ایران میں گزشتہ ایک ہفتے 28 دسمبر سے شروع ہونے والے عوامی مظاہرے  ملا شیعہ رجیم رجعت پسندانہ حکومت کے خلاف ان کی اپنی عوام کا ملک میں شدید احتجاج “انارکی”کی ایک واضع مثال ہے۔اور موجودہ احتجاج 2009 کے مظاہروں کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔جس میں ایران بھر سے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آ کر رضا شاہ پہلوی کی روشن خیال حکومت کے بعد رجعت پسند شیعہ  ملا رجیم خمینی کی نام نہاد انقلاب کے بعد آج تک کی ان کی داخلہ و خارجہ  پالیسیز پر موجودہ احتجاج عوامی عدم اعتماد کا واضع ثبوت ہیں۔ ایرانی شیعہ ملا رجعت پسند زہنیت جو کہ اپنے عوام کو انسانی آزادی سے جبری طور پر دور رکھ کر جہاں نہ صرف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔بلکہ وہاں اپنی عوامی ٹیکس اور ملکی دولت کو اپنے توسیع پسند اور دہشت گردانہ عزائم کےلیئے خصوصا مشرق وسطی اور عموما دنیا کے دوسرے حصوں میں پروکسیز بنا کر دہشت گردی کو بالواسطہ کمک دے رہی ہے۔موجودہ عوامی احتجاج جو شروع میں مہنگاہی،بدعنوانی،بےروزگاری،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،قوت خرید میں کمی ایرانی معیشت کی زبوحالی سے شروع ہواتھا۔ سنہ 2013 میں حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد صدر حسن روحانی نے محمود احمدی نژاد کی فضول خرچی کی پالیسی ترک کر دی تھی جس کے تحت متوسط اور کم آمدن والے ایرانی خاندانوں کو حکومت کی جانب سے نقد رقوم فراہم کی جاتی تھیں۔ پچھلے ہی ماہ انھوں نے اگلے سال مارچ سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں حکومتی اخراجات کو کم ہی رکھا گیا ہے۔ اگرچہ 104 ارب ڈالر کا یہ بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ ہے لیکن اگر افراط زر کو دیکھا جائے تو بجٹ میں اخراجات زیادہ کی بجائے کم کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے باجود اس قسم کی کفایت شعاری سے ایرانی عوام بہت بیزار ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی غیر ملکی کپمنیاں بھی ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہچکچا رہی ہیں، جس کی ایک وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے خلاف سخت موقف ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایران کی معاشی قوت حال پر ایرانی عوام کی بے اطمینانی کی چند جوہات ہیں۔ بے روزگاری، قوت خرید میں کمی، بدعنوانی، کمزور ایرانی ریال اور ایران کے مختلف حصوں کے درمیان دولت کی غیر مساوی تقسیم۔ ایک سال پہلے ایرانی کرنسی ریال 1امریکی ڈالر کے مقابلے میں 36،000 اور اب 42،900 تک جاپہنچی ہے۔حالانکہ 2016 میں ایران پر بہت سے عالمی اقتصادی پابندی اٹھائی گئی تھی لیکن پھر بھی ملکی معیشت اور عوام کی زندگی میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی۔قدامت پسند ایرانی مقتدر حلقے اپنے عوام اور بیرونی دنیا سے غلط بیانی کرکے مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ان مظاہروں کے پیچھے بیرونی ہاتھ شامل ہے۔جس کی  بعض عالمی سیاسی رہنماوں نے پرزور تردید کی ۔ اور ایک ہفتہ مسلسل جاری ہونے کے بعد بالآخر عوام نے اپنے مظاہروں میں رضاشاہ پہلوی کو اچھے الفاظ میں یاد کرکے کہا کہ ہم سے ماضی میں غلطی ہوئی تیرا ساتھ  چھوڑ کر قدامت پسندوں کا ساتھ دے کر۔ ماضی قریب 2 اپریل 2015 میں امریکی صدر بارک اوبامہ ایڈمنسٹریشن کے دور میں ایرانی حکومت کے وزیر خارجہ جواد ظریفی کی سربراہی میں ناکام نیوکلیئر معائدہ کرکے اسے ایٹمی ہتیھار بنانے کیلئے مزید رعایت اور حوصلہ افزائی کے مترادف ثابت ہوا۔یاد رہے اس غیر دانشمندانہ معائدے کی مشرق وسطی سے ریاستی سطح پر اسرائیلی حکومت اور غیر ریاستی عالمی سطح پر بلوچ لیڈرشپ میں حیربیار مری نے سب سے پہلے کھل کر مخالفت کیا تھا۔جس کو آج وقت  نے سچ ثابت کردیا جسے امریکن ریپبلکن پارٹی کے امریکی صدرجناب ڈونلڈ ٹرمپ نے سابقہ اوبامہ انتظامیہ کی غلط فیصلوں کو محسوس کرکے اس وقت کی اسرائیلی اور بلوچ قومی راہشون کی دور اندیشانہ سیاسی ادراک کی تصدیق کرکےجسے بالآخر ریپبلکن پارٹی کے امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معائدہ کو ختم کرکے عقل مندی اور دانشمندی کا ثبوت دیا۔مزید یہ کہ ایران کے زیر قبضہ مغربی بلوچستان میں چاہبار و زاہدان اور بہت سے دوسرے شہروں میں آزادی کی حمایت میں وال چاکنگ، سخت حکومتی جبری پالیسیز کے باوجودسوشل میڈیا پر ایسے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئی جس میں عوام بڑے عمارتوں پر ہلا بول رہے ہیں۔اور ساتھ ہی وہاں کے حکومتی قابض فورسز کی ان عوامی احتجاج کو بزور قوت دبانے کیلئے فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہیں۔جس میں ابتک 22 کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں۔ ایک اور عوام اہم بات یہ کہ ریاست کے اندر یہ عوامی تبدیلی اب تک غیر منظم انداز اور بغیر کسی رہنماء کے جاری ہے۔اسی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ یہ مظاہرے عارضی طور تھم جائے لیکن مستقبل قریب میں کسی منظم طریقے سے دوبارہ سر اٹھانےکی پوری گنجائش کا امکان موجود ہے۔سیاسی ،سماجی ماہرین اس عوامی احتجاج کا معنی اس طرح سے لے رہے ہیں کہ ایرانی عوام عالمی سیاست کو دیکھ کر اپنے ناکام حکومتی اور ریاستی داخلہ و خارجہ پالیسیز سے سخت نالا اور عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ایسے وقت میں بلوچ آزادی پسند تنظیمیں،سیاسی کارکن اور لیڈرشپ تنظیمی عصبیت سے بالاتر ہو کر مغربی بلوچستان کے بارے میں بلوچ کے قومی مفاد کی خاطر سنگت حیربیار مری کی اخلاقی،سیاسی کمک کرکے قوم دوستی کی تقاضہ کو پورا کرکے آزاد بلوچستان ریاست کو عملی شکل دیا جاسکے