جھوٹ بولنے سے سچ تو نہ چھپتا نہ ہی اسکی توقیر و اہمیت میں کمی آتی ہے، سچ اپنی جگہ پہ برقرار رہتی ہے اور سچ کے ساتھ ہمسفر لوگوں کے لشکر کو کم از کم یہ فکر نہیں ستاتی کہ جو کچھ کہا گیا ہے اسے مزید پرخار و پر پیچ بنانے واسطے کچھ اور توہمات، واقعات، مفروضات اور خیالات گھڑے جائیں جیسا کہ دروغ گو ٹولی اور کاذبین کی لشکر کو ہمہ وقت یہ وسوسہ دامن گیر رہتی ہے تاکہ سچ کو نیست و نابود کرنے کی خاطر اپنی جھوٹ کے پشتے اور مضبوط بنائے جائیں اور مزید جھوٹے لوگوں کو ملایا جائے اور کئی زبانوں سے واویلا کروایا جائے، جھوٹ کی نفسیات اور اسکا پس منظر کافی دلچسپ ہے ہر جھوٹ اپنے لئیے ایک نئے جھوٹ کا متلاشی ہوتا ہے، یہ ایک تسلسل ہے جو رسوائی، تحقیر، ذلالت اور کم قدری پر جاکر ختم ہو گی، جھوٹ سے جڑے رہنے کا مقصد یہی ہے کہ سچ کو دبتے رہنا ہی چاہیے سچ کا آشکارا اگر ہو بھی چکا ہو تو اسے جھوٹ، بہتان بازی اور دروغ گوئی کے اتنے تیز طرار نشتر مارے جائیں کہ سچ کی اہمیت، توقیر اور وزن کم ہوجائے مگر ہائے قسمت کہ ایسا ہوتا نہیں ہے اور یہ سب کچھ خود ان لوگوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا امر محال ہے مگر وقت کو کھینچنا ہے ہر دن ایک نئی جھوٹ کے ساتھ آکر سچ پر وار کرنا ہے تاکہ جھوٹ کی زندگی برقرار رہے اور لوگوں کی دلوں میں یہ بات موجود رہے کہ مقابلہ کیا جارہا ہے اور شدت کے ساتھ کیا جارہا ہے یہ مقابلہ بازی اور وقت کو آگے کھینچنے کی نفسیات انفرادی شخصی اور موضوعی ہے، اسکے تہہ میں یہی بغض چھپا ہے کہ مجھے مقابلہ کرنا ہے یا گروہی حساب سے “ہمیں” مقابلہ کرنا ہے اسی مقابلہ بازی کی نفسیات میں سچ کو جھوٹ سے اور ننگ دھڑنگ سیاسی چالبازیوں سے ہرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، یہ تاریخ کا خاصہ رہا ہے دنیا میں اس طرح کی انفرادی زاتی و شخصی ضد و خنث لوگوں میں موجود رہے ہیں اگر سیاست برائے سیاست کی رذیل و کم ظرف رجحان کا مطالعہ کیا جائے تو اس سیاسی کینوس میں مادی طاقت ہی سیاسی مقاصد کی حصول کا واحد رستہ بچتا ہے، لوگ، لوگوں کا جم غفیر، طاقت اور اس قوت کا برملا اظہار، یہی چیزیں اس لشکر کذاب کی بنیادی مانگ ہیں اور وہ سیاسی مقاصد جن کا یہ لشکر حصول میں لگا ہوا یے، خود اپنے آپ میں کتنے خوفناک ہونگے اسکا اندازہ شاید سب کو نہیں لیکن انکا ذکر پھر کسی دن فی الحال جھوٹ، جھوٹ کی بنیاد پر سچ سے محاز آرائی کی سیاسی رجحانات اور سیاسی مقاصد کے حصول واسطے کی جانے والی خباثت پر مبنی گٹھ جوڑ بات کریں گے.
ویسے تو بلوچ سیاسی میدان عمل میں جھوٹ اور جھوٹ کے سہارے مقاصد کے حصول کی مذموم و رذیل کوششیں آج کی نہیں بلکہ یہ بلوچ قومی سیاسی افق کے ساتھ ساتھ ابھرنے اور چلنے والی کہانی ہے، ہر دور میں ایسی کوششیں ہوئیں اور ان میں بسا اوقات ان کوششوں کی کامیابی کی قیمت بلوچ تحریک کے مجموعی عمل کو چکانی پڑی، کیونکہ تحریک میں موجود سبھی کردار اپنی اپنی قوت کے ساتھ اسی جگہ کھڑے رہے جہاں وہ دوران تحریک تھے، بس اجتماعی قوت زاتی بغض و عناد کی شکار ہوکر تسبیح کی دانوں کی طرح بکھرتی ہوئی مختلف خانوں و کونوں میں بٹ گئی، ایسی کسی بھی بکھری کی سائینسی بنیادوں پر منطق لگا کر تجزیہ کرنے کے بجائے اسے سردار اور سردار زدہ نفسیات اور سردار سے جڑے سماجی توہمات کو زمہ دار مانا گیا، لیکن سردار اور سرداری نفسیات یا قوت کی تحریک، سیاست اور سماج ہر حوالے سے الگ الگ اہمیت، وقعت اور ضرورت پر نہ کبھی بحث ہوئی نہ اس جانب کسی مباحث کی حوصلہ افزائی کی گئی، اور اب تک جتنی بار بھی بلوچ تحریک سرد راکھ سے نکل کر دہکتی ہوئی انگارے میں تبدیل ہوئی اسکا سرچشمہ سرداریت ہی تھی یہ سردار ہی تھے جنہوں نے بلوچ اجتماعی قوت کو قومیت کے بنیاد پر نہ کہ قبائلیت کی بنیاد پر ہر بار پھر سے نئے ولولے کے ساتھ دوستوں کو یکجا کرکے اجتماعی قوت بخشی یہ کم از کم بلوچ سیاسی تاریخ میں ایک ان مٹ تاریخی حقیقت ہے جسے کسی کی ذاتی عناد و بغض سے نہیں بدلا جاسکتا نہ جھٹلایا جاسکتا ہے(حالیہ تحریک میں بی ایل اے کی ظہور، سب کو ساتھ لیکر چلنے جیسے اجتماعی روئیے اور غیر جانبداری پر مبنی طریقہ کار سمیت یہ سب کہاں سے شروع ہوئے؟ واحد بمعہ دیگر کی حالیہ دروغ گوئیوں سے قطع نظر انکی ماضی کی باتیں خود اس بات کی دلیل ہیں)، اسی طرح ہر دور میں کچھ عرصے بعد تحریک اور بلوچ مجموعی قومی قوت پھر اسی ٹوٹ پھوٹ اور محلاتی سازشوں کا شکار ہوا اور ہر بار اجتماعی قوت کی بکھری لگا دی گئی اور آج پھر اسی طرح کے ایک گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے پوری بلوچ تحریک کو یہ جھوٹ و سچ کی جنگ نئی نہیں بس نقار خانے کی نوا قدرے بلند اس لیے ہے کہ اس بار تحریکی عمل بذات خود اپنی تمام ماضی کی روداد سے الگ اور بلند آھنگ رکھتی ہے اسی لیے شور کچھ بھی ہو کہیں سے بھی ہو اور کیسے بھی ہو وہ سماعتوں سے شدت کے ساتھ اور بار بار ٹکراتی ہے اور فطری اعتبار سے یہ احساس اور اضطراب کی کیفیت کو مزید بڑھا دیتی ہے کہ سب کچھ تباہ ہونے والا ہے سب کچھ ختم ہونے والا ہے سب کچھ بھسم ہوکر راکھ میں تبدیل ہوجانے کا ڈر اپنی جگہ موجود ہے اور اسی ڈر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ جھوٹ کی نشتر کو اور زیادہ سان لگاتے ہیں اور یہ لوگوں کی احساسات میں چبھتا بھی ہے کیونکہ لوگوں نے اس تحریک کے لیے کسی فرد یا گروہ کی انفرادی و شخصی مفاد و شاباشی کی خاطر نہیں بلکہ اس مٹی کی قرض چکانے کو قربانیاں دی ہیں، لیکن ڈر کی موجودگی اور جد و جہد کی از سرِ نو تشکیل و تعمیر کی تمام راہیں مسدود ہونے اور امکانات معدوم ہونے کے احساس کے باوجود امید کی الاؤ جلائے رکھنے کی اس لیے بھی گنجائش موجود ہے کہ جو راہنما اگر راکھ کی ڈھیر کو ہوا کی نرم مگر مسلسل آہٹوں سے انگارے کی شکل پیدا کرنے کی سکت رکھتی ہے تو آج کی اس ناامیدی و یاس کی دوران بھی وہ چیزوں کو پلٹ کر از سرِ نو تعمیر و تشکیل کی کوئی حسین و کارگر صورت گری کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے چونکہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب نقصانات صدمات اور دھوکہ دہی سے اپنی قدموں کو بوجھل محسوس کرتے ہیں تو اس روک کو اس سکوت کو اور اس صبر اور خاموشی کے لمحات کو جھوٹوں اور کاذبین کی سچائی پر فتح حاصل کرنے سے ہرگز تعبیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ تخریب سے ایک بہتیرے تعمیر کی جانب سبیل ڈھونڈنے کا ایک خاموش لمحہ ہے، جھوٹ مسلسل لکیریں پیٹتی رہیتی ہے جیسے ابھی بھی کذاب گروہ کے لوگ مسلسل لکیروں کو پیٹتے ہوئے جارہے ہیں کبھی سردار اور کبھی “سرِ” دار یہ لوگ مسلسل رسوا سرِ بازار کے مصداق مڈل کلاس کی بے مدت و معیاد راگ کو الاپتے محوِ رقص ہیں اور انہیں رقص کرنے سے نہ روکو کیونکہ ہم سب کو جھوٹ کی تاریخی تنہائی و اکیل پن کی حقیقت معلوم ہے کہ “جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا” اور سچ، سچ کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت تاریخ کے کسی بھی دور میں نہ درپیش رہی ہے اور نہ ہی درپیش رہیگی، سچ خود ثباتی ہے اور اپنی سفر کو ہمیشہ آگے بڑھاتی ہے اور ابھی بھی سچ کا سفر جاری ہے.
تضاد بیانی ہی جھوٹ کی بنیاد ہے کل کی کہی اور لکھی ہوئی باتیں آج کی موجودات میں اپنی وجود سے عاری تو نہیں ہوجاتی وہ اپنی وجود تو برقرار رکھتی ہیں اگر متضاد ہوں تو منطق سے نکل کر رد کی نظر ہوجاتی ہیں یا تو وہ جھوٹ کی ہزارہا صورت گری کے باوجود حقیقت ٹہر ہی جاتی ہیں دونوں صورتوں میں مہذبانہ انداز سے حقیقت حال کو قبولنا ہی آخری رستہ ٹہرتا ہے، تضاد کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہئے اگر تضاد ماضی اور حال کے درمیان واقعی میں حائل ہو تو اسے قبولنا کوئی معیوب بات نہیں اور یہی مہذب تاریخی سیاسی عمل ہے سچائی اپنی تضادات میں نہیں الجھتا بلکہ وہ تاریخی پروسس یا عمل کے دوران کسی بھی امر کے رد ہونے یا مسترد کئیے جانے کی حقیقت سے روبرو ہونے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے کیونکہ سچائی ہمیشہ آگے کی جانب محو سفر رہتی ہے اور تضادات کی پیچیدگیوں میں الجھ کر سفر کو مزید کاندھوں پر رکھنا اور آگے بڑھ جانا ناممکن بن جاتا ہے یہی سچائی کا خاصہ نہیں ہے، لیکن کوئی تاریخی حقیقت یا منطق سامنے لائے بغیر میں یہ کہوں کہ کل کی باتوں یا عمل و اشیا کی وجود کو بھول جاو اور جو آج میں کہہ رہا ہوں یا کررہا ہوں وہی حقیقت ہے تو یہ بخود تضاد کی سب سے بدترین نشانی ہے اور تضاد پر اڑے رہنے کی وجہ سے تاریخ عمل کو پراگندہ کرنے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے وگرنہ کل کی باتیں اور تمام باتوں کے ریکارڈ لوگوں کے زہنوں میں محفوظ ہیں ویسے تو انکی یہ دروغ گوئیوں کا سلسلہ بہت ہی دور تک جاتا ہے مگر دور کی کوڑی لانے کی بجائے تازہ اور حالیہ جھوٹ کی اس لمبی کہانی کا ایک اور قسط بمعہ اپنے تمام تضادات و کذب بیانیوں کا شائع ہوا ہے اسی سے حوالہ لیتے ہیں، بزعم خود ایک بڑے کمانڈر اور جنگجو اس شخص نے بہ یک جنبش قلم دریا کو جھوٹ کے کورے میں بڑی سرعت سے بند کرنے کی ایک بھدی سی کوشش کی ہے تاریخ کے جبر سے واقف مگر روگرداں اس شخص نے کیا یہ بھی نہ سوچا ہوگا کہ جھوٹ کو تولنے جاؤ تو سچ خود بخود پلڑے کے دوسرے سرے میں آ گرتا ہے بہرحال ملاحظہ فرمائیں جناب واحد قمبر کے الفاظ.
“غالبا دو ہزار دو یا تین کو حیر بیار مری نے ہمیں دبئی بلایا اور ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں راقم کے علاوہ حیر بیار مری، شہید امیر بخش، استاد اسلم بلوچ ،حسنین جمالدینی ،نبی داد مری شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ شاید میر حیر بیار مری نے پرانے تعلقات کی بناء پر بلایا تھا مگر میں ذہنی طور پر شخصی اجارہ دارانہ جدوجہد سے مایوس ہو چکا تھا اور ہم متبادل کے طور پر بی ایل ایف کا قیام عمل میں لا چکے تھے۔اس میٹنگ میں بھی حیر بیار اُسی طریقہ کار پر مصر تھا۔ شاید تنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب نے تسلی کے لئے بی ایل اے کے نام سے جدوجہد کرنے پر زور دیا۔ میرے نزدیک بی ایل اے کسی واضح تنظیمی ڈھانچہ اور دستور سے محروم فقط ایک نام تھا جس پر ایک فرد کی اجارہ تھی۔
میں نے اس میٹنگ میں باقاعدہ بی ایل ایف کا آئین ،منشور،عملی پروگرام پیش کیا اور دوستوں پر واضح کیا کہ ہمارا جدوجہد اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہو گا۔ ہاں ہم آپ کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں گے اور مشترکہ جدوجہد کے لئے تیار ہیں مگر ہمارا پلیٹ فارم الگ ہو گا اور ہمارے فیصلے تنظیمی ہوں گے.”
خیر ہم کیا جانیں کیا ہوا ہوگا یا نہیں ہوا ہوگا اس میٹینگ میں کیونکہ ہم بہ نفس نفیس اس میں شامل نہیں تھے، مگر کچھ واقعات، کچھ نشستیں اور نشستوں میں بلوچی طرز کے” حال و احوال” اور انہی حال احوال سے ابھرتے بہت سارے حقائق کم از کم سچائی کو مزید طشت از بام کرنے اور ہمارے زہنوں کو الجھنے سے بچانے کو کافی ہیں، مگر وہ ہمارے یا چند دوستوں کے مابین ہونے والے نشستوں کے حال احوال ہیں ان پر کوئی کیوں یقین کرے سو کہیں اور نہ جائیں بلکہ ماسٹر سلیم کی اپنی ہی گزارشات اور مختلف جملے ملاحظہ کریں جو کچھ عرصہ پہلے ان سے ہوئے ایک انٹرویو سے منقول ہیں.
“ہم اپنے اکثر مجالس میں ایک مزاحمتی تنظیم بنانے کی ضرورت پہ بحث کرتے اس سلسلے میں واحد قمبر کو اعتماد میں لیا واحد قمبر نے پارٹی بنانے کی ضرورت پر اتفاق کیا اور کہا کوئٹہ میں مری قبیلے کے چند دوست میرے ساتھ ہیں.
.1999ء میں کوئٹہ میں دھماکہ اور راکٹ باری کے واقعات رونما ہوئے جس کی ذمہ داری بی ایل اے قبول کرتی تھی، غالبا 2000ء میں نورا مری واحد اور گلبہار اپنی پک اپ سنگل ڈور کے ساتھ کوئٹہ سے واحد قمبر کے پاس اس کے میڈیکل سٹور میں آئے ان کے جانے کے بعد واحد قمبر نے مجھے بی ایل اے کی پمفلٹ فوٹو کاپی کرا کے تقسیم کرنے کے لیے دیا میں نے تربت میں اس پمفلٹ کی کاپیاں کروا کے خفیہ طور پر تقسیم کیا.
نورا مری نے کوئٹہ سے تمپ میں آ کر قمبر کو کیا پیغام دیا اور واحد قمبر نے کیا جواب دیا یہ نورا اور قمبر بتا سکتے ہیں اکتوبر 2000ء کو پارٹی تشکیل دینے کے لیے واحد قمبر ،عبدالستار اور میں کوئٹہ چلے گئے وہاں ایک دوست کے گھر میٹنگ بلائی گئی اس میٹنگ میں بی ایل ایف کے نام سے پارٹی کی بنیاد رکھی.
پارٹی بنانے کے دو سال بعد سپریم کمانڈ کونسل کی ایک میٹنگ میں چند دوستوں نے مشترکہ دشمن کے خلاف جدوجہد کرنے کی ایک ہی ایجنڈے پر بی ایل اے کے ساتھ اعتماد قائم کرنے کی تجویز پیش کی اکثریت نے اس تجویز کی حمایت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ بی ایل اے کے ساتھ بات چیت کی جائے اس سلسلے میں کراچی میں سپریم کمانڈ کونسل کی میٹنگ منعقد ہوئی اس میٹنگ میں واحد قمبر،ڈاکٹر اللہ نذر اور ماسٹر ستار کو بی ایل اے کے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی ذمہ داری دی گئی.”
ایک جگہ جناب رقمطراز ہیں کہ نواب مری سے فکری راہیں موصوف نے نوئے کی دہائی میں جدا کی تھیں، کچھ تو خوف خدا کرو جو لوگ آپکی نشستوں میں شامل رہے ہیں” جیسا کہ ہم میں سے کئی سارے لوگ” اس امر کی گواہی دیں گے کہ آپ کھلم کھلا جھوٹ بول رہے ہیں اسکے اثبات میں آپکی اور آپکے نام نہاد “مضبوط و منظم اداروں و آئین والے” تنظیم کی ایک سے ایک بات سامنے لائی جاسکتی ہے.
اگر جھوٹ کے پیر ہوتے وہ چل کر سب کو بتا دیتا کہ “میں جھوٹ ہوں” اور اگر اسکے سر پر سینگ ہوتے تو بھی پہچانا جاتا لہذا یہ دونوں صورتوں کی عدم موجودگی میں چند ثبوت اور منطقی باتیں ہی رہ جاتی ہیں جو اوپر رقم کی گئی ہیں اور اب فیصلہ آپ کے اوپر ہے حقائق کا ساتھ دیں یا پھر حقانی نیٹ ورک کا ( طالبان و ایران سے رابطوں اور پوڑی کوڑی کے تناظر میں)، دوسری جانب بی ایل اے ہائی کمان کی گزشتہ دسمبر کا ایک بیان ہے جس کی باتیں، حقائق، نقطے اور ماسٹر سلیم کی جانب سے کی گئی باتیں ایک دوسرے کی تصدیق کررہے ہیں،
“تحریک شروع ہونے سے لیکر تقریبا 2008 تک بلوچ قومی تحریک کی تمام پالیسیاں بی ایل اے کی قیادت بناتی رہی لیکن اس کے بعد ہر تنظیم اپنی طور پر تنظیمی سطح پر پالیسی سازیاں کرنے لگا. الگ الگ پالیسیوں کے باوجود بی ایل اے نے ہر ممکن کوشش کی کہ تمام تنظیمیں ایک دوسرے سے تعاون کے ماحول کو برقرار رکھیں لیکن آہستہ آہستہ اختلافات کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئیں اور جن پالیسیوں پر ہم نے اختلاف رکھا وہی پالیسیاں جدوجہد کی کمزوری کا سبب بنیں.”
اس جھوٹ کی نفسیات سے نکلنا اتنا آسان نہیں اور نہ ہی یہ لوگ اس نفسیات سے نکلنے والے ہیں بلکہ یہ ایک خالص سوجھ بوجھ کی بنیاد پر کی جانے والی عمل ہے اور جسکا مقصد قوت اور طاقت کی اجتماعیت کو توڑ کر اس بکھری میں سے اپنے حصے کی طاقت کو حاصل کرکے اس پر بلا شرکت غیرے بغیر سوال و جواب اور کسی روک ٹوک کے بغیر حیثیت جتانا ہے قوم اور قومی آزادی اور اسکی مفاد وہ سب انکے ہاں بعد میں آتے ہیں پہلی اور اہمیت کے حامل چیز یہی ہے کہ جھوٹ بولو اور اس جھوٹ کی تیز نشتروں کی وار سے قومی اجتماعی طاقت کے حصے بخرے کرکے اپنی طاقت کے حصے کو سمیٹ کر خود کو منواؤ اور پھر کوئی مجبوری و لاچاریوں کی بنیاد پر طاقت کے کوریڈور سے معاہدہ کرلو اور اسے اتحاد کا نام دے ڈالو، یعنی جھوٹ کو سیڑھی بناکر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ قومی طاقت کو انکے فرمان کے تابع رکھا جائے وگرنہ جب تک یہ لوگ طاقت کی رسہ کشی میں مصروف نہ تھے طاقت کی حصول و بندر بانٹ کا سوال ابھرا کہاں تھا، اس طرح کی کشیدگی و مایوسی و یاس کا ماحول کہاں تھا، سب ایک منظم نظام کے تابع تھے، انہی رسہ کشیوں کہ بدولت آج بلوچ اجتماعی قوت کو ایک وقتی مگر سنگین بحران کا سامنا ہے، اس کے باوجود کہ مایوسی کے بادل گہرے بنائے گئے ہیں اور ان میں مزید سیاہ کالک ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی بھونڈی کردار سے ملی جارہی ہے مگر اب بھی بلوچ قومی تحریک سے جڑے ایسے لوگ ہیں جو امید کی کرن بن کر آج سے بائیس تئیس سال پہلے کی طرح راکھ سے چنگاریاں چن کر اور ان کو ہوا دے کر ایک آگ لگا سکتے ہیں، جھوٹ کہ پجاری بھلے انہیں سردار کہیں، تمندار کہیں، زردار و زمیندار کہیں مگر وہ اسی مٹی کے سپوت اسی مٹی کے قرض چکانے سچائیوں کے ساتھ خاموشی سے آگے کو محو سفر ہیں اور یہ خاموشی نہ کل کارپوریٹ ایجنٹ کہنے سے ٹوٹی تھی، نہ ہی ڈکٹیٹر کہنے سے اور نہ آج سردار و تمندار کی تکرار سے ٹوٹنے والا ہے، باقی گلی میں ہونے والے شور اور ہر ابھرتے شور پر رک کر پتھر مارنے کی روایت اگر ڈالی جائے تو سفر چوٹ جائے گا اسی لئیے سفر اہمیت رکھتی اور رہی شور، تو شور ہر گلی میں اپنے ہی جھوٹ کے بھاری وزن تلے دب جائے گی، جیسے کہ تاریخ کی ہر موڈ پر یہی عبارت کنندہ ہے.