پنجشنبه, اکتوبر 17, 2024
Homeآرٹیکلزایران کے خلاف بلوچ آزادی کی ابھار، تحریر: خیرداد بلوچ

ایران کے خلاف بلوچ آزادی کی ابھار، تحریر: خیرداد بلوچ

ہمگام کالم : دشمن ہمیشہ محکوم قوموں کی نفسیات پر وار کرتا ہے، انسان کی شکست ان کی جسم پر لگے کسی گھاو سے منسوب کی جاسکتی ہے، انسان تب مرتا ہے جب ان کی ضمیر مرجائے، یا ان کے اعصاب جواب دیں۔

بنگلہ دیشن میں تیس لاکھ بنگالیوں نے پاکستانی دہشت گرد فوج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی، وہ جسمانی طورپر گولی اور گھاو سہہ کربھی آزادی لیکر زندہ و تابندہ رہے لیکن نوے ہزار قابض پاکستانی فوج نے بندوق، ٹینک و توپ رکھنے کے باوجود ہتھیار ڈال دیئے وہ بظاہر تو زندہ بچ گئے کئی آج بھی ریٹائرڈ فوج اور سپاہی کی حیثیت سے اپنی پنشن ، تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں لیکن وہ جنگ کے میدان میں ہار گئے۔ آج وہ اپنے عزیز و اقارب کے لئے تو زندہ ہیں لیکن تاریخ کے پنوں میں مر گئے ہیں، کیونکہ وہ جنگ کے میدان نفسیاتی طور پر شکست کھاچکے تھے۔ نفسیاتی طور پر شکست کھانے والی فوج کے ہاتھوں میں دنیا کی جدید ترین ہتھیار بھی میسر ہو وہ کچھ نہیں کرسکتا۔

بلوچ قومی جنگ دو قابض ظالم طاقتوں (ایران، اور پاکستان) کے خلاف جس شدت سے اکھٹے ہونے کی چاہت رکھتے ہیں ان کی یہ قومی یکجہتی کی لہر پاکستان جیسے عالمی بھکاری اور ایران جیسے معاشی دیوالیہ کا شکار ملک کے خلاف کامیابی کی راہیں ہموار کرتی دکھائی دےرہی ہیں۔

پاکستان اور ایران اپنی تاریخ میں پہلی بار ٹوٹ پھوٹ اور کمزور ترین حالت میں ہیں، پاکستان کے حکمران کشکول لیئے پورے خطے میں در، در ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ ایران خطے میں درپردہ جنگ کو ھوا دینے کےلئے اب تک اربوں روپے جھونک چکی، ان کی حالت پاکستان سے مختلف نہیں ہے۔

حالیہ دنوں ایران سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی غرض سے بلوچ، کرد، احوازی اور آزربائیجان پر مشتمل کل ملا کر دس پارٹیوں اور تنظیموں نے گرینڈ الائنس بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے ایک تازہ ترین اعلامیہ کے مطابق ان کی یہ عالمی اتحاد مل کر ایران کے خلاف جدوجہد کریگی۔ ایران قبضہ گیریت پر یہ آخری کیل ثابت ہونے جارہی ہے۔

لیکن بد قسمتی سے چند ایک مفاد پرست یا نفسیاتی طور پر کمزور لوگ ایران کے زیر قبضہ بلوچوں کے ساتھ مل کر بلوچ قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر بلوچ قومی طاقت کو مجتمع کرنے میں نہ صرف عدم دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ وہ ایران کے خلاف اٹھتی بلوچ شعوری ابھار کو مذہبی شدت پسندی سے تعبیر کرکے ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی یہ ایران نواز پالیسی ان کی پارٹی اور تنظیمی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن بلوچ قومی مفادات کی ہرگز نگہبانی اور ترجمانی نہیں ہوسکتی۔ بلوچ قومی مفادات کی تحفظ قومی طاقت سے کیا جاسکتاہے اور قومی طاقت کو سمیٹنے کے لئے قوم کے ہرفرد کو سرحدوں کی لکیروں کو ملیا میٹ کرنے کے لئے ایک دوسرے کی درد، تکلیف کو یکساں طور پر محسوس کرنا ہوگا۔

قوم کے افراد جب مل کر قابض کے خلاف کمر کس لیں تو پارٹی مجبوریوں کو بہانا کر پاکستان یا ایران کی وکالت کرنے والوں کو تاریخ میں کہیں بھی منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ آج بلوچ چاہے ایرانی گجر کے وحشت، دہشت گردی کا شکار ہو یا پنجابی گولوں کا نشانہ بنے سب کا خون یکساں ہے۔ آج قابض اگر مغربی بلوچستان کے کسی حصے پر بم و بارود برسائے، مال و مویشی لوٹے، قومی دولت کو لوٹ کر لے جائے یا پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے بلوچوں کو مسخ شدہ لاشیں تحفے میں دے، گوادر کو فوجی چھاونی بنانے کے لئے سی پیک جیسے بلوچ کش منصوبے کو آگے بڑھانے کی خاطر ایران کے ساتھ انٹیلی جنس ، فوجی اور دیگر ہر طرح کی تعاون کرے ، ان دونوں صورتوں میں بلوچ قوم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس قومی نقصان سے بچنے کے لئے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر اور وطن کو غلامی اور جبری قبضہ سے چھڑانے کے خاطر بلوچ قوم کو، مشہد، سراوان، میں سڑکوں پر گجر کی لاٹھی کھانے والے اور کوئٹہ، کراچی ، خضدار، گوادر کی پریس کلبوں میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے، سیمہ بلوچ، فرزانہ مجید اور دیگر ہزاروں بلوچوں کی درد اور تکلیف کو یکساں طور پر محسوس کرنا ہے پھر ہم جاکر ایک قوم اور ایک ملک کے باسی کہلائیں گے۔

سراوان کے شہر جالک میں بلوچ عوام نے بڑے پیمانے پر ایرانی گجر، پاسداران انقلاب اور دیگر دہشت گرد فورسز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا، ٹائر جلائے اور قابض ریاست کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ایرانی گجر فورسز نے گولیاں چلائیں لیکن تاہنوز کوئی کسی کی زخمی یا شہادت کی خبر نہیں ملی۔

بلوچ مظاہرین گذشتہ روز ایرانی قابض فورسز کی جانب سے نصب ایک بارودی سرنگ کا نشانہ بننے والے تین بلوچ فرزندوں کی شہادت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ یاد رہے ایران گذشتہ کئی عرصے سے بلوچ عوام پر عرصہ حیات تنگ کررہی ہے ، کاروباری لوگوں کو راہ چلتی نشانہ بنانا، ان کو اٹھا کر عدالتی کاروائیوں سے مبرا سزائیں اور ماورا عدالت قتل و غارت سے تنگ آکر بلوچ قوم اب روز بروز اپنے احتجاجی پروگرامز کو تقویت دے کر بلوچستان بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ ایران کے خلاف بلوچوں کی یہ حالیہ بیداری اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایران کے قبضے والے بلوچستان کے عوام وہاں موجود دیگر محکوم غلام اقوام کے ساتھ مل کر انقلاب یا آزادی کے لیئے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز