ایران و پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تو بلوچ ایک دوسرے کے لئے غیر کیوں؟ تحریر صادق رئیسانی
سنگت حیربیار پر امریکہ کا پراکسی بننے کا الزام لگایاگیا ہے۔ میرے خیال سے اس بات سے کوئی بھی ذی شعور اور عقل سلیم کا مالک انسان چاہے ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی کونے سے ہو وہ انکار نہیں کرسکتا کہ امریکہ اس وقت پوری دنیا میں سپرپاور ملک ہے، بلوچ قوم اور پارٹیوں کے تمام ذمہ داران کے بیانات آن دی ریکارڈ پر ہیں، وہ دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ سے مدد کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں،
بلوچ قوم دوست رہنما سنگت حیربیار مری کی جدوجہد کو بلوچ تاریخ میں اعلیٰ مقام حاصل ہے کیونکہ انہوں نے بلوچ جہد کاروں اور بلوچ عظیم شہدا کی لہو کا کبھی نہ سودا کیا ہے اور نہ سودا کرنے والوں کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہے
دوسری جانب یہ حقیقیت اب راز نہ رہی کہ بی ایل ایف کے ہمنوا ایران کی پراکسی بنے ہوئے ہیں، ایران سے متعلق بلوچ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرح بلوچ کا ازلی دشمن ہے، وہ بلوچ سرزمین پر بزور بازو نہ صرف قبضہ جمایا ہوا ہے بلکہ بلوچ ساحل و وسائل کو بھی دونوں ہاتھوں سے ہڑپ کررہی ہے۔ بلوچ شناخت کو مٹانے کےلئے بلوچ علاقوں کو تقسیم کرنے، بلوچ زبان ، ثقافت پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ ایران کے گجر اور ان کی خفیہ ایجنسی اطلاعات نے شروع سے لے کر اب تک بلوچ قوم پر عرصہ حیات تنگ کی ہوئی ہے حتیٰ کہ بی ایل ایف ایران کی بازو ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کئی قیمتی جہد کار ایرانی قابض افواج کے ہاتھوں شہید کروا چکے ہے افسوس ہے کہ وہ اپنی جہد کاروں کی ایران کے ہاتھوں شہادت پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ ان جہد کاروں کی شہادت کو جائز قرار دینے کی خاطر ایرانی بارڈر فورسز کی صفائیاں بھی گہرام بلوچ (بی ایل ایف ترجمان) کے بیانات کے ذریعے دلواتا رہا ہے۔ بی ایل ایف اس وقت ایران کی پراکسی بنی ہوئی ہےاور ایران کی پراکسی بننے کا مقصد معمولی سی مراعات کے بدلے بلوچ تحریک کے اندر انتشاری ماحول پیدا کرنا، تنظیموں کو توڑنا اور قومی طاقت کو تقسیم جیسے منفی عزائم سے ایران کا ہی فائدہ ہے اور ایران بھی یہی چاہتا ہے کہ بلوچ اپنی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹنے نہ پائیں۔
بلوچ امریکہ کا پراکسی نہیں بلکہ اس وقت خطے کے حالات جس طرح سے کروٹ لیتے نظر آرہے ہیں اس میں بلوچ قومی آزادی کے حصول کے امکانات زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں۔ خطے میں امریکہ اور بلوچ کا دشمن مشترک ہے کیونکہ ایران و پاکستان دونوں اس وقت امریکہ مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے اتحاد کربیھٹے ہیں اور بلوچ کو اپنی غلامی سے چٹکارا اور پاکستانی و ایرانی دہشت گردی سے گلو خلاصی کے لئے نہ صرف امریکہ بلکہ، یورپ، خلیج اور پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے اپنے روابط استوار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بلوچ قوم کے سنجیدہ حلقے سنگت حیربیار مری کی سفارتکاری پر مطمئن ہیں، کیونکہ جو پالیسی انہوں نے دہائیوں پہلے واضح کیا تھا آج پوری دنیا سنگت کے موقف کیلئے نہ صرف برملا حمایت کا اظہار کررہے ہیں بلکہ پاکستان اور ایران کی دہشت گردانہ عزائم اور خطے میں پراکسی ، ایٹمی ہتھیاروں کی منفی استعمال کو روکنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کا تہیہ کرچکے ہیں اور سنگت حیربیارمری عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے اور بلوچ قومی آزادی کی راہوں کو سہل بنانے کے لئے کلیدی کردار کے حامل کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔
سنگت حیربیارمری نے بے تہاشا مشکلات کا سامنا کیا، لیکن بلوچ سرزمین و قومی مفادات کا سودا کرکے ، ایران کی پراکسی بننے کو قوم دشمنی، تحریک دشمنی اور بلوچ شناخت کے لئے بھیانک سمجھ کر اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا ۔ سنگت حیربیارمری نے پوری دنیا کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلوچ جہد کاروں اور بلوچ قوم کو سرخ روح کرکے عزت و اعلیٰ مقام دیا۔ جس طرح نواب خیربخش مری (اول) نے انگریز کی بگھی کھینچنے سے انکار کرکے تاریخ میں بلوچ قوم کو اخلاقی اور بہادری کا شرف بخشا بالکل اسی طرح سنگت حیربیارمری نے بلوچ قوم کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے ایران کی پراکسی بننے اور عالمی دہلیز پر بلوچ قومی مفادات کا سودا کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہم سب کے ساتھ رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملکی سطح پر بھی سنگت حیربیارمری کی کاوشیں اور پالیسیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں جہاں انھوں نے قومی وسائل سے تحریک کی کامیابی کیلئے، بلوچ تنظیموں کی ہر ممکن مدد کی، کسی پارٹی کو توڑنے کی بجائے ان کی بے غرض اور لالچ کے بغیر مدد کرنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھا بلکہ دوسری طرف کچھ نادان منفی سیاست اور ایران کے شہہ پر بلوچ تنظیموں کے اندر خفیہ لابنگ کرکے نوجوانوں کے دلوں میں اپنے لئے بری شناخت پیدا کرچکے ہے۔ آج بی ایل ایف کے سنجیدہ جہد کار آزادی پسند تنظیموں کے اندر لابنگ، خرید و فروخت جیسی منفی عمل سے کافی خائف دکھائی دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں امکان یہی ہے کہ وہ بی ایل ایف سے کنارہ کش ہوکر خود کو بلوچ تاریخ میں اس منفی اعمال سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائے۔
بی ایل ایف اور بی این ایم کے مخلص اور وطن دوست ارکان سیاسی طور پر پختہ ہیں کہ کون سا بلوچ آزادی پسند پارٹی بلوچ تاریخی سرزمین اور بلوچ قومی مفادات کی رکھوالی کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے ، ہمیں امید ہے کہ بلوچ باشعور نوجوان اب مزید ایران کا پراکسی بننے والوں کے خلاف خاموش رہ کر مزید اس جرم کا حصہ نہیں بنے گی۔ بلوچ نوجوان اس تحریک کے اصل سرمایہ ہیں اور بلوچ قوم اپنے ان جوانوں پر بہت ہی بھاری امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، ان امیدوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے شہید صبا دشتیاری، شہید فدا بلوچ، شہید قمبر قاضی، شہید غلام محمد، شہیدقمبرچاکر، شہید ڈاکڑ خالد ، شہید لالا منیر، جیسےانقلابی شہدا کی نقش قدم پرچلتے ہوئے ایران جیسی بلوچ کش ریاست سے مدد و کمک لےکر بلوچ قومی تحریک آزادی اور شہدا کی عظیم قربانیوں کو داغ دار بنانے سے گریز کرینگے۔
بلوچ قوم کا مستقبل ایران کی پراکسی بننے میں نہیں بلکہ اپنی الگ قومی شناخت کے لئے اپنے بازوں پر بھروسہ کرکے، اپنی منتشر طاقت کو سمیٹنا اور ایک دوسرے تنظیموں کے اندر لابنگ، خرید و فروخت سے نہیں بلکہ اپنے بلوچ عوام کے اندر قومی تحریک کی ساکھ پر آنچ نہ آنے دینا ہے۔ بلوچ تحریک آزادی کو کوئی بھی لیڈر چاہے ان کا تعلق کسی بھی تنظیم یا پارٹی سے ہو ایران کی پراکسی بن کر کامیاب نہیں بنا سکتا بلکہ جو لوگ ایران کے لئے نرم گوشہ رکھنے کو اپنی پارٹی اور تنظیمی مجبوری سمجھ کر بلوچ سادہ لوح عوام کے اندر اپنی اس ایران دوستی کو مجبوری یا کسی اور نام کا لبادہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے اس فریب کا بھانڈہ ضرور بلوچ قوم کے سامنے کھلے گا ۔ کیونکہ بلوچ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو یا ایران و پاکستانی مظالم کا شکار ہے ہم سب کا دشمن مشترک ہے اس بات کا ثبوت ایران اور پاکستان کی افواج، اعلیٰ سطح کی خفیہ اداروں کے سربراہان اور حکومتی اراکین کے وہ معاہدے اور بیانات ہیں جو کھلم کھلا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایران اور پاکستان کی سالمیت ایک دوسرے کی مدد و کمک سے لازم و ملزوم ہیں ۔
ایران کے لئے ہمدردی کا ہاتھ بڑھانے والوں کو ذاتی حیثیت سے کچھ افراد کو معمولی سی مراعات اور مدد ضرور حاصل ہوا ہے لیکن مستقبل قریب میں بلوچ تاریخ ایسے کسی بھی شخص، پارٹی اور لیڈر کے لئے مزید مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ بلوچ قوم نے اپنی سرزمین کی آزادی کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور وہ کسی بھی لیڈر یاپارٹی کو ہرگز یہ اجازت دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بلوچ قومی مفادات کو اپنی پارٹی اور گروہی مفادات کے لئے گروی رکھے۔ بلوچ نوجوانوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے میں تیزی سے بدلتے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی قومی آزادی کے لئے شعوری جدوجہد کرے نہ کہ پارٹی اور بلوچ تنظیموں کو توڑنے جیسے منفی رجحان کا حصہ بنے۔