ویسے تو غلامی کا ہر لمحہ اپنے اندر ایک مہیب خوفناک اور تاریکیوں کی پاتال میں گری ہوئی سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتی ہے مگر ستائیس مارچ ایک یاد ہے جو قومی نفسیات کی گہرائیوں میں کنندہ ہے۔ شعوری نفسیات پر ایک ایسی زخم ہے جو اپنے منطقی انجام یعنی آزادی کے حصول تک انمٹ ہی رہیگی، یہ ہماری قومی اجتماعی ناکامیوں، کم مائیگی اور بکھری ہوئی قوت کے مثالئیے کا وہ دن ہے کہ جسے ہم یاد کرکے اپنی جد و جہد کے اندر اپنے تئیں ایک نئی جوش اور ایفائے عہد کی ایک نئی انگیخت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ستائیس مارچ کے سیاہ دن کے حوالے اور اس دن کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات جو آج بھی جد و جہد کے بیچوں بیچ موجود ہیں، ان پہ بات کرنے سے پہلے چلیں کچھ تمہید باندھتے ہوئے تخیلاتی مفروضے پہ بات کرتے ہیں۔ تصور کیجیئے کہ کسی کے دو بچے ہیں جو کسی اسکول میں پڑھتے ہیں، اور ان میں سے ایک بچہ جو پڑھنے میں اوسط درجے کا معیار رکھتا ہے اور اپنی پڑھائی کی زمہ دایوں پر خوب دھیان دیتا ہو، وہ روز آکر اپنے والد سے کہے کہ بھائی کو آج سبق یاد نہ ہونے کی پاداش میں ماسٹر کی طرف سے سزا ملی، اسکے کاپی میں دیئے ہوئے کام بھی کبھی مکمل نہیں ہوتے، گھر میں پڑھائی کے حوالے انکی سنجیدگی آپ سے ڈھکی چھپی بات نہیں، جوابا والد کہے ” اچھا ” اور پھر اپنے کام کاج میں مگن ہوجائے، اور یہ تسلسل روز کی طرح برقرار رہے اور ہر روز کی طرح ایک بھائی کی طرف سے اپنے والد کے سامنے اپنے بھائی کی شکایت کا سلسلہ جاری رہے علاوہ ازیں اسکول اساتذہ کی طرف سے بھی وقتا فوقتا والد کو بچے کی اس بری کارکردگی پر باقائدگی سے مطلع کیا جاتا رہے، اور اس سے اسکی اس خراب کارکردگی کے حوالے استفسار کیا جاتا رہے مگر والد کی طرف سے روایتی سرد مہری اور یہی “اچھا” اور “اچھا جی” کا گردان تسلسل کے ساتھ چلتا رہے اور دن ہفتے مہینے اور سال اسی طرح گزرتے رہیں تو آپ کے خیال میں کیا وہ بچہ اسکول سے پاس ہوکر آگے تک جاکر ایک کامیاب طالب علم بن سکتا ہے ؟ میرے دانست میں تو ہر گز نہیں، اگر کوئی کہے نہیں وہ پاس ہوکر ایک کامیاب طالب علم بن سکتا ہیں تو شاید ان کے پاس کوئی انوکھی دلیل ہوگی جو ہمارے پٹھارے میں موجود نہ ہو، اب آتے ہیں زمہ داروں کی طرف، اس امکانی ناکامی کے زمہ دار کون ہوں گا ؟ کیا اس ناکامی کا پورا ملبہ اسی طالبعلم پر ڈالنا مناسب ہے؟ کیوں کہ ایک بھائی اسی سکول سے پڑھ کر کسی حد تک خود کو کامیاب ثابت کرتے ہیں، کیا اساتذہ کو اسکا زمہ دار قرار دینا مناسب ہوگا، کہ جو اپنی زمہ داریوں کے تحت اسکے والد کو گاہے بگاہے مطلع کرتا رہا ہے۔ تو اس ضمن میں زمہ داری انکے کاندھوں پر نہیں آسکتی، دوسری طرف بچے کی والد ہیں، جو فطری و معاشرتی قانون کے تحت اسکے نہ صرف سر پرست ہیں بلکہ اسکے ہر اچھے برے کاموں کا زمہ دار بھی ہیں، وہ زمہ داریوں کا بوجھ اپنے گلے سے اتار کر یہ کہہ سکتا ہیں کہ میرے دو بچے پڑھے ہیں اس اسکول سے اگر ایک بچے کی ناکامی سے میں ایک غیر زمہ دار اور اپنے فرائض سے غافل سرپرست ٹہرتا ہوں تو دوسرے بچے کی کامیابی کے حساب سے میں کامل لائق و فائق اور اپنے بچوں کے فرائض کے حوالے سے ایک قدر شناس سرپرست ٹہر جاتا ہوں، ویسے تو مثال کے حوالے سے اسکی یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن کیا وہ زمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے کہ نہیں، بسا اوقات بعض لاابال اور بگڑے بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اپنی زمہ داریاں جاننے اور انہیں نبھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لیکن اس درج بالا مفروضاتی کہانی میں بچے کا والد سب سے بڑا اور اہم جوابدہ اس لئیے ٹہر جاتا ہے، کہ وہ اپنی زمہ داریاں جو انہیں فطری حوالے سے تفویض ہوئی تھی وہ ان سے عہدہ برا ہونے میں مکمل طور پر ناکام رہے، بچے ہوں یا بڑے اپنی اپنی سمجھ بوجھ اور زہنی و جسمانی استعداد کے ناہمواریوں کے ساتھ سب انسان ہیں اور انسان کے اندر یہ فطری نا ہمواریاں موجود رہی ہیں اور تا ابد موجود رہیں گی، کوئی بہت بہتر کرسکتا ہے، کوئی بہت ہی زمہ دار شخص نکل سکتا ہے، کوئی بہت ہی زہین ہوسکتا ہے، کسی ،کسی کو ہر دم پھٹکار کی ضرورت ہوتی ہے، کسی ،کسی کو زیادہ تشویق و ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے، اسے سمجھانا پڑتا ہے، بتانا پڑتا ہے، سو کوئی گھر ہو، خاندان ہو، گروہ یا جماعت ہو، تنظیم یا مہم ہو یا پھر کوئی ادارہ سب جگہ یہ انسانی فطری استعدادی نا ہمواریوں کی کہانی موجود رہیگا، کسی بھی سرپرست یا سربراہ پالیسی و فیصلہ ساز طاقتوں کے حامل لوگوں کی یہ بنیادی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں اور اپنی تنظیم یا کسی بھی گروہی بند وبست کے اندر ہونے والے کارگزاریوں پر نظر رکھیں، جو اچھا کررہا ہے اسے شاباشی کے ساتھ مزید اچھا کرنے کا ترغیب دینا اور جو برا کررہا ہے اسے ڈٓانٹ، ڈپٹ کرکے، سمجھا بجھا کر راہ راست پر لانا اور جو عمل، پالیسی یا فیصلہ اچھا ہے اس میں مزید نکھار لانا اور چلنے دینا اور جو خراب اور نقصان دہ ہے اس کو ختم کرکے اس سے جنم لینے والی نقصانات سے بچ جانا ہے، اور یہ سب انا اور اپنی ناک کا مسئلہ نہ سمجھا جائے تو، کسی بھی تنظیم پارٹی، گروہ، ادارے یا بند و بست کے اندر موجود لوگوں کو تناسب کی بنیاد پر بانٹنا کہ اگر ایک غلط کررہا ہے تو دوجھا اچھا کررہا ہے لہذا لیڈر شپ کے کاندھے پر کوئی بوجھ نہیں کوئی زمہ داری نہیں، تو یہ پاپولر پالیٹیکس کی بد ترین نشانی ہے، اور خود کو خود احتسابی اور خود تنقیدی کے دائروں سے مبرا سمجھنا ہے، نہ صرف قومی یا سیاسی تحریکوں میں بلکہ ہر جگہ اور ہر سطح پر اس طرح کی لابالی پن اور اس طرح سے چیزوں کو بغیر کسی چیکس اینڈ بیلنس کے چھوڑ دینا ہلاکت خیز تباہی کا پیش خیمہ ہی ہوگا، اور بلوچ قومی غلامی کے زنجیروں میں جھکڑی ہوئی قوم ہے اس حوالے سے بلوچ کو کم از کم حد درجہ احتیاط برتنی ہوگی۔ ستائیس مارچ ایک عہد کی کہانی ہے جو آج کی نہیں ہے بلکہ ماضی سے جڑی عہد رفتگاں کا ایک یاد ہے ایک تجربہ ہے اور ایک تلخ کہانی ہے۔ ویسے تو زندگی میں ایسی تلخ تجربات بہت ہی آتے ہیں، فردی و خاندانی حوالے سے بھی اور اجتماعی قومی حوالے سے بھی لیکن ان میں تلخی کا شدت ہی ان کہانیوں یا تجربات کو انسانی زہنوں کے اندر تا دیر زندہ رکھتی ہے، ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو جب ریاست قلات کے آزاد و خودمختار بلوچ مملکت پر حملہ کرکے پاکستانی و عالمی استعماری قوتوں کے گٹھ جوڑ نے بلوچ وطن پر حملہ کرکے اس پرقبضہ کیا اسی دن سے آج تک یہ دن ایک سیاہ دن کی حیثیت سے ہر سال بلوچ قومی اجتماعی نفسیات پر لگے زخموں پر نمک پاشی کرکے انہیں پھر سے ہرا کردیتی ہے، قوم کیا ہے افراد کی مجموعی نفسیاتی چلن کا آئینہ دار، سو بہت ساری قومیں ہیں جو اپنے اوپر گزرے ایسے شدید زخموں کو ہر سال کوستی رہتی ہیں اور پھر سے اپنے کام میں لگ جاتی ہیں، عملا وہ اس حوالے سے کچھ کرنے سے قاصر نظر آجاتے ہیں اور ہمیشہ غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور بہت سارے ایسے بھی افراد ہیں جو چلتی ہوئی تحریکوں کے بیچوں بیچ ستو پی کر سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان تمام جبر کی تاریخ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور اپنے آپ میں مست رہتے ہیں، انکی اپنی زندگی اور اپنے دائرے ہوتے ہیں،، یہ سب حقیقت ہمارے اپنے اردگرد موجود ہیں، اسی طرح بلوچ قوم اس حوالے سے خاصی خوش قسمت قوم ٹھری کہ انہوں نے اس سیاہ دن کو محض کوسنے کے بجائے اس دن کے خلاف نئی طلوع آزادی کی خاطر ایک عملی جد و جہد شروع کیا وہ جد و جہد خود اپنے اندر تضادات کا ایک گنجلک ہے۔ سیاست ہو یا جنگ چونکہ اسکا تعلق انسانی آزادی جیسی ارفع ترین مقام سے ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اتنی آسان چیز نہیں ہوگی۔ جد و جہد کے حوالے سے بھی اور جہد سے جہد کے پالیسی سازی و نگرانی و استقامت کے حوالے سے بھی، بلوچوں کے اس جد و جہد میں بھی کافی پیچیدگیاں ہیں جو اس نوع کی جد و جہد کا تاریخی اساس رہے ہیں، یہ اساسی و مسلسل تضادات کی مہیب صورت گری بلوچ جد و جہد کے اندر دیکھنے میں بھی آرہی ہیں۔ یہ پیچیدگیاں اس طرح کی تحریکوں کے اساس یا شکل و ہئیت میں موجود ہوتے ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ کچھ تضادات آفاقی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ اندرونی، علاقائی یا سماجی ہئیت و بناوٹ کا دین ہوتے ہیں۔ تحریکوں کے دوران کوئی ان تضادات و پیچیدگیوں سے نمٹ کر آگے نکل جاتا ہے اور بہت سارے اسی میں الجھ کر اپنی اور قوم کا بہت زیادہ نقصان کرجاتے ہیں۔ ہم دراصل ستائیس مارچ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ علمی عملی فکری اور نظریاتی سبھی بنیادوں پر ہم اس لمحے کے خلاف لڑرہے ہیں جس لمحے ہمیں ہماری آزادی سے محروم کردیاگیا، لیکن مسئلہ یہ ہے کیا ہم واقعی صرف اسی ستائیس مارچ کے خلاف لڑ رہے ہیں ؟ ہاں، جب کسی ایک بلوچ یا گروہی حوالے سے بلوچوں نے اس قبضہ گیریت کے لمحے کو بدلنے کی خاطر قبضے کے فورا بعد ہتھیار اٹھائے اور جنگ کی طبل بجا دی تو وہ خالصتا اسی لمحے کے خلاف ہی لڑرہے تھے، مگر جوں جوں تحریک نے زور پکڑی اور اپنے پیمانے و علاقے وسیع تر کرتی چلی گئی تو اس کے اندر موجود تضادات نے سر اٹھانا شروع کیا، اور ان تضادات سے ابھر کر سامنے والی پیچیدگیوں نے تحریک کے اندر موجود لوگوں کو ایک نئی صورتحال سے روشناس کرایا، یہ تضادات کا پورا گن چکر ہے جو آج اتنی قربانی و نقصان کے بعد بھی اپنی آب و تاب پر ہے،دیکھئیے ناں کتنی تشویشناک بات ہے کہ آپ بے دریغ خون بہا رہے ہیں سروں کی بلی چڑھا رہے ہیں لیکن اس پورے پروسیس میں جتنے بھی اونچ نیچ آتے ہیں ہم سے کوئی بھی شخص نیشنلزم اور پاپولزم کے بیچ موجود فرق کی بات نہیں کرنا چاہتا، کہاں ہم نیشنلزم کی کسوٹی سے پھسل کر پاپولزم کے دائرے میں قید ہوجاتے ہیں، کب ہمارا کوئی عمل پورے تحریک کے پائیداری کے بجائے زاتی پائیداری کے لیئے کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس پر کوئی بات نہیں کوئی رائے نہیں، ڈاکٹر مالک و حاصل بزنجو کو گالی دینا نیشنلزم کا بنیادی عنصر قرار پا چکا ہے، لوگ واہ واہ کریں گے چار لوگ تالیاں بجائیں گے اور مالک و حاصل اس پورے کہانی کا ولن ٹہر جائیں گے۔ آیا واقعی نیشنلزم کا بنیادی مباحثہ یہی ہے یا پھر عملی و مقصدی میلانات سے راہ فرار کے طور پر عوام کو وہ چیز یا سوچ پیش کی جارہی ہے جو اپنے اندر نہاہت ہی آسان، زود فہم اور شہرت پانے کا آسان ترین زریعہ ہے، یعنی علت و معلول پر کبھی بات ہی نہیں کی جاتی، ہر ہر واردات و عمل کو عمومی بنیادوں پر لے کر اس کو کبھی ڈی کنسٹرکت کرنے کی، لیڈر شپ، تنظیم یا منظم بنیادوں پر کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتی، وہ جو ماضی میں تحریک سے دغا کرکے اپنی راہ لے کر نکل گئے وہ تو سب کو معلوم ہے، اور آج وہی میلان و رجحان پھر سے کیوں برقرار ہے، مطلب وہی لوگ جو ہتھار بند تھے، تحریکوں کے روح رواں تھے، وہ درمیان سے راستہ نکالنے پر اکتفا کر بیٹھے، جو جان دینے پر فدا تھے انکے خواتین و بچوں کو دشمن نے جب ڈھال بنایا تو انکے حوصلے جواب دے گئے، اور وہ لوگ جو دشمن کے خلاف تادم مرگ لڑنے کی پرچار کررہے تھے وہی لوگ دشمن کے ساتھ مل گئے، جنہیں تحریک و قوم کا رہنما سمجھا جاتا تھا وہ ووٹ و نوٹ کی سیاست میں گر کر پارلیمنٹ میں مستقل سکونت اختیار کر گئے، وہ لوگ جنہیں یہ کہتے سنا جا سکتا تھا کہ قومی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے واسطے لازم ہے کہ اپنی زات کو درمیان سے نفی کیا جائے وہی لوگ پھر اپنی زات اور لمبی ناک سمیت تحریک میں شامل ہیں، آپ جس طرف قلم کو قرطاس پر گمھائیں انکی ناک آڑھے آہی جاتی ہے، مجھ پر تنقید کی، مجھے جھوٹا کیوں کہا، مجھے غلط کیوں پکارا، میری پالیسی و فیصلوں کو بے نتیجہ ظاہر کرنے کی کوشش کیوں کی، یہ جو مجھے، میرے، میں اور کیوں کا جو گردان مسلسل ہے اس میں اور مالک و مولابخش انحراف میں نیشنلزم کے خالص تشریح کے بنیادوں پر کوئی فرق نہیں ہاں البتہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے نیشنلزم کو پاپولزم سے آمیزش کرکے جس طرح اپنی مطلب کا نیشنلزم کا تشریح پیش کیا گیا ہے وہ نہ صرف غضب کی شہرت رکھتا ہے بلکہ قومی مفادات کو پرے پھینک کر یہ تشریح و انداز عام عوام میں خاصی حد تک معروف و مقبول بھی ہے، اگر یہی شہرت و بے عملی آپکا نیشنلزم ہے تو کم سے کم یہ نیشنلزم ہماری تشریح و سمجھ سے کوسوں دور ہے۔ ستائیس مارچ سے دو دن پہلے پچیس مارچ بھی آتا ہے، وہ دن جب بنگالیوں کی نسل کشی کا تیز ترین مہم اسی ریاست کے فوج نے شروع کررکھی تھی، اگر کچھ سیکھنا ہے تو بنگلادیشی تحریک کی تلخ و شیریں تجربات سے سیکھئیے، بعد از آذادی شیخ مجیب کی آمرانہ طرز و رویہ ہو یا پھرعوامی لیگ کی صورت میں ایک منظم سیاسی مزاحمت کی موجودگی ہو، اس سب میں ہزارہا اختلاف و الگ زمینی حقائق کے بہت ساری چیزیں راہنمائی کرنے کے لیئے موجود ہیں۔ ہمارے ہاں لاتعداد لوگ شہید ہوئے، ریاستی عقوبت خانوں میں لوگوں کو رکھنے کے لالے پڑے ہوئے، پے در پے آج بھی لوگ شہادت کا تاج بخوشی سر پر سجا رہے ہیں اور جو زمہ داران ہیں وہ محض سرخ سلام دے کر اپنی فرض منصبی سے آزاد ہونے پر مضر ہیں، لیکن سرخ سلام ہے کیا اور اس کی وقعت کیا ہے؟ کسی تنظیم کی طرف سے کسی شہید کو انکی شہادت پر سرخ سلام پیش کرنا ایک ایسا تحفہ ہے جو اسے باقی سب سے ممتاز بنا کر اسکو ایک مخصوص صف کھڑا کردیتی ہے اور اسکے خاندان والے اپنی ہونے والے اس بے وقت کے نقصان کے غم و آلام کو بھلا کر اسی سرخ سلام کو اپنے واسطے ایک تمغہ جرات سمجھ کر ساری عمر سینے سے لگا لیتے ہیں، یہ سب آزادی و غلامی کے درمیان اس چپقلش سے جڑی ہوئی ہے جو ستائیس مارچ کے دن کا دین ہے، لیکن آزادی کی خاطر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرجانا عمومی لحاظ سے آخری و اہم ترین تقاضا ہے، اگر کسی اہم ترین چیز کو روز کا معمول بنایا جائے تو اس میں وقعت کیا رہ جاتی ہے اور خود اس خٓندان کے لیئے اس شہادت کی کیا مقصد رہ جاتی ہوگی جہاں پسماندگان یہ بخوبی سمجھتے ہوں کہ اس طرح پے در پے ہونے والی شہادتیں آزادی کی اہم ترین و مقصدیت کے حصول سے زیادہ تنظیمی، سیاسی پالیسی، لیڈرشپ اور طریقہ کار و پالیسی و فیصلوں کی غلطیوں، کمزوریوں، سرد مہریوں اور بے عملیوں کا نتیجہ ہیں، ماضی میں جنگ کی شدت بھی تیز ہوتی تھی، دشمن بھی ہر دم تاک میں ہوتا تھا مگر شہادتیں شاز و نادر ہی وقوع پذیر ہوتی تھیں، اس وقت کی سرخ سلام کی اپنی ایک سیاسی و اخلاقی و بنیاد تھی، اس پر ایک غرور جیسا نفسیاتی احساس در آتا تھا، شہید ہونے والے کی وقعت اپنی جگہ کل بھی اتنی تھی اور آج بھی اسی طرح برقرار ہے، ایک دن میں ایک شہادت ہو، پانچ ہوں، پچاس ہوں یا پھر خدا نخواستہ پانچ سو ہوں، وہ سب ایک ہی انداز و مقدار میں اپنی لہو سرزمین کو دھان کر رخصت ہوجاتے ہیں، انکی وقعت و قیمت پر کوئی دو رائے نہیں، لیکن زمہ دار حلقوں کو آج سرخ سلام دینے سے زیادہ اس نقطے پر سوچنا چاہئیے کہ اس طرح تسلسل کے ساتھ بیش بہا و قیمتی جانوں کو گنواتے گنواتے کب تک سرخ سلام جیسی عظیم و نایاب بیانیئے کو پاپولر ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے؟ کیوں اس بہیمانہ انداز میں لوگ شہید کیئے جارہے ہیں، کیوں وہ ( لیڈرشپ) جنگی مزاحمت میں شامل لوگوں کو ایک بلند پایہ کے پالیسی و فیصلے اور سوچ و بچار سے بچا نہیں پا رہے ہیں، کل کی جنگی و سیاسی حجم و معیار اور آج کی جنگی و سیاسی کمزوری و بکھری سے کون واقف نہیں، کل جب جد و جہد دشمن پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے اپنی ایک بلند آہنگ رکھتی تھی تو اس سرخ سلام کی نوبت کیوں اس طرح مسلسل پیش نہ آتی تھی، کم از کم اب اس بیانئیے کے گردان کو کوئی نہیں مانتا کہ یہ سب جنگ کا حصہ ہے، بالکل شہادتیں جنگ و جد و جہد کا اٹوٹ انگ ہیں ، لیکن کیا کسی کا ضمیر اور شعور اس حوالے سے اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے کہ واقعی یہ آج کی پے در پے شہادتیں جنگی مقصد و بنیادی ضروریات کی وجہ سے ہورہی ہیں یا پھر کمزوریوں، خامیوں، لیڈر شپ کی غلط فیصلوں اور ان فیصلوں پر نظر ثانی نہ کرنے کی وجہ سے ہیں، اوپر ایک تصوراتی کہانی گڑی ہے، اس کو اگر کسی بھی تنظیم و گروہ سے ملا کر دیکھ لیں تو نتیجہ کیا آٗئیگا ؟ زمہ داری کس کی ہوگی، اور ان سب میں کون زیادہ دوشی قرار پائے گا، کیا جنگی ضرورتیں اتنی ہیں، اگر ہیں تو ان ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی مثبت نتیجہ بھی نکل رہا ہوگا، لیکن ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے ہم جد و جہد کے حوالے نقطہ معکوس کی طرف جارہے ہیں، اگر ہم جد و جہد کی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں اور نکلنے والا نتیجہ حوصلہ افزا نہیں تو سمجھ لیجیئے کہ گھاٹے کا سودا ہورہا ہے، یا پھر نیشنلزم کو پاپولزم سے جان بوجھ کر خلط ملط کیا جارہا ہے تاکہ خون کے اٹھتی پھوار سے کوئی اپنا قد کاٹی مزید اونچا کرسکے، کسی شہید کو سرخ سلام دینا انکے ساتھی کامریڈوں کی طرف سے انکی بیش بہا قربانیوں کا اعتراف ہے، خدا را اس سرخ سلام کی اہمیت کو اتنا مت گرائیے کہ لوگ اسے ایک سیاسی نعرے کی طرح لمحہ بھر کو بھی اثر نہ لے پائیں، اگر تحقیق و جستجو کی بجائے الٹا لٹھ لیکر ہم ہی پر حملہ کردیں ۔ کہ کیوں کہا، کس لیے کہا، اور یہ جرات کیسے کی تو اس سے بات نہیں بنے گی، البتہ مکالمے کی صورت اس امر کو مزید مخصوص دائروں کی طرف موڑا جا سکتا ہے کہ جس میں بات کو قطعیت کے ساتھ سامنے رکھا جاسکے۔ ستائیس مارچ ایک عہد ہے ایک یاد ہے، کہانی کو پلٹنے کے لیئے ہونے والے جد و جہد کا منبع یہی دن ہے، آزادی سے غلامی میں جانے کے ہزارہا وجوہات ہونگی اور پھر غلامی سے آذادی کی طرف بڑھنے کا مطلب ہوگا ان ہزارہا وجوہات کا قلع قمع کرنا، جنگ و جد و جہد میں اس طرح کی مہیب و خطرناک پیچیدگیوں کو تضادات میں الجھا کر جس طرح سے مزید پیچیدہ بنانے کی سعی کی جارہی ہے وہ تباہ کن ہوگی، ہر مسئلے اور ہر پالیسی و فیصلے پر نظر ثانی ہی واحد حل ہے آج کی اس معکوسیت سے متوازیت کی طرف آیا جائے جہاں خون کی انمول و بیش بہا قربانی نتائج کے ساتھ، ساتھ سفر کرسکے، کوئی مصلحت پسندی، کوئی انا پرستی، کسی طرح کی طبقاتی بیانیہ اور کوئی بھی گروہی تقدم اس تحریک کو منطقی منزل نہیں دے سکتا، اگر اس تحریک کو کوئی شئے منزل دے سکتی ہے تو وہ ہے سیاسی بالیدگی، بہتر فیصلے اور ماضی کے تجربات اور زمینی حقائق پر مبنی سیاسی یگانگت، باقی اگر اسی طرح لہو کا بہتی پھوار اور سرخ سلام کا گردان تسلسل سے جاری رہے تو یقین مانئیے یہ ستائیس مارچ کی کہانی کو پلٹا دینے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ (خاکم بدہن)