جب پاکستانی فوج نے بلا امتیاز بنگالیوں کی استصواب رائے جس میں وہ انتخابات میں بھاری اکثریت گئے تھے، شیخ مجیب کو وزارت اعظم کی قلمدان سونپنے کی بجائے پنجاب نے پاکستان کی بجائے وزارت اعظمیٰ کو ترجیح دے کربنگالی قوم کو دیوار سے لگانے کو اچھا سودا سمجھا تھا۔ پنجاب کے جنرل، وزیر و مشیر اور میڈیا جو سب سے پہلے پاکستان کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے نے بنگالیوں کی نسل کشی، عورتوں کی ریب اور الشمس و البدر جیسے دہشت گردوں کی مذمت، ان کو روکنے کی بجائے ان کی بھر پور انداز میں پشت پناہی کی۔ نتیجہ بنگلہ دیش کی آزادی کی صورت میں نکلا۔ اس سارے عرصے میں بنگالیوں نے ڈھاکہ کے پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی مسخ لاشوں کی تصاویر اٹھاکر کوئی مظاہرہ کیا نہ بنگالیوں نے پاکستان جیسی دہشت گرد فوج سے انصاف مانگ کر وقت کا ضیاع کیا۔ بنگالیوں نے اپنی دفاع کے لئے قومی طاقت کو مجتمع کیا، قومی محاذ پر ڈٹ کر اس پاکستانی دہشت گردی کی لعنت سے جان چھڑانے کے لئے تیہہ کیا، انہوں نے ثابت کردیا کہ قاتل سے انصاف نہیں ان سے جان چھڑایا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی قومی طاقت، یکجہتی کو دیکھ کر ہندوستان بھی میدان میں اترا کیونکہ ہندوستان کو بھی اس بات کا اچھی طرح سے ادراک تھا کہ پاکستان جیسے ناسور بنگلہ دیش میں اپنی اسلامی شدت پسندوں کے ذریعے ہندوستان کو بھی نام نہاد جہادیوں اور دہشت گردوں کو اسلام کا غلاف چھڑاکر خطے کی امن کو تہہ بالا کردیگی اور ہندوستان ان آگ کی لپیٹوں میں آنے والا پہلا ملک ہوگا۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کی آزادی حاصل کرنے میں مدد دے کر پاکستان کو اپنی سرحد سے دور دھکیلنے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن بدقسمتی سے اب تک ہندوستان بلوچ و پشتون قوم کی نسل کشی کو روکنے کے لئے مداخلت سے کترارہی ہے جس کا خمیازہ وہ افغانستان میں اپنے سفارتکاروں، تاجروں وصنعت کاروں اور تعلیم و ذراعت کے شعبوں سے منسلک ماہرین کی پاکستانی وہ آئی ایس ائی کی پراکسی مذہبی و طالبان دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں اور معاشی نقصانات کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ بلوچستان کے لوگوں نے ہروقت پاکستانی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی لیکن عالمی برادری کی سرد مہری اور حقیقی پڑوسی افغانستان و ہندوستان کی جانب سے درکار خاطر خواہ مدد نہ ہونے کی صورت میں وہ پاکستان کے لئے ہمیشہ تر نوالہ ثابت ہوئے جو ہر دس سال بعد بلوچ تحریک کو دباتی رہی ہے۔ بلوچستان کی ستر سالہ تحاریک کے مختلف دورانیہ اب تک بعض اندازوں کے مطابق ہزاروں بلوچ شہید کئے گئے، ہزاروں کی تعداد میں پاکستان کے قلی کیمپوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں اور ہزاروں بلوچ فرزند مرد و زن اس وقت پاکستانی ظلم و بربریت سے تننگ آکر دنیا کے کئی ممالک میں مہاجرت کی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی آزادی پسند قیادت خاص کر حیربیار مری نے موجودہ تحریک کوکسی ایک علاقے میں محدود کرنے کی بجائے اسے پورے بلوچستان میں پھیلا دیا ، پاکستان کے تجزیہ نگار اپنے تحاریر اور بحث و مباحثوں میں اور مصنفین اپنے کتابوں میں اس بات کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ موجودہ تحریک کافی مضبوط اور ان کی جڑیں بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچوں کے دلوں میں پیوست ہیں، اس گوریلا جنگ جو پہاڑوں اور شہروں میں پھیل چکی ہے کو دبانا ناممکن ہے۔ پاکستانی فوج کی بلوچستان میں گذشتہ پندرہ سالوں کی زمینی و فضائی حملے تواتر کے ساتھ جاری ہیں، بڑے پیمانے پر غیر اعلانیہ جنگ کا سماں ہے، قابض پنجابی فوج اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان وقتا فوقتاً جھڑپوں اور لڑائی کی خبریں آرہی ہیں۔ بلوچ آزادی پسند سرمچاروں سے مقابلہ کی سکت نہ رکھنے والا پنجابی فوج اب بلوچ عام عوام کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کرچکا ہے۔ سابق پاکستانی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ثناہ اللہ زہری نام نہاد سرنڈر ڈرامے کے دوران پاکستان کی جھوٹی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں قانون کا بول بولا ہے، اگر بلوچ سرمچار کسی اور ملک سے لڑرہے ہوتے تو ان کے فیملیز رشتے داروں کو بھی اٹھاکر غائب یا مار دیا جاتا ۔ ثنااللہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں قانون صرف فوج اور پنجابی کے لئے ہے، بلوچ، پشتون اور سندھی اقوام کے لئے گولی، بھوک افلاس، بے تعلیمی اور جیل و زندان ہیں، اور بلوچستان میں کثیر تعداد میں بچوں و خواتین کی فورسز کے ہاتھوں اغوا اور رشتے داروں کی شہادت، اجتماعی قبروں کا دریافت، بڑے پیمانے پر ماورائے قانون قتل عام، سکولوں ، تعلیمی اداروں میں بچیوں اور بچوں پر زمین تنگ کرنا، پوری آبادیوں پر فضائی بمبماری ، املاک کو جلانا اور مویویشوں کی لوٹ مار جیسے گھناونی اعمال پاکستان کو عالمی دہشت گردی کی کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان کی اس ظلم و بربریت تیزی سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، بلوچستان کے بعد اب سندھ اور پشتونستان میں بھی سرے عام لوگوں کا غائب کیا جانا اور ان کا جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا رجحان اپنی عروج پر ہے۔ پاکستان کی پریشانی روز بہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے، اب نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے بلوچ و پشتون نوجوان اکھٹے ہونا شروع ہوگئے ہیں، بلوچ پشتون اور سندھی اقوام کی مخلص لیڈر شپ کی کاوشوں  سے بلوچ، پشتون اور سندھی آزادی پسندوں کی نظریاتی لشکرتیار ہوگئی ہے جو کسی پارلیمنٹیرین کی چرب زبانی اور ووٹ کے پجاریوں کے بہکاوے میں آنے والے نہیں ہیں یہ نظریاتی محب وطن نوجوانوں کا فوج اپنی عوام کو درست سمت میں لے جاتے نظر آرہے ہیں۔ماضی کی بہ نسبت آج ان نوجوانوں کے مابین روابطہ کافی مضبوط اور منظم دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے  آئی ایس  آئی  اپنے ایک بریفنگ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اب مسئلہ زمین سے نکل کر سوشل میڈیا میں منتقل ہوگئی ہے، پاکستانی فوج کا یہ اعتراف پاکستانی کی کفن پر آخری کیل اور نوشتہ دیوار پڑھنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان کے عوام کی نظریں بلوچ مزاحمت کاروں کی طرف ہے اور بلوچ مزاحمت کاروں کی نظریں عالمی سطح پر بلوچستان کی قانونی جنگ لڑنے والی بلوچ قیادت کی طرف ہے کیونکہ دنیا سکڑ کر ایک گلوبل ولیج یعنی عالمی کنبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے، بلوچستان کے کسی بھی کونے میں پاکستانی قبضہ گیر کی ظلم کا احوال ایک ہی کلک پر پوری دنیا میں پہنچادی جاتی ہے۔ جس طرح بلوچ اپنی تحریک آزادی کے لئے دنیا میں نئے نئے دوست اور حمایتی تلاش کررہے ہیں اسی طرح پاکستان بھی بلوچ قومی تحریک کو شکست دینے کے لئے خطے میں نئے دوست اور ہمدرد تلاش کررہی ہے، پاکستان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ عالمی تجارت کا شہرگ گوادر اور فوجی لحاظ سے اہم ترین خطہ بلوچستان اگر ان کے ہاتھ سے چلا گیا تو پنجاب نان شبہنہ کا محتاج ہوکر رہ جائے گی۔ پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے اور شکست دینے کے لئے ایران ، چین اور روس و ترکی سے قریبی روابطہ استوار کرچکی ہے کیونکہ ایران بھی بلوچ سرزمین پر قابض ہے، اور ایران نہیں چاہے گی کہ بلوچ ایک طاقتور تحریک کے زیر اثر جمع ہوجائیں جس سے ایران کے بلوچ اس تحریک میں عملی طور پر جڑ کر آزاد بلوچستان کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان اور ایران کی انٹیلی جنس اداروں اور فوج کے خفیہ ملاقاتوں کا سرے فہرست ایجنڈا بلوچ تحریک کو کاونٹر و ناکام کرنا ہوگا ہے، پاکستان و ایران نے ایک طویل منصوبے کے تحت بظاہر اس بات پر رضامندی اختیار کی ہوئی ہے کہ ایران بلوچ مزاحمت کاروں کے ایک شاخ کے لئے نرم گوشہ اختیار کریگا کیونکہ پاکستان کو بلوچ مزاحمت کاروں کے صفحوں میں گھسنے کے لئے کوئی راستہ چاہیے، ایران و پاکستان طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں کے لئے نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے ان کو یہ باور دلائیں گے کہ وہ ایران سے کچھ بھی نہیں چھپائیں۔ اس کی شطرنج کا شکار ہوکر بلوچ مزاحمت کار  یایران کو اپنی شناخت، اپنے ٹھکانے، اپن جنگی حکمت عملی ، اپنی تعداد اور اپنے کام کرنے اور اپنے عالمی دوست ممالک کے بارے میں کسی بھی طرح کا معلومات سیغہ راز میں نہیں رکھیں گے۔ ایران ایک تیر سے دو شکار کھیل رہاہے، ایک تو ان مزاحمت کاروں کو پراکسی بناکر ان کی نکل و حرکت (مواصلاتی، زمینی،جنگی) پر مکمل دسترس رکھتا ہے، ضرورت پڑنے پر انہیں مار سکتی ہے (حال ہی میں بی ایل ایف کا فاضل بلوچ کی ایرانی بارڈر فورسز کے ہاتھوں شہادت اس کی ایک مثال)، پاکستان کے ساتھ ان بلوچ مزاحمت کاروں سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتا ہے، ایران کے ساتھ پہلےسے نبرد آزما بلوچ (مذہب کی بنیاد پر مزاحمت کرنے والے) تنظیموں کے خلاف آزادی پسند بلوچوں کو لاکھڑا کردیا تاکہ دونوں جانب بلوچ ایک دوسرے کو ماریں۔ ایران و پاکستان پیسے اور لالچ دے کر بلوچوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔ ترکی کا پاکستان و ایران کا مدد کرنا ان کی اپنی مجبوری ہے کیونکہ ترکی بھی کردوں کے ایک بہت بڑے علاقے پر قابض ہے، حال ہی میں ترکی نے افرین نامی علاقے میں آزادی پسند کردستان پارٹی پی کے کے پری حملے شروع کردیے ہیں۔ پی کے کے امریکہ اسلحہ اور تربیت سے لیس ہیں۔ ترکی نے نیٹو اور امریکہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی کے کے کے خلاف کاروائی میں ان کا ساتھ دے۔ یاد رہے کردستان کی پی کے کے نے آئی ایس آئی ایس کو کدھیڑنے میں کلیدی کردار نبھایا تھا اور امریکہ، نیٹو فرانس، جرمنی اور دیگر اقوام کی نظر میں کرد خطے میں ایک سیکولر اور مذہبی دہشت گردی کو لگام دینے کے لئے اہم طاقت مانے جاتے ہیں۔ کردوں نے خود کو مذہبی شدت پسندی سے پاک رکھا یہی وجہ ہے کہ ترکی آج عالمی سطح پرکردوں کے خلاف لڑائی میں تنہا دکھائی دیتا ہے۔ قوی امید ہے کہ امریکہ جلد یا بدیر ترکی کی جانب سے پی کے کے کے خلاف فوجی جارحیت کے خلاف کردستان کی باضابطہ حمایت کا اعلان کریگی۔ ترکی اور ایران دونوں کرد علاقوں پر قابض ہیں اور اسی طرح ایران اور پاکستان بھی بلوچستان  پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اس صورتحال میں کردستان اور بلوچستان دونوں اپنی قومی بقا کو بچانے کے لئے نیٹو، امریکہ، فرانس، جرمنی کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری چین جنوبی ایشیا کا بے تاج بادشاہ بننے کے لئے گوادر پر للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہے اور گوادر میں پاوں جمانے کی غرض سے وہ پاکستان کو  ہر طرح کی فوجی ، معاشی اور دیگر قسم کی مدد و حمایت پہنچا رہی ہے۔ دوسری طرف روس بھی کلائی چھڑائے کھڑا ہے، روس امریکہ سے اپنا بدلہ لینے کے لئے میدان میں اتری ہے، روس نے سرکاری طور پر طالبان سے روابطے کی بات کی ہے، افغانستان کے سرکاری ادروں کے رپوٹوں کے مطابق روس تاجکستان کے راستے طالبان کو جنگی و فوج مدد دے رہی ہے، ایسے بھی رپورٹس ہیں کہ ایران روس کی مدد سے طالبان و دیگر شدت پسند گروپوں کو فوجی، معاشی مدد فراہم کر رہا ہے۔ افغانستان صوبہ کندھار کے بااثر جنرل رازق کا کہنا ہے کہ ایران طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو تیل بیج کر پیسہ دے رہا ہے، زاہدان کے علاقے میں طالبان کے فوجی کیمپ اور ٹرینگ سینٹرز ہیں، طالبان کے گھر، آفس اور کلینکس بھی ایران میں ہیں، ایران نے دو ہزار پانچ کے بعد سے اس فوجی مدد میں حیرت انگیز طو رپر اضافہ کیا ہے۔ وہ افغانستان کی بدامنی کو ایران کے کردار پر بھی کڑی نکتہ چینی کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ خطے میں اس خونی کھیل میں اپنے لئے نئے نئے کھلاڑی تلاش کرے اور ایران پاکستان کا ایک مضبوط کھلاڑی ہے جو افغانستان اور خطے کی بد امنی میں ملوث ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ایران و پاکستان انتہائی چالاکی سے بلوچوں کے اندر خانہ جنگی پھیلانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے کہ بلوچستان کے ہی باشندے کچھ ایران کے لئے خطرہ اور کچھ باعث رحمت ہیں؟ بلوچوں کو اس ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے نکالنے کے لئے بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری کے پاس ناقابل شکست منصوبہ ہے، وہ بلوچ آزادی پسند پارٹیوں اور تنظیموں کے مابین دیر پا، مضبوط اشتراک عمل کے حوالے اپنا دو واضح نقاط پیش کرچکا ہے جس میں پہلا شرط یہ ہے کہ بلوچوں کو کسی بھی ملک کی پراکسی سے دستبردار ہونا پڑیگا۔ دوسرا شرط بلوچ مزاحمتی و سیاسی پارٹیوں کو دستیاب طاقت کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ افغانستان سے متعلق بھی بلوچ لیڈر حیربیار مری دوسری پارٹیوں کی بہ نسبت واضح اور شفاف موقف رکھتے ہیں۔ ان میں افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن سمیت تمام حل طلب معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کا فارمولا پیش کرچکے ہیں۔ افغانستان نےہمیشہ بلوچ تحریک آزادی کی اخلاقی و سیاسی مدد کی ہے آج بھی ایران کے مقابلہ میں افغانستان کا کردار قابل ستائش اور دوستانہ رہا ہے۔ آج پاکستان یا دنیا کے ہر کونے میں پشتون نوجوان بلوچ تحریک آزادی کی مکمل اخلاقی و سفارتی مدد کررہے ہیں، ایران میں آزاد بلوچستان کی بات کرنا گردن زنی کے مترادف عمل تصور کیا جاتا ہے جبکہ افغانستان کے محب وطن عوام اور پڑھے لکھے نوجوان طبقہ آج آزاد بلوچستان کا پرچم اٹھانے کو فخر محسوس کرتے ہیں، لندن، جرمنی، سویٹزرلینڈ، سویڈن، امریکہ، اور دیگر ممالک میں بلوچ و پشتون آزادی پسندوں کے مظاہروں میں بلوچ و پشتون نوجوانوں اور سیاسی قیادت نے آزاد بلوچستان اور افغانستان کے قومی بیرک کو ایک ساتھ بلند کیا ہے جو خطے میں بلوچ پشتون و سندھی اقوام کی شعوری جڑت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پشتون نوجوان طالب علم مشال خان ہویا حال میں پنجابی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے نقیب اللہ محسوس کا واقعہ نے سب بلوچ و پشتون کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا ہے، آج بلوچ خود کو اکیلا نہیں سمجھتے اور پشتون بھی لاوارث نہیں رہے، اسلام آباد جناح یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا گذشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں فورسز کا دھاوا، سب واقعات نے بلوچ و پشتون اقوام کو اتحاد کی لڑی میں مضبوطی سے پرو دیا ہے۔ آج بلوچ و پشتون اس دکھ و مشکل کی گھڑی میں، جیل و زندان بھی ایک ساتھ بانٹ رہے ہیں، آج پنجابی کی ظلم و جبر اور دہشت گردی نے تمام آزادی پسند ، بلوچ، پشتون اور سندھی محکوم اقوام کو  ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا ہے۔ بلوچ رہنما حیربیار مری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچ و پشتون اقوام کا دیرینہ مسئلہ ان کا قومی آزادی کا حصول ہے، پنجابی ہمیں چھوٹی چھوٹی معمولی مسلوں میں الجھاکر ہمیں غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے، اب بلوچ و پشتون نوجوانوں کو چھوٹے سے مسئلہ جیسے ہاسٹل کے کمرے پر لڑنے کی بجائے اپنی قومی آزادی کے لئے کام کرنا چاہے، آج بلوچ رہنما کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہورہا ہے اور ان کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پشتون نوجوان بھی اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو حادثات قرار دینے کی بجائے اسے پاکستانی فوج اور مقتدرہ کا سوچا سمجھا منصوبہ سمجھ کر اپنی قومی غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بلوچ رہنما کی کاوشیں اب رنگ لاتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں امید ہےکہ آئندہ وقت میں بلوچ و پشتون اور سندھی نوجوان اور آزادی پسند اقوام مزید متحد ہوکر اپنی قومی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے میں ضرور کامیاب ہونگے۔