پسرم کجا است
حامی دختران ایران شہرعبداللہ بزرگزادہ
داد شاہ بلوچ
رات کے پچھلے پہر تقریبا 2 بجے گھر میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، اٹھانے پر دوسری طرف سے ایک لرزیدہ برندام شخص تھرتھراتے آواز سے بولنے لگتے ہیں ” میرے مسئلے کو میڈیا میں نہیں لاؤ، مجھ سے ایک جرم سرزد ہوا ہے میں اسی جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں اور اس جرم کی سزا کو میں خود برداشت کروں گا، میں امید کرتا ہوں بہت جلد خیریت کے ساتھ ضمانت پر رہائی پاکر گھر لوٹ آؤں گا ” یہ عبداللہ بزرگزادہ کے الفاظ تھے جو کہ ایرانی خفیہ ایجنسی ” اطلاعات ” کے کسی نامعلوم ازیت گاہ سے بول رہے تھے، اس فون کال کے آتے وقت عبداللہ بزرگزادہ کے والد کو 3 دن ہوچکے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کی تصویر لیئے ایرانشہر کے ایک سڑک کنارے فوجی چھاؤنی کے قریب خاموش کھڑے بغیر کچھ کہے اندھے اور بہرے لوگوں کو اپنا دکھڑا سنا رہے تھے۔
سوشل میڈیا میں کچھ دیرٹٹولنے کے بعد ایک یاسیت زدہ اور قنوطیت سے بھرپور تصویر پہ نظر پڑی جس میں ایک پیراں سال شخص پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں اور اس پلے کارڈ پر ” فارسی ” زبان میں یوں تحریر تھا کہ ” پسرم عبداللہ بزرگزادہ حامی دختران ایرانشہر کجاست ” اس سے یہی ظاہر تھا کہ وہ حرماں نصیب کوئی اور نہیں بلکہ عبداللہ بزرگزادہ کے والد گرامی ہیں جو کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے کسی سڑک کنارے تن تنہا کھڑے اپنے بیٹے کے بارے میں سراپا سوال ہیں، حرماں نصیب اس لیئے کہ ان کے سوالوں کا جواب غاصب قوتوں کے ساتھ ساتھ قوم کے دکھ میں روز روز مرمٹنے کی مداری نما کھیل میں مصروف سیاسی لوگوں کے پاس بھی نہیں ہیں، ایک سفید ریش پیراں سال بلوچ بزرگ اپنے بیٹے کی ایرانی خفیہ ایجنسی “اطلاعات” کے ہاتھوں جبری اغوا کے خلاف کسی روڈ کے کنارے کھڑے احتجاج کے ساتھ ساتھ ایک سوال کررہے ہیں، وہ احتجاج تو ظاہر سی بات ہے کہ ان قوتوں سے کررہے ہیں جنہوں نے ان کے نوجوان بیٹے کو 41 کے قریب بلوچ عورتوں کے ساتھ ہونے والی آبروریزی کے خلاف احتجاج کے پاداش میں غائب کرکے زندانی کیا ہے لیکن وہ سوال یقینا ان غاصب قوتوں سے نہیں کررہے ہیں، کیونکہ ان کو یہ پتہ ہے کہ انکا بیٹا کہاں ہے اور جہاں ہے تو وہاں کیوں ہے، یہ ان کو بخوبی معلوم ہے لیکن وہ سوال کررہے ہیں تو اپنوں کی خاموش زبانوں کے حوالے سے، ہم جب بھی کہتے ہیں تو بلوچ ننگ و ناموس کہتے ہیں، ہم جب بھی بات کرتے ہیں تو بلوچ کی حق حاکمیت کی بات کرتے ہیں، ہم جب بھی بولتے ہیں تو بلوچ کو ایک اجتماعی وحدانیت و اکائی کے طور پر سامنے رکھ کر بولتے ہیں، ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی نے کہا ہو کہ ایران کے بلوچ غلام ہیں یا پاکستان کے بلوچ غلام ہیں، یا ایرانی بلوچ خواتین کے ساتھ آبروریزی کی گئی ہے یا پھر پاکستانی بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے فوجی بیرکوں میں منتقل کیا گیا ہے، کیونکہ ہم ان مصنوعی پہچانوں سے بالاتر بلوچ کو ایک وحدت اور اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں، اسی لیئے آج عبدللہ بزرگزادہ کے پیراں سال والد تنہا کھڑے سب بلوچوں سے سوال کررہے ہیں کہ کیا ہم سب کا دکھ درد سانجھا نہیں ہے، کیا ہماری پہچان ایک نہیں ہے کیا ہم قومی اور اجتماعی بنیادوں پرغلام ہیں یا ہم ایران و پاکستانی غلامی کے دائروں میں بٹ چکے ہیں،
میں پاکستان کا غلام
اور
تو ایران کا غلام
یہی وہ سوال ہے جو بلوچ کی اجتماعی وحدت کے مسئلے پر خاموش زبانوں سے جواب کا منتظر ہے، 41 بلوچ خواتین کی عصمت دری پر روا رکھی گئی خاموشی پر سوال، روز روز کی عدالتی قتل اور سرِ عام پھانسیوں پر چھپ کے روزہ رکھنے پر سوال، ہر راہ گزرتے مال بردار اور پرامن بلوچ نوجوان و پیراں سال لوگوں کو سرعام ہدف بناتے ہوئے راکٹ و گولیاں برسا کر ان کو شہید کرنے کے حوالے سے بے اعتنائی پر سوال، ایرانی باسیج،(فورس ) اطلاعات و دیگر فوجی و نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں کے غائب ہوجانے والے بلوچ نوجوانوں کے بارے سرد مہری کی رویوں پر سوال، اور سب سے بڑھ کر ایرانی قاجار قوم کی طرف سے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے اور بلوچ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے بارے میں بے جا اور مجرمانہ خاموشی پر سوال، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عبدللہ بزگزادہ ایرانی بلوچ ہے پھر تو ان سے سوال کرنا ہی بیکار اور ان کی خاموش بامعنی، لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے عبداللہ بزرگزادہ محض غلام قوم کا ایک غلام فرد ہے اور ایک بلوچ فرزند ہے تو پھر ان خاموش حلقوں سے یہی سوال جائز بنتے ہیں جو ان سے ہر لمحے ضرور پوچھے جانے چاہیئے ۔
جب پہچان ایک ہے اور یہ ہم فخریہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم سب بلوچ ہیں ایک سرزمین کے والی وارث ہیں تو یہ مصنوعی اور جبری سرحدیں ہمیں الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹ سکتیں، عبداللہ بزرگزادہ کے والد سوال کررہے ہیں ان قوتوں سے جو کہ نہ صرف 41 بلوچ خواتین کی ایرانی باسیج فورس کے اہکار کے ہاتھوں آبروریزی کے خلاف خاموش ہیں بلکہ اس کے پاداش میں غائب کیئے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہتے کہ جنہوں نے جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایرانی قبضہ گیر قوتوں کو نہ صرف للکارہ ہے بلکہ اس درندگی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی قبضہ گیر طاقتوں کے خلاف بلوچ عوام کے زہنوں میں موجود نفرتوں کی راکھ کو چنگاریوں میں بدل کر ایک بھرپور آگ کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے، عبداللہ بزرگزادہ جیسے لوگوں کی طرف سے ہونے والی اس عمل کی تمام آذادی پسند قوتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے تھی تاکہ بلوچ قوم پر ایرانی مظالم کی گھناؤنی کہانیاں دنیا کے سامنے مزید شدت سے آشکار ہوجاتے، اگر مصلحت کوشی آڑے نہیں آئی ہے، آپ ایرانی باسیج و ” اطلاعات ” کے ہاتھوں فروعی مفادات کی خاطر یرغمال نہیں ہو، اگر آپ نے بلوچ وحدت ( مادر سرزمین ) کی چادر کو بچانے کی خاطر اس کی دامن کا سودا نہیں کیا ہے تو پھر سوال یہی ہے کہ خاموش کیوں ہو؟ یا عبداللہ بزرگزادہ کی یہ عمل قومی تحریک یا جد و جہد کے معیار و قالب میں اس جگہ پر فٹ نہیں ہوتا جہاں آپکا عمل سمو جاتا ہے، یا پھر ان 41 خواتین کی عصمت دری کو آپ جور و جبر سے تعبیر نہیں کرتے؟ کیا دوسرے لوگ جو جد وجہد کررہے ہیں وہ کیا قوم کے لیئے تارے توڑ کے لاتے ہیں یا اپنی بساط و اوقات میں جو بن پڑتا ہے وہ کرتے ہوئے اور اپنی فرض نبھاتے ہوئے اس راہ میں کام آجاتے ہیں یا عبداللہ بزرگزادہ جیسے لوگ کچھ حلقوں کی جانب سے بلوچیت کی متعین کردہ مخصوص حدود اور تشریح و تعارف پہ پورا اترنہیں پاتے، اسی لیئے ان جیسے لوگوں کے لیئے صدا نہیں کوئی نوا نہیں کوئی آواز نہیں اور کسی بھی طرح کی افسردگی و ملال کا احساس نہیں۔
پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں جد و جہد کرنے والے کچھ بلوچ آذادی پسند حلقے ایرانی مقبوضہ بلوچستان، وہاں کے بلوچ آبادیوں پر ہونے والی ظلم و جبر اور ناروائیوں پر بالکل خاموش ہیں، بہت سارے لوگ یہی توجیع پیش کرتے ہیں کہ ہم میں اجتماعی بنیادوں پر اتنی طاقت نہیں کہ ہم ایک ساتھ 2 محازوں پر لڑ سکیں پہلے یہاں آذادی حاصل کرلیں یا پاکستانی مصیبت سے چھٹکارہ پالیں پھر اسکی طرف رخ کریں گے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک وحدانیت کے مالک بلوچ کی اجتماعی اکائی جسے ہم عظیم بلوچستان کہتے ہیں کیا وہ مختلف محازوں پر بٹی ہوئی ہے، اور کیا یہ محاز واقعی میں حقیقی محاز ہیں یا نہیں، بلوچ کی مرضی اس بٹوارے میں شامل ہے یا بزور طاقت اور بلوچ کی مرضی کے برخلاف اسکی سرزمین کو بانٹتے ہوئے اس میں کئی محاز تخلیق کی گئی ہیں؟ اگر بات آخرالذکر کی ہے تو یہ بات کہنا کہ ایک اور محاز نہیں کھول سکتے اس بٹوارے کو زہنی طور پر قبول کرنے کے مترادف ہوگا، جیسا کہ ایران ایک محاز ہے اسے چھیڑنے سے نقصان کا اندیشہ ہے یعنی یہی تاثر ہے کہ ابھی ایران بلوچ قوم کو کوئی خاص نقصان نہیں دے رہا، اگر محاز کھولا تو نقصان دیگا، یعنی وہ محاز بالکل سرد اور خاموش ہے، اور دوسری بات یہ کہ کس نے کہا کے ہتھیار اٹھاؤ اور جاکر ایران کے ساتھ لڑ لو، نہیں لڑو، لیکن لڑنے کی، حق مانگنے کی، انقلاب بپھا کرنے کی اور سیاسی جد و جہد کرنے کی ایک انگیخت تو وہاں کے بلوچوں کو دی جاسکتی ہے، ان سے کہو، ان سے اپیل کرو، ان کو رستہ دکھانے اور باور کرانے کی کوشش کرو کہ ایران سے سیاسی، سماجی، ثقافت و تمدن اور عسکری ہر حوالے سے لڑنا ہے، کیونکہ ان کو یہی سمجھانا ہے کہ ” ہم ” جس طرح پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں لڑ رہے ہیں ٹھیک اسی طرح ایرانی بلوچوں کو وہاں اپنی بنیادی حقوق کے لیئے اٹھ کر لڑنا ہوگا، اور بنیادی انسانی حقوق میں سب سے پہلی اور اہمیت کے حامل شے انسان کی اجتماعی قومی آذادی میں مضمر ہے، اگر آپ جد و جہد میں قدرے آگے ہیں تھوڑی بہت قربانیاں دےکر خود کو عالمی دنیا میں منوا چکے ہیں اور عالمی فورمز پر جہاں آپ کو رسائی حاصل ہے تو وہاں ایرانی مظالم کے خلاف بات کرنا لازم بنتا ہے، کیونکہ ایرانی قاجار حاکموں کی مظالم بلوچ قوم کے حوالے پاکستان سے کسی بھی صورت میں کمتر نہیں ہیں، بالکل نہیں وہاں جاکر نہیں لڑو لیکن سوال ہے اخلاقی حمایت کا، سوال ہے اس پر بات کرنے کا اور اگر وہاں کوئی خودرو بنیادوں پر اٹھ کر بلوچ حقوق کے لیئے آواز اٹھائے تو اس کی آواز کو مزید توانا و طاقتور بنا کر دنیا کے سامنے متعارف کروانا ہی ہماری زمہ داری ہے، اور اس بیگانگی اور بیچارگی کی عالم میں جہاں مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حوالے سے بلوچ ایرانی قاجار کی غلامی میں دھنس چکے ہے اگر وہاں کوئی “عبداللہ بزرگزادہ ” یا ” شاہ بلوچ ” اور ” حبیب زین الدینی ” جیسے قومی سوچ فکر رکھنے والے لوگ سامنے آئیں تو ان کی حوصلہ بڑھانے کی خاطر ان کے دست و بازو بننے کے لیئے ان کے حق میں دنیا کے سامنے اپنی بات رکھنا ہی ہماری زمہ داری ہے، اور وہاں ہونے والی ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اگر کوئی بلوچ فرزند دشمن کی بلوچ کش پالیسیوں کا شکار ہوجائے تو اسے تنہا نہ چھوڑنا ہی ہماری یعنی (دوسرے جہدکار بلوچوں کی) زمہ داری بنتی ہے، یہی زمہ داریاں ادا کرو سمجھو آپ ایران اور پاکستان دونوں سے لڑرہے ہیں، کوئی کسی سے حربی یا عسکری جنگ کی مطالبہ نہیں کررہا ہے کیونکہ ہر نسل اور ہر خطے کے لوگ اپنی جنگ اپنے زور بازو اور قوت ارادی سے لڑتے ہیں لیکن ان کی قوت ارادی کو مزید مستحکم بنانے اور انکی زور بازو کو اور توانائی بخشنے کے لیئے دوسرے حلقوں اور ملکوں میں بسنے والے بلوچوں کی اخلاقی حمایت اور داد و تحسین ضرور درکار ہوگی، ہم آج یورپ کے بسیارے ملکوں میں، کوریا ریپبلک کے چوراہوں پر، امریکی ریاستوں کے بلند و بالا عمارتوں کے سامنے اور کینیڈا کی گلیوں میں ایک پلے کارڈ لیئے خاموش احتجاج کی صورت میں ان سے انکی اخلاقی امداد، انکی زبانی کلامی حمایت اور داد و تحسین اور ہماری قوم پر ہونے والی جبر و ظلم کو ظاہر کرنے سمیت جابر و ظالم ریاست کی طرف سے ہونے والی جبر کی مذمت اور اس ظلم و جبر کے سائے میں البرز کے پہاڑی کی طرح سینہ چوڑا کرکے کھڑے ہوتے ہوئے دی گئی قربانیوں کی قدردانی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم دنیا سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہم جو قربانیاں دے رہے ان قربانیوں کو قدر کے نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمیں ہماری جد و جہد میں اپنی اخلاقی حمایت سے نواز دیں، لیکن، اگر آپ یہی اخلاقی حمایت، دی ہوئی قربانیوں کی قدردانی اور ان کی داد تحسین خود اپنے آپ میں اور اپنے ہی قوم کے لیئے نہیں کرسکتے تو پھر دنیا کے دیگر قوموں یا ملکوں سے یہ توقع رکھنا عبث (بے کار) ہے کہ وہ آپ کی حمایت میں آگے آئیں، یہ مجرمانہ خاموشی اور زبان بندی بلوچ تحریک آزادی کے نام پر سیاست کنان کچھ حلقوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور اس کی وجوہات یہ ہرگز نہیں ہوسکتے کہ ہماری قوت اتنی نہیں کہ ہم ایک اور محاز کھول سکیں، ان سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ محاز کھل چکی ہے یہ طاقت کا نہ ہونا محض ایک سیاسی کم کھجالی،فکری کجروی اور اپنی سیاہ کرتوتوں کو چھپانے کا محض ایک بہانہ ہے کیونکہ اس خاموشی کے تانے بانے بہت ہی بھیانک ڈوریوں سے جاملتے ہیں، جہاں ایرانی قاجار اور ملا رجیم کے ساتھ بلوچ اجتمائی وحدانیت کی سہانے خوابوں کے واسطے بہتے ہوئے لہو کی دھار کا سودا کیا جاچکا ہے۔
کیا جب پاکستان کے خلاف حالیہ تحریک شروع ہوئی تو سارے لوگ اس میں شامل تھے، کیا تعداد اور استعداد یہی تھی جو آج ہے یا درمیانی عرصے میں تھی کیونکہ آج تو پھر سے انہی چند سیاسی حلقوں کی سیاسی اوچھا پن اور رزالت کی وجہ سے ہم مزید نقطہ معکوس کی طرف گامزن ہیں، آج کا عرصہ گو کہ بلوچ قومی تحریک کے حالیہ مرحلے کا معیار ہر گز نہیں مانا جاسکتا مگر جو بھلے دن گزرے تو کیا وہ یکا یک کن فیکون کی طرح آنا فانا وقوع پذیر ہوئے، اگر موجودہ بلوچ تحریک آذادی سے مثال لے لیں تو بات یہاں سے شروع کی جاسکتی ہے کہ جب 2005 کے خونی حملے کے بعد شہید نواب اکبر خان بگٹی اپنے ساتھیوں سمیت دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے پہاڑوں پر چڑھے تو کیا پوری بلوچ قوم انکے ساتھ تھی، پوری بلوچ قوم چھوڑ، کیا پوری بگٹی قبیلہ ان کے ساتھ تھی، عملی یا مادی بنیادوں پر چھوڑ کیا سارے بگٹی قبیلے کے لوگ ہمدردی یا نظری، فکری اور احساس کے بنیاد پر بھی ان کے ساتھ تھے، حقیقت تو یہی ہے کہ کچھ ہم خیال ساتھیوں کے علاوہ بلوچ قوم کی اجتماعی طاقت تو خیر اپنی جگہ خود بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ نہ صرف انکے ساتھ نہ تھے بلکہ وہ فکری، نظری اور ہمدردی کے اعتبار سے بھی ان کے اس عمل سے لاتعلق تھے، لیکن خود شہید نواب اکبر خان بگٹی تادم مرگ یہی کہتے رہے اور آج تک ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ جنگ پوری بلوچ قوم کی بقا اور مسقبل کی سنوار کے لیئے ہے، اب پوری بلوچ قوم اس میں متفرق علاقوں کی نفسیات اور مختلف قبائل اور ان کی آپسی رنجش و مسائل اپنی جگہ خود بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے کی بنا جہاں معاشرتی و سیاسی اعتبار سے ایک عزت کا رشتہ قبائلی سماج میں ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر وہ قبائلی رشتہ بھی نواب بگٹی کی اس جد و جہد میں پوری قبائل کو ایک جھٹ نہ بنا سکی، اس میں سیاسی مصلحت کوشی سے زیادہ خود اس چھاپہ مار جنگ کی نوعیت و مقاصد کا ہاتھ ہے، اگر پوری قوم سے مراد پوری قوم کے افراد ہی لیئے جائیں تو اسکا مطلب یہی ہوگا کہ ہم اور ہمارے جہد میں شامل لوگ قومی آبادی کے تناسب میں بہت ہی کم ہیں، لیکن اس جد و جہد میں کچھ لوگ، کچھ گنے چنے اور معیاری کردار کے مالک افراد ہی اس تحریک کو عسکری شکل دے کر اسے دھیرے دھیرے قوم کے پچھلے صفوں کے اندر دھکیلتے ہوئے ایک طویل دورانیے کے بعد قوم کو اس کی ناقابل شکست حمایت پر راضی کرسکتے ہیں، یہ پوری دنیا کی چھاپہ مار جنگوں اور کالونیلزم کے خلاف چلنے والی تحریکوں سے واضح ہوتا ہے کہ جد وجہد ہمیشہ قوم سے تعلق رکھنے والے ایک خاص طبقے نے کی ہے اور یہ طبقہ متخلف معاشی، سیاسی، سماجی اور مذہبی بنیادوں سے نکل کر سیاسی شعور کے بنیاد پر ایک اکھٹ بنالیتی ہے اور وہی اکھٹ آگے چل کر اپنی قربانیوں، سنجیدہ رویوں، برداشت کی قوت، سیاسی بردباری اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر قوم کو اس تحریک کے ساتھ جوڑ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ اس تحریک کا جال پھیلتا جاتا ہے اور لوگ اس میں شامل ہوتے جاتے ہیں، یہ روایت بلوچ تحریک کے مختلف سنجیدہ حلقوں میں آج بھی مثال کے طور پر موجود ہے جہاں تعداد کی بے ہنگم ہجوم کو اکھٹا کرنے سے زیادہ مقاصد سے جڑے رہنے اور معیار و قابلیت کو ترجیح دی جاتی رہی ہے، قابض قوتوں کے خلاف جنگ ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہا ہے اگر اس جد و جہد کو قربانیوں کے اعتبار سے دیکھا جائے، خالی ہاتھ ایک طاقتور دشمن سے ٹھکرانے کا نتیجہ کسے معلوم نہیں کسے نہیں پتہ کہ جدید ہتھیار، لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس اور افرادی قوت میں ہم سے سینکڑوں گنا طاقتور دشمن کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں موت ہی مقدر ہوگی، لیکن نفع و نقصان تحریکوں میں آج کے دن کی یا لمحہ موجود کی حوالے سے نہیں ناپے جاتے بلکہ وہ مستقبل کی راہیں کھولنے اور ایک سوچ کو پروان چڑھانے میں دی ہوئی ان گنت جانوں کے نظرانے کے بنیاد پر دیکھے جاتے ہیں، وہ تمام ابتدائی معرکے جہاں دشمن نے ایک ہی وار میں نصف درجن سے زیادہ جہد کار مار دیئے ہوں اور دشمن کو کوئی نقصان بھی نہ ہوا ہو، لیکن یہی کمزور اور اسباب و اوزار سے تہی دست شہید ہونے والے لوگ بعد کے ان لوگوں سے کئی درجہ زیادہ افضل ہونگے کہ جو دشمن کو میدان جنگ میں کاری ضرب لگاتے ہوئے شہید ہوجائیں کیونکہ آج کے جہدکاروں کے لیئے جد و جہد کی ہئیت، روپ خدوخال اور راہیں متعین کی جاچکی ہیں لیکن جو اولین لوگ تھے وہ اس جد و جہد کی راہیں متعین کرنے والے لوگ تھے، اور وہ ہمیشہ معتبر ٹہریں گے، وہ ہمیشہ تعداد میں کم ہونگے، وہ ہمیشہ نقصان اٹھائیں گے، جان گنوا کر اور لہو بہا کر جد و جہد کی طبل کو پوری دنیا میں بجانے کے سبیل پیدا کریں گے، سو ابتدائی لمحات میں اگر مصلحت آڑے نہ آئے تو طاقت کا نہ ہونا، کمزور و نحیف ہونا کوئی مسئلہ نہیں رہتا، لیکن جہاں مصلحت ہو، جہاں بہانے ہوں اور فروعی مفادات کا کھیل زوروں پر ہو تو وہاں عبداللہ بزرگزادہ اور شاہ بلوچ سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی قربانیاں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
26 جولائی 1953 کو کیوبا کے جنگجو فیڈل کاسترو کی کمانڈ میں سینٹیاگو اور بیامو کے موناکاڈا بیرکس پر حملہ آور ہوئے تو یہ حملہ بری طرح ناکام ہوکر پسپا ہوگیا، ڈیڈھ سو کے قریب جنگجوؤں میں سے صرف ستر 70 کے قریب لوگ بچ سکے باقی یا تو گرفتار ہوئے یا ماردیئے گئے، اس میں فیڈل کاسترو کے نائب کمانڈر بھی گرفتار ہوکر بعدازاں قتل کیئے گئے، اس حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے خود فیڈل کاسترو کہتے ہیں یہ حملہ ہی اس لیئے کیا گیا تھا کہ اس سے انقلاب کا نقارہ بجے اور لوگوں کی کانوں تک ہماری بات پہنچ جائے کہ یہ جنگ ایک تحریک ہے، خود فیڈل کاسترو اس کے بعد گرفتار ہوئے اور بعد میں رہا ہوکر میکسیکو چلے گئے اور پھر 82 نفوس پر مشتمل ایک گروپ کے ساتھ واپس میدان میں آ لپکے خیر اسکی پوری تاریخ ہے، مگر مابعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب کچھ جولائی 1953 کی اس ناکام حملے ہی کی مرہون منت تھی، کوئی بھی جد و جہد کامیابی کے سو فی صدی یقین دہانی کے کے ساتھ شروع نہیں کی جاتی بلکہ ہر جد و جہد کو محدود پیمانے پر بڑے نقصانات کے ساتھ شروع کرکے بڑے پیمانے پر اور محدود نقصانات راہ پر منتقل کیا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ جد و جہد اپنی معیاری پالیسی اور رجحانات کے زریعے نا قابل شکست بن کر منزل و مقصود کو پہنچ جائیگی، بلوچ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو فطری قانون کے تحت ہر کسی کے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے، بلوچ نے شروعاتی دنوں میں بہت ہی بیچارگی کے عالم میں اس جنگ کو شروع کیا نہ افرادی قوت تھی، نہ حالات موافق تھے، نہ کوئی حمایت موجود تھی، پارلیمانی پارٹیوں کا عوامی حلقوں میں پذیرائی تھی، ووٹ و نوٹ کی سیاست ہی کو بلوچ قومی نجات کا حقیقی سیاست سمجھا گیا تھا، بیگانگی تھی اور احساس کے پیمانے ختم ہوکر غلامی اور آذادی جیسی نقطوں پر کوئی سوچنے والا نہیں تھا، لیکن کچھ لوگ تھے جو کہ تعداد میں بہت ہی قلیل تھے مگر اعلی عزم رکھتے تھے سو آج کی جد و جہد انہی کی مہربانیوں اور مرہون منت سے رواں دواں ہے جو کہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن انکا یہ لگایا ہوا پودا آج ایک لہلہاتے باغ کی شکل اختیارکرچکی ہے، گو کہ جب یہ پانچویں اور موجودہ تحریک بلوچستان کے اس حصے میں شروع کی گئی تو اس میں نعروں کی حد تک باتیں واضح تھیں کہ بلوچ اصل میں چاہتا کیا ہے، چاہنے میں اور ہونے میں یقینا فرق ہے لیکن چاہنے کی جو خواہش ہے اس پر کوئی روک نہیں ہونی چاہیے، میں چاہتا ہوں کہ ” بلوچستان نوری نصیر خان کی سرحدوں کے ساتھ دوبارہ اپنی آزاد حیثیت میں بحال ہو” یہ ایک ایسی پوزیشن ہے جو کہ آپ کی سوچ کی مکمل پہلوؤں کی ترجمانی کرتا ہے کہ آپ چاہتے کیا ہیں، آپکا مدعا کیا ہے اسکے برعکس آپ کر کیا رہے ہیں وہ آپ کی خواہشات، چاہت یا امنگوں سے نہیں بلکہ حقیقت حال سے تعلق رکھتا ہے، یعنی میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف ایک ایسی ہمہ جہتی اور شدت کے ساتھ معرکہ ہو کہ ہم جلد از ،جلد آذاد ہوسکیں یہ تصورات ہے جو کہ حاصل اختیارات، میسر سازوسامان اور موجود نفری قوت، سماج کے اندر سیاسی بیگانگی کی معیار اور شدت سمیت حربی طاقت کی کمیابی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے لیکن خواہش یہی ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے ہم اپنی اس سرزمین کا مالک بن جائیں، سو ایک خواہش اور کاوش یہ بھی ہے کہ بلوچستان اپنی تمام غلامی کی شکل و صورتوں سے نجات پالے، اگر ہم ایران کے خلاف از خود محاز نہیں کھول سکتے لیکن اس محاز کو کھلوانے کے لیئے اپنی باتوں اور باہمی رابطوں کے زریعے وہاں کے لوگوں کی سوچ کو پروان چڑھا سکتے ہیں مگر کچھ حلقے یہ کام بھی نہیں کررہے اور اس خواہش کا بھی گلا دبا کر ایرانی قبضہ گیر قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سیراب لاحاصل کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔
بلوچستان آج 2 واضح اور طاقتور قبضہ گیر قوتوں کے چنگل میں پھنس چکی ہے، آپ عملی بنیادوں پر کیا کررہے ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں وہ یقینا آپکی موجودہ زمینی حقائق سے متعلق ہے اور زمینی حقائق اور سیاسی و سماجی تلخ سچائیاں بسا اوقات انسان کو اس حال میں نہیں چھوڑتیں کہ وہ عملی میدان وہ سب کچھ کرلے جو اسے حقیقت میں کرنا چاہئے، لیکن یہ یاد رہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، آپکا حقیقی مدعا کیا ہے، منطقی طور پر نتیجتا آپ اس جد و جہد سے کیا کچھ پانا چاہتے ہیں اگر آپ اتنے مجبور اور مصلحت کا شکار ہوجائیں کہ اپنی مدعا ہی کو بیان نہ کرسکیں، جو میدان میں عملی بنیادوں پرنہیں کرسکتے اسکی زبانی کلامی بنیادوں پر ذکر کرنے سے بھی احتراز برتیں تو سمجھنا چاہیئے کہ مقاصد و اعمال کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ موجود ہے، قوت کی کمیابی اور تلخ حقیقتوں کے بیچ موجود وسعتوں کا بہانا بناکر اگر آپ اپنی مدعا زبان پر لانے سے گریز پا ہوں تو یقین جانئے کہ نہ آپ عبداللہ بزرگزادہ و شاہ بلوچ اور حبیب زین الدینی جیسے بلوچ فرزندوں کے وارث ہیں نہ آپ انکے پیراں سال والد کے سوالوں کے جوابدہ ہیں اور نہ ہی آپ شہید غلام محمد اور لالا منیر کے سہانے سپنوں کے وارث ہیں، آپکی حیثیت محض ایک ” پرزے ” کی ہے جسے جب بھی اور جیسے بھی چاہے دشمن استعمال کرسکتا ہے ، وہی دشمن جسکی مصلحت میں آپ اپنی نصب العین اور مدعا ” عظیم تر بلوچستان ” کی بات اپنی زبان پر نہیں لاسکتے، آپ سے یہ توقع بھی نہیں کہ آپ کسی عبداللہ بزرگزادہ و شاہ بلوچ کے بارے میں منہ کھولیں گے، باقی 41 بلوچ بہنوں کے ساتھ ہونے والی عصمت دری کے بارے جرم و جبر اور دست درازی کا تصور یقینا آپکے ہاں ناپید ہے، یہ بلوچ قوم کو اچھی طرح معلوم ہے۔