ہمگام کالم پاکستان میں خود فوج سے بڑھکر کوئی الٹرا رائیٹ نہیں ہے، سب بڑا دایاں بازو خود فوج ہی ہے اور اسکے کئی ذیلی و دست نگر پالتو لے پالک لوگ پارٹیاں گروہ اور تنظیمیں وجود رکھتی ہیں، وہ مذہبی بھی ہیں، جرائم کے دنا کے سرغنہ بھی ہیں، منشیات فروش و سماجی غنڈے بھی ہیں، پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں، یونیورسٹیز و دانشگاہوں کے فارغ التحصیل اور پڑھانے والے پرفیسرز بھی ہیں، صحافتی برادری و وکلاء بھی اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈالتے جاتے ہیں، غرض کہ جو جو لوگ پاکستان کے اس انتہائی دائیں بازو کے نظریات و سوچ سے کماحقہ اتفاق رکھتی ہیں تو اسے استعمال میں لانے کے فوج کے پاس کئی طریقے، مقام و مواقع موجود ہیں، اگر کوئی اس انتہائی دائیں بازو جیسی نظریات کے حامل فوج کے کہی ہوئی باتوں، بتائی ہوئی نظریات اور کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا ادھر اُدھر ہوجائے تو اسکے خلاف استعمال کریں، اگر کوئی اپنا جائز آئینی، شہری و انسانی حقوق کا تقاضا کرے تو اسکے خلاف بھی، اگر کوئی پارٹی یا گروہ اسی آئین کے تحت انتخابات میں حصے لے لیکن فوج کی نظریات کے برعکس کام کرنے لگے یا پھر کچھ قوت پکڑ لے تو اسکے خلاف ریشہ دوانیاں بھی اپنی ہی ایک تاریخ رکھتی ہیں، کوئی انکی ناکامیوں کی حقیقت پر لکھے تو انکا بھی خیر نہیں، اور اگر بلوچ کی طرح کوئی آذادی کی بات کرے تو پھر تو قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنا اس الٹرا رائیٹسٹ فوج کی بقول و بہ یقین انکے مذہبی، قومی و انسانی فریضہ بن جاتا ہے، لیکن ان تمام چیزوں میں جو شئے مشترک ہے وہ ہے انکا بیانیہ، وہ یہ یقیقن رکھتے ہیں اور لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حق مانگنے والا، جلسہ جلوس کرنے والا، نعرہ لگانے والا اگر فوج کی کھینچی ہوئی لکیر سے اس پار ہے تو سمجھ جائیے کہ وہ مخاصمت پر مبنی اور دشمنوں کی پروردہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، ابھی جب پشتون تحفظ مومنٹ کی طرف سے فوج خاصکر خفیہ ایجنسیوں کے خلاف جو واویلا مچا ہے وہ صرف واویلا نہیں ہے بلکہ اپنے پیچھے بہت سارے ناقابل تردید ثبوت رکھتی ہے او ان ثبوتوں کو تاریخی حقیقتوں کا پھرپور امداد حاصل ہے، منظور پشتین نے اپنے انٹریوز و تقاریر میں بعض اوقات نصیر اللہ بابر اورامیر سلطان طرار المعروف کرنل امام کا بھی حوالہ دیا ہے کہ وہ اپنے ہی حیات میں اس چیز کا بڑے مان و غرور سے تذکرہ کرچکے ہیں کہ وہ کس طرح طالبان کو سویت کے خلاف لڑنے کے واسطے تخلیق کرچکے ہیں اور حمید گل کا بھی ذکر موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے طالبان کو منظم ہونے، انہیں امریکی امداد و ہتھیار حاصل کرنے، اقتدار قبضہ جمانے اور افغان سرمین پر کشت و خون کا بازار گرم کرنے میں مدد دی، دوسری طرف بلوچوں کے حوالے سے مشرف سے لیکر عبیداللہ خٹک اور دیگر ماضی قریب کے فوجی دمام قوت سمھبالنے والے لوگوں کے انٹریوز اور تقاریر موجود ہیں کہ کس طرح یہ اقرار کرتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی میں عمدا یا بالواسطہ طور پر شریک رہے ہیں، مگر جو بیانیہ ہے وہ یہی ہے کہ ” امریکہ۔ اسرائیل، انڈیا اور آجکل افغانستان کے خفیہ ایجنسیاں ان سب تحریکوں، جلسوں، ہڑتالوں اور احتجاج کے پیچھے امداد فراہم کررہے ہیں، یعنی کے داخلی معاملات میں کوئی پریشانی کی بات ہی بلکہ یہ زرخرید لوگ ہیں اور بیرونی ایجنڈوں پر کاربند ہیں، یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ جب سے یہ ملک وجود میں آیا تب سے اس طرح کے الزامات اور بیانیے کا سلسلہ جاری ہے، جو جو مقتدرہ قوتوں کے آمکھوں میں کانٹا بن کر چھبا تو اسے اسی الزام کے تحت معزول و مجبور کیا گیا، ماضی میں امریکہ و افغانستان کی جگہ روسی سرخوں کو لعن طعن کیا جاتا تھا اب ان توپوں کا رخ امریکہ افغانستان کی طرف ہے باقی اسرائیل و انڈیا تو سرے سے ہی موجود ہیں اور ان میں مذہبی انگیخت کی ایک نہاہت ہی قابل عمل عنصر ہے، اسرائیل سے کلی طور پر مسلم نفرتوں کی بنیاد پر اور انڈیا سے ہندو ازم اور سرحدی تنازعات و تاریخی حوالوں سے اس نفرت کو باقائدہ ابھارا گیا ہے، کیونکہ اس نعرے میں ایک کشش ہے، اور بآسانی لوگوں کے دلوں میں ان دونوں ملکوں کے خلاف نفرت کی سوچ جگہ پاسکتی ہے سو ہر معترض کی قسمت انڈیا یا اسرائیلی کی ایجنٹ ہونا ٹہر گیا ہے، ابھی موجودہ عرصے میں یہ بہتان بازیوں کا رخ پشتون تحفظ مومنٹ اور اسکے روح رواں منظور پشتین کی طرف موڑا گیا ہے، بلوچ تو یہ سہرا روز اول سے اپنے سر باندھے میدان میں کھڑی ہے، ویسے بھی اسکے علاوہ پاکستانی فوج اور اسکے چھاتہ بردار لوگ اور گروہ اس بہتان طرازیوں کے حوالے خاصی شہرت رکھتے ہیں، کوئی بھی مسئلہ، تنازعہ یا تحفظات ہوں تو وہ مسئلہ ان کے نزدیک داخلی ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہ فنڈڈ ہے اور بیرونی قوتوں کی ایما پر ملک کو بدنام و کمزور کرنے کے لیئے کیا جارہا ہے اور یہ حقوق مانگنے والے، احتجاج کرنے والے اور نعرے بازی کرنے والے لوگ ہمیشہ مٹھی بھر ہی کہے اور پکارے جاتے ہیں اسکی وجہ کیا ہے، چونکہ پاکستانی فوج بزعم خود اپنے آپکو اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی تن تنہا محافظ سمجھتی چلی آرہی ہے سو اسکے نزدیک اسکی پالیسیاں جو بھی ہیں وہ نہ صرف نا قابل تنقید ہیں بلکہ ان میں اصلاحات کی بات کرنے والے اور ان پالیسیوں کو بدلنے کی باتیں کرنے والے سبھی لوگ چاہے وہ پنجابی ہوں یا پشتون، بلوچ اور سندھی تو خیر اس حوالے سے نہ تین میں آتے ہیں اور نہ ہی تہرہ میں، وہ سب کے سب ملک دشمن اور غدار ہیں، سو طاقت کی ایک گھمنڈ اور غلط فہمیوں پر مبنی ایک تفاخر ہے جو ہر مسئلے کو اپنے ہی نقاط و شرائط پر حل کرنا چاہتی ہےاور اس پر طرہ یہ کہ فوج اور اسکے ادارے ہر مسئلے کو لاٹھی اور بندوق سے حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ہر چیز کا حل صرف اپنے آپ میں اور اپنے گروہ یا سرکل میں اور اپنی ہی تشریح کردہ فکر و پالیسیوں کی روشنی میں ڈھونڈنے کی بیماری کچھ انوکھی بھی نہیں ہے، یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، احساس برتری اور آپنے آپ سے آگے نہ دیکھنے اور نہ سمجھنے کی بیماری ہے، یہ لوگ اپنے جھوٹ کو مسلمہ سچائیوں کی یقین کی حد تک بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں سامنے والے اس بات کو من و عن تسلیم بھی کریں گے، کیونکہ وہ اپنی قربانیوں کے زعم میں ہمیشہ مبتلہ رہتے ہیں، ان کو انکی غلط پالیسیوں، جھوٹی باتوں، ظلم و جبر و انصافیوں اور ہٹ دھرمیوں کی اگر یاد دہانی کرائی جائے تو وہ برملا اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ شہداء کے خون کے ساتھ نا انصافی و غداری ہے اور انکے کاوشوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے، لیکن شہداء اور قربانیاں ایک ادارے یا تنظیم و پارٹی کے لئیے نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک قوم اور ملک کے واسطے ہوتے ہیں، وہ سمھتے ہیں کہ ہماری قربانیاں کسی اور کی دکھ درد سے کہیں بڑھکر ہیں، یہ محض پاکستانی فوج کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر وہ جگہ جہاں طاقت کو کامل سیاسی شعور کی راہبری حاصل نہ ہو گھمنڈ کا یہی عالم دکھائی دیگا، یہ کسی فوج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ طاقت کی وہ نفسیاتی پہلو ہے جسکی جڑوں میں کبھی شعور کی پانی گئی ہی نہ ہو، گناہ و بے گناہ سب کے سب ایک ترازو میں تولے جاتے ہیں، کہیں طاقت کا اظہار مقصود ہے تو کہیں عسکری سرگرمیوں کا بحال رہنا، کسی کا بچہ اغوا ہوا، مارا گیا، غائب کیا گیا، اسکی لاش مسخ ہوئی، سڑک کنارے گولیوں سے چھلنی کی گئی، طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، عورتوں کو بے توقیر کیا گیا، زندانوں میں ڈالا گیا اور مار دیا گیا، بچوں کی مسقبل کو خراب کیا گیا، جائیداد کاروبار، مال و ملکت تعلیم سماج اور ادارے سب کے سب تباہ ہوکر نیلام ہوئے اور پیچھے رہ گئی ہیں محض کچھ جذبات جو نفرت کے پانی سے سینچے ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت پھٹنے کے لیئے بالکل تیار ہیں، جب وہی نفرت کا لاوا پھٹ جاتا ہے تو بجائے چیزوں کو بہتر بنانے کے یہ لوگ اپنی طاقت کے نشے میں مزید ایسی حماقتیں کرتے ہیں اور لوگوں کا غصہ انکے خلاف بڑھتا چلا جاتا ہے، اور انکو انکی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ انکے پاس بے تحاشہ پروانے ہیں، غداری کے پروانے، دشمنی کے پروانے، سازشی ہونے کے پروانے، مفاد پرستی کے پروانے وہ کوئی نہ کوئی پروانہ جاری کیئے دیتے ہیں کہ بھائی امن امان ہے، خوشحالی ہے، سب ہنستے کھیلتے اپنی زندگی میں مگن ہیں، سب جگہ ہریالی ہے، اپنی پالیسیوں کے بدولت ہم مستقل بنیادوں پر آگے کی طرف بڑتھے جارہے ہیں، دشمن کی کمر ٹوٹ گئی ہے، سو ان مٹھی بھر عناصر کو ہماری کامیابی اور مستقل ترقی کٹھکتی ہے، یہ نہیں چاہتے کہ ہم آگے بڑھ سکیں سو رکاوٹ ڈال رہے ہیں، یہ بیانیہ ہم عشروں سے پاکستانی فوج کی طرف سے سنتے اور تجربات سے گزرتے آرہے ہیں۔ انداززہ کرو کہ کسی کا بیٹا غائب ہے، وہ ریاست کی عقوبت خانوں میں ہے، پیچھے جب انہی عقوبت خانوں سے چوٹ کر آنے والے کچھ خوش قسمت لوگ جو بپتا سناتے ہیں تو روح کانپ اٹھتی ہے، تشدد وہ کہ انسان اپنے چشم تصور میں بھی نہ لاسکے، اگر وہ مسلسل اسی ازیت میں جیئیں اور روز اپنے بیٹے کا راہ تکتے رہیں تو کیا انکے دل میں کسی بھی ریاست یا ریاست جیسے بندوبست کے واسطے رتی برابر بھی پیار مان اور عزت رہ جائیگی، لاشوں کی مسخ شدہ تصویریں، روز روز کی خوف و حراس اور بے توقیری، مال و دولت سمیت جان و عصمت لٹ جانے کا ڈر اگر ہمیشہ سر پر سوار ہو تو کیا کسی ایسی ریاست کی کوئی عزت یا توقیر کسی کے دل میں باقی رہ پائیگی، اور جو ڈر قائم کی جاتی ہے وہ ہر ظلم و جبر کے گزرتے لمحات کے ساتھ کافور ہوتی چلی جاتی ہے، بلوچ تو خیر ہے ہی نہیں اس ریاست کی لیکن دوسرے لوگ جو اسی ریاستی بندوبست میں اپنی مسقبل تلاشتے ہیں انکی اس بیچارگی کی تصویر کبھی اگر ملاحظہ کرو تو سمجھ آجائیگی کہ روز ان کے گھر ماتم بچھتی ہے، نیاز بٹتا ہے، فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور روز بیچارگی کے قبر پر پھول چڑھائے جاتے ہیں، مگر لاش غائب ہے اور یہ سب اندوہناک لمحے غائبانہ ہوتے ہیں، لیکن ان سب سے بے نیاز لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ بالکل صحیح کررہے ہیں، باقی جو غلط ہورہا ہے وہ یا تو انڈیا کررہا ہے، یا پھر اسرائیل ہوگا جو دخل در معقولات سے باز نہیں آرہا، اب تو امریکہ و افغانستان بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں، تو ہو نہ ہو انہی کی کارستانیوں کی پھل ہے وگر نہ ہم بھلا کیوں کوئی ایسا عمل سرانجام دینگے جس سے ہماری ہی بدنامی ہو اور ہماری قوم کو دکھ جھیلنے پڑیں، ایک انکار کی کیفیت ہے، خود اپنے آپ کی ہوئی ان تمام حرکتوں سے انکار، جو اگر قبول کئیے جائیں تو سارے آپکے خلاف ہیں مگر پالیسی پلان کے حوالے سے آپ انکو رو بہ عمل لانے کو انتہائی مفید سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ پالیسی ہی اس امر پر منحصر ہے کہ آپ اپنے آپ کو عقل کل، قومی مفادعامہ کی واحد زمہ دار اور انتہا درجے کا طاقتور سمجھیں، جو در حقیقت انتہا اور پرلے درجے کی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ بلوچوں میں بھی بحیثیت ایک غلام قوم اور اسی غلامی کے خلاف برسرپیکار ہونے کے لحاظ سے اپنے اندر طاقت کے کئی کوریڈورزموجود ہیں، انہی طاقت کے پرتوں کے کئی جہات ہیں، ایک جنگ جاری ہے غلامی کے خلاف، چونکہ اس جنگ میں قوت ایک جگہ پر جمع ہونے کے بجائے مختلف جہتوں اور پرتوں میں بٹی ہوئی ہے تو اس میں یہ ہوا ہے کہ طاقت کے ان پرتوں کا رخ بھی رفتہ رفتہ مختلف جہات و ترجیحات کے حوالے مڑ گیا ہے یا پھر موڑا گیا ہے، اوپر جیسے عرض کیا تھا کہ پاکستان فوج کے پاس کئی طرح کے فالتو و لے پالک لوگ و گروہ موجود ہیں، ان کی بہترے شاخیں بلوچستان کی مختلف وادیوں و علاقوں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں، ان میں منشیات فروش، غنڈے لپاڑے، مذہبی انتہا پسند المعروف پاکستانی تخلیق کردہ ڈیتھ اسکواڈ، پارلیمانی پارٹیوں کے پالے ہوئے بندوق بردار گروہ اور قبائلی بنیادوں پر مسلح پاکستانی حمایت یافتہ لوگ سبھی شامل ہیں، وہ ایک طرح کی اعانت و معاونت کا کام کرتے ہیں پاکستانی فوج کے لیئے بلاواسطہ اور ہمارے کچھ عسکری گروہوں کے لیئے بالواسطہ، مطلب جو شئے آپکی قوت بازو سے زیادہ وزن رکھتی ہو اور آپ اس کام کو سرانجام بھی دینا چاہتے ہوں تو کارگزاری کے بعد اسکو کسی ایک آزادی مخالف گروہ یا تنظیم کے کھاتے میں ڈٓال دو، مثلا اگر کوئی بلوچ کسی غلط وجہ سے انہی ہاتھوں مارا جائے تو اسے مذہبی و ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی کارستانی کہہ کر عوام سے داد بھی بٹور لو اور خود بھی صاف شفاف بن جاؤ، چونکہ ہمارے ہاں، شفیق مینگل ہیں، مقبول و بجار سمیت شمبے زئی برادران ہیں، شاہ میر بزنجو ہیں، ملا عمر، ملا برکت ، ذکریا محمد حسنی، علی حیدر اور ثنااللہ زہری کے قبائلی بندوق بردار ہیں، کئی بار تو مسلح دفاع اور اسلامک اسٹیٹ اور لشکر خراساں کا نام بھی شد و مد سے آتا رہا ہے لیکن شاید لشکر جنگوی وہ اسلامی شدت پسند تنظیم تھی یا ہے جس نے بلوچ آزادی پسند حلقوں کی طرف اپنی قوت کا رخ نہیں موڑا اور وہ بلوچستان کے اندر سب سے پہلی اسلامی شدت پسند تنظیم تھی جو صرف اور صرف کوئٹہ و گرد و نواح میں شیعہ ہزارہ برادری کے قتل عام میں ملوث تھی یا ہے جو ریاستی مفادات و ایران پاکستان کی سنی شیعہ چکی میں پھیسے جارہے ہیں، لشکر جنگوی کی ریاستی پشت پناہی سے تو کوئی انکار ممکن نہیں لیکن اسکے برعکس باقی سارے جو بھی مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے نام بلوچستان میں موجود ہیں وہ خالصتا بلوچ تحریکی کامیابیوں کو کاونٹر کرنے کے واسطے باقائدگی سے دوران تحریک تشکیل دئیے گئے، کیا مذہبی، کیا جرائم پیشہ اور کیا منشیات فروش سب بلوچ قومی تحریک کو بریک لگانے کی خاطر استعمال کیئے جارہے ہیں، لیکن ریاست کی طرف سے انہیں اسلامی پوشاک پہنانے کی اس چال کو ہمارے لوگ بھی قبول کرچکے ہیں، فیشن کے طور پر یا اپنے آپکو نادانستہ طور پر زبردستی کے ساتھ اس عالمی کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں جہاں مغرب اور مغرب کے حلیف بیشتر ممالک میں اسلامی انتہا پسندوں سے نبرد آزما ہیں، اسلام کا نام بڑی بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے، رات محفل شراب و شباب بپا کرنے کے بعد صبح اٹھ کر وہ کسی آذادی پسند کو خفیہ اطلاعات کے بنیاد پر جاکے اغوا کرتے یا مار دیتے ہیں اور نام آجاتا ہے اسلامی انتہا پسندوں کا اسلامک اسٹیٹ کا، لشکر خراساں جیسی نام نہاد لشکروں کا، بلوچ دشمن گروہ، آذادی مخالف ریاستی پشت پناہی سے چلنے والے بندوق بردار گروہ، ریاست کی بنائی ہوئی ڈیتھ اسکواڈز کا نام پس پشت چلا گیا ہے، ہم نے انہی ذاتی نمود و سیاسی بھڑک بازیوں سے قبضہ گیر ریاست کو ایک قسم کا سہارہ دیا ہے، وہ حتی الامکان کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح بلوچ آذادی کی تحریک کو داخلی خلفشار، چند لوگ و علاقوں تک محدود، عوامی حمایت سےے محروم اور جذبات پر مبنی ظاہر کیا جائے اور عالمی برادری سے بلوچستان کو مذہبی انتہا پسندی کا آماچگاہ تسلیم کروایا جائے، ہمارے لوگوں کی اس طرح کے بیانیے اور سرگرمیں کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ ریاست تیسرا فریق ہے اس جنگ اور جد وجہد میں، ایک فریق کچھ آزادی پسند تنظیمیں اور دوسرے فریق اسلامی انتہا پسند ہیں( جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ ریاست کے ایما پر تخلیق کیئے گئے معاون و مددگار یعنی کرایے کے قاتل ہیں)، اسی طرح پاکستانی فوج واردات کردیتی ہے اور اگر اسکا رد عمل توقع سے زیادہ شدید اورعوامی ہو تو فہرست میں انڈیا کے راء، اسرائیل کے موساد، امریکہ کے سی آئی اے اور افغانستان کے این ڈی ایس میں سے کسی کو نکال کر اپنی موقف پیش کرکے کہہ دیتی ہے کہ یہ دشمن کی کارستانی ہے اور دشمن بوکھلا گیا ہے، سٹپٹا گیا، پاگل ہوگیا ہے جو بھی بن پڑے کہہ دیتی ہے اور خود کو بری الذمہ منوا لیتی ہے۔ آزادی کی تحریکوں میں قومی جنگ کا دار و مدار عوامی حمایت پر منحصر ہے، اگر عوام کا ایک خاصی تعداد تحریک کے شروع ہونے، عروج پر جانے اور بہت تجربات کے بعد تحریکی رستوں سے کٹ جائے تو کم از کم اسے سیاسی بیگانگی کہہ کر پکارنا خود غیر سیاسی اور عقلیت پسندی کے برعکس ہے، پھر تو کسی کو دوش دینے کی بجائے خود اپنے ہی صفوں پر نظر ڈوڑائی جائے کی کوتاہیاں کمیاں غلطیاں اور کمزوریاں کہاں سے اور کیسے سر زد ہوتی جارہی ہیں لیکن ایسا ہونے کے بجائے ہم مزید سکڑتے اور بکھرتے جارہے ہیں، یہ انتشار تحریک کے لیئے نقصاندہ ضرور ہے لیکن انہی سے تحریک دوبارہ ابھری گی اور لوگ آہستہ آہستہ اپنے رستے تبدیل کرتے کرتے راہ راست پر آتے اور ملتے جائیں گے، لیکن یہ طویل المدتی عمل ہے شاید بلوچ کے پاس ابھی سے بہترین وقت دوبارہ نہ آسکے جہاں وہ اپنی مفادات کو دشمن اور دنیا سے بزور عسکری و سیاسی قوت منوا سکیں، لیکن کچھ بلوچ قوتیں آپس میں دست و گریبانی کو اپنی کامیابی تصور کرکے خوش ہوئے جاتے ہیں، ویسے تو اس جنگ کے دوران کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے تحریک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اسی تحریک اور تنظیموں کے نام پر لوگ بھرپور انداز میں اپنی ذاتی دشمنیوں کا حساب برابر کررہے ہیں، روز دوچار بلوچ خود بلوچوں کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں، کچھ تو ان میں گنہگار بھی یقینا ہونگے، اور کچھ لوگ انہی تنظیموں کے اندر سازشیں رچا کر اپنے ساتھیوں کو شہید کروا کر دوسرے لوگوں کو مشکوک بنا دیتے ہیں تاکہ پھر تنظیم اور انکے درمیان مد بھیڑ کی فضا قائم ہوجائے اور اپنی ذاتی مفاد و خنص کا حساب برابر ہوجائے، طرح طرح کی ذاتی و شخصی دشمنیاں اسی تحریک کی نام پر نکالی جارہی ہیں، تو ایسے میں اگر لوگ تحریک سے بد ظن نہ ہوں تو اور کیا ہوں، یہ یاد رکھو کہ پاکستان کی طرح ہر کشت و خون کو نظریہ پاکستان کے لیئے سروں و جانوں کی صدقے سے تعبیر کرنا بلوچ ماؤں بہنوں کو منظور نہ ہوگا، قربانی ایک شعوری عمل ہے، اگر پے در پے تنظیم مارتی رہی گی اور سامنے والے لوگ خاندانی دشمنی نکالتے جائیں گے اور پھر اس آگ کی تپش میں آزو بازو کے چار لوگ اور جھلس جائیں گے، سوچ لو پچھلے آٹھ نو سالوں میں ہماری اس تحریکی جنگ میں کتنے لوگ اور کتنی خاندانیں نہ صرف تحریک دشمنی پر اتر آئے بلکہ اپنا بدلہ باقاعدگی سے مختلف حوالوں سے تنظیم میں شامل لوگوں کے عزیز و اقارب سے لیتے رہے ہیں، یہ جنگ خود بلوچ کے اندر پھیلتی جارہی ہے، یہ نمود و نمائش اور خود احتسابی سے بھاگنے کا نتیجہ ہے، دشمن محض تیسرے فریق کی صورت میں نظارہ دیکھنے میں محو ہے اور کچھ تنظیمیں اپنی ماضی کی غلط پالیسی پلان کی وجہ سے تحریک پر غیر ضروری بوجھ لاد چکے ہیں، جسے اب اتارتے اتارتے شاید دسیوں سال لگ جائیں اور اس آپسی جنگوں کا لقمہ بن کر نہ جانے کتنے بلوچ خاک و خون ہوجائیں، یہ کوئی ریس یا کسی کی ذاتی عناد و خنص کا مسئلہ نہیں ہے، اگر آپکو معلوم ہے کہ خضدار جھالاوان میں، قلات، بولان، مکران و خاران کے کسی مخصوص علاقے میں کسی مخصوص بندے کو راستے سے اگر ہٹا دیا تو اسکے الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور ہمارے چار لوگ مارے جائیں گے کیونکہ انکو معلوم ہوگا کہ اپنے علاقے سے تنظیم میں کون ہے اور شاید اکثر اوقات کچھ تنظیموں کی ناقص پالیسیوں کے بدولت مخصوص لوگوں کا بھی معلوم پڑجائے گا کہ رسد کس نے فراہم کی لوجسٹک سپورٹ میں کون شامل تھا، محفوظ رستے کی فراہمی و نگرانی پر کون معمور تھے، بیک اپ سپورٹ پر کون لوگ تھے، اور گولی چلانے والے کون تھے، یہ باتیں ہوا میں نہیں کہی جارہی ہیں بلکہ تجربات سے یہ بھید کھل چکی ہے کہ کس قدر انہی ناقص و غیر معیاری پالیسیوں کی وجہ سے دشمن کے کتنے آلہ کار ان تنظیموں کے صفوں میں جگہ بنا چکے ہیں اور کتنے ایسے لوگ ہمرکاب ہوچلے ہیں جنکا مقصد و مدعا تحریکی مفادات سے کہیں زیادہ ذاتی و شخصی رہا ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے ہوشاب کے علاقے میں جمیلہ نامی ایک خاتون کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہر طرف سے تردید و مذمت کی ایک بازار لگی ہوئی ہے کوئی ذمہ دار نتائج اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی سعی نہیں کررہا، اسکے بھائی کو ایک مسلح تنظیم گرفتار کرچکی تھی اور ریاست کے سامنے ہتھیار پھینکنے، رازوں کے افشاء میں ملوث ہونے اور غداری کے مرتکب ہونے کے پاداش میں اسے قتل کیا گیا، چونکہ اسکے بھائی کسی مسلح تنظیم کے حراست میں تھے، سو پہلی فرست میں شک کا اسی تنظیم پر جانا فطری عمل ہے جسے رفع کیا جسکتا تھا اور پہلی فرصت میں کیا جانا چاہئیے تھا، اور دوسری بات یہ کہ تاریخی تسلسل اور ریکارڑ بھی کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے تھے کہ ماضی میں ان تنظیموں پر بے گناہ بلوچوں کو مارنے کی الزامات عائد ہوتی رہی ہیں، تیسری بات یہ کہ کچھ حلیف تنظیوں اور لوگوں کی جانب سے ایسے رویوں یا ردعمل کا اظہار ہوا اور وہ اس شک کو مزید تقویت دے رہے تھے، چوتھی بات یہ کہ ایک اور مسلح تنظیم نے اپنے روز مرہ کی تنظیمی بیان میں اس جانب اشارہ کیا اور قدرے واشگاف انداز میں اشارے دیئے کہ اس خاتون کو کس نے مارا ہے، نہ جانے یہ حب علی تھا یا بغض معاویہ مگر یہ بیان آیا تھا اور اسکی تردید بھی جوابی الزامات کے ساتھ آگیا تھا، مگر چھٹی بات یہ کہ اس پورے سین کا خلاصہ انکے بچوں نے کردیا، جمیلہ کے چاروں بچوں کا ایک ویڈیومنظر عام پر آئی اس میں کیا باتیں ہوئیں وہ سب نے سنی ہیں، اب کیا زمہ داری بس اتنی بنتی ہے کہ اسکو ماضی کی طرح ڈیتھ اسکواڈ کے کھاتے میں ڈال کر انہی کا نام دیا جائے اور خود کو مطمئن کرکے عوام سے مطمئن ہوجانے کی آس لگائی جائے، اسکو مذہبی انتہا پسندوں کی سازش قرار دیا جائے اور خود کو بری الذمہ سمجھا جائے، بچوں کی ویڈیو آنے کے بعد لاز تھا کہ ایک تفتیش کی جاتی نہ صرف اس وہ تنظیم جو الزامات کی زد میں تھی بلکہ دیگر زمہ دار بلوچ تنظیموں نے بھی اس بات کی تفتیش کی ہوتی کیونکہ ممکن ہے کہ یہ عمل ایک شخص، شاید کچھ اشخاص ایک گروہ یا پھر ایک تنظیم نے انجام دی ہو مگر نقصان پوری تحریک کی ہے، ویسے بھی پاکستانی طرز سیاست اور فوج کی زہنی معیار و طاقت کی گھمنڈ میں وہ ہر وردات کو دشمن کی کارستانی بتا کر اپنے ذمہ داریوں سے رخصت لے لیتے ہیں تو کیا بلوچ جھد آزادی میں شامل لوگوں، تنظیموں اور پارٹیوں کو یہ شوبہ دیتا ہے کہ وہ بھی ایسے ہی رویہ اپنا لیں جو کہ پاکستان میں فوج کا وطیرہ و خاصہ ہے۔ شاید اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، شاہ میر و ملا برکت، شفیق مینگل و ذکریا محمد حسنی، شمبے زئی کے لوگ، راشد پھٹان اور ملا عمر، علی حیدر اور ثنااللہ زہری کے لوگ مذہبی انتہا پسند ہیں یا نہیں ہیں وہ اپنی جگہ مگر وہ بلوچ قومی تحریک کے دشمن اول ہیں، ان سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر مذہب مذہب کی رٹ لگانے سے جو چیزیں تحریک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں انکے بھی اسباب و علل کا کچھ خاص خیال رکھنا لازم ہے، اور اپنی طاقت کو قوم کے خلاف استعمال کرنے کی سنگین نتائج کیا نکلیں گے بلکہ ہم ان نتائج کا بچشم خود مشاہدہ و نظارہ کررہے ہیں، ذمہ دار حلقوں کی جانب سے ان تمام باتوں پر سوچنے کی کافی حد تک ضرورت ہے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ ڈیتھ اسکواڈ، مذہبی انتہا پسند، ریاست کے تشکیل کردہ قبائلی گروہوں اور ریاست کی پشت پناہی میں چلنے والے جرائم پیشے گروہوں کو مورد الزام ٹہرا کر آپ میں سے کوئی اپنی کردہ گناہوں اور قوم کی نظروں سے چھپ سے سکتا ہے۔