ہمگام کالم : سعید بلوچ
شہید محراب خان کی شہادت سے لے کر دور حاضر کے دورانیے تک ہزاروں فرزندان بلوچستان نے اپنے وطن کی حفاظت و بقاء کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کی درخت کو اپنے لہو سے سیرآب کیا۔ آج بلوچستان کے ہر کوچہ و شہر کے قبرستان میں کچھ ایسی قبریں آنکھوں کے سامنے عیاں ہوگئیں ، جو دیگر قبروں کی بہ نسبت زیادہ نمودار، تابندہ ، ممتاز اور صاحب ِحیثیت ہیں۔ان قبروں میں دفن ہستیوں نے بلوچستان کی آزادی اور بلوچ قومی بقاء و تشخص کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنی ذات پر اجتماعیت کو زیادہ فوقیت دی ہیں ، ان شہداء نے اپنے حال کو آنے والی نسل کی روشن مستقبل کے لیئے قربان کیا، جنھوں نے اپنی زندگیوں کے ہر لمحہ کو قومی زمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے وقف کردیا۔ ان عظیم ہستیوں کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں کی صحیح تشریح اور وضاحت کرنا مجھ جیسے شخص کی سوچ سے بالا تر ہے ، میرے دانست کی لغت میں ایسے الفاظ کی فقدان ہے جو ان عظیم شہداء کی شجاعت، قربانی اور عظیم کردار کے ستائش پر پورا اتریں ۔ ان فرزندان ِ بلوچستان نے جزبہ ِ حریت سے لیس ہوکر اپنے وطن کی محبت میں ایسے کارنامے سرانجام دیے جن کی مثالیں تاریخ ِ جہاں کے قرطاس پر کم درج ہیں۔ شہید محراب خان سے لیکر عہد ِ حاضر تک ہزاروں بلوچوں نے سرڈگار ِ بلوچستان کی دفاع میں اپنی سروں کو قربان کرکے بلوچ قوم کو ان اقوام کے صف میں شامل کردیا جو اپنی تاریخ میں نقش اپنی ہستیوں کے عظیم کارناموں اور قربانیوں کی بدولت فخر و شان کیلئے خاص مثال بن چکے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک کے آغاز سے لیکر پزیرائی تک، انہی بلوچ شہداء کی سرخ لہو پر مبنی ہوکر اپنی منطقی انجام کی جانب جاری و ساری ہے۔ اس راہ حق میں بے حساب شہداء کی خون شامل ہیں جو دن بہ دن آزادی کی درخت کو سیرآب کرکے تناور بناتی جارہی ہے۔
دنیا کے دیگر اقوام کی طرح بلوچ قوم نے بھی اپنی ان عظیم کرداروں، یعنی شہداۓ بلوچستان کو یاد کرنے اور ان کو خراجِ تحسین پیشں کرنے کے لیئے ایک مخصوص دن کا انتخاب کیا ہے، یعنی بلوچ قوم ہر سال میں تیرہ نومبر کو یومِ شہداء بلوچستان کے دن کے طور پر مناتی ہے۔
تیرہ نومبر کا دن بلوچ تاریخ کے صفحات پر اعلی اور منفرد اہمیت کی حامل ہے اس تاریخی اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر سنگت حیربیار مری کے سرکردگی میں تیرہ نومبر کے دن کو شہدائے بلوچستان ڈے کے طور پر انتخاب کیا گیا۔ اس دن کو بلوچ قوم اپنی قومی شہیدوں کو یاد کرکے اُن کی قربانیوں پر انہیں خراج ِ عقیدت پیش کرتی ہے ۔
تیرہ نومبر کی تاریخی پس منظر کے متعلق یقیناً بلوچ قوم کو اس کی اہمیت سے بخوبی واقفیت حاصل ہے ، 13 نومبر 1839 میں جب انگلستان کے قبضہ گیر اور توسیع پسند فوج نے بلوچستان کو تخت و تاراج کرنے کی نیت سے قلات کا چاروں اطراف سے محاصرہ کیا تو خان محراب خان کی سربرائی میں لشکرِ بلوچستان نے اپنی میانوں سے تلواریں نکال کر اپنے مادر وطن کی دفاع میں انگریز فوج کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا۔ ایک طرف اس وقت کے جدیدترین ہھتیاروں سے لیس انگریز کے قبضہ گیر فوج اور دوسری جانب اپنی مادر وطن پر مر مٹنے و قربان ہونے کی جذبے سے سرشار محافظ ِبلوچستان اپنی تلواریں ہاتھ میں لیے کوہِ چلتن کے مانند ڈٹے رہے ۔ جب انگریز نے قلات کی جانب پیش قدمی کا باقاعدہ آغاز کیا تو تیغ و کفن باندھے بلوچ سورماؤں نے اپنی تلواروں کی رخ کو انگریز فوجیوں کی گردن کی جانب موڑ کر میدان ِجنگ کو خون سے لت پت کردیا۔ خان محراب خان اپنے ساتھیوں سمیت سرزمینِ بلوچستان کا محافظ بن کر اپنی سانس کے آخری دم تک لڑتے رہے ان کو بخوبی علم تھا کہ انگریز کے مقابلے میں ان کی لشکر جنگی ساز و سامان اور افرادی قوت، دونوں اعتبار سے کمزور ہے لیکن محراب خان نے جنگ کے میدان میں سجدہ ریز ہونے کے بجائے دشمن کے خلاف بلوچی شان و غیرت سے لڑ کر جامِ شھادت نوش کیا۔محراب خان اور ان کے جانباز ساتھی تیرہ نومبر کے دن انگریز سامراج کے خلاف اور اپنی وطن کی دفاع میں قربان ہوکر بلوچ تاریخ کے اوراق پر ایک اعلی اور جداگانہ مقام پر فائز ہوگئے۔
شھید محراب خان کی وطن سے محبت کی شدت ان کی اس جملے میں بخوبی اظہر الشمس ہے، جب کچھ لوگوں نے شھید محراب خان سے کہا انگریز طاقت ور ہے اور ہم کمزور ہیں لہذا ہم انگریزی فوج کو شکست نہیں دے سکتے، تو شھید محراب خان نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا ” اگر ہم انگریز فوج کو شکست نہیں دے سکتے لیکن اپنے وطن اور ان کی دفاح کے لیۓ مر تو سکتے ہیں” یہ تاریخی جملہ ان تمام لوگوں کے منہ پر ایک زودار طمانچہ ہے جو” پاکستان طاقت ور ہے” ”ہم کمزور ہیں” جیسے مفروضوں کو جواز بنا کر اپنے آپ کو قومی زمہداریوں سے کنارہ کش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ آج ہر فرزند ِبلوچ کو اپنی وطن و قوم کے لیے شھید محراب خان کی طرح اپنے اندر شدت سے محبت و لگاؤ پیدا کرنے کی ضروت ہے، ایسی لگاؤ جو اپنی سرزمین سے وابستگی کو منقطع کرنے کی احساس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے ، ایسی محبت جو اپنی قوم و سرزمین کی خدمت کو پرستش و عبادت کا درجہ دے۔
شھید محراب خان سمیت ہزاروں شھیدوں کی مادر وطن سے محبت کے پیمانے، مخلصی اور قربانیوں کو مدنظر رکھ کر بلوچ قومی تحریک میں اتحاد و ہم سنتی کا فقدان، پارٹی پرستی، غیرانقلابی رویہ، اور انتشار جیسے رجحان پر نظریں دوڑانے کے بعد یقیناً دل جھنجھڑا اٹھتی ہے۔ جب ہم ان حالات پر گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں ، تو میرے ذہن میں یہ سوال آن پڑتا ہے، کیا ہم واقعی شہداۓ بلوچستان کے فکر و فلسفے پر عمل پیرا ہیں؟ شہداۓ بلوچستان نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر قومی تحریک کی بنیاد ڈالی، تو کیا ہم اس تحریک کو منظم و مستحکم کرنے کے لیئے اپنی زاتی انا کی قربانی نہیں دے سکتے؟ کتنی تفاوت کی بات ہے، ایک وہ جنہوں نے آپ کی اور ہماری آنے والی خوشحال و انگارہ سی روشن مستقبل کے خاطر اپنی وجود کی قربانیاں دیں اور ایک ہم کہ اپنی انا کی قربانی دینے کی صلاحیت سے بھی کتراتے ہیں۔ یقیناً یہ دریغ و رنج میں مبتلا کرنے والی بات ہے کہ شھیدوں کی لہو سے پھیلتی پھولتی تحریک آج کئی ایسے مسائل و پیچدگیوں کا شکار ہوا، جو آئے روز تحریک کو کمزور کرنے کی موجب بن رہی ہیں۔ ان گمبیر مسائل اور پیچیدگیوں سے فائدہ اٹھاکر دشمن تحریک کو مزید کمزور کرنے کے لیے مختلف قسم کے حربے و ہتھکنڈے بروئے کار لارہا ہے۔ یہاں پر باعثِ سد افسوس بات یہ نہیں کہ تحریک کو کس قدر مسائل اور پیچیدگیوں نے ہمیں گیر لیا ہے افسوس اس بات پر ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے واسطے بلوچ قیادت کی جانب سے کسی قسم کی عالیجاہ اقدام نہیں لی جارہی ہے بلکہ ہر کسی نے اپنی سیاسی دکان کھول کر اپنی انا کی تسکین میں لگا ہوا ہے، اسی انا و بغض کی کش مکش میں ہم نے قومی شہیدوں کو بھی پارٹی اور گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس سے بڑی المیہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے پارٹی اجلاس اور ریفرینسز میں محض ان شھیدوں کی تصاویر کو آویزاں کی جاتی ہیں جن کی وابستگی یا تعلق اُس پارٹی یا تنظیم سے ہوتا ہے۔ یہاں پر سوال یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ان شھیدوں نے پارٹی یا تنظیموں کی خاطر قربانیاں دی ہیں یا بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قوم کی روشن مستقبل کے خاطر؟ اگر تمام پارٹیوں سے منسلک شھیدوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بلوچ گلزمین کی بقاء اور آزادی کے لیئے دیں ہیں۔ تو کیا ان شہداء کو پارٹیوں اور گروہوں میں بانٹ کر ہم ان کی فلسفے کی غلط تشریع کرکے ان کی روح کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے ؟ یقیناً ہم دانستہ یا غیر نادانستہ ایک گھناؤنی عمل کا مرتکب ہوکر، شہدائے بلوچستان کے فلسفہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنے گروہی مفادات کی حصول کی کوشش میں سرگرم ِ عمل ہیں۔
شھدائے بلوچستان کے فلسفے کی تکمیل دنیا کے نقشے پر ایک خودمختار اور آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل ہے، اس مقصد کے اصول کے لیئے بنیادی شرط قومی و اجتماعی سوچ کی فروغ ہے۔ دنیا کی تمام تحریکیں تجربے کے طور پر ہمارے سامنے عیاں ہیں، کسی بھی قومی تحریک کی کامیابی کی راز قومی سوچ کی فروغ اور ایک مضبوط اتحاد میں پنہاں ہے جبکہ وہ تحریک جس میں تنظیم کو مقصد بناکر اجتماعیت پر گروہیت کو ترجیح دیا گیا، وہ تحریکیں اپنی ساخت کھو کر دنیا کے تاریخ میں ناکامی کی مثال بن چکے ہیں ۔ آج اس تلخ اور مسلمہ حقیقت سے کوئی بھی باشعور بلوچ انکار نہیں کرسکتا کہ بلوچ قومی تحریک میں اس وقت اتحاد کی فقدان اپنی عروج پر ہے ،،ہم،، کی بجائے ،،میں،، کی رجحان پوری تحریک پر حاوی ہے خدانخواستہ اگر اسی طرح بلوچ تحریک میں موجود کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو نہ پایا گیا، تو آگے چل کر ایک بڑی قومی نقصان کے خدشے پر پیشن گوئی کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوگی۔ شھدائے بلوچستان کی قربانی ہم سب سے یہ تقاضہ کرتی ہیں کہ ہم گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی سوچ و اپروچ کی فروغ کے ایک مضبوط الائنس کی تشکیل ِنو کریں۔ یہی وہ یک واحد فارمولہ ہے کہ جس پر عمل پیرا ہوکر ہم شہدائے بلوچستان کے فلسفے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس فارمولے پر گامزن ہونا نہ صرف ہماری زمہداریوں میں شامل ہے بلکہ یہ ہر بلوچ فرزند کی اولین فرض ہے کہ شھیدوں کی فکر و فلسفے کو وسعت دیں کیونکہ اسی میں ہماری آنے والی نسل کی روشن مستقبل کی ضمانت موجود ہے۔ آؤ عہد کریں کہ ہم بھی ان شہداء کے فکر کی پیروی کرکے اپنے اندر موجود رد انقلابی رجحانات جیسے جراثیم کا خاتمہ کرکے تحریک آزادی میں مخلصی اور ایمانداری سے اپنے قومی زمہ داریوں کی تکمیل کریں۔
آؤ ہم یہ بھی عہد کریں کہ ہم زاتیات ، گروہی مفادات، پارٹی بازی و غیر سنجیدہ رویے جیسے اعمال کو ترق کرکے شہیدوں کی خواب ِ آزادی کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنے ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو سرف کریں۔
آؤ عہد کریں ہم فلسفہ ِ شھدائے بلوچستان پر عمل پیرا ہوکر اپنی کردار و فعل کو ان کی مانند ڈال کر اپنی وجود کو محض تحریکِ آزادی کی کامیابی و کامرانی پر وقف کریں۔
حرف ِ آخر میں ، میں ان تمام عظیم ہستیوں کو خراج ِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے بلوچستان کی آزادی و بلوچ قوم کی آنے والی نسل کی روشن مستقبل کے خاطر اپنے آج کو قربان کرکے بلوچ تاریخ کے اوراق پر تا ابد زندہ ہوگئے۔