اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں تمام بڑے تنازعات و تحریکات میں اور جنگوں کے دوران مخالفین کا آپس میں مذاکرات و ملاقات کے بے شمارثبوت ملیں گے مختلف حالات میں مختلف نقاط پر تبادلہ خیال و ایجنڈوں کے نقاط پر اتفاق و عدم اتفاق کے سینکڑوں واقعات پڑھنے کو ملیں گے اگرتحقیقات کیے جائیں تو ضرور ایسے لاکھوں مثالیں ملیں گے جنکا تجزیہ کیا جاسکتا ہے دیکھا جاسکتا ہے کہ آخر وقت و حالات کے مطابق ایسے مذاکرات کیوں اور کس لیے کیے جاتے ہیں انکی ضرورت و نوعیت اور نقاط کو بھی سمجھا جاسکتا ہے اور انکے پیچھے چھپے عزائم کو بھی جانا جاسکتا ہے عمومی طور پر زیادہ تر شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں فریقین کا مقصد ایسے مذاکراتی عمل سے بھی زیادہ سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ ہی کرنا ہوتا ہے لیبیا کے تحریک میں دوران جنگ عمر مختار سے دو مختلف وفود کی ملاقاتیں ہوئیں جن میں سے ایک برائے راست دشمن کے فوجی وفد سے ہوا تھا اور دوسرا قبائلی عمائدین سے جو دشمن کے پیغام رساء بن کر آئے تھے دور جانے کی ضرورت نہیں 2003 سے لیکر 2005 کےآخر تک چوہدری شجاعت و مشاہد حسین کے سربراہی میں شہید نواب اکبر خان بگٹی سے ڈیرہ بگٹی میں درجنوں ملاقاتیں ہوئیں اس بات کو سمجھنے میں میرے خیال سے کوئی دقت نہیں کہ سیاسی تنازعات کے بیچ یا دوران جنگ فریقین کا ایک دوسرے سے مذاکرات و ملاقات یا مختلف نقاط یا مطالبات پر پیغام رسانی کا کام ایک سیاسی عمل ہے جسکی حقیقت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور سیاسی تاریخ نے کہیں بھی اس عمل کے ممانعت کے طرف کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کم از کم ہم نے آج تک نہ دیکھا اور نہ سنا ہے اس طرح کے مذاکرات و ملاقاتوں کی نوعیت مختلف حالات میں مختلف ضرور ہوتے ہیں بعض اوقات اعلانیہ ہوتے ہیں اور اکثروبیشتر پوشیدہ بھی رکھے جاتے ہیں اعلانیہ مذاکرات میں وفود و ایجنڈے سامنے لائے جاتے ہیں ،غیراعلانیہ مذاکرات میں وفود و ایجنڈے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں،مذاکرات کے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ہونے کا تعلق وقت و حالات کے مطابق ہوتا ہے لیکن اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حقیقی مذاکرات کے لئے فریقین کے پاس مضبوط سیاسی و اخلاقی جواز ہوتا ہے یہ سیاسی عمل کا حصہ ہیں انکے مقاصد واضع ہوتے ہیں عام طور پر اس طرح کے عمل میں فریقین کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ،بلوچوں کے لیے اس سیاسی عمل کے امکانات سے کون انکار کر سکتا ہے، دوسری طرف اس طرح کے مذاکرات و ملاقات کے عمل پر تحفظات اور تنقید بھی سیاسی عمل ہی کہلاتا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن جہاں حقیقی تنقید کیا جاتا ہے یا تحفظات پیش کیے جاتے ہیں وہاں ہدف تنقید واضع اور تحفظات کے نوعیت کی وضاحت ضرور ہوتا ہے،مثلا مذاکراتی عمل کے نوعیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاسکتا ہے ،مذاکراتی عمل کا وقت و حالات کے مطابق غیر مناسب ہونے پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں ایجنڈے کے نقاط پر تحفظات کا اظہار کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ سودا بازی و سازباز کیلئے سازشیں ہوتی ہیں مذاکراتی عمل نہیں ہوتاتحفظات ہوں شکوک و شبہات یا سازشوں کا پردہ فاش کرنا ان تمام کیلئے واقعات و علامات کو لیکر ٹھوس شواہد سامنے لانے کے ساتھ تحفظات کی وضاحت کرنالازمی ہو جاتا ہے ،اب اگر ہم اپنے قومی تحریک میں اسی تناظر سے آج کے سیاسی رجحانات کا جائزہ لیں تو ہمیں حیرت کے ساتھ ہی ساتھ شرمندگی ہوتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر محمود خان اچکزئی کے اخباری بیان پر جو واویلا مچانے کی کوشش کی گئی اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صرف اس بات کے سواء کچھ نظر ہی نہیں آتا کہ محمود خان اچکزئی سے ملاقات کو ہی بھر پور طریقے سے جرم ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں،محمود خان اچکزئی کے ایک اخباری بیان کو لیکر یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر جو تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہیں اس پر میں اپنی ناقص رائے کا اظہار بعد میں کروں گا لیکن پہلے محمود خان اچکزئی کے بیان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اس اخباری بیان میں کہیں بھی محمود خان اچکزئی نے اس بات کا اقرار نہیں کیا ہے کہ وہ کسی مذاکراتی عمل کے سلسلے میں سنگت حیربیارمری یا سلیمان داود سے ملے ہیں اور نہ ہی اس نے سرکاری نمائندگی یا پیغام رسانی کا ذکر کیا ہے پورے بیان میں عام ملاقات کے حوالے سے اپنے سیاسی گفتگو کا ذکر کیا ہے سلیمان داود سے جس حوالے سے وہ ملاقات کرچکے تھے وہ تو اسی وقت عوام کے سامنے آیا لیکن جہاں تک سنگت حیربیارمری سے انکے ملاقات کا تعلق ہے تو اسکی حقیقت یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی نواب خیربخش مری کے وفات پر تعزیت کرنے کے سلسلے میں سنگت حیربیارمری سے ملنے آئے تھے یاد رہے کہ تعزیت کے سلسلے میں اس سے پہلے بھی سندھی ، کشمیری، پنجابی اقوام سے تعلق رکھنے والے مختلف مکتبہ فکر لوگ سنگت حیربیارمری سے ملاقات کرچکے ہیں بحیثیت سیاستدان محمود خان اچکزئی کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ نام نہاد قوم پرستی کا دعوے داربھی ہے پونم اور سردار عطااللہ مینگل کے اتحادی کے طور پر وہ قوم پرستانہ سیاست اور بلوچستان کے قوم پرست حلقوں سے قربت بھی رکھتے ہیں اور لازمی طور پر وہ قبائلی اور سماجی رسوم و دود سے واقفیت بھی رکھتے ہیں تو کسی بھی باشعور انسان کیلئے محمود خان اچکزئی کا لندن میں حیربیارمری سے انکے والد نواب خیربخش مری کے وفات پر تعزیت کے لئے جانا شاہد کوئی حیرت کی بات نہیں ہو،تعزیت میں سیاسی حالات کا زیر بحث لانا اور ان پر اظہار خیال بھی غیر متوقعہ نہیں لیکن اگر اس اخباری بیان پر ڈاکٹر اللہ نذر اور اسکے دوستوں کا سوشل میڈیا پر تاثر کا جائزہ لیا جائے تو وہ سیدھی طرح سے اس تعزیتی ملاقات کو سودہ بازی و ساز باز ثابت کرنے کے لیے ہڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ،اس بات کو بھی سمجھنے میں بالکل کوئی مشکل نہیں کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں یہ حضرات سیدھی طرح سے سنگت حیربیارمری کے خلاف اپنے پچھلے اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے تسلسل کو قائم رکھنا چاہتے ہیں جس میں سنگت حیربیارمری کو تحریک کے لیے خطرہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا آلہ کار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرچکے ہیں بلوچ عوام میں اتنے بڑے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کو لیکران حضرات نے جن اداروں اور شخصیات کے نام کا استعمال کیا وہ انکے گلے کا ہڈی بن چکا ہے کیونکہ ایسے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کو ثابت کرنے سے ناکام رہے، لہذا اسی نفساتی دباؤ کو لیکر بغیر سوچے سمجھے یہ حضرات کسی بھی طرح اپنے ان بے بنیاد باتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے اس سے پہلے بھی رحمان ملک کے ملاقات پر اسی قسم کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا چکی ہیں حالانکہ رحمان ملک سے ملاقات جس کا ذکر کھل کر الیکڑانک میڈیا پر سنگت حیربیارمری نے از خود کیا تھا اس ملاقات کو لیکر ان حضرات نے جس بچگانہ طریقے سے بغلیں بجائیں اسمیں نہ ہی کسی قسم کے تحفظات کا ذکر سامنے آیا اور نہ ہی ساز باز کو لیکر کسی قسم کے واقعات و علامات کی نشاندہی سے ٹھوس شواہد سامنے لائے گئے ماسوائے اس کے کہ رحمان ملک سے ملاقات ہی گناہ عظیم ہے یہ تمام سلسلہ پہلے سے ہی ان حضرات کے لیے جگ ہنسائی کی وجہ بن چکا ہے اور حالیہ محمود خان اچکزئی کے بیان پر اس طرح سے بغیر سوچے سمجھے سنگت حیربیارمری پر بے بنیاد الزامات کے بوچھاڑ نے ان حضرات کے محدود سوچ سیاسی پختگی اور ذاتی ضد کے حوالے سے اور بہت کچھ واضع کردیا۔