمال بن جاتے ہیں ،اپنے اعمال کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمھارے کردار بن جاتے ہیں اور اپنے کردار کی حفاظت کرو کیونکہ یہ تمھاری پہچان بن جاتی ہیں جن لوگوں نے پانچ سالوں تک بھڑک بازی ،شگان بازی ،گالی گلوچ کو انسانی فطرت قرار دیکر انکے حق میں فیس بک میں دلیلیں دی ہیں اور سب کو ہٹلر بازی سے ختم کرنے کا ٹیکہ لیا ہو اور انکی پہچان انکے پانچ سالوں کے اعمال ،خیال ،کردار سے ہوا ہو ،وہ کس طرح اور کس منہ سے اپنی پہچان سے انکار کرسکتے ہیں کیونکہ بقول سی ایچ کولے انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی ہے بلکہ وقتی مفادات،خوف،اور ضروریات کے مطابق پالش ہوسکتی ہے لیکن مکمل تبدیل نہیں ہوسکتی ہے اب ایسے کردار ، اعمال،اور پہچان کے عامل شخص کیاتبدیلی لاسکتا ہے جو خود کو ذاتی چھوٹی چھوٹی مفادات اور شہرت اور نمود ونمائش کی خاطر کو کٹل فش کی طرح بدلتے ہوں جو اپنے خیال اور اعمال کی ملکیت سے انکاری ہوں وہ کس طرح ملک کی ملکیت کا دعوی برقرار رکھ سکیں گے ،ان کے مصنوعی کردار ،اعمال اور پہچان کو جو کوئی چھیڑے گا ضروراسکا مقابلہ دلیل سے ممکن نہیں تو گالی اور فیس بکی طوفان بدتمیزی سے کیا جائے گا ،لیکن بدبختو کیا قومی سوچ رکھنے والے اس طرح کے بھونڈے طریقہ کی حرکتوں سے خاموش ہونگے اور تمھیں تحریک کو ایک بند گلی اور دلدل میں دکھیلنے دیں گے کہ جہاں سے بلوچ قومی تحریک بھی باقی ماندہ تحریکوں کی طرح اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے ناکام ہوجائے ،۔ مضبوط اور منظم تحریکوں کے مقابل ہماری تحریک کھجور کے گھٹلی کے جھلی نما قطمیر جیسا نہیں ہے اور وہ تحریک ہماری تحریک کے مقابل انتہائی مضبوط اور منظم تھے انکی بے وقوفانہ اور بچگانہ حرکتوں کی وجہ سے وہ تحریکیں کامیابی حاصل نہ کرسکیں تو ہماری تحریک کس طرح اس طرح کی بلنڈرز کا متحمل ہوسکے گا بقول کلاسوچ گوریلا انسرجنسی اور جنگ، عام جنگ کی طرح نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ دوسرے معنی میں پالیسیوں کی تسلسل کا نام ہے ۔انسرجنسی تین طرح کے ہوتے ہیں 1-اچانک اور بھک سے اڑنے والا انقلاب ہوتا ہے جو حالات کے مطابق اچانک رونما ہوتا ہے یہ زیادہ تر کسی ملک کے اندر انقلابی عمل میں رونما ہوتا ہے 1789کا انقلاب فرانس،1911چین 1917روس1956ہنگری انقلاب تھے اور،یہ حادثاتی طور پر رونما ہونے والے انقلاب تھے جو ایک ملک کے اندر نظام اور سسٹم کے خلاف آئے ۔یہ انقلاب بس اچانک آتا ہے اس کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ،اسی طرح کے حالات آج ایران میں بھی ہے جہاں کسی بھی وقت انقلاب آسکتا ہے مگر مکمل یقین کے ساتھ کوئی بھی تجزیہ نگار صحیح پیشن گوئی نہیں کرسکتا ہے اس طرح کے انقلاب میں عوام میدان میں نکلتے ہیں اور پھر وہاں سے کوئی لیڈر نمودار ہوتا ہے سن یات سین برطانیہ میں تھا کہ چین میں Manchuمنچو سلطنت کا تختہ الٹایا گیا تھا ،لینن سوئیزرلینڈ میں تھا کہ روس کا انقلاب آیا ہوا تھا ۔ دوسرا خفیہ سازبازی انقلاب ہوتا ہے یہ انقلاب خفیہ اور سازباز کرکے کسی بھی ملک ،نظام،سسٹم اور پارٹی میں لیڈرشپ کے خلاف لایا جاتا ہے ،یہ انقلاب اپنی پوشیدہ اور مخفی نیچر اور فطرت کی وجہ سے عوامی شمولیت سے خالی ہوتا ہے یہاں پر عوام اور لوگوں کی شمولیت نہیں بلکہ چند سازشی لوگوں کی گھٹ جوڑ سے یہ انقلاب لایا جاتا ہے ۔یہ ساز بازی انقلاب ہمیشہ ایک جوا ہے ۔ہٹلر کے خلاف 1944کا سازبازی انقلاب،کنگ فیصل،اور قاسم کے خلاف سازبازی انقلاب برپاکئے گئے جبکہ تیسرا طول پکڑنے والی انسرجنسی ہے جو انقلاب اور سازبازی انقلاب سے ہٹ کر ہے اور یہ محکوم اقوام اپنی قومی آزادی کی خاطر شروع کرتے ہیں ۔طول پکڑنے والی انسرجنسی کو قدم بقدم ترتیب وار چلایا جاتا ہے تاکہ مقررہ اور مخصوص مقاصد کو حاصل کیا جاسکے جس طرح ویت نام ،الجزائر،ہندوستان،مشرقی تیمور،کوسوو ،امریکہ کی جنگ آزادی میں ہوا ہے ،آزادی کی جنگ ایک سیاسی جنگ ہوتا ہے کیونکہ اسے سیاسی مقاصد کی خاطر لڑا جاتا ہے ،سیاست جنگ کا اوزار اور انسٹرومنٹ ہوتا ہے اور جولیڈر اس فن سے واقف ہوتا ہے وہی جنگ کا رُخ موڑ کر اسے کامیابی تک لے جاسکتا ہے ۔ بی ایل اے میں موجود ایک سازبازی ٹولہ ہر وقت اانقلاب انقلاب کا رٹا لگا رہا تھا اب معلوم ہوا کہ وہ سازبازی انقلاب لانا چاہتے تھے جہاں سے وہ اصول پرست اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے مضبوط اعصاب کے مالک لیڈرشپ کی پالیسیوں کوتبدیل کروانا چاہتے تھے وہ بی ایل اے کوبی ایل ایف کی طرح ایران کی پراکسی بنانے کے ساتھ ساتھ کمزور کروانا چاہتے تھے اس لیے وہ چار سالوں تک قومی آزادی کی جہد میں انقلاب کا رٹا لگا رہے تھے انکا انقلاب دراصل سازبازی انقلاب تھا جو بی ایل ایف کے ساتھ ملکر رچاگیا لیکن انکو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ سازبازی انقلاب کے جوا سے آج تک کم لوگ کامیاب ہوسکے ہیں اور بی ایل اے کی لیڈرشپ نے لمبی صبر اور تعمل سے کام لیتے ہوئے تھکا دینے والی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اس سازوبازی انقلاب کے تمام مہروں کو ظاہر کروایا کیونکہ یہ جنگ چند دنوں کی نہیں بلکہ طول پکڑنے والی جنگ ہے اور یہ جنگ صرف اور صرف صحیح پالیسیوں اور بہتریں حکمت عملیوں ،اور عوامی حمایت سے جیتا جاتا ہے سازوبازی ٹولہ پاکستانی بیانیہ کے تحت پروپیگینڈہ کرتا رہا کہ جی ہم تو میدان جنگ میں ہیں اور حیربیار مری باہر ہے خود ان لوگوں کی افغانستان اور خلیج کی خاک میں موجودگی زیر بحث نہیں کیا پھر ان سازوبازی سیلفی ٹولہ کی منطق کے مطابق سن یات سین اور لینن کو باہر رہ کر انقلاب کی قیادت کرنے کے بجائے ان جیسے نااہل ،نالائق اور سازوبازی لوگوں کو انقلاب کی قیادت دینا چاہئے تھا کہ وہ تو میدان جنگ میں ہیں اگرایسا ہوتا تو کیا یہ سازوبازی سیلفی ٹولہ انقلاب برپا کرسکتے تھے،اب اس سازوبازی ٹولہ کا نیت بھی ظاہر ہوا کہ اسلم بلوچ نے خیر بخش سے حیربیار مری کا جھگڑا کروا کر اور پانچ سالوں میں فیس بک میں پوتاری بحث کا چرچار کرکے انقلاب انقلاب کا جو رٹا لگا رہا تھا دراصل وہ انقلاب سازوبازی انقلاب تھا کہ بی ایل اے میں کس طرح سے دھڑا بندی کی جائے آج جب اسے بشیر زیب کے ساتھ معطل کیا گیا ہے کس بے شرمی سے پارٹی کو توڑ کر بی ایل اے میں دھڑے بندی کروا رہے ہیں ان سے تو مہران اورقادر مری ہزار گناہ غیرت مند اور بلوچی لج کا لحاظ رکھنے والے لوگ تھے اگر وہ اسلم اور بشیر زیب کی طرح بھی کرتے وہ بی ایل اے پر دعوی کرسکتے تھے اور نواب خیربخش ان کے ساتھ تھا لوگ بھی یقین کرسکتے تھے کہ واقعی بی ایل اے پر انکا دعوی جائز ہے لیکن وہ سمجھ چکے تھے کہ بی ایل اے حیربیار نے بنائی ہے اسکی تنظیم ہے اگر اس سے اختلافات ہیں تو اسکی تنظیم چھوڑ کر الگ سے بوبی اے بنائی کیونکہ انکی آنکھوں میں بلوچی پانی تھایہاں تو بے شرمی کی بھی حدوں کو ان مڈل کلاس سازوبازی انقلابیوں نے پار کیا ہے کیونکر نہ کریں انکی تربیت بی ایس او سے ہوا ہے جہاں بس اپنے مفادات کی خاطر تقسیم کو عیب نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن تحقیق کا جو داغ انکے ماتھے پر لگا ہے اس داغ کے ساتھ کوئی انکی طرح کا تحقیق زدہ لوگ ہی انکے ساتھ جاسکیں گے لیکن کوئی بھی حقیقی جہدکار جو قومی سوچ سے منسلک ہو اس طرح کے سازوبازی لوگوں کے ساتھ اپنا کردار داغ دار نہیں کرے گا اسلم اور بشیر کی طرح مورک بھی بڑا کمانڈر رہ چکا ہے جسکو ڈسپلن کی خلاف ورزی پرپارٹی سے نکالا گیا تو اس نے اسلم اور بشیر کی طرح پھر بیان دیا کہ میں نے پارٹی صدر کو نکالا ہے اس لطیفے پر ساری دنیا ہنس پڑی اس نے بعد میں بدنامی سے بچنے کے لیے جنگ میں خود کو دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے مروایا لیکن آج تک وہ داغ اسکے ماتھے پر لگا ہوا ہے اس کی قربانی بھی اس تقسیم کی غلیظ عمل کو مٹا نہ سکا ،تیوڈن بہت بڑا کمانڈر تھا اسکے ساتھ بڑا گروہ بھی تھا اسے بھی پارٹی لیڈرشپ نے معطل کیا تو اس نے بھی دوسرے دن یہی لطیفہ دھرا یا کہ میں نے پارٹی لیڈرشپ کومعطل کیا ہوا ہے لوگ ان پر ہنس پڑے اور وہ زندگی بھر مزاق بن گیا اس نے بھی خود کشی کی لیکن اسکا وہ داغ قومی آزادی کی جدوجہد سے مٹایا نہیں جاسکا اب اسلم اور بشیر زیب سے محمد بخش جگو سلیم اور بی این ایل ایف کی پوزیشن بہتر تھا کہ وہ تحقیق زدہ نہیں تھے ان پر تحقیق نہیں ہورہا تھا لیکن جب پارٹی توڑا تو شروع میں ان کے ساتھ اچھی تعداد تھی اور مکران میں سب سے زیادہ کاروائیاں ان لوگوں نے کی بی این ایم کی بھی خاصی تعداد انکے ساتھ تھی لیکن تقسیم کے لیے صحیح جواز نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے تو اسلم اور بشیر کونسا جواز ایک قومی پارٹی کے توڑنے کے لیے دیں گے ۔دوسری طرف بی ایل ایف اور سازوبازی ٹولہ خود سوشل میڈیا میں بیٹھ کر گالیاں دے رہے ہیں اور پھر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے سوشل میڈیا سے دور رہنے کی تلقین کی جارہی ہے ایسے منافق کیا قومی تحریک کو منزل تک لے جاسکتے ہیں ،یہ لوگ پاکستانی سیاست سے بہت زیادہ اثر لے چکے ہیں اور ہر چیز میں منافقی انکا نیچر بن چکا ہے ۔جدید ترقی یافتہ دنیا میں ایسے جلدباز ،بھڑک باز،تلون مزاج ،لوگوں کو پارٹی لیڈر تو دور کسی بھی بس یا ٹرین کا ڈرائیوربھی میڈیکل جانچ کے بغیر نہیں لگایا جاسکتا ہے ،اگر بلوچ قوم نے بھی ترقی پزیر قوموں کی نقش قدم پر چلتے ہوئے سازوبازی بھڑک بازوں کو پارٹیوں کا لیڈرچنا تو جدوجہد کا برا حال ہوگا جہاں چیرمین غلام محمد کے دور میں تحریک کا بیرونی اور اندرونی دونوں سطح پر گراف 30فیصد تھا وہ گراف گرتے ہوئے اب مشکل سے 5فیصد تک پہنچا ہے ،اب اس مشکل حالات سے اس قوم کو سن یات سین ،جارج واشنگٹن،لینن ،جیولیس نیریرے کی طرح کا لیڈر ہی نکال سکتا ہے اور قومی لیڈر سازوباز ی انقلاب سے نہیں بلکہ مورال اتھارٹی ،اصول پرستی،پالیسیوں کےتسلسل ،دوراندیشی ،اور مصمم ارادہ سے قوم کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچا سکتا ہے ،بی ایل اے کے ہائی کمان کی پالیسی ساز بیان سے بہت کچھ ظاہر ہوا کہ جدوجہد میں بی ایل اے بین الاقوامی قوانین اور جنگ کو سیاست کی سیاسی باریک بینی سے چلانا چاہتا ہے اور بی ایل اے نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے قومی تحریک کو صحافیوں اور بے گناہ لوگوں کے خلاف الڑ بازی سے، جو 4 مہینے سے جاری ہے دور رکھا، جس کے تحت جیہند خان اور گہرام خان نے قومی جنگ کو دہشت گردی کے ساتھ مکس کیا ہوا تھا اور دنیا میں جہاں پاکستان کو جنگی جرائم میں عالمی عدالت میں ہونا تھا وہاں یہ بحث شروع ہوا کہ بلوچ مسلح جہدکاروں کے خلاف وہاں سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئی اور بلوچ تحریک کی بدنامی ہوئی لیکن بی ایل اے کے ہائی کمان کی بروقت فیصلہ نے وہاں بلوچ قومی تحریک میں موجود خطرے کو کم کیا اور دنیا میں بلوچ کا صحیح امیج بھی پیش کیا ۔اب قوم بھی دیکھے گی کی بی ایل اے اپنی پالسیوں سے گراونڈ اور باہر کس طرح کی حکمت عملی اپنائے گی اور جنگ کو قومی جنگ بناکر کامیابی کی طرف لے جائے گی ۔بی ایل اے کی لیڈرشپ نے پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھا ہوا ہے ،وہ قومی مفادات پر ایران ہو یا دوسرا ریجنل طاقت سمجوتہ نہیں کرچکا ہے ،وہ اصول پرست اور ڈسپلن کو برقرار رکھنے والا لیڈر ہے ایسے ہی لیڈر جدوجہد کو منزل تک پہنچاسکتے ہیں