شہرہ آفاق فلسفی اور تاریخ دان ویل ڈیورانٹ ترقی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ترقی بے ترتیبی پر ذہن اور مقصد کے غلبے ، مادے پر ہیت اور عزم کے غلبے کا نام ہے ‘‘۔ترقی کے اس تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں ، مضمون کے پہلے حصے میں ، میں نے اس امر کے حق میں دلائل دینے کی کوشش کی تھی کہ بی ایس او اپنے موجودہ وضع و قطع میں قومی تقاضوں اور ضروریات کو پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور تاریخی طور پر اسکا وجود جمعی حاصل کے تناظر میں فائدہ سے زیادہ نقصان کی طرف دلالت کرتا ہے۔ذرا بی ایس او کے متعلق مندرجہ ذیل قطعی سچائیوں پر غور کریں ’’ بی ایس او کے اندر کوئی بھی آسانی سے آسکتا ہے اور اعلیٰ ذمہ داریوں تک پہنچ سکتا ہے‘‘، ’’ بی ایس او کو کوئی بھی سیاسی ، قبائلی یا عسکری شخص باآسانی اپنے ایجنڈے پر چلا سکتا ہے ‘‘ ، ’’ بی ایس او کی افادیت تنظیمی ساخت کے بجائے انفرادی کوششوں پر منحصر ہوتا ہے ، یعنی کوئی اچھا چیئرمین آیا تو تنظیم صحیح اور کوئی غلط چیئرمین آیا تو تنظیم غلط کی طرف رواں ‘‘ ، ’’ بی ایس او کو کسی بھی وقت توڑا جاسکتا ہے ‘‘ ، ’’ بی ایس ا و میں اختیار صلاحیت نہیں بلکہ لابینگ کے بل بوتے پر حاصل ہوتا ہے ‘‘ ، ’’ بی ایس او کے اندر کبھی بھی اختلافات کے صورت میں تنظیم کے اندر رہتے ہوئے قیادت تبدیل نہیں کی جاسکتی ہمیشہ ایسے شخص کو نکالا جاتا ہے یا نکل جاتا ہے ‘‘، ’’ بی ایس او کبھی بھی کسی طویل المدتی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوسکا‘‘، ’’ بی ایس او کبھی بھی موضوعیت پسندی سے باہر نہیں آسکا ‘‘، ’’ بی ایس او کبھی بھی ردعملی سیاست سے چھٹکارہ نہیں پاسکا‘‘وغیرہ۔ بی ایس او کے بابت ان سے زیادہ ، ان سے بہتر مزید قطعی سچائیاں بیان کی جاسکتی ہیں اور جن سے انکار بھی ہرگز ممکن نہیں۔ ان امور پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر باآسانی پہنچا جاسکتا ہے کہ بی ایس او ہمیشہ بے ہنگم پن ، بے ترتیبی اور بے مقصدیت کا شکار رہا ہے ، اب اسی نقطے پر ویل ڈیورانٹ کے ترقی کی تعریف کا انطباق کرکے دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے یہاں کبھی ذہن اس بے ترتیبی پر غلبہ حاصل نہیں کرسکا اسیلئے مقصد بھی غلبہ حاصل نہیں کرپایا یعنی بی ایس او بطور تنظیم ترقی کرنے میں ناکام ہے۔ بی ایس او کے وجود کی بے سودی سے قطع نظر اس پر ہونے والی موجودہ تنقید کا مطمع نظر اسکے وجود سے انکار نہیں بلکہ اسکا ترقی رہا ہے۔ یہاں تاریخی پس منظر ایک نظر ڈالنے کا متقاضی ہے ، موجودہ قومی تحریک کا آغاز ، نوجوانوں میں شعور آزادی بیدار کرنے کیلئے رابطے، بی ایس او آزاد کا قیام ، عوام میں پذیرائی ، بی ایس او استار کا ضم ہوکر بی ایس او متحدہ بن جانا ، سنگل بی ایس او کا قیام ، پھر پارلیمانی پارٹیوں کی روایتی کھینچا تانی ، ایک بار پھر بشیر زیب کا بی ایس او آزاد کو تشکیل دینا ، مختصر وقت میں بے حد پذیرائی ، ریاستی جارحیت اور ڈاکٹر اللہ نظر کا بی ایس او آزاد کیلئے پارلیمانی جماعتوں جیسی چال بازیاں ، ایک بار پھر بی ایس او آزاد پاکٹ تنظیم بن کر جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں پر ختم ہونا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ 2006 میں بی ایس او آزاد کے قیام کے بعد سے بشیر زیب کے چیئرمین رہنے تک بی ایس او کے افکار و کردار مثالی اور اسکے حقیقی ذمہ داریوں کے کماحقہ تھے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت بی ایس او کے چار عشروں پر محیط بے ہنگم پن اور بے ترتیبی پر غلبہ پانے کیلئے کوششوں کا آغاز ضرور کیا گیا تھا ، شاید یہ راتوں رات والا کام نہیں تھا لیکن اس جانب پیش قدمی ضرور کی جاچکی تھی ،بی ایس او شاید مکمل آزاد نہیں ہوپایا تھا لیکن اس حد تک ضرور ہوسکا کہ پہلی بار وہ کسی شخص یا تنظیم کے بجائے ایک فکر کا مجموعی طور پر طلباء میں نمائندہ تھا اور نا ہی اسے کسی تنظیم کے ماتحت بنانے کی کوشش کی گئی اسی لیئے بشیر زیب نے مدت پوری ہونے کے بعد تنظیم پر اپنا کوئی لابی مسلط کرنے کے بجائے اگلی لیڈرشپ کے ہاتھوں میں دے دی ، لیکن پسِ پردہ ڈاکٹر اللہ نظر اپنے ذاتی و گروہی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے دوبارہ انہی چالبازیوں میں مصروف ہوگئے جو ہمیشہ پارلیمانی قوم پرستوں کا وطیرہ رہا ہے ، وہ بی ایس او کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات کرتے ہیں ، پھر اچانک سابق چیئرمین کو اعتماد میں لیئے بغیر بانک کریمہ کی قیادت میں ایک آرگنائزنگ باڈی کی تشکیل ہوتی ہے،یہ آرگنائزنگ باڈی متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے پہلے سے چنندہ تمام کونسلران کو بائی پاس کرتے ہوئے نئے کونسلران کا چناو کرتا ہے جن میں سے 95 فیصد کا تعلق صرف مشکے و مکران سے ہوتا ہے، اس دوران ایک ایڈوائزنگ کمیٹی بھی تشکیل دی جاتی ہے جس میں کچھ سابق چیئرمینوں ڈاکٹر اللہ نظر ، عبدالنبی بنگلزئی اور بشیرزیب بلوچ کو شامل کیا جاتا ہے اور کونسل سیشن ایک مسلح تنظیم کے بالکل بغل میں منعقد کی جاتی ہے اور حیرت ناک انداز میں عبدالنبی بنگلزئی سے دوری کی وجہ سے رابطہ نہیں ہوتا اور بشیر زیب بلوچ کو کونسل سیشن سے ایک دن پہلے اطلاع دی جاتی ہے کہ خراب حالات میں میلوں کی مسافت طے کرکے آجائے جو بہر حال ناممکن تھا اور یہ متنازعہ کونسل سیشن صرف پچاس کے قریب من پسند کونسلران کی مدد سے ڈاکٹر اللہ نظر اور اختر ندیم کے موجودگی میں منعقد ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ایک باضابطہ منصوبے اور سازش کے تحت بی ایس او آزاد کو ڈاکٹر اللہ نظر کے منظور نظر ٹولے و ایجنٹوں کے ذریعے یر غمال بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پہلے درونِ خانہ بی ایس او آزاد پر تنقید ہوئی ، اسکی قیادت تک خدشات پہنچائے گئے ، رابطے اور ملاقاتیں کرکے تحفظات کا اظہار کیا گیا کیونکہ اتنے سالوں بعد بی ایس او کو بمشکل اس راستے پر لگایا گیا تھا جس پر چل کر وہ آہستہ آہستہ خود میں تبدیلی لاتے ہوئے ارتقائی عمل سے گذر کر ایک ترقی یافتہ اور حقیقی شکل اختیار کرسکتی تھی لیکن اس طرح دوبارہ بی ایس او کو وہی پرانی باجگزاری کے رستے پر چلا کر نا صرف اسکے ارتقائی عمل کے سامنے ایک رکاوٹ پیدا کیا جارہا تھا بلکہ اسے طلباء میں ایک فکر کے نمائندے کے بجائے ایک تنظیم بی ایل ایف اور ایک شخص اللہ نظر کا نمائندہ بنایا جارہا تھا۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکی جن امور پر درونِ خانہ تنقید ہورہی تھی اور خدشات کا اظہار کی جارہا تھا آہستہ آہستہ وہ ظاہر ہونے لگے ، بی ایس او آزاد کو بی این ایف کے توسط سے بی این ایم و بی ایل ایف کا بار بردار بنایا جانے لگا اور طلباء کے فرائض میں اب بی این ایم و بی ایل ایف کے جوتے سیدھاکرنے کا فرض شامل ہوگیا ، اس پر تنظیم کے اندر اختلافات نے جنم لیا جنہیں انتہائی بھونڈے انداز میں دبا دیا گیا جس کے وجہ سے پہلی بار بی ایس او کے مسائل اور اس پر تنقید بند دیواروں سے نکل کر میڈیا میں آگئی سب سے پہلے لندن زون کو فارغ کیا گیا سوچا گیا مسئلہ ٹل گیا ، لیکن ایک بار پھر اندر بی ایس او کے قیادت کے طرز عمل پر تنقید شروع ہوئی ایک بار عرصہ حیات تنقید کرنے والوں کیلئے تنگ کیا گیا اور ایک بار پھر یہ مسائل تنظیم سے نکل کر میڈیا کا زینت بی ایس او کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری کی صورت میں سامنے آگئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے آدھی سے زائد تنظیم ڈاکٹر اللہ نظر کے مسلط کردہ ایجنٹوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئی اور تقریباً تنظیم کے دس زونوں نے مرکزکا بائیکاٹ کرتے ہوئے تنظیم کے اندر ہی ایک آئینی بلاک بناکر خود سے ہی کام کرنا شروع کردیا۔ یہاں پر بھی بات ختم نہیں ہوئے ایک بار پھر اندر اختلافات اور تنقید نے جنم لیا اور اس بار مرکزی کمیٹی کے دو ارکان کو بہن کریمہ نے صرف اسلئے تنظیم سے نکال دیا کیونکہ انہوں نے مرکزی پالیسیوں پر اپنے کارکنوں کے سامنے تنقید کی تھی ، انہیں نکال کر شاید سکون کا سانس لیا گیا ہوگا لیکن معاملات ختم نہیں ہوئے تنظیم کے اندر ڈاکٹر اللہ نظر کے مسلط کردہ ٹولے بانک کریمہ ، جواد اور حئی پر تنقید شروع ہوئی ایک بار پھر قدغن لگی اور اس بار نکالے جانے کے بجائے مرکزی کمیٹی کے تین ارکان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس سلسلے کو دیکھا جائے تو یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ سلسلہ شاید آگے بھی نہیں رکے گا اور غلط و باجگزاری کے خلاف اسی طرح وقفے وقفے سے لوگ اندر سے اٹھتے اور نکلتے جائیں گے۔ اب اگر مجموعی حساب سے دیکھا جائے تو بی ایس او آزاد کی جو قیادت 2012 میں متنازعہ طور پر چنا گیا تھا اسکی واضح اکثریت نکل چکی ہے یا نکالی جاچکی ہے جب اکثریت نکل جائے تو پھر دنیا کے کسی بھی قانون میں اقلیت کو تنظیم کا نمائندہ یا لیڈرشپ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ اب اگر غور کریں تو بی ایس او آزاد میں آپکو مسلط کردہ تین کا ٹولہ ہاتھوں میں صرف نام کا کٹورہ لیئے گھوم رہا ہے۔گذشتہ دو سالوں سے بی ایس او آزاد پر اگر میڈیا میں تنقید ہورہی ہے تو اسکا بنیاد مختصراً انہی بیان کردہ امور پر ہی رکھی ہے۔ مندرجہ بالا باتوں کو شاید پہلے بھی کئی بار بیان کیا جاچکا ہے ، لیکن بی ایس او آزاد کی غیر قانونی قیادت ہر بار انہیں بغیر دلائل کے محض جھوٹ ، پروپیگنڈہ اور سازش قرار دیکر مسترد کرتی رہی ہے اور گذشتہ دن بی ایس او کے ناجائز قائم مقام چیئر پرسن بانک کریمہ نے اپنے ایک بیان میں اس ’’ جھوٹ اور پروپیگنڈے ‘‘ کا سرغنہ اسلم بلوچ ، حسن جانان اور سلام صابر کو قرار دیا۔ اس شعلہ بیانی و ہرزہ سرائی کے پیچھے اپنے ناکامیوں و سیاہ کارناموں کو چھپانے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا لیکن بی ایس او آزاد ہو یا اسکے اتحادی نام نہاد مڈل کلاس ان کی شروع سے کوشش یہی رہی ہے کہ جھوٹ ، جذبات اور لاشوں پر سیاست کرکے بلوچ رائے عامہ کو گمراہ کیا جائے۔ نا کوئی تنظیم کسی کا ذاتی اجارہ ہے اور نا ہی قومی تحریک اگر ایسے گمراہ کن مفروضات اور ذات پرست ٹولوں کی حقیقت آشکار نہیں کیا گیا تو یہ ماضی کی طرح قومی تحریک کو ایک اندھیری کھائی میں دھکیل کر اپنے ذات کو سنوار کر خود کہاں غائب ہوجائیں گے کانوں کان خبر نہیں ہوگی اور خمیازہ صرف قوم بھگتے گی اسلئے یہاں میں بی ایس او آزاد کے کچھ اندرونی حقائق کو بلوچ عوام کے سامنے رکھنا چاہوں گا ، جن کو ابتک نوکِ قلم پر نہ لانے کا مقصد محض رازداری کا پاس رہا تھا لیکن اب وہ بے معنی لگتی ہے جس سے ثابت ہوجائیگا کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران بی ایس او پر جتنی تنقید کی جاتی رہی ہے وہ اسلم بلوچ ، حسن جانان اور سلام صابر کی رچائی گئی سازش نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کو یہ نام نہاد ٹولہ جھوٹ و فریب سے لوگو ں کے آنکھوں سے چھپانا چاہتا ہے۔ پچھلے ماہ مجھ سے ایک پرانے شناسا نے رابطہ کیا جو تادم تحریر بی ایس او آزاد کے کسی زون کا ذمہ دار ہے، بی ایس او کے اس اندرونی خلفشار کو موضوعِ بحث لانے اور اپنی پریشانیاں و خدشات بیان کرنے کے بعد اس نے مجھے حال میں بی ایس او سے مستعفی ہونے والے تین مرکزی ارکان کے بارے میں بتایا اور انکے اختلافات کی نوعیت سے آگاہ کیا ، پھر موصوف نے مجھے ان تین ارکان کے استعفے اس شرط پر ارسال کردیئے کہ میں انہیں میڈیا میں ظاہر نہیں کروں گا لیکن موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر جب مجھے انکی اہمیت کا احساس ہوا تو اب میں مذکورہ دوست کے اجازت سے ان استعفوں کا متن اور اختلافات کی نوعیت سب کے سامنے رکھنا چاہوں گا جو ہرگز اس تنقید سے مختلف نہیں جسے بی بی کریمہ بیرونی سازش قرار دیتی رہی ہے۔ بقولِ موصوف یہ تینوں بی ایس او آزاد کے متحرک و ’’ وفادار‘‘ کارکن تھے ، تنظیمی لٹریچر و میڈیا کو انہوں نے سنبھالا ہوا تھا ، آپ کو یاد ہوگا بی ایس او آزاد نے چند ماہ پہلے ایک سوشل میڈیا کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ایک پیج کے ذریعے سے اپنے اوپر عائد الزامات اور ’’ منفی پروپیگنڈہ ‘‘ کا جواب دینگے جو کچھ ہی دنوں میں چند تحریروں کے بعد غائب ہوگئی تھی اور ان تحریروں کا جواب راقم اپنے مضامین میں دے چکا ہے در اصل وہ کمیٹی اور وہ پیج بھی یہی تینوں ارکان سنبھالے ہوئے تھے اور وہ آرٹیکل جو تادم تحریر اس پیج پر موجود ہیں انہی ارکان کے تحریر کردہ ہیں۔ میں ان استعفوں کے متن سے چند اہم نکات یہاں حقائق کو سامنے رکھنے کی خاطر پیش کروں گا۔ انکے حقیقی ہونے کی تصدیق میرے خیال میں بی بی کریمہ سمیت بی ایس او آزاد کے پورے مرکزسے کی جاسکتی ہے۔ میں تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں انکا نام بدل کر فرضی ناموں شادمان بلوچ ، ولید بلوچ اور عاصم بلوچ سے انکا موقف رکھوں گا۔ یاد رہے یہ تینوں اشخاص میڈیا میں آنے کے بجائے تنظیم کے اندر ہی استعفوں پر اکتفاء کر بیٹھے اور ابتک استعفوں کے بعد بھی بی ایس او آزاد سے اپنی وفاداری کا دم وہ کچھ یوں بھرتے ہیں کہ عاصم بلوچ بلوچی میں لکھتا ہے ’’ من گلءِ تہءَ بہ باں یا مباں کابینہءْْ بْنجاھی مجلسءَ ھوار گلءِ تیوگیں باسک پہ من ھما وڑقابلِ احترام اَنت۔ ءْْ اے ھم واضح کنگ لوٹ آں کہ من نہ وت چْشیں عملے کن آں ءْْ نہ کہ چْشیں عملے ءِ بہر جوڑ باں کہ آئیءَ چہ گلءَ انچکیں ھم تاوانے بہ رسیت۔ ‘‘ اور شادمان بلوچ ایک جگہ کہتا ہے کہ ’’میں ان رویوں کو لیکر میڈیا میں جاسکتا تھا لیکن میں نہ میڈیا میں جاؤں گا اور نہ ہی تنظیم سے باہر کسی شخص سے ان مسائل کا ذکر کروں گا بلکہ تنظیم کے اداروں کے اندر ہی یہ نقاط رکھوں گا تاکہ یہ نقاط تمام ذمہ داروں اور کارکنان تک پہنچ جائیں وہ خود ان پر سوچ کر تنظیم کو بچانے کیلئے کمر بستہ ہوجائیں احتجاجی طور پر میں استعفیٰ اس لیئے دے رہا ہوں کہ اب میں ایک مسلح تنظیم کو اپنا دشمن بناکر اور ایک کو دوست بناکر کام نہیں کرسکتا ہمارے لئے سب برابر ہونے چاہئے‘‘ اور آگے اسی ضمن میں ولید بلوچ کہتا ہے کہ ‘‘میں یہ یقین دہانی بھی کراتا ہوں کہ استعفے کے بعد کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہیں رہوں گا جس سے بی ایس او آزاد کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہو‘‘۔ان باتوں کو بیان کرنے کے مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ آگے ان مستعفی ارکان کے توسط سے جو باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ اسلم بلوچ ، حسن جانان اور سلام صابر کی نہیں بلکہ بی ایس او آزاد کے اپنے وفادار کارکنوں کی ہیں اور ان کا تعلق سوشل میڈیا پر جاری تنقید سے نہیں بلکہ ان تلخ حقائق سے ہیں جن سے بی ایس او کے کارکن متاثر ہورہے ہیں۔ گذشتہ ایک طویل عرصے سے اس امر پر تنقید ہورہی ہے کہ بی ایس او آزاد کو ڈاکٹر اللہ نظر کے ٹولے نے یر غمال بناکر اس کو بی ایل ایف کا باجگزار بنایا ہوا ہے اسی لیئے اس مسلط کردہ ٹولے کا رویہ ہر اس شخص کے ساتھ انتہائی جارحانہ ہے جو ان سے تنظیم کے اندر رہتے ہوئے بھی اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے تنظیم کو مکمل طور پر جانبدار بنایا ہوا ہے ، اس بات کی تصدیق ان تینوں ارکان کے استعفوں کے بنیادی وجوہات پڑھنے سے ہی ہوجاتا ہے۔ جیسے کے عاصم بلوچ کہتا ہے ’’ اے وڑیں رویہ صرف اور صرف اختلاف رائے ءِ گٹ گیر کنگءِ واستہ دارگ بوگءَ انت۔ بازیں سوچ ءْْ بچارءَ پد من اے آسرءَ رستگ آں کہ اے وڑیں رویہ ءَ آں گوں جمہوری و انقلابی تنظیم دیمءَ شْت نہ کن آں ءْْ گلءِ تہءَ عرصہ حیات ھنچو تنگ کنگ بوتگ کہ گیشتر نندگ نہ بیت‘‘ اور اس بات کو مزید تقویت شادمان بلوچ کے اس بات سے ملتا ہے کہ ’’تنظیم کے مرکزی جانبدارانہ پالیسیوں اور قیادت کے غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے میں مرکزی کمیٹی کے عہدے سمیت اپنی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ ذاتی طور پر نہ مجھے کوئی رنجش ہے، نہ کسی سے ذاتی اختلاف اور نہ ہی پریشانی استعفیٰ کی بنیادی وجہ وہ پالیسیاں اور رویے ہیں جو مجموعی طور پر نہ صرف تنظیم کیلئے بلکہ قومی تحریک کیلئے نقصان کا باعث بنتے جارہے ہیں‘‘ اور بی ایس او آزاد کی باجگزاری کی مزید توثیق ولید بلوچ کے ان باتوں سے ہوتی ہے ’’ میرے استعفیٰ کی وجہ تنظیم میں موجود عدم برداشت پر مبنی رویئے اور کابینہ ممبران کی جانب سے بیشتر معاملات میں تنظیم کے پالیسی ساز ادارے مرکزی کمیٹی کو بائی پاس کرنا شامل ہے‘‘۔ اب میرے خیال میں شک کی گنجائش نہیں رہتا کہ بی بی کریمہ کی طرف سے گھڑے ہوئے یہ مفروضات کہ بی ایس او آزاد کو اسلم بلوچ ، حسن جانان اور سلام صابر یرغمال کرنا چاہتے ہیں سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں درحقیقت ان باتوں سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ حقیقت میں بی ایس او آزاد کو یر غمال کوئی اور نے کیا ہوا ہے آگے جس کی مزید وضاحت ہوگی۔ اپنے گذشتہ بیان میں بی بی کریمہ نے ایک الزام لگایا تھا کہ بی ایس او کے اندر آئینی بلاک ایک بیرونی سازش کا نتیجہ ہے تاکہ بی ایس او آزاد کو توڑا جائے اور بہت جلد وہ آئینی بلاک الگ بی ایس او بنائے گا۔ ویسے شیر آیا شیر آیا کے مصداق بی ایس او آزاد کی ناجائز قیادت کافی وقت سے یہ کہہ رہی ہے کہ یہ آئینی بلاک الگ تنظیم بنے گی لیکن ابتک نہیں بنا ، اس دعوے کے پیچھے اصل میں انکی باجگزار اور منفی ذہنیت کارفرما ہے یعنی ایک طرف سے آئینی بلاک کافی عرصے سے احتجاج کررہی ہے ، بلوچ دانشوروں اور دوسرے غیر متنازعہ اشخاص سے مل رہی ہے کہ ہمارے مسائل حل کیئے جائیں لیکن بی بی کریمہ ان سے بات تک کرنے کو راضی نہیں اب ظاہر ہے تقریباً نو ماہ گذرنے کے بعد یہ ہٹ دھرمیاں دیکھ کر بالآخر آئینی بلاک کوئی نا کوئی قدم اٹھاسکتی ہے ، اب ایک طرف تو بانک کریمہ ڈاکٹر اللہ نظر کے ایماء پر ہٹ دھرمی پر اڑی ہوئی ہے اور دوسرے طرف آئینی بلاک کے کسی بھی ممکنہ قدم کو پہلے سے ہی متنازعہ بنانے کی کوشش میں بی بی کریمہ شیر آیا شیر آیا کہہ کر چیخ بھی رہی ہے ، چلو اس بات کو نہ سلام صابر وغیرہ کے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی آئینی بلاک کے زاویے سے اس بات کو بھی ایک مستعفی بی ایس او کے وفادا ر کارکن کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئینی بلاک کے بارے میں شادمان بلوچ کے استعفے کے متن میں تحریر شدہ یہ نکات یقیناً طلباء سیاست کو برباد کرنے کا جرم بانک کریمہ اور مسلط شدہ گروہ پر عائد کرنے کیلئے کافی ہیں۔ شادمان بلوچ کہتا ہے ’’ ابتداء میں کچھ لندن زون اور کچھ سینٹرل کمیٹی کے ارکان کا مسئلہ ہوا تھا تو اسکی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ تنظیم کے اندر اختلافِ رائے کو جگہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاملات میڈیا میں چلے گئے اور اسے بہانہ بناکر انہیں فارغ کیا گیا لیکن میں انہیں معمولی مسئلے سمجھ کر ہر جگہ تنظیم کا دفاع کرتا رہا ، پھر انہی رویوں کی وجہ تنظیم کے اندر ایک گروپ بننے لگا ایک تنظیم کے اندر کام کرنے کے باوجود دونوں گروپوں میں اختلاف انتہاء تک پہنچی لیکن پھر بھی ماضی سے سبق نہ سیکھ کر انکے اختلافِ رائے کو تنظیم میں جگہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے انفارمیشن سیکریٹری کے سربراہی میں وہ گروپ میڈیا میں چلی گئی جسے بعد میں بہانہ بناکر انہیں فارغ کیا گیا‘‘ آگے شادمان بلوچ کا یہ اعتراف بانک کریمہ کے دعووں کی قلعی کھولتی ہے اور بتاتی ہے کہ آئینی بلاک کے پیچھے کوئی بیرنی ہاتھ نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور بی ایس او آزاد کے کارکنوں سے معافی بھی مانگتا ہوں کہ میرا سینٹرل کمیٹی میں چناو کا بنیادی سبب یہی تھا کہ کابینہ کا لابی مضبوط ہوجائے اور انفارمیشن سیکریٹری سمیت کچھ لوگوں کو تنظیم سے فارغ کیا جائے لیکن انہیں نکالنے سے پہلے ہی انفارمیشن سیکریٹری خود ہی نکل گیا بعد میں جس کی وجہ سے کانسٹی ٹیوشنل بلاک بنایا گیا، اس وقت مجھ کو اس بات کا ادراک نہیں ہوسکا کہ غیر شعوری طور پر میں ایک سازش کا حصہ ہوں‘‘۔ میں نے آئینی بلاک کے بارے میں بانک کریمہ کے شیر آیا شیر آیا والے رویے کے بارے میں مندرجہ بالا سطور میں جو لکھا ہے اور ساتھ ساتھ آئینی بلاک کے بیانوں میں مسائل حل کرنے کی کوشش کے جو دعوے کیئے جاتے رہے ہیں ان کی توثیق و تصدیق شادمان بلوچ کے اس بات سے ہوتی ہے کہ ’’سینٹرل کمیٹی کے ایک اجلاس میں راقم نے یہ رائے پیش کی کہ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کانسٹی ٹیوشنل بلاک ایک الگ تنظیم بنانے کی سازش نہیں ہے اگر ان کارکنوں سے رابطہ کرکے انکے ساتھ بیٹھا جائے اور ان مسائل پر بات چیت کی جائے تو ضرور کوئی حل نکلے گی اور یہ کارکنان واپس تنظیم میں کام کرنے پر راضی ہونگے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت کابینہ کے ارکان کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا میرے رائے کو ووٹنگ کیلئے پیش کرنا کجا بلکہ صاف صاف کہا گیا کہ ہم نہ انکے ساتھ بیٹھیں گے اور نہ ہی بات کریں گے انکو جو کرنا ہے کرلیں‘‘۔ اب یہ ثابت ہوتی ہے کہ تنظیم کے نام پر قبضہ کرنے کی خاطر ڈاکٹر اللہ نظر کا یہ مسلط کردہ ٹولہ ایک طویل عرصے سے اختلافِ رائے رکھنے والوں کا صفایا ایک منصوبے کے تحت کررہا تھا جہاں تک بات ہے آئینی بلاک بننے کی وجہ سمجھنے کی تو میرے خیال میں شادمان بلوچ کا مندرجہ ذیل جملہ اسے مزید واضح کردیتا ہے کہ ’’یہاں بلا توقف کہوں گا کہ بلاک بننے کی وجہ صرف اور صرف مجھ سمیت مرکزکے رویئے رہے ہیں ، آج تنظیم جس بحران کا شکار ہے اسکی ذمہ داری کابینہ کے رویئے اور ہم جیسے سینٹرل کمیٹی کے ارکان کی خاموشی رہی ہے ، ہم قصور وار ہیں کہ بات کرنے کے بجائے ہم الٹا ہر جگہ تنظیم کا دفاع کرتے رہے ، حتیٰ کے سوشل میڈیا پیج پر ہم لکھتے رہے ‘‘۔ زاہد بلوچ کے اغوا کے بعد راقم التحریر نے ایک مضمون کی صورت میں تحریر کیا تھا کہ زاہد بلوچ کے اغواء اور لطیف جوہر کے بھوک ہڑتال کے پیچھے ڈاکٹر اللہ نظر کے وہ گروہی و ذاتی مفادات پوشیدہ ہیں جن میں وہ بی ایس او کو بلی کا بکرا بناکر لوگوں میں بھیج رہا ہے تاکہ اس وقت پیش کیئے گئے چارٹر اور اس پر ہونے والے تنقید کے اوپر جذبات کا ایک چادر چڑھایا جائے۔ ان تینوں استعفوں میں بار بار لطیف جوہر کے بھوک ہڑتال کا قصہ دہرایا جاتا رہا ہے اور انکے استعفوں کے وجوہات میں سے ایک وجہ رہا ہے ، یہ تینوں بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بھوک ہڑتال نا بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے مرضی سے شروع ہوا اور نا ہی انکے مرضی سے ختم ہوا بلکہ اسکے پیچھے کسی اور پوشیدہ شخص کا مرضی تھا۔ عاصم بلوچ نے اس پر تفصیلاً لکھا ہے متن بلوچی میں ہونے کی وجہ سے میں صرف ان میں سے ایک پیراگراف وہ بھی اختصار سے پیش کرنا چاہوں گا تاکہ بات کو سمجھی جاسکے عاصم بلوچ کہتے ہیں کہ ’’ چیئرپرسنءَ وت یک روچے بنجاھی مجلسءِ دیوان لوٹائینت ءْْ گشت کہ بابا مریءْْ واجہ تالپورءَ ھوار بازیں مردمانی اپیل اتک انت کہ بھوک ہڑتال ءَ ھلاس بہ کن ات۔ گڑا اے دیوانءَ اکثریتی ممبراں ھمے گپ کت کہ تادم مرگ بھوک ہڑتال ھلاس کنگ بہ بیت۔ ءْْ دگہ احتجاجی ذریعہءِ زورگ بہ بیت۔ بلے جونیئر وائس چیئرمین ءَ اے گْشت کہ اے گپاں ما کابینہ ءِ دیوانءَ بریں۔گڑا منءَ ھوار دگہ سنگتاں ھم ھمے گپ کْت کہ سی سی فیصلہ کت نہ گڑا کابینہ چوں فیصلہ کت کنت۔ بلے گپ گوشدارگ نہ بوت۔ وھدے ھما وھدءَ ءْْ ھشتمی سی سی اجلاسءَ ایشیءِ سرءَ سوال چست کنگ بوت گڑا گشگ بوت کہ آ Informal دیوانے بوتگ ءْْ سی سیءِ Regularدیوانءِ فیصلہ ءَ Informalدیوان ھلاس کت نہ کنت۔ حالانکہ اے دیوان ھنگامی دیوانے بوتگ Informal نہ بوتگ۔ دیوان Informalھما وھدءَ بیت کہ آئیءِ کورم پورا مہ بیت۔ءْْ اے دیوان ءْْ پیسرءِ ھنگامی دیوان کہ بوتگ ات دوئینانی نہ ایوکءَ کورم پورا بوتگ بلکیں گیشتریں ممبر ساڑی ات انت۔ بلے پدا یک روچے اناگتہ سی سیءِ ممبرانءَ یک بلیک بیری مسیج ءِ ذریعہ ءَ جست کنگ بوت ءْْ ہڑتا ل ھلاس کنگ بوت ءْْ ایشیءِ تہءَ ھم بازیں سی سی ممبر اعتمادءَ زورگ نہ بوت اَنت‘‘۔ اب اسی بات کو شادمان بلوچ کے موقف کے تناظر میں دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ جب لطیف جوہر بلوچ بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے تو مرکزی کمیٹی کے ارکان نے آپسی رابطوں میں اس بات پر زور دیا کہ اس بھوک ہڑتال کو ختم کیا جائے، پھر سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور ارکان کی سرزنش کی گئی کے وہ آپس میں کیوں رابطے کرکے ایسی بات کررہے ہیں ، مجھے حیرت ہوئی کہ کیا ارکان آپس میں بھی مسائل پر بات کرنے کے اہل نہیں پھر جب کمیٹی کا میٹنگ ہوا تو مجھ سمیت اکثریت نے یہ رائے دی کہ بھوک ہڑتال ختم کی جائے لیکن اس اکثریتی رائے کے باوجود وائس چیئرمین نے پورے اجلاس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں میں اتنی جرات نہیں کہ ایک فیصلہ کرکے اس پر ڈٹے رہو وغیرہ وغیرہ اور پھر سینٹرل کمیٹی کے رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ بھوک ہڑتال جاری رہے گی ، انتہاء اس وقت ہوگئی جب سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کو نظر انداز کرکے بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے بعد کچھ دن گذرنے کے بعد کابینہ نے انہی سوشلسٹ جماعتوں کے اپیل پر بھوک ہڑتال سینٹرل کمیٹی کو اعتماد میں لیئے بغیر ختم کردیا اور سینٹرل کمیٹی کے ارکان کو ایک فرضی موبائل میسج بھیج کر رسم پورا کیا گیا ،مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جب بابا خیر بخش مری اور استاد تالپور نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی تو کابینہ نے کہا کہ ہم تحریری صورت میں انکا اپیل مسترد کریں گے لیکن ان کو مسترد کرنے کے بعد پاکستانی جماعتوں کے فرضی یقین دہانی پر سینٹرل کمیٹی کے ارکان سے منظوری لیئے بغیر کیسے بھوک ہڑتال ختم کیا گیا ‘‘۔ ان دو موقفوں سے ثابت ہوتی ہے کہ اس بھوک ہڑتال میں نہ بی ایس او آزاد کے اپنے اداروں کا فیصلہ تھا اور نا ختم کرنے میں اب آگے ولید بلوچ کے موقف کو اسی مسئلے پر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھوک ہڑتال عجلت میں ختم نہیں کی گئی بلکہ کسی خفیہ شخص ( ڈاکٹر اللہ نظر ) کی مرضی ہی اس میں شامل تھی۔ ولید بلوچ کہتے ہیں ’’ بھوک ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ ایک دن پہلے طے پاچکا تھا اور ایک ذمہ دار سیاسی شخصیت کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جاچکا تھا لیکن ہمیں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے چند گھنٹوں میں ہنگامی بنیادوں پر یہ فیصلہ لیا ہے اس پر مستزادیہ کہ مذکورہ سیاسی شخصیت نے کابینہ کے ایک رکن کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ اس اہم فیصلے میں مرکزی کمیٹی کو اعتماد میں لیں مگر اسے یہ کہا گیا کہ سی سی کو اعتماد میں لینے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ بی ایس او آزاد کی بیان کردہ ان اصل حقائق کو نا صرف عام بلوچوں بلکہ اپنے ہی کارکنوں سے چھپانے کیلئے ہی بانک کریمہ اور باقی ٹولہ ایسے بے بنیاد الزامات پر مبنی بیانات جاری کرتے ہیں ، پاکستانی طرز سیاست کی طرح اپنے نااہلیوں اور سیاہ کارناموں کو چھپانے کی غرض سے ایک ’’ بیرونی سازش ‘‘ کا تھیوری گھڑ کر بری الذمہ ہونے کی سعی کی جارہی ہے۔ اپنے اس جھوٹ اور حقائق کو پردہ ڈالنے کیلئے وہ مرکزی کمیٹی کو بطورِ ڈھال استعمال کرتے آئیں ہیں ، اسی بات کا اعتراف ہمیں ان استعفوں میں ملتا ہے ، یہ مضمون اردو میں ہے اسلئے میں عاصم بلوچ کا بلوچی میں دیا گیا استعفیٰ مزید شامل نہیں کروں گا لیکن اس بابت ولید بلوچ کا موقف دیکھنے لائق ہے کہ وہ کیسے کارکنان سے جھوٹ بول کر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالتے رہے ہیں ولید بلوچ لکھتے ہیں ’’کارکنان کے سامنے ہم ایسے رویوں کا بھی بھر پور دفاع کرتے رہے جن پر ہمیں بذاتِ خود شدید اعتراض تھا تاکہ تنظیم کو مایوسی، انتشار اور بحرانوں سے بچایا جاسکے ‘‘ اور اسی احساس گناہ کو شادمان بلوچ یوں بیان کرتے ہیں ’’ میں اس لیئے استعفیٰ دے رہا ہوں کیونکہ ہم اب کارکن نہیں بلکہ مشین تیار کررہے ہیں‘‘ آگے اسی بات کا ولید بلوچ یوں اعتراف کرتا ہے کہ ’’ شاید میں بی ایس او آزاد کے بیرونی سازشوں کے خلاف مرکزی کمیٹی میں سب سے سخت موقف رکھنے والا رکن مرکزی کمیٹی رہا ہوں اور اکثر تنظیمی فورمز پر اسکا برملا اظہار بھی کرتا رہا ہوں ،مگر یہ جان کر شدید مایوسی ہوئی کہ جتنی سازشیں بی ایس او کے خلاف بیرونی قوتوں کی جانب سے ہورہی ہے اتنا ہی جواز ہم ان کو اپنے سخت گیر رویوں سے دے رہے ہیں‘‘ ایک بار پھر شادمان بلوچ کے یہ الفاظ دیکھیں \”ہم قصور وار ہیں کہ بات کرنے کے بجائے ہم الٹا ہر جگہ تنظیم کا دفاع کرتے رہے ، حتیٰ کے سوشل میڈیا پیج پر ہم لکھتے رہے\”۔ ان باتوں سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ اس وقت بی ایس او آزاد پر مسلط شدہ لیڈرشپ اپنے کارکنوں کے ایک جھوٹ اور سراب کے تحت آگے لیجارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ بی ایس او آزاد ڈاکٹر اللہ نظر کا پاکٹ آرگنائزیشن ہے ، یہ اب قومی نمائندہ جماعت نہیں بلکہ بی ایل ایف کی نمائندہ جماعت ہے لیکن بقول بانک کریمہ یہ باتیں محض اسلم بلوچ، حسن جانان اور سلام صابر کی سازشیں ہیں چلو انہی استعفوں کے روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہ سازشیں ہیں یا بانک کے اپنے وفادار مرکزی ارکان کا بھی یہی رائے ہے۔ اسی بابت شادمان بلوچ اپنے استعفیٰ میں مختلف جگہوں پر فرطِ جذبات میں کچھ حقائق کی قلعی یوں کھولتا ہے کہ ’’ حقیقت یہ ہے کہ آج تک سینٹرل کمیٹی کے جتنے فیصلے ہوئے ہیں وہ ایسے ہوئے ہیں کہ وہ سب فیصلے کابینہ پہلے سے کرکے آتی تھی ان کے پاس سب لکھا ہوا ہوتا تھا ، پھر سینٹرل کمیٹی کے سامنے انہیں پیش کیا جاتا تھا اگر سینٹرل کمیٹی انکو منظور کرتی تو کہا جاتا کہ یہ سینٹرل کمیٹی کا فیصلہ ہے اور اگر سینٹرل کمیٹی میں سے کوئی ان پر اعتراض کرکے بات کرتی تو اس کیلئے تنظیم میں عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر تنظیم میں رہنا ہے تو پھر ایک مشین کی طرح صرف احکامات کی تعمیل کرکے رہا جاسکتا ہے اور وہ احکامات از خود مشتبہ ہیں کہ ان کا منبع کہاں ہے، وہ کم ازکم سینٹرل کمیٹی نہیں‘‘ اب وہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں تو حسن جانان اور سلام صابر کو چھوڑیں دیکھیں بی ایس او آزاد کا اپنا مرکزی کمیٹی کا رکن کیا کہتا ہے ’’تنظیم کی ساری پالیسیاں مکمل طور پر بی این ایم اور اس سے منسلک مسلح تنظیم کے مطابق بنائی جاتی ہیں ، تنظیم کو مکمل طور پر جانبدار بنایا گیا ہے ، اور مسلح تنظیموں کے آپسی تضادات کے بیچ ایک فریق بناکر کھڑا کردیا گیا ہے ، بی ایس او آزاد کو ایک مسلح تنظیم کے دفاع کیلئے دوسرے مسلح تنظیم کے سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا ہے ، حالانکہ ہمیں مکمل غیر جانبدار اور اپنے فیصلوں اور پالیسیوں میں آزاد ہونا چاہئے تھا ہمارے لیئے تمام تنظیمیں برابر ہونی چاہئے۔ یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جسے ہم سب جاننے کے باوجود اس پر بات تک نہیں کرتے کیونکہ جب بات کریں گے تو صرف ایک سادہ سا انکار کرکے اس بات کو ہی دفن کیا جائے گا اور بعد میں اس رکن سینٹرل کمیٹی کو نکالنے کا بندوبست ہوگا ‘‘۔ اب اگر بی ایس او آزاد کا نام نہاد قیادت پھر بھی فلسفہ انکار پر عمل پیرا رہے تو پھر انکے اور انکے پشت پر آنکھیں بند کیئے ہوئے کارکنان کے عقل پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ جب سے یہ تنقیدی سلسلہ چل رہا ہے تب سے کچھ غیر جانبدار اشخاص یہ فرمائش کرتے رہتے ہیں کہ آپ کو پہلے ان مذکورہ تنظیموں کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہئے تھا پھر بعد ازاں پبلک میں آنا چاہئے تھا جس پر بار بار عرض کیا جاچکا ہے اور بشیر زیب بلوچ و اسلم بلوچ بھی اپنے تحاریر میں بیان کرچکے ہیں کہ وہ کس طرح ایک نہیں بلکہ کئی بار ڈاکٹر اللہ نظر اور بابا مری کے پاس جاتے رہے ہیں تاکہ یہ مسائل حل ہوں لیکن ہمیشہ انکی طرف سے منفی جواب ملا ہے اب ہم مجبوراً میڈیا میں آئے ہیں ، آج یہ اتحاد اور مسئلوں کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں یہ صرف اس خوف سے کہ ان پر عوام کے سامنے تنقید نا ہو ورنہ کچھ عرصے پہلے تک اپنے ہی بیانوں میں یہ سب اختلافات کے وجود تک سے انکاری تھے۔ اسی طرح بی ایس او آزاد پر بھی تنقید راتوں رات شروع نہیں ہوئی بلکہ پہلے حتی الامکان یہ مسائل حل کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن ہمیشہ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔ میں ان استعفوں میں سے یہ جملہ بطور ثبوت یہاں پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم فکر دوست ہمیشہ خلوص نیت سے تنقید کرتے رہے ہیں اور سامنے سے نیک نیتی صرف اخباری بیانوں تک محدود ہے تاکہ رائے عامہ کو گمراہ کیا جائے ، بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کا یہ رکن خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ رابطہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے میں نے شبیر بلوچ اور اسلم بلوچ سے بی ایس او آزاد کا نمائندہ بن کر گفتگو کی ان کے رویے دیکھ کر میری حوصلہ افزائی ہوئی کیونکہ وہ ان مسائل پر بیٹھنے اور ان پر بات کرنے پر راضی تھے اور کسی حل کی جانب بھی جانا چاہتے تھے ، انکا اعتراض یہ تھا کہ بی ایس او آزاد خود جانبدار بن کر ایک فریق کی شکل اختیار کرچکا ہے ، لیکن مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں تمام ارکان کے سامنے جب یہی بات میں نے کی تو آپ کے رویئے انتہائی مایوس کن تھے ، چیئرپرسن نے بذاتِ خود کہا کہ ہم نہ ان سے بیٹھ کر بات کریں گے اور نا ہی رابطہ رکھیں گے‘‘۔ اسی بات کو شادمان بلوچ اپنے استعفے میں بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’میں حیران تھا کہ میڈیا کے سامنے ہم ان مسائل کو حل کرنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان مسائل کے حل کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں‘‘۔اور مزید بی ایس او آزاد کے باجگزار قیادت کے نیتوں کی اصلیت ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے کہ ’’کابینہ نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ کوئی تنظیم میں رہے یا نا رہے بس تنظیم کا نام انکے قبضے میں رہے ، صرف اس نام کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خاطر اس وقت بلوچ سیاست کو جس حد تک ہم سے نقصان مل رہا ہے یہ خود ہمارے لیئے باعثِ شرم ہے‘‘۔ اب بی ایس او کے نام نہاد اور من گھڑت ثالثی کے دعووں کی کیا حیثیت رہتی ہے آپ خود اندازہ لگالیں۔ اسی طرح بی ایس او کی یہ منافقت صرف یہاں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ میڈیا میں جس طرح خود کو پاک صاف ظاہر کرکے معصوم بن کر کہا جاتا ہے کہ ہم پر تنقید ہورہی ہے ، سوشل میڈیا پر گالم گلوچ ہوتی ہے ہم تو کچھ نہیں کررہے اصل میں سوشل میڈیا پر بدتمیزی کا جو طوفان نظر آتا ہے اسکے پیچھے یہ خود شامل ہیں تاکہ حقیقی تنقیدی سلسلے کو پراگندہ کیا جائے ، ثبوتاً بی ایس او آزاد کے کسی سینٹرل کمیٹی کے کاروائی کی روائیداد شادمان بلوچ کے زبانی سنیں ’’سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں ثبوت کے ساتھ یہ بتایا گیا کہ سیکریٹری جنرل پابندی کے باوجود سوشل میڈیا میں مختلف ناموں اور پیجوں سے لکھ رہا ہے ، ایک ہتک آمیز پیج سے انوائٹ کرنے کا اسکا ثبوت بھی موجود تھا ، سیکریٹری جنرل نے ایک بار مجھ سے ذاتی طور پر بھی کہا تھا کہ وہ فیس بک آئی ڈی دیدگ رحمان ہے پھر کہا نہیں دیدگ رحمان اسکا دوست ہے ، حتیٰ کے مجھے تک کہا کہ کوئی آئی ڈی بناکر کسی کو بتائے بغیر سلام صابر وغیرہ کے خلاف لکھنا شروع کرو ‘‘۔ اب اس پر میں ضروری نہیں سمجھتا کہ مزید روشنی ڈالوں۔ بیان کردہ یہ استعفے تین مہینے پہلے اکتوبر کے مہینے میں دیئے گئے ہیں ، اس سے پہلے یہی لوگ دیدہ دلیری سے بی ایس او آزاد کا دفاع کرتے رہے ہیں لیکن جھوٹ ، دھوکے اور منافقت کی ایک حد ہوتی ہے جس پر بالآخر حق و سچ فتح پاتی ہے۔ آج بی ایس او آزاد کو یرغمال بناکر بلوچ طلباء سیاست میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ جس طرح زہر گھول رہا ہے اسے تاریخ ہمیشہ سیاہ الفاظوں میں یاد کرے گی تحریر کے طوالت اور بی ایس او کے کئی مرکزی ارکان کے سیکیورٹی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میں نے بہت سی اہم باتیں اس مضمون میں شامل نہیں کیئے ہیں ،باقی کوشش کی انکا موقف من و عن پیش کرسکوں اسکے علاوہ اور بہت سارے ایسے شرم انگیز حقائق سامنے آئیں ہیں جن کو فلحال میں میڈیا میں لانا مناسب خیال نہیں کررہا لیکن اگر جھوٹ اور گمراہی کا بازار اسی طرح گرم رہا تو پھر بی ایس او آزاد میں موجود مخلص بلوچ طلباء کے جان سے بڑھ کر کوئی اور راز اہم نہیں ہوگا۔میں مضمون کا اختتام شادمان بلوچ اور ولید بلوچ کے ان دو جملوں سے کروں گا تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ لوگ مایوس تنقید سے نہیں بلکہ اس غلیظ سیاست سے ہورہے ہیں ولید بلوچ کہتا ہے ’’ان رویوں کے تدارک کی کوششوں میں ناکامی اور حد درجہ مایوسی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تنظیم میں میری موجودگی کوئی معنی نہیں رکھتا ‘‘ اسی طرح شادمان بلوچ کا سوچ ہے کہ ’’ ان تمام مسائل کو اپنی آنکھوں کے سامنے روز دیکھ کر اور بہتری لانے کیلئے خود کو بے بس پاکر میں اپنے پاس کوئی بھی اخلاقی جواز نہیں پاتا ہوں کے میں مزید سینٹرل کمیٹی کے عہدے پر براجمان رہوں ، اگر کابینہ سمیت تمام ارکان کمیٹی اپنے لیئے کوئی اخلاقی جواز دیکھتے ہیں تو پھر امید کروں گا کہ وہ تنظیم کو بہتر کریں گے ‘‘۔