ہمگام کالم
پتہ نہیں عاصم اس وقت کہاں اور کس کالی کوٹھڑی میں ہاتھ پاؤں زنجیروں سے بندھے اور آنکھوں پر سیاہ پٹی لپٹی ہوئی اور کس حال و تکلیف میں اور کن خیالوں کے ساتھ جی رہا ہوگا ؟ عاصم کی ماں راج بی بی کہتی ہے عاصم اغوا کے ایک دن پہلے اُن سے سوال کیا ”اماں جی ” مجھے کوئٹہ کب بھیجو گے؟ ماں کہتی ہے اس نے عاصم کو یہ کہتے ہوئے مطمئن کیا تھا کہ میں خود آپ کو وہاں لیکر جاؤنگی آپ اکیلئے ناواقف ہیں اسکی ماں کہتی ہے کاش وہ عاصم کو میلہ کے بدلے اُسی دن کوئٹہ بھیج دیتی شاید آج عاصم کا غم پوری خاندان کو یوں درہم برہم نہ کرتی ، ان کی ماں آج بھی روتی ہوئی دردبھری آواز میں کہتی ہے عاصم اسکول کے بعد جب بھی گھر لوٹ آتے تو چاردیواری کے اندر داخل ہوتے ہی شور مچایا کرتا تھا گانا گاتا ،آج ان کی ماں کہتی ہے عاصم کو گھومنے کا بلکل بھی شوق نہیں تھا لیکن اُسے میوزک سے بہت لگاؤ تھا اور کاش عاصم کو میوزک کے بدلے کرکٹ یا فٹ بال کھیلنے کا شوق ہوتا کیونکہ عاصم میلہ میں بھی عاطف اسلم کو دیکھنے کیلئے گیا تھا کسی کو کیا معلوم تھا کہ عاطف اسلم اور میوزک سے شوق عاصم کو ٹارچر سیل کے اندھیرے میں ڈال دیگا۔ ان کی ماں کہتی ہے اب وہ زندگی سے بیزار ہوچکی ہے۔
میں سوچتی ہوں جن سے انسان شدید محبت کرتا ہے انہی سے ڈر بھی لگتا ہے ۔ ہاں مجھے ڈر لگتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے میری یاد کا جو پل جس چوکھٹ سے لپٹا ہوا ہے وہ وہاں نہ ملا تو میں کیا کرونگی ۔ اگر میری یادوں نے اپنا روپ کھو دیا تو آگےکیا ہوگا ؟ میری وہ یادیں جو خاص چیزوں اور لمحوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ جو خاص شکلوں میں بستی ہیں وہ اگر مجھے نہ ملیں تو شاید میں مزید میں سانس نہ لے سکوں گی ۔
سوچتی ہوں جس گھر کے کونے میں عاصم بیٹھ کر اپنے اسکول کا کام کرتا تھا وہ وہاں نہیں ہو تو میں رو پڑونگی ۔
میری یادوں میں میرا گھر ایسا ہے جہاں ہر پل زندہ آوازیں تھی ۔ پیار بکھرا رہتا تھا گھر کی خوشیاں تھی ۔
وہ گھر جو میرا تھا وہ نہ ہوا تو ۔۔ ؟؟ پرانی یادوں سے نئی یادیں کیسے بنا پاؤنگی ۔۔ بھلا کیسے سب کو پھر جمع کر سکوں گی !