بلوچ موثرسفارتکاری، چین کی بےچینی تحریر: وطنچار بلوچ انتہائی مسرت کا مقام ہے کہ بلوچ قوم کو نوری نصیرخان کے بعد سنگت حیربیار کی رہنمائی میسر ہے جو مغربی بلوچستان سے لیکر مشرقی بلوچستان جس پر پاکستانی اور ایرانی قابض افواج کے ہاتھوں مظالم کے شکار بلوچوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ یاد رہے ایران اور پاکستان دونوں نہ صرف بلوچ گلزمین پر قابض ہیں بلکہ چین کے ساتھ مل کر بلوچ شناخت، بلوچ ساحل و وسائل کو لوٹ کر بلوچ تاریخ، ثقافت، رسم و رواج، زبان اور جغرافیہ پر شب خون مارنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ہے اسی اثنا میں بلوچ قوم صدیوں سے ایک ایسے رہبر کی تلاش میں تھی جو پارٹی ، گروہی اور ذاتی سوچ کی دلدل میں دھنسے بلوچ قوم کو نکال کر قومی آزادی کی راستے پر چلانے کی ترغیب دے۔ بلوچ قومی بیرک کو تھام کر دنیا میں بسنے والے محکوم اور غلام بلوچ قوم کو یکجا کرکے انہیں اپنی قومی آزادی کے لئےبیدار کرے۔ آج سنگت حیربیار بلوچستان سے لیکر دنیا کے کونے کونے سے منتشر بلوچ قوم کو یکجا کرنے کے لئے شب و روز کامیابی سے قومی جہد میں مصروف عمل ہیں۔ چین نے گذشتہ سال بلوچ تحریک بابت ایک سرکاری بیان میں کہا تھا کہ بلوچ مزاحمت اب چین کے لئے کوئی خطرہ نہیں رہا لیکن اسی چین کو اس وقت سخت پریشانی ہوئی جب لندن میں سنگت حیربیار مری کی قیادت میں فری بلوچستان موومنٹ کے پلیٹ فارم سے چار روزہ دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ چھبیس جون سے لیکر اٹھائیس جون تک جاری رہنے والی اس مظاہرے میں بلوچ رہنما نے بنفس نفیس خود شریک ہوکر بلوچ قومی مفاد بارے چین کو دوٹوک واضع الفاظ کے ساتھ پیغام دے دیا۔ کہ اسے بلوچ گلزمین سے فوری طور پر نکل جانا چائیے، انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ مقبوضہ بلوچستان سے متعلق چین اور پاکستان کے مابین تجارتی، فوجی اور ہر قسم کے معاہدات کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے لہذا بلوچ سرزمین کی آزادی کے ساتھ ہی مذکورہ قابض قوتوں کے تمام ترمعاہدات کو فوری طور پر ختم کردیا جائے گا ۔ جو لوگ بلوچ سفارتکاری کو غیر موثر اور بے نتیجہ کہہ کر بے وجہ منفی پروپیگنڈوں میں مصروف ہیں ان کے اس پروپیگنڈے کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب لندن میں چین کے سفارتخانے نے لندن میٹروپولیٹن پولیس کو بلا کر فری بلوچستان موومنٹ پولیٹیکل احتجاج میں موجود آزاد بلوچستان کے بیرک کے اٹھائے جانے پر سرکاری طور پر احتجاج ریکارڈ کراکر لندن پولیس سے کہا کہ وہ حیربیار مری اور ان کی پارٹی سے کہے کہ وہ مظاہرے میں بلوچستان کا بیرک نہ اٹھائے۔ چین نے لندن انتظامیہ سے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے بلوچ قومی بیرک کو دہشتگردوں کا جھنڈا کہا ساتھ ہی ساتھ چین نےلندن پولیس کو گمراہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فری بلوچستان موومنٹ کے مظاہرین کے ہاتھوں جھنڈا بلوچ لبریشن آرمی کا جھنڈا ہے جسے چین دہشت گرد تصور کرتا ہے۔ چین کے اس سرکاری احتجاج پر فری بلوچستان موومنٹ کی قیادت نے بلوچ قوم اور عالمی میڈیا کوایک مراسلے کے ذریعے آگاہ کیا۔ بلوچ راہشون سنگت حیربیارمری اور ان کے نظریاتی دوستوں نے جرائت مندانہ اقدامات کو جاری رکھتے ہوئے چینی حکام کو واشگاف الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیرک بلوچستان کی قومی بیرک ہے جسے بلوچ قوم کا ہر فرد گذشتہ پندہ سالوں سے اٹھاتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے چین کے اس اعتراض کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھنڈا دہشت گردوں کا نہیں اور نہ ہی بلوچ قومی جہد دہشت گردی ہے۔ بلوچ رہنما نے سی پیک کے بہانے چین کی بلوچ سرزمین پر بلوچ آبادیوں کی جبری بے دخلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین اپنی معاشی اور خطے میں فوری استعصالی مقاصد کے لئے بلوچ آبادیوں میں فورسز نے اپنی جبر و وحشت سے انھیں بے گھر کرکے بے شمار لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا ییں۔ اور لوگوں کے بڑی تعداد میں قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ بلوچ رہنما حیربیار مری نے چھبیس جون کو تشدد کے عالمی دن کے موقع پر احتجاج کے دوران بلوچستان کے قومی بیرک کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام کر لندن جیسے انٹرنیشنل شہر کی فضاوں میں لہراتے ہوئے چین اور پاکستان کے قابض حکمرانوں کی توجہ بلوچ قومی بیرک کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا قومی بیرک ہے اور دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں اپنی قومی بیرک تھامنے سے روک نہیں سکتا۔ آپ کا ادا کیا گیا یہ جملہ بلوچ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا اور سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں اور دیگر اقوام نے اسے شیئر اور پوسٹ کیا۔ سنگت حیربیار کے اس دلیرانہ اقدامات کو بلوچستان بھر اور پوری دنیا میں انتہائی سراہا گیا۔ آپ کی اس جرائت مندانہ اور قومی امنگوں کی ترجمانی کرنے والی اقدام نے بلوچ نوجوانوں میں جذبہ حب الوطنی کو اور بھی مضبوط اور توانائی بخشی۔ دوسری جانب استعصالی چین کو سخت حزیمت اٹھانی پڑی کیونکہ چین کے احتجاج کے باوجود بلوچ قوم نے سنگت حیربیار کے ساتھ مل کر اپنی قومی بیرک کا دفاع کیا۔ چینی حکام کے اس بلوچ مخالف اقدام کے فوراً بعد آزادی پسند بلوچ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر #BalochDefendsNationalFlag, #BalochNationalFlag کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے حکام سے اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں نے آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو ہر جگہ لہرانا شروع کردیا۔ روس میں جاری فٹ بال ورلڈکپ کے شائقین نے بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک اور بلوچ قوم کے ساتھ اپنی اخلاقی حمایت و ہمدردی کے اظہار کے طور پر بلوچستان کی قومی بیرک کو بڑی شان وشوکت سے لہرایا۔ سپین میں رہائش پزیر محب وطن بلوچوں نے اپنے گھروں پر آزاد بلوچستان کا جھنڈا لہرا کر چین اور پاکستان کو واضح پیغام دیا کہ بلوچ اپنے قومی بیرک پر کبھی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ بلوچ نے بحیثیت قوم اپنے جھنڈے کا بھرپور انداز سے دفاع کیا۔ ایک طرف چین بلوچ عسکریت پسندوں کے کاروائیوں کے کمی سے مطمئن ہونے کا تاثر دے رہی تھی تو دوسری جانب چین بلوچ قوم کی موثر سفارت کاری سے انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آیا۔ چین کی اس بے چینی سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بیرون ممالک جدوجہد میں برسرپیکار آزاد ی پسند بلوچ نوجوان اپنی انتھک محنت، شب و روز کاوشوں سے بارآور ثابت ہورہی ہے کیونکہ بلوچ قوم اب دنیا کے ہر دروازہ کو کھٹکٹا رہی ہے، بلوچ سفارتکاری کی وجہ سے چین، پاکستان اور ایران کی خطے میں مذموم عزائم سے پردہ فاش ہورہی ہے۔ دنیا میں بلوچ آواز کو سنا جارہا ہے، بلوچ قومی تحریک کی پزیرائی سے چین کافی پریشان ہے۔ پاکستان جو پوری دنیا کو غلط معلومات فراہم کرکے انہیں زمینی حقائق سے دور رکھنا چاہتی ہے، وہ چین کو بھی بلوچ قومی تحریک بابت جھوٹ بول کر مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے کہ یہاں بلوچ مزاحمت دم توڑ گئی ہے اور اب انہیں سی پیک جیسے بلوچ کش منصوبے کو جاری رکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی لیکن قابض پاکستان اور ان کی کفیل چین کو بہت جلد اس بات کا بھر پور انداز سے احساس ہوگا جب ان پر بلوچ کی وار پڑیگی کیونکہ بلوچ قوم گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں گوریلا جنگ دو بدو کی جنگ سے مختلف ہے، بلوچ ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جہاں ٹارگٹ طے کرنے میں کوئی جلدی ہوتا ہے نہ اس نشانے پر عمل درآمد میں کوئی کوتاہی برتی جاتی ہے۔ بلوچ سرمچار ایک مکار اور انتہائی شاطر دشمن سے لڑ رہی ہے اور ایسے چالباز اور غیر مہذب دشمن سے سنجیدگی سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ایسی مشکل اور پیچیدہ ترین حالات میں سپاہی سے لیکر کمانڈر تک اپنی پہچان اور ذمہ داریاں خفیہ رکھتے ہیں کیونکہ جو لوگ شوبازی اور نمود و نمائش کے پیچھے بھاگتے ہیں انہیں اپنی مقصد سے زیادہ اپنی شخصیت کی بن سنورنے کی فکر ہر روز ستاتی رہتی ہے۔ تحریک میں نئے شامل ہونے والے نوجوان اور بین الاقوامی تحریکوں پر عبور حاصل کرنے والے جہد کار چند ایک کمانڈروں کی نمود و نمائش کو مزاحمتی عمل کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب نوجوان اور دیرینہ تجربہ کار کہنہ مشق گوریلا جنگجو بلوچ قوم کو ایسے نمائشی رویوں کی منفی نتائج سے خبردار کرکے بلوچ جنگجووں اور نوجوان سرمچاروں کی جنگی تربیت کرکے معاونت کررہے ہیں سنجیدہ کوششوں کی بدولت اب اس منفی رجحان پر کافی حد تک آگاہی پھیل رہی ہے۔ اسی قوم دوستانہ مثبت اقدامات کی وجہ سے اس وقت بلوچ گوریلا جنگ کے تمام تر حقیقی اور با صلاحیت کردار زیر زمین اپنی قومی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھارہے ہیں جو ایک اطمینان بخش خبر ہے۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران کچھ خود ساختہ کمانڈروں نے بلوچ گوریلا جنگی اصولوں کو پاوں تلے روند کر سستی شہرت کے لئے اپنی تصاویر اور پہچان ظاہر کی لیکن بلوچ مزاحمت کاروں اور تجربہ کار کمانڈروں نے ان جیسے وقتی شہرت کے بھوکے گنتی کے چند ایک کمانڈروں کے اس منفی رویے سے اختلاف رکھ کر بلوچ گوریلا جہد کو پٹٹری سے اتارنے نہیں دی۔ مضبوط حکمت عملی کی وجہ کل تک چین بلوچ عسکریت پسندی کو خطرہ نہیں سمجھتا تھا آج وہ بین الاقوامی شاہراہوں پر لہرائے جانے والے بلوچ قومی بیرک اور غیر مسلح بلوچ غیور فرزندوں سے خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ بلوچ قومی بیرک کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں یقینا بلوچ عظیم شہدا کی مقصد لہو کی قربانیوں کی بڑی کردار ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچ شہدا کی لہو اور قربانیوں و کاوشوں کو عالمی سطح پرموثر طریقے سے ترجمانی کی گئی چین کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ بلوچ قومی شہدا اور تحریک مضبوط ہاتھوں میں ہیں، جو چند ذاتی بنگلوں اور عارضی عیش و عشرت یا نمود و نمائش کی دستیابی سے موم کی طرح پگلنےکی بجائے بلوچ قومی بیرک کو اپنے نظریاتی لشکر کے ساتھ تھام کر پوری دنیا میں بلوچ قوم کا سر فخر سے بلند کیا ۔ ہمیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں چین اور پاکستان کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہونے والی ہیں جہاں بلوچ کامیابی کے کئی سیڑھیاں سر کرنے جارہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت بلوچ قوم اپنے صفحوں میں اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی قومی بیرک کو ہرجگہ لہراتے ہوئے دشمن کو اسی طرح منہ توڑ جواب دیتے رہنا چائیے ۔ بلوچ قوم نے جس طرح اپنی قومی بیرک کا مل کر دفاع کیا اور چین کو ناکامی نصیب ہوئی اسی طرح بلوچ قوم قومی غیرت، بلوچیت اور قوم دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بار پاکستانی انتخابات کا ایک بار پھر مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے پاکستانی قابض حکمرانوں اور ان کے قاتل فوج ثابت کرے، کہ قابض طاقتوں اور ان کی فوج کو ہماری عظیم سرزمین کو چھوڑ کر جانا ہوگا۔