آنکھوں دیکھا ایک حقیقت ،جب ابا جان کے زبان سے یہ سننے کو ملا بیٹا ہم سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کچھ دنوں بعد آپ کو پڑھانے کے لئے پنجاب روانہ کر دے ۔ وہ لمحہ میں کیسے بیان کر لوں ؟ دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہاں جا کر سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔ہر طرح کے لوگ، آزاد سوچ رکھنے والے خیر خواہ علم کے فرمان بردار بلوچستان کے شور وشغب زدہ علاقے سے نکلنے سے پہلے میں نے گھر والوں سے رخصتی طلب کر لیا ۔دل میں کچھ ایسے خیالات آ رہے تھے اگر میں بیان کروں شاہد قارئین پڑھ کر کہیں ہنس نہ پڑے ۔آج وقت کا تقاضا بن گیا ہے تو میرے لئے شرم کی بات نہیں ۔ سفر کے دوران خوشی کے عاَلم میں خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگا “چاہے جو بھی ہو پیشاب کرنے کے لئے جانے سے پہلے یہ تو پوچھا نہیں جائے گا کہاں جا رہے ہو”.دوران سفر پرلطف مناظر دیکھ کر میں نے خود کو آزاد محسوس کیا۔پنجاب کی وہ کشادہ سڑکیں دیکھنے کو ابھی دل بھرا نہیں تھا عین وقت کنڈیکٹر نے مائیک سے آواز لگائی معزز مسافر ہم اپنے منزل سے کچھ ہی دوری پر ہیں برائے مہربانی اپنی قیمتی اشیا اپنے پاس ہی رکھیں ۔یہ 2015 کی بات ہے جب میرا داخلہ پنجاب کے کسی یونیورسٹی میں ہوا تھا ۔لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن جو میں قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں اُس مُدعا پر آتے ہیں۔غالباً تین چار مہینے گزرنے کے بعد میں نے وہ لمحہ محسوس کیا جس میں علم کے دعویٰ دار, پنجاب انتظامیہ وسیع ؤ فراست سوچ رکھنے والے پروفیسرز یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے اگر کوئی رشتہ بلوچستان سے ہے تو وہ ذاتی مفادات کا ہے ۔یہ حقیقت ہے وہ ہمیں بیوقوف اور لاعلم سمجھتے ہیں وہ سب غیظ وغضب خصائص دیکھنے کو ملے اور آج بھی ان سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا ہے ۔چلیں بات آگے بڑھاتے ہیں جب بھی کلاسز لینے جاتے اگر کوئی ایسا موضوع جو دہشتگردی پر آتی سب کی نظریں بلوچستان کے ان معصوم باسیوں پر جم جاتے ،افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ قابل احترام پروفیسروں کی طرف سے یہ سننے کو بھی مل جاتا ہے اگر آپ کو بلوچستان جانا ہوا ایسا نہ وہ کہ واپسی پر خود کش جیکٹ ساتھ لے آئیں اور مزاق میں زور دار قہقہہ لگا کر بات کو ٹال دیتے جیسے ہم بےوقوفی کی آخری سیڑھی پر ہوں ۔اس بات سے کوئی انکاری نہیں جنرل مشرف اور کئی اعلیٰ عہدیداروں نے ٹاک شو اور بی بی سی میں یہ کہنے سے بھی نہیں ہچکچائے ، کہ افغان مجاہدین ان کی بنائی ہوئی مخلوقِ تھی جس کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا جو آج مذہب کا سہارا لے کر جماعت اسلامی کی شکل اختیار کر چکے ہے ۔بلوچستان کے طلبہ کو کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی یوں بھی لکھنا ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے اس طرح کے بینرز یونیورسٹی کی دیواروں پر چسپاں کر کے ہمیں ذہنی اور احساس کمتری کی ان گنت مثالیں دیکھنے کو ملیں گے ۔دوسری جانب اسلامی جمعیت طلبہ کی جو اسٹوڈنٹ ونگ ہے جماعت اسلامیJI پاکستان کا مذہب کے نام پر پروپیگنڈہ کر کے بلوچستان کے طلبہ کو ناستک اور دہشت گرد کے القابات لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ہے ۔یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی طرف سے ایک میٹنگ میں واضح طور پر یہاں تک کہا گیا ۔کہ آپ بلوچستان کے سب لوگ ناستک ہو ۔یہ وہ دورانیہ تھا جب مشال خان پر ناستک ہونے کا الزام لگا کر اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا ۔اُس ڈر سے پنجاب یونیورسٹی میں مقیم بلوچستان کے طلبہ تشکیک و اضطراب میں مبتلا تھے تا کہ کئی ایسا حادثہ رونما نہ ہوجائے جس سے یہ بات واضح ہو گیا تھا کہ بلوچستان کے باسیوں کو نام نہاد تعلم کے نام پر ذہنی غلام بنایا جا رہا ہے ان کا رشتہ صرف بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار اور بلوچ سرزمین کو افتاد گاں خاک کی مانند رکھنا ان کے خطرناک عزائم بن چکے ہیں۔ جھوٹی ہمدردی اور اعلیٰ سطح پر یہ باور کرانا بلوچستان ہم سے جدا نہیں جو ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔بات ابھی یہان تک ختم نہیں ہوا، پنجاب یونیورسٹی میں سرگرم تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ آئے روز ایک نئی ڈپلومیسی کے تحت کبھی انتظامیہ کا سہارا تو کبھی سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی لے کر بلوچستان سے آنے والے طلبہ کو بی- ایس- او آزاد اور سرگرم آزادی پسند مزاحمتی تنظیموں کا عہدے دار قرار دینے میں کوئی ُسُستی دیکھنے کو نہیں ملا۔3000ہزار اسکالرشپ کے نام پر ہمیں ایسے تانے سنے کو ملے ہیں جیسے پورے بلوچستان کی ذمہ داریاں پنجاب کے کندھوں پر ہے آنکھوں میں آنسوں جم جاتے ہیں جس قوم کی خوشحال زمیں کو لوٹ کر پنجاب کو بہشت بنا دینے والوں سے اب کوئی امید رکھنا اپنی زمیں کی دلالی کے مترادف ہوگا،جہان کسی کو نہ سر اٹھانے کی اجازت ہے نہ کسی کو اپنی مرضی سے پیشاب کرنے کی ،بات آگے بڑھاتے ہیں ۔22 جنوری 2018 کی رات پنجاب یونیورسٹی میں الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے کچھ کمروں کو چند تخریب کار لوگوں نے اپنی گروہی مفادات کی غرض سے آگ لگا دیا تھا ان سے جماعت اسلامی طلبہ نے فائدہ اٹھا کر معمول کے مطابق پڑھنے والے بلوچستان کے طلبہ کو دوران پیپرز سر عام کلاس رومز سے اٹھا کر ڈھنڈوں سے بری طرح مارا پیٹا ۔پنجاب کے اکثر تعلیمی اداروں میں ایک ایسا پس منظر تھا جیسے فوجی ہراول دستے کے ہاتھوں کالعدم تنظیم کا کوئی باقاعدہ کارکن ہاتھ لگا ہو۔ حالات کشیدہ ہونے کے بعد پنجاب پولیس اتھارٹی کی جانب سے ایسے شرم ناک اقدامات دیکھنے کو ملے جیسے بلوچستان کے جنگ ذدہ علاقے جہاں آٹا اور سبزیاں لینے کے لئے زمیں کے خداؤں کی طرف سے شناختی کارڈز چیک کرنے کے بعد گالیوں کی زینت بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ آج بحثیت بلوچ طالب علم ہو کر پنجاب پولیس اور تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کی جانب ایک جیسی دھتکار دینے والی رویہ دیکھنے کو ملا ۔تمام ہاسٹل میں جا کر طلبہ کا شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد جس کا تعلق بلوچستان سے ہوتا سر عام وحشی درندوں کی طرح گھسیٹ کر ان کے کے خلاف بد تہزیب الفاظ کا استعمال کر کے معصوم طلبہ کو اس دوران پنجاب کے مختلف جیلوں میں ڈال دی جاتی ۔ بلوچستان کے 196 طلبہ کو اٹھا کر ان پر دہشتگردی کا پرچہ درج کیا گیا اور چند ایسے طلبہ بھی نکلے جن کو آزادی پسند تنظیم بی ایل اے کا ہمدرد ،سہولت کار اور رکن قرار دیا گیا۔اُن دنوں کسی دوست سے ملنا ہوا تو ان سے خیریت دریافت کی، جس پر انھوں نے درد بھری آواز میں کہنے لگی یار سچ میں یہ پاکستان ہمارا نہیں ! اور نہ پاکستان کے حق میں کبھی ہمارا زبان ہمیں ساتھ دے گا ۔جب ہمیں پنجاب کے زندان میں ڈالا گیا تو کسی پنجابی افسر کی زبان سے پہلا لفظ یہی نکلا تھا “ویلکم ٹو پاکستان “یہ کہتے ہی مجھے ان بلوچ فرزندوں کی یاد آنے لگی، جو آج مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کے قید خانوں میں پاکستان کی ہوا کھا رہے ہیں ۔کافی بات چیت کے بعد وہ رکا نہیں کہنے لگا ہمیں جانور سمجھ کر ہر طرح کی گالیاں دیتے رہتے ہیں، ہر روز ان سے ذہنی تشدد سہتے رہتے ہیں۔ پورے ایک ہفتے تک ہمیں ایسے تنگ کمروں کی زینت بنا دی گئی جسے کہ ہم واقعی ، را ، کے ہی ایجنٹ ہو۔ آخر کار پنجاب پولیس اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے نعرہ تکبیر الللہ اکبر سننے کو ملا اور ہمیں وہ ناستک قرار دینے میں کامیاب ہوگئے ۔مجھے آج اس بات پر خوشی ہے جو کل تک خود کو پاکستانی سمجھ رہے تھے آج ان کی زبان سے سننے کو مل رہا ہے کہ اصل میں ہمارا ملک بلوچستان ہی ہے جس کے ساتھ ہمارے قومی شناخت جڑی ہوئی ہے جب اہل پنجاب کے نظر ہم کافر بن ہی گئے ہیں تو ہمارا ان کے ساتھ رشتہ ہی کب تھا ؟