بلوچوں اور پاکستان کا بلوچستان کے الحاق بارے ہمیشہ دو متضاد رائے رہے ہیں بلوچ شروع سے اسے جبری الحاق اور اپنی سرزمین پر قبضہ کہتے آئے ہیں جبکہ پاکستان نے ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان نے اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی ہے اس سے پہلے کہ ان دونوں متضاد باتوں کاجائزہ لیں کہ بلوچ کے اس بات کو پاکستان ہمیشہ کیوں ماننے تیار نہیں کہ اُس پر قبضہ کیا گیا اور اس بات کو ماننے سے پاکستان کا کیا جائیگا کہ جس نے ویسے بھی بلوچستان پر قبضہ کیا ہوا ہے اور بلوچ کیوں اسکے برعکس مو قف پر ڈٹا ہوا ہے ؟
بلوچستان کے آزادی کی تیاریاں اور اعلان آزادی : اسے بلوچ کی بدنصیبی کہیے کہ اُس کی آزادی برطانیہ و ہندوستان کے خوف کی بھینٹ چڑھ گئی جوپاکستان کیلئے بمپر پرائز ثابت ہوا۔ ہندوستان نے برطانیہ کے کسی بھی بہانے اس خطے میں رُکنے کے امکان کے بجائے بلوچستان پرپاکستانی قبضہ کو بہتر جانا جبکہ برطانیہ سوویت یونین کے خوف سے بلوچستان کوآزاد چھوڑ کر جانے کیلئے آمادہ نہیں تھا حالانکہ انگریزوں نے خان قلات کے ساتھ اپنا پہلا معائدہ 1839 سے لیکرآخری معاہدہ 1876 تک کے تمام معائدات میں اس بات کوتسلیم کیا اور ہربار اس بات کی توثیق کی گئی کہ برطانیہ کے یہاں سے جانے کے بعد بلوچستان مکمل طور پرآزاد ہوگا اور انگریز سرکار کے دوراں ساری زمینیں جو مختلف معائدات کی رو سے الگ کی گئی ہیں وہ تمام واگذار ہوں گے۔
اسی دلیل کی بنیادپرخان قلات نے مارچ 1946 میں کیبنٹ مشن کے سامنے پہلا میمورنڈم پیش کیاجس میں لسبیلہ ،خاران اور مری بگٹی قبائلی علاقوں کو واپس قلات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیاتھا جنکی گارنٹی مذکورہ معائدات میں دی گئی تھی ۔
جبکہ دوسرے میمورنڈم میں تاج برطانیہ کو دیئے گئے مستجار علاقوں کوئٹہ ،نوشکی اور نصیر آباد کے واپسی کا مطالبہ کیا گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ خان کے تمام مطالبات اس کے وکیل محمدعلی جناح اورآئی آئی چندریگر ، سر سلطان آحمد اور سر والٹر مانگٹن نے برطانیہ سے منوائے جو آزادی بلوچستان کے اعلان سے سات دن قبل 4،اگست کی تاریخی میٹنگ میں مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں سامنے آیا جس کے مندرجات کچھ یوں تھے :
1،حکومت پاکستان ،قلات کو ایک آزاد خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے جس کے معائداتی تعلقات حکومت برطانیہ سے براہ راست رہے ہیں جس کا منصب ومرتبہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے مختلف ہے ۔
2، قلات اور پاکستان کے درمیان دفاع ،امورخارجہ ،مواصلات کے متعلق دوستانہ ماحول میں فیصلہ کن مذاکرات کسی قریبی تاریخوں میں کراچی میں کئے جائیں گے۔
3، اس امر کیلئے قانونی رائے حاصل کی جائے گی کہ آیاوہ معائدات و اجارات جو برطانوی حکومت اور ریاست قلات کے درمیان ہیں حکومت پاکستان کو ورثہ میں مل سکتے ہیں یا نہیں
ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم بات بلوچستان کے خود مختاری کو تسلیم کرنا تھا باقی دونوں باتوں دفاع،امورخارجہ اور مواصلات بارے پاکستان سے بات چیت یا معائدات کرنا اور پاکستان کو برطانیہ کا وارث ثابت کرکے اُس کا بلوچستان پر حق جتانا بے بنیاد اور غیر اہم باتیں تھیں تاہم خان قلات کو علم تھا کہ اُس کا وطن گذشتہ سو برسوں میں ٹکڑوں میں تقسیم کرکے داخلی مشکلات کا شکار کیا جاچکاہے جوکسی بھی بیرونی دباؤ کابوجھ برداشت نہیں کرسکتا اس لئے اُس نے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے دونوں اسمبلیوں( ایوان بالا و ایوان زیریں )کا انتخاب کرایا تاکہ کسی بھی مسلے میں عوامی رائے کو اپنے لئے معاون و مددگا رثابت کیا جاسکے ۔اس وقت جب خان اپنی آزادی کی قانونی جنگ لڑ رہاتھا اُس وقت بلوچستان کا سیاسی نقشہ کچھ یوں بکھراہواتھا
ا۔ ریاستی بلوچستان : یہ آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھا اس کا صدر مقام قلات تھا ۔آئینی طور پر اس میں درج ذیل علاقے تھے
ا۔ریاست قلات بشمول خاران ومکران،جھالاوان و ساراوان،ضلع سبی کے بلوچ علاقے
ب۔ لسبیلہ
ت۔ بلوچ قبائلی علاقہ جات: ( مری،بگٹی،کھیتران،سنجرانی،بشمول چاغی)
ث۔ مستجار علاقے:( یہ وہ علاقے ہیں جو ریاست قلات کا حصہ تھے لیکن حکومت برطانیہ نے انکو معائدات کے تحت اجارہ پر حاصل کیا تھا۔انتقال اقتدار 1947کے تحت یہ علاقے ریاستی بلوچستان کو منتقل کئے جانے تھے ۔ان علاقوں میں تحصیل کوئٹہ ،نیابت نصیر آباد،نوشکی اور بولان وغیرہ شامل تھے)
ٹ۔ ضلع ڈیرہ غازی خان :سے منسلک بلوچ قبائلی علاقہ جات حکومت برطانوی ہند نے ان علاقوں کو آئینی طور پر ریاستی بلوچستان کا حصہ سمجھا ۔گورنر پنجاب بحیثیت ایجنٹ گورنر جنرل ان علاقوں کے مقامی امور کازمہ دار تھا۔آئینی طور پر یہ علاقہ جات صوبہ پنجاب کا حصہ نہ تھا۔ بلکہ برطانوی ہند کے امور خارجہ و پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت شمار کئے جاتے تھے۔
لارڈکرزن جب 1901میں پنجاب کے دریائے سندھ کے مغربی سرحدی صوبہ کا قیام عمل میں لائے تو اُنھوں نے اس موقع پر رائے کا اظہار کیا تھا کہ بتدریج ضلع ڈیرہ غازی خان کو بلوچستان میں منتقل کردیا جائے گا کیونکہ ضلع ڈیرہ غازی خان وغیرہ ثقافتی ،تاریخی اور جغرافیائی طور پر بلوچستان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔
ان کے علاوہ برٹش افغانستان کے علاقہ جات چمن ،گلستان،پشین،شاہرگ، ژوب اور لورلائی (ماسوائے کھیتران ) وغیرہ بھی امیر کابل کے علاقے سمجھے جاتے تھے جن کو دوسری انگلوافغان جنگ کے بعد معائدہ گنڈمک 1879ء کے تحت امیر افغانستان سے جبراًحاصل کرکے افغانستان سے الگ کیا گیا اور برطانوی امپائر کاحصہ سمجھے جانے لگے ۔اس کی بیشتر آبادی پشتون قبائل پر مشتمل ہے اور یہ علاقہ 9476مربع میل پر مشتمل ہے برٹش بلوچستان کا حصہ بنائے گئے جو برطانوی ہند کا چیف کمشنری صوبہ کہلاتا تھا ۔جو کہ 1947ء کو ایک نمائشی اور غیرقانونی ریفرنڈم کے تحت پاکستان کا حصہ بنا یا گیا۔یہ ریفرنڈم اس لئے نمائشی و غیر قانونی تھا کیونکہ اس ریفرنڈم اور خان سے مستجار لیئے ہوئے علاقوں کے بارے میں نہ خان کو اعتماد میں لیا گیااور نہ افغانستان کی رائے جاننے کی ضرورت محسوس کی گئی۔کیونکہ اس بات فیصلہ کرنا ابھی باقی تھا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد پاکستان ہی اُس کا والی وارث ہے اور اُس کی اس حیثیت کو ہمسایہ قبول کریں گے بھی کہ نہیں۔ ریفرنڈم میں رائے دینے والوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی کہ وہ پاکستان یا ہندوستان کے بجائے اپنے ہی بلوچستان کا حصہ بننے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔گویا بلوچستان پر قبضہ کا پروگرام شروع سے پاکستانی قیادت اور برطانیہ کے منصوبہ کا حصہ تھا جو اُسے ٹکڑوں میں کاٹ کر اُس کی وحدت کو ایسے وقت پارہ پارہ کررہے تھے جس وقت نہ اُن کے پاس قانونی جواز تھا نہ اخلاقی ۔ستمبر و اکتوبر 1947کو برطانوی حکومت نے اپنے ہائی کمشنر متعینہ کراچی سر لاورینس جریفٹی سمتھ(Sir Laurence Grafftey-Smith (1947-1951)) کو ہدایت کی کہ وہ حکومت پاکستان پر زور دے کہ ریاستی بلوچستان کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے بجائے اس کا الحاق کرائے ۔برطانیہ کی طرف سے حوصلہ افزائی و پشت پناہی ملنے کے بعد پاکستانی حکام کی طرف سے اس کام میں اس حد تک عجلت کا مظاہرہ کیا گیا کہ 4 اگست 1947 کو دلی میں طے شدہ معائدے کو بھی یکسر نظرانداز کیا گیا اور ساتھ میں اُن معائدات سے روگردانی کا جوازبھی فراہم نہیں کیاگیا جو انگریز اور بلوچ خان کے درمیان طے پائے تھے جس میں بلوچستان کی سالمیت کو ہمیشہ مقدم سمجھا گیا تھا ۔اور نہ اس بات کی وضاحت کی گئی کہ بلوچستان کا ایک ٹکڑا کیونکر اپنے دوسرے حصے سے ملنے کے بجائے ایسے ممالک میں کسی ایک کے ساتھ الحاق کرے جن کے ساتھ اُس کا کوئی بھی چیز مشترک نہیں( مذہب کامشترک ہونااس لئے زیر بحث نہیں کہ ہمسایوں میں ایران و افغانستان بھی مسلمان مملکتیں تھیں اُن پر یہ فارمولہ کیوں نہیں آزمایا گیا) ۔
بلوچ سیاسی قیادت شروع سے پشتونوں کیلئے نیک جذبات رکھتے تھے اس لئے پہلی آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس جو 27 دسمبر 1932کو منعقد ہوا اسکی صدارت خان عبدالصمدخان اچکزئی نے کی اس میں برٹش بلوچستان کے علاوہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے نمائندے بھی شریک ہوئے ۔کانفرنس کا مطالبہ بلوچستان کا اتحاد اور تمام بلوچ علاقوں کو پھر سے ملانا تھا جو انگریز نے مختلف ادوار میں مختلف معائدات کے زریعے اُس سے الگ کیئے تھے۔اس وقت تک افغانستان سے جبراً علیحدہ کئے گئے پشتون قیادت اپنے آپ کو بڑے بلوچستان کا حصہ سمجھ کر اس کی یونٹی کیلئے شریک رہی لیکن بعد میں خان عبدالصمد خان نے اپنا نظریہ بدل دیا اور اُس کوشش میں جُت گیا کہ کس طرح برٹش بلوچستان کو باقی بلوچستان سے غیرفطری طور پر الگ رکھا جائے ۔ آج بھی اُس کے جانشین خاص کر محمود خان اچکزئی صاحب اکثر برٹش بلوچستان کو باقی بلوچستان سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ افغانستان سے الگ کرکے یہاں لائے گئے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ برٹش بلوچستان کے لیز میں لینے کا معائدہ خان قلات سے کیا گیا تھا نہ کہ افغانستان یاایران کیساتھ ۔اگر برٹش بلوچستان قلات کا نہ ہوتا تو انگریز اُس سے کیونکر معائدہ کرتا ؟ اور کیونکر اُس کا سالانہ ٹیکس بھرتا ؟ یہاں ایک اور چیز بہت ہی دلچسپ ہے کہ خان محمود خان اچکزئی انگریز کواستعمار کہتا ہے اُس کے تمام معائدات کو غلط اور انگریز کے بد نیتی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے مگراُن کے برٹش بلوچستان کی تشکیل پر بڑے سرشاری سے باتیں کرکے اُس کے بحالی اور خان قلات سے اُس کی لاتعلقی پر جم کر خودساختہ دلائل دیتا ہے ۔
خان قلات جس نے داخلی کشمکش کی وجہ سے اپنے وطن کا ایک بڑا حصہ ایران اور افغانستان کے درمیان تقسیم ہوکر گنوایا تھا تمام کی واگذاری کا خواب دیکھ رہا تھا جو انگریز کے آنے اور افغانستان کے مملکت کی تشکیل سے پہلے خان عبداللہ خان (1714-1734)کے ہاتھوں اُس کی ریاستی تشکیل مکمل ہو چکی تھی جس میں مغربی بلوچستان (ایرانی زیر تسلط )گمباران( بندرعباس)تک ،افغانی (افغانستان میں شامل بلوچ علاقے ) ہلمند تک اور بلوچستان بشمول خان گڑھ (جیکب آباد) و ڈیرہ جات شامل تھے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہونے والا تھا کیونکہ بلوچستان کی آزادی سے پہلے اُسے پھر جھکڑنے کا منصوبہ تیار ہوچکا تھا جس کے تحت آہستہ آہستہ اُن تمام علاقوں پر قبضہ کیا گیا جو ہر لحاظ سے بلوچستان کا اٹوٹ انگ تھے۔ ریاست خاران، ریاست لسبیلہ اور قلات کا صوبہ مکران کو پہلے ملک تسلیم کرنا اور پھر اُن سے پاکستان کے ساتھ الحا ق کااعلان کروانادنیا کے تمام قوانین کے برخلاف ایک گھناؤنے مذاق کے سوا کچھ نہیں تھا مگر یہ مذاق بلوچ کے ساتھ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ انگریز نے اپنے دور حکومت میں لڑاو اور حکومت کرو پالیسی کے تحت بلوچ قوم کو داخلی طور پر ایسے تقسیم در تقسیم کا شکار کیا تھا کہ وہ کسی بھی مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔
اپنے وجود کو ٹکڑوں میں تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جھکڑتے دیکھ کربھی بلوچ قیادت سوائے صدائے احتجاج کے اور کچھ نہیں کرسکا جس کی زندہ مثالیں بلوچستان کے دونوں ایوانوں میں بلوچستان کی آزادی کے حق میں دلائل ہیں جن میں پاکستان کے ساتھ الحاق کو یکسر مسترد کیا گیا ۔27 مارچ 1948ء کو قلات پر چڑھائی اور خان سے بزور دستخط لینا اُس تمام تسلسل کا اختتام تھا جو بلوچستان کو غیرقانونی طور پر اپنے استعماری مقاصد کیلئے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے قسطوں میں نگلنے کا اہتمام کیا گیاتھا جو اختتام پذیر ہوا ۔
لیکن کچھ بلوچ دوست اس برطانوی وپاکستانی مشترکہ سازش کو بلوچ کی رضا مندی کہتے ہیں جو کسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ اگر یہ موقف بلوچ کے حق میں ہوتا تو پاکستان کسی طرح بھی یہ موقف نہیں اپناتا ۔پاکستانی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ ان دونوں تشریحات میں کتنا فرق ہے اگر آپ بلوچستان کے بعض علاقوں (وہ تو سب کو بخوشی الحاق کہتا ہے) کے پاکستان کے ساتھ الحاق کواپنی رضا و رغبت تسلیم کرتے ہیں تو اس سے آپ نادانستہ طور پر انگریز کے استعماری تقسیمات کو تسلیم کرتے ہیں جو اس نے آپ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اپنی حاکمیت کو دوام دینے مختلف ادوار میں کیئے تھے ۔مگر جب انگریز یہاں سے نکل گیا تواس کا مطلب ہے کہ آپ خود بخود جیت گئے جو اپنی سرزمین پر رہے اور وہ اپنی بیگانگی اور لاتعلقی تسلیم کرکے نکل گیا ۔کیا آپ ایسے لاتعلق و غیر کے تقسیم کو قبول کریں گے جس نے اپنے نکلنے سے آپ کے حقیقت ہونے کا ثبوت دیاہو۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ پاکستان کے ساتھ شمولیت کو کسی بھی سطح پرقومی رضا مندی سے تعبیر کریں گے اس سے آپ اُس کے حق شراکت داری کو تسلیم کرتے ہیں جو کہ ایسا نہیں ہے ۔اس صورت میں اگر آپ اس سے جان خلاصی چاہیں تو آزادی نہیں علیحدگی کہلاتا جس کی دنیا میں کہیں بھی حمایت نہیں کی جاتی جبکہ اس کے برعکس اگر آپ انگریز اور پاکستان کے تمام معائدات کو اپنے قوم کی تقسیم اور اس کی وحدت کو توڑنا کہہ کر اُنھیں رد کرکے اپنی آزاد حیثیت کیلئے جدوجہد کریں گے تو آپ آزادی پسند کہلائیں گے اور آپ کے جدوجہد کی پوری دنیا قدر کرے گی پہلے میں اگر آپ دہشتگرد کہلاوگے تو دوسرے میں آزادی پسند ۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیا ہمارے آزادی پسنددوست پاکستان کے نامزد کردہ مری وبگٹی ودیگرسردار نوابوں کے پروپاکستانی فیصلوں کو تسلیم کریں گے ؟ یقیناً نہیں کیونکہ جب وہ اُن کے قانونی حیثیت کو نہیں مانتے تو اُنکے احکامات کو کیونکر تسلیم کریں گے ۔ ہم اگر ایک قبیلے کے معاملات میں دشمن کے مداخلت اور اُس کی پشت پناہی میں اُس کی خواہشات کے مطابق فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے تو کیوں اپنے وسیع و عریض و دنیا کے دولتمند سرزمین اور قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے فیصلوں کوتسلیم کرکے اُس کے جبری قبضہ کو قانونی جواز فراہم کریں ۔ جس کیلئے وہ ہمارے لاشوں کا مینار بنانے سے بھی نہیں کترارہاہے۔