بعض اوقات کچھ ناپسندیدہ خبریں انسان کو اس وقت دبوچ لیتی ہیں جب انسان کسی بڑی کرب سے پہلے ہی سے نبرد آزما ہو ! اور اندر ہی اندر لمحہ بہ لمحہ اک دہکتی آگ کی بھٹی میں جل رہا ہو ۔آجکل میرے حالات کچھ ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ اور اس آزمائشی دل پہ مختلف قسم کے وار آ گزرے ہیں۔ کہ جیسے میرا دل جلی جلی سا محسوس ہو رہا ہو ۔آج شہید عاطف جان پر کچھ لکھنے کیلئے جب قلم اٹھاتا ہوں تو اسکا مسکراتا ہوا معصوم سا چہرا میرے آنکھوں کے سامنے روشن ستارے کی مانند نمودار ہو جاتاہے۔ اور میرے دل کی کیفیت ایسی جیسے کہ خون کے آنسو رونے لگا ہو ۔ اور میرا قلم اس شہید وطن کی قد آور و لازوال کردار کے سامنے لڑکھڑانے لگتا ہے ۔شہید عاطف جوانی ہی کی عمر میں ہم پر قیامت جیسی اداسی چھوڈ کر چلا گیا ۔ مگر وہ خود ایک ایسے تاریخی بلند پایہ منصب پہ فائز ہوا ، جو بہت کم لوگوں کو خوش نصیبی سے ملتا ہو !
کل کے اس ہنگامہ خیز خبر نے ہم پر جیسے قیامت سا برپا کر دیا ہو ۔ ہاتھوں نے جیسے کام کرنا چھوڑ دیا ہو سانسیں جیسے ہمارے جسم سے ناراض ہو گئی ہو۔ کیونکہ آج ہم ایک ایسے نڈر اور دل عزیز قوم دوست سنگت سے محروم ہو گئے جسکی کمی رہتی دنیا تک شدت سے محسوس ہو جائیگی۔
یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ ہزاروں ہمفکر سنگتوں کیلئے عاطف کا اتنا جلدی و اچانک روٹ کر چلا جانا ایک بہت بڑے درد و و زور آزما آزمائش سے کم نہیں ہے۔
عاطف کی پرعزم شخصیت پر لکھنا مجھ جیسے ادنی سیاسی ورکر کیلئے بہت مشکل کام ہے مگر عاطف جان پر نہ لکھنا بھی میرے لیئے کچھ آسان سا کام نہیں ۔
عاطف کی پراثر شخصیت سے مجھے بچپن ہی میں واسطہ پڑا۔ سیاسی محاذ پر ہم دونوں دوست دن رات ایک ساتھ گزارے۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو ،کہ شہید عاطف نے شروع دن سے اپنی ذندگی سرزمین بلوچستان کیلئے وقف کر دیا تھا۔ آذادی کی تحریک سے عاطف کا لگاؤ حیران کن حد تک مضبوط و مستحکم تھا۔ اس دوران وہ ہمیشہ سیاسی جدوجہد کی تبلیغ میں ہمہ وقت مصروف رہتے مجھے عاطف جان کے وہ الفاظ اب تک یاد ہیں
جب ہم ایک سیاسی پروگرام کو انجام دیکر طویل مسافت طے کرکے واپس اپنے علاقے میں پہنچے ہی تھے کہ کسی دوست نے دوسرے پروگرام میں آنے کی دعوت دے دی تو میں نے تھکاوٹ کو جواز بنا کر نہ جانے کی ضد کی ، تو شہید عاطف کے کچھ ایسے الفاظ نے میرے حوصلے کو توانائی دے کر مضبوط و بلند کر دیا کہ “ایک انقلابی کارکن اپنے مقصد کیلئے ہمہ وقت متحرک رہتا ہے انقلابی مقصد کیلئے اسکی دن رات ایک جیسا ہوتا ہیں” میں عاطف کے ان کہے ہوئے اقوال پر فخر محسوس کر رہا ہوں کیونکہ انھوں نے جو کچھ بھی کہا اسے پوری قوم کے سامنے عملا ثابت کرکے دکھایا۔
عاطف جان کے ساتھ جو لمحے گزارے ، آج جب وہ لمحے مجھے یاد آتے ہیں تو اندرونی طور ایک فخر سا محسوس کرتا ہوں۔ اور جو لمحے عاطف کے ساتھ گزارے ان لمحات میں عاطف سے انقلابی جدوجہد کیلئے درست سمت کا تعین سیکھا۔بظاہر وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا ہونے کے باوجود انقلابی تجربے کی بنیاد پر آج بھی میں عاطف جان کو اپنا انقلابی استاد سمجھتا ہوں کیونکہ آج تک میں انہی کی مرہون منت سے بلوچ قومی آزادی کی کاروان میں مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوں۔۔
آج شہید عاطف جسمانی طور پر ہم میں موجود نہ ہونے کے باوجود بھی سب کے دلوں میں ذندہ ہے کیونکہ عاطف خود ہر وقت یہی بات دہراتے رہتے کہ “میرا جسم ہو یا نہ ہو مگر میرا فکر میرے ہونے کی ضرور گواہی دیگا” اور شہید کا فکر ہزاروں سنگتوں کی جسم اور روح میں پیوست ہوکر عاطف جان کے کامیاب و کامران ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔