آزادی کی امنگ دل میں لیے 1948کو سینکڑوں بلوچ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں مورچہ زن رہے اور یہ سلسلہ وقت کی رفتار سے کم چلتا رہا اور ہنوز جاری و ساری ہے ان پچاس ساٹھ سالوں میں مختلف لوگ میدان جنگ میں اپنا دلیرانہ کردار ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے کچھ لوگ عقوبت خانوں میں زندگی و موت کے بیچ لٹکتے رہے آخر موت ہی انکا مقدر بنا جو زندہ رہے وہ بھی زندان کی آزادی کے بعد نیم مردہ و نیم زندہ رہے لیکن اپنے سوچ و فکر پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے
بلوچ تاریخ ظلم و جبر بربریت و دکھ و تکالیف کی داستان اپنے اندر سمیٹے ہوئے محو مخاطب ہے دوستی و مخاصمت میں ہزاروں جانیں وطن کی آبیاری کرتے رہے اور آج بھی اپنے وطن کے عشق میں دیوانے میدان جنگ میں بلوچ سرزمین کے مختلف محاذوں پر اپنا بہادرانہ کردار نبھا رہے ہیں ماضی کے دھندلکوں میں چھپے ایسے کردار جو ماضی کو اپنے سینے میں دبائے 1973 سے لیکر موجودہ دور میں بھی اپنے قومی فرض سے مستقل مزاجی کے ساتھ جڑے رہے وہ سبزل بڈانی کی شکل میں ہو یا استاد ماموں مری یا کہ بلو بڈانی ہو یا کہ لال خان مری ہو یا بابا غنی کی شکل میں ہو وہ اپنے قومی فرض کو اپنی ذاتی زندگی پر ترجیح دیتے رہے وہ اپنی نوجوانی کے حسین دنوں سے لیکر اپنی ضعیف العمری تک جد وجہد سے اپنی وابستگی برقرار رکھے ہوئے تھے یہاں تک کہ شہادت سے بغل گیر ہوئے یا ان سالوں میں خستہ حالی میں بیماریوں کے ساتھ طبعی موت مرے لیکن جہد آزادی کے سوچ سے مرتے دم تک جڑے رہے بلوچ جہد سے وابستہ ماضی کے دھندلکوں میں چھپے ایک کردار بابا غنی کا ہے جو 1973 سے لیکر موجودہ جہد آزادی تک مستقل مزاجی کے ساتھ قومی جہد آزادی سے جڑے رہے بابا غنی ہرنائی کے پہاڑی علاقوں میں اپنی بچپن گزارنے کے بعد نوجوانی میں جہد آزادی سے منسلک ہوئے بلوچستان کے انھی پہاڑوں میں اسکی پرورش ہوئی پہاڑوں میں موجود اس دور کے سرمچاروں کے ساتھ وہ بھی بندوق ہاتھ میں لیے وطن کی آزادی کے لیے ماموں سدو مری کے زیر کمان جہد سے وابستہ ہوئے جرنل ایوب کے زمانے سے لیکر ذوالفقار بھٹو و جرنل ضیاء الحق و مشرف کے دور تک وہ مسلسل مختلف ادوار میں اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے مختلف ادوار کے دکھ بھرے داستانیں سینے میں لیے وہ بلوچ وطن کی خاک چھانتے رہے وہ انتہائی خاموش طبعیت کے مالک تھے شاذونادر ہی اسکے منہ سے کچھ الفاظ نکلتے تھے وہ بہت ہی کم بولنے کے ساتھ تنہائی پسند تھے اوتاک کے دیگر دوستوں سے دور کسی پتھر کے آڑ میں وہ اپنی جھگی بنا لیتے تھے وہ زیادہ تر تنہا پہاڑوں کی سیر کرتے تھے کوہلو سے لیکر ہرنائی و بولان سے قلات تک ان تمام راستوں پر وہ کئی کئی بار سفر کرچکے تھے بابا غنی و شہید لال خان انھی علاقوں میں مختلف محاذوں میں ساتھ رہے تھے اپنے دور کے حالات مسائل و تکالیف کا ذکر انتہائی سادگی سے کرتے تھے کہ آج کے جدید اسلحے و اس دور کے تھری ناٹ تھری رائفلوں کے ساتھ وہ بھٹو کے دور میں پاکستانی فوج کے ساتھ کئی مقامات پر مدمقابل رہے تھے اور اپنی جان فشانی کی وجہ سے وہ دشمن کو نقصان دینے کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ ماضی کے تلخ یادوں کے ساتھ اس دور میں جی رہے تھے وہ لندن گروپ کے قصے کھبی کبھار دہراتے تھے آزادی کے مقصد کو لیکر وہ ہر دور میں اپنا کردار ایمانداری کے ساتھ نبھاتے رہے جب نواب خیربخش مری کے سربراہی میں مری قبیلے نے افغانستان سے جلاوطنی اختیار کی وہ شہید ماموں سدو مری کے ساتھ افغانستان نہیں گئے بلکہ ہرنائی و بولان کے پہاڑوں میں رہے وہ روپوش رہے وہ ضیاءالحق کے عام معافی کے بعد بھی وہ اپنے سوچ پر ڈٹے رہے اور جو قومی وسائل اسکے سپرد کیے گئے تھے وہ ان قومی وسائل کی حفاظت صدق دل سے کرتے رہے وہ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ اپنی زندگی کو دھکیلتے رہے وہ وقت کے انتظار میں رہے کہ کب تحریک میں ابھار آئے گا اور اسے واپس اپنے قومی فرائض انجام دینے کا موقع ملے گا نواب خیر بخش مری کی افغانستان سے واپسی کے کچھ عرصے کے بعد جہد آزادی کے پرانے ساتھی پھر اکٹھے ہوئے اور تحریک کی بنیاد رکھی تو بابا غنی ماموں صدو کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے نظر آئے وہ بزگر ہرنائی پوڑ و بلوچ وطن کے دیگر علاقوں میں استاد ماموں صدو کے ساتھ رہے اس کے بعد بابا ناگاہی میں قادر مری کے ساتھ اپنے قومی فرائض انجام دیتے ہوئے نظر آئے اور 2005 کو وہ قومی فرائض کے غرض سے بولان کے کیمپ منتقل ہوئے اور بولان کے کیمپ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگے اور شہید لال خان و مامو سدو مکران کے محاذ پر اپنا کردار ادا کرنے چلے گئے تھے بابا بولان کے قرب و جوار کے تمام پہاڑی راستوں سمیت محفوظ ٹھکانوں کا علم رکھتے تھے وہ کیمپ میں دیگر ساتھیوں کے ہر عسکری گشت کا حصہ تھے اور دشمن کی چالاکی سمیت دشمن کی ہر نقل و عمل کا بخوبی علم رکھتے تھے وہ اتنے سالوں تک دشمن کے ساتھ مختلف محاذوں پر لڑے تھے اسکی ذہانت دیدہ دلیری بہادری سے دیگر سرمچاروں کو حوصلہ مل رہا تھا وہ بہادری کے ساتھ اس کے نقش قدم پر چل رہے تھے اس ضیف العمری کے باوجود اسکے قدم کھبی نہ رکے اور نہ ہی کبھی وہ تھکے بلکہ ہر وقت اپنی مضبوط سوچ کی بدولت وہ ہر محاذ پر ڈٹے رہے اور ہر سفر کو خندہ پیشانی کے ساتھ سر کرتے رہے نوجوانی سے لیکر ضیف العمری تک وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی جہد کو جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف پیش قدمی کرتے رہے 2006 کے بعد آہستہ آہستہ اسکی طبعیت بگڑنے لگی لیکن پھر بھی وہ اپنے منزل کی طرف چلتے رہے شہر کی طرف وہ علاج معالجے کے لیے نہیں جاسکتے تھے گھریلو ٹوٹکے و لوکل علاج وقتی طور پر اسے سکون دیتے تھے لیکن اسکی بیماری کا مداوا نہیں ہو سکا۔ جبکہ اسکی بیماری قومی فرض تلے اسے کمزور نہ کر سکی بلکہ وہ پختہ عزم کے ساتھ اپنی بیماری سے لڑتے رہے 2007 کو اپنے بال بچوں سے ملنے کے لیے گھر گئے تھے پہاڑ کے دامن میں ایک گدان کے قریب دس پندرہ بکریوں کے مالک بابا غنی اپنے بچوں کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے دشمن کے تمام قوانین سے آزاد وہ آزاد وطن کے باسی کی حیثیت سے جی رہے تھے جب وہ قومی فرض تلے کیمپ میں اپنے قومی فرائض انجام دے رہے تھے تو اسکے بچوں کی دیکھ بھال اسکے بھائی کیا کرتے تھے اس وجہ سے وہ گھریلو فرائض سے بھی وطن کے سپاہی کی حیثیت سے آزاد تھے لیکن اس بار حالات تبدیل ہوچکے تھے وطن کے اس جانثار ساتھی کو ایک اور آزمائش سے گزرنا تھا آزادی کے راستے پر سفر کرنا آزمائشوں سے گزر کر انھیں شکست دینا اور اپنے فرائض پر ثابت قدم رہنا ایسے ہی عظیم شخصیات کی فطرت ہوتی ہے جو تاریخ کو زندگی بخش دیتے ہیں بابا غنی پر اسکے بچوں کی ذمہ داری آن پڑی تھی اسکے بھائی نے بابا غنی سے لاتعلقی کا اظہار کر رہا تھا اور اسے واپس کیمپ جانے سے منع کرنے کے ساتھ اسکے بچوں کی دیکھ بھال سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا جب بابا غنی کی چھٹیاں ختم ہوئی تو وہ اپنی بندوق اٹھا کر پہاڑوں کی طرف اپنا سفر جاری رکھا بھائی نے اسکے بچوں کو تن تنہا چھوڑ کر جارہا تھا وہ اپنے بھائی و اپنے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا لیکن اسکے قدم نہ رکے وہ جانتے تھے کہ ان پہاڑوں میں جہاں میلوں تک کوئی گھر نہیں اسکے چھوٹے بچے اپنی ماں کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکیں گے وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے اس آزمائش سے بھی گزرنا ہوگا ایک طرف بال بچوں کی ذمہ داری تو دوسری طرف قومی فرائض تھے ان حالات میں بھی وہ تذبذب کا شکار نہ ہوئے وہ اپنے قومی فرائض کے راستے پر چل پڑے بھائی بھی اپنی زبان پر ڈٹے رہے اور انکے بچوں کو چھوڑ کر کئی اور جاکر آباد ہوئے بابا غنی خاموشی کے ساتھ اوتاک میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے انھوں نے اپنے گھر والوں کی خیریت کی خبر کسی سے پوچھا بھی نہیں وہ جانتے تھے کہ جس دن انکی موت واقع ہوگی انھیں معلوم ہوجائیگا لیکن اس دوران اسے ایسا کوئی پیغام نہ ملا کچھ وقت کے بعد اسکی طبعیت بگڑنے لگی اس دفعہ بڑی مشکل سے وہ شہر پہنچے اور اسکا چیک اپ ہوا تو ڈاکٹر نے اسکے بیماری کی تشخیص کر دی بابا کو ایپی ٹائیٹس اور معدے کا سرطان جیسے جان لیوا مرض لاحق ہوا تھا اور کچھ دنوں کے بعد وہ واپس کیمپ میں دوستوں کے ساتھ تھا۔ لیکن وہ اسی طرح اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے اور دن بہ دن اسکی طبعیت بگڑتی رہی بالآخر وہ گھر چلے گئے اور وہاں پر موت و زندگی کی کشمکش میں کچھ وقت تک رہے اور ایک دن وہ اپنے مخلصانہ ایماندارانہ طبعیت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے اور آنے والے نسل کے لیے اپنا ایماندارانہ مخلصانہ کردار چھوڑ کر چلے گئے کہ وطن کی آزادی کے اس رستے پر ہزاروں آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہی آپ ایک ہیرو قرار پائیں گے وہ نوجوانی سے لیکر ستر سال کی عمر تک وطن کے کاز سے جڑے رہے اور آخر میں جام شہادت نوش کر گئے.