(انقلاب‘ وہ خوبروحسینہ عالم ہے جس کے درشن کیلئے انقلابیوں کی ہر نسل ہمیشہ تاب رہی ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی نسلیں انقلاب کی آرزو اور جدوجہد میں شہید ہوئی ہیں اور کسی مقصد کیلئے نہیں ہوئیں‘بالخصوص جبر ‘ استحصال اور گھٹن زدہ معاشروں میں پروان چڑھنے والی نسل اس کیلئے کچھ زیادہ ہی بے تاب ہوتی ہے حتیٰ کہ اس کے لئے وہ اپنی جوانی اور جوان آنکھوں کے خواب تک لٹادیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاشقند میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے خاتمے کے وقت ایم این ر ائے نے چند دیگر دوستوں سمیت انڈیا سے بہت دور بیٹھ کر برطانوی سامراج کو نظر میں رکھتے ہوئے نئے سوویت انقلاب کی تبدیل شدہ دنیا کے زور پر کمیونسٹ پارٹی (1920ء) کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو پائے ‘لیکن اس کے بہت بعد برسوں اور کئی دہائیوں سے بھی زیادہ وقت چاہئے تھا یہ سوال تجرباتی بنیادوں پر طے کرنے کے لئے جو سوال نظریاتی حکمت عملی کے تحت ایم این رائے نے اس وقت رکھا تھا کہ؛ ’’ اس وقت سامراج مخالف حالات پک کر پختہ ہوچکے ہیں اس لئے برطانوی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب رائج کیا جائے۔‘‘ جس کے رد عمل میں انہیں کامریڈ لینن اور کامینف واسٹالن کی طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ پسماندہ ممالک میں جہاں فطری ترقی نوآبادیاتی نظام کے تحت رک گئی ہے جہاں فیوڈل ‘ بورژوا اور سامراج ایک ہوچکے ہیں وہاں مسلسل انقلاب کا تقاضا ہے کہ بورژوا انقلاب کو آگے بڑھایا جائے جو بعدازاں سوشلسٹ انقلاب کی راہیں ہموار کرے گا ،بنیادی سوال یہ تھا کہ سامراج اور اس کے فیوڈل اتحادی کو دھکا دے کر نیشنل بورژوا کو آگے لایاجائے۔ ایم این رائے کی کمیونسٹ پارٹی ‘ غدر پارٹی اور برلن کمیٹی کے ترقی پسند ساتھیوں کی خواہش کے باوجود اس وقت تک انڈیا میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد نہیں پڑسکی تھی‘ الٹا 1921ء سے 1926ء تک پشاور اور کانپور سازش کیس مفت میں بائیں بازو کے حلقوں کے گلے پڑگئے۔ لیکن بھگت سنگھ کے میرٹھ سازش سے لے کر (Adventurism) کی بنیادیں جس کی جڑیں 60ء اور 70ء کی دہائی تک جاتی ہیں بائیں بازو کا Adventurism خواہ چے گویرا کی زیر نگرانی بولویا میں سرانجام دیا گیا ہویا نکسلائیٹ تحریک کے روپ میں انڈیا میں ہو دونوں صورتوں میں اس میں رومانوی اور جذباتی پہلو حاوی ہوتا ہے اور اس کا زوال وقت کا Fall of Legendہوجاتا ہے۔ وہ عظیم سورما اور ہیرو اس لئے ہوجاتے ہیں کہ ان کے مقاصد اور آدرش اعلیٰ اور عظیم ہوتے ہیں گو کہ حکمت عملی کے لحاظ سے اور وقت کے فریم ورک میں انہیں ’’Premature‘‘ ٹرمنالاجی کی مہروں تلے دفن کردیاجاتا ہے۔ نکسلائیٹ یا نکسل باڑی تحریک بھی ہزاروں سوالات تضادات حکمت عملیوں کے خوابوں خیالوں میں گم شدہ تقسیم درتقسیم کا شکار ہونے والی اس رومانوی مزاحمتی تحریک کا نام ہے جس کے سائے کا حاصل ’’ کچھ بھی نہیں‘‘ ہے۔ دھڑے بندی اس قدر وسیع ہوتی گئی اور حکمت عملیوں کی روز بروز نئی روش اور اس کے صحیح ہونے کی نامختتم بحث‘ نتیجتاًClass enemy کو ڈھونڈتے ہوئے ان کی بندوقوں کا رخ اپنی کلاس کی قیادت کرنے والی پارٹی کے کیڈر کی طرف ہونے لگا۔ ریاست ‘ اس کی پولیس اسٹیٹ ‘ اس کی ایجنسیاں فیوڈل اور ان کے چھاڑتے‘ مفت خور چھاڑتے اور مخفی کتوں کی دموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو نکسلائیٹ نوجوانوں کا صرف موت کیلئے پیچھا کرتا رہا‘ پولیس نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد جان بوجھ کر ان کا چہرہ مسخ کرکے انہیں کی نعش رشتے داروں کو دکھاتی تھی‘ یہ نعش پولیس نے کبھی انقلابیوں کے رشتے داروں کے حوالے نہیں کیں۔ کیونکہ وہ ریاست کے خاتمے کے باغی تھے۔ اس ایڈونچر کا آغاز 25 مئی 1967ء میں مغربی بنگال کے ضلع دار جیلنگ کے نکسل باڑی کے علاقے میں اس وقت ہوا جب مظلوم کسانوں نے جابروڈیروں کے خلاف پرتشدد مزاحمت کا آغاز ’’زمین ،جو تنے والے کی ‘‘ کے نعرے سے کیا ۔ان کسانوں کی رہنمائی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ(M) CPI سے وابستہ انہی انقلابیوں نے کی جو گوریلا جنگ سے لے کر پرتشدد حکمت عملیوں کو اولیت دیتے تھے۔ دوڈھائی ماہ کے اندر جب نکسل باڑی تحریک اپنا دائرہ تیزی سے پھیلانے لگی تو پارٹی کے اندر ایک بحران پید ا ہوگیا، جہاں سے تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اصل میں انقلابی نوجوانوں نے پارٹی سے ’’ نکسلائیٹ ‘‘ کیلئے حکمت عملی طے کرنے کو کہا ۔ ان نوجوانوں نے اپنا موقف کچھ یوں رکھا کہ؛ ’’ انڈیا سیاسی طور پر آزاد ملک نہیں ہے، یہ نیم جاگیرداری اور نیم نوآبادیاتی ملک ہے جس پر اصل حکومت سامراج‘ کمپواڈور بیوروکریٹ ‘سرمایہ داروں ‘ وڈیروں اور جاگیرداروں کی ہے اس لئے انڈیا میں انقلاب کا مرحلہ جاگیرداریت ‘ سامراجیت اور کمپراڈور سرمایہ داریت کے خلاف آزادیNational Libration کی جنگ ہے ‘اس آزادی کیلئے حکمت عملی یہ ہے کہ عوامی جنگ (Peoples War) کسانوں کی مسلح جدوجہد سے شروع کی جائے گی جو ہمیں چھٹکارے کی طرف لے جائے گی‘ اسی طرح بیک وقت انہوں نے سوشلسٹ روس کو امپریلسٹ روس اور ترمیم پسند روس کے خطابات سے نواز کر امریکہ سے نسبت دی۔ ان کا اس بات پر مکمل یقین تھا کہ ماؤسٹ حکمت عملی ہی موجودہ پارٹی لائن ہونی چاہئے۔ انہوں نے پارلیمانی جمہوری سیاست میں شرکت کو ترمیم پسندی سے تشبیہ دے کر رد کردیا اور CPI(M) کو یہ حکمت عملی اپنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔یوں انہوں نے ماؤسٹ لائن اختیار کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ دیہات میں کسانوں کے اندر کام کریں گے انہیں نہ صرف سیاسی طور پر بیدار کیا جائے گا بلکہ انہیں مسلح بھی کیا جائے گا جو اپنے کلاس دشمن کا خاتمہ کریں گے ۔یوں یہ تحریک دیہات سے شہر کی طرف منتقل ہوگی۔ انہوں نے CPI(M) کو کمپراڈور بورژوا ‘ فیوڈل اور سامراجیت کا بلاواسطہ حمایتی سمجھتے ہوئے ان پر مارکسزم اور لینن ازم سے غداری کرتے ہوئے ’’ ترمیم پسندی ‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے الزامات عائد کئے۔ گو کہ آگے چل کر جب ان کی جنگ مسلح جدوجہد Coas اور Confusion کا شکار ہوئی اور بیشتر حلقوں کی رائے اور حکمت عملی اس حکمت عملی سے بالکل مختلف ہوگئی جہاں سے انہوں نے علیحدگی کے پرچم تھام کر نئی لڑائی کا آغاز کیا۔ سی پی آئی (ایم) کے اس باغی دھڑے نے اپنے سارے ملک یعنی تامل ناڈو ‘ کیرالا‘ اتر پردیش‘ کرناٹکا‘ اڑیسا اور مغربی بنگال سے ہم خیال افراد کو جمع کرکے پارٹی کے اندر ہی اسی1967 ء کے برس میں ہی آل انڈیا کو آرڈینیشن کمیٹی آف ریولیشنریز تشکیل دی ۔1968ء میں اس کمیٹی کا نام آل انڈیا کو آرڈینیشن کمیٹی آف کمیونسٹ ایولیشنریز رکھا گیا ۔(AICCCR) جس کے کنوینر کا مریڈ سشیل رائے چوہدری بنے جبکہ بیک وقت ’’ کامریڈ آست سین‘‘ دھڑے نے خود کو الگ رکھ کر ‘ بعدازاں آگے چل کر ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر (M.CC) نامی دھڑے کی بنیاد رکھی جبکہ آندھرا کے ’’ ٹی ‘ ناگی‘ ریڈی‘‘ کے دھڑے کو بنیادی اختلافات کے باعث خارج کردیا گیا۔ 1969ء میں اس کمیٹی کا نام مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ‘ لیننسٹ یعنی سی پی آئی ( ایم ایل ) رکھا گیا۔ کامریڈ چارومزمدار(Charu Mazumdar) کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔جلد ہی بی بی چکرا بھارتی گروپ الگ ہوگیا جس نے آگے چل کر ’’ لبریشن فرنٹ ‘‘ کے نام سے اپنی شناخت قائم رکھی۔ جبکہ ’’ مونی گوہا‘‘ اور کونیکال نارائن کے دھڑے نے اپنی الگ الگ شناخت کو قائم رکھا۔ 1970ء میں سی پی ایم ( ایم ایل ) نے پہلی سالانہ کانگریس کے بعد ستیانارائن دھڑے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے 1971ء میں سی پی آئی ( ایم ایل ) کی سینٹرل کمیٹی بنائی ۔چارومز مدار جنہیں ’’ چارئیت ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا ،ان سے آشم چیٹر جی اور سنتوش رانا نے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ یہ تقسیم درتقسیم ‘ حکمت عملیوں اور نظریاتی بنیادوں پر دودہائیوں تک جاری رہنے بکھرنے بننے گہر نے اور دوبارہ بننے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اب آتے ہیں اس طرف کہ ان کا طریقہ کار کیا تھا؟ اصل میں چارومز مدار جو اس ساری تحریک کی بنیاد اور نیوکلس تھے‘ جنہوں نے 1967ء میں ہی اپنی حکمت عملی کا انتخاب کرتے ہوئے ‘ ’’نکسل باڑی کرشک سنگرام شایک سمیتی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے ‘ نئے مسلح دھڑے بنا کر شمالی بنگال‘ بہار ‘ اتر پردیش آندھرا پردیش کے مختلف دور دراز‘ دیہات کے علاقوں میں گوریلا زون تشکیل دیئے جہاں وہ پسماندہ مظلوم طبقے ‘ کسان‘ دلتوں( اچھوتوں ) میں کام کررہے تھے‘ وہ اس طبقے کو آرگنائیز کرنا چاہ رہے تھے‘ وہ ان کی سماجی اور سیاسی جنگ کے اوزار بن گئے۔ ذات پات اور صدیوں کی غلامانہ سوچ رکھنے والے مظلوم طبقے کے سیکڑوں قسموں کے مسائل کا سامنا کرنے لگے۔ جہالت ‘ بیماریاں اور اچانک پھوٹ پڑنے والی وبائیں ان کے طریقہ کار کے کینوس کو مزید وسیع کررہی تھیں اور پھر جب گوریلوں نے کسانوں کو مسلح کرکے اپنے طبقاتی دشمن ’’ وڈیرے‘‘ کو ڈھونڈ کر مارنے کی مہم کا آغاز ملک کے مختلف کونوں سے شروع کیا تو سامراج اور اس کے پٹھو انڈین حکمرانوں کی گویا آنکھیں ہی پھٹ کر رہ گئیں۔ نکسلائیٹ دھڑوں کو محسوس ہوا کہ ان کا طبقاتی دشمن تو اس وقت صرف فیوڈل ہے لیکن اس کے اتحادی لاتعداد ہیں۔ فوج ‘پولیس‘ بیوروکریسی‘ حکومت ‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ یہ سب تو اسی فیوڈل کلاس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم اس وقت کی کانگریس حکومت نے پولیس مشینری کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیٹ ٹیررازم کا آغاز کیا۔ یہ ایک ایسا آغاز تھا جسے آج بھی نکسلائیٹ کے تمام دھڑے کانگریس کا نیم فاشسٹ روپ کہتے ہیں ۔بات صرف پولیس تک محدود نہیں تھی‘ فیوڈل‘ اس کے پالتو چھاڑتے ‘ مخبر‘ ایجنٹ سبھی میدان میں تھے۔ نکسلائیٹ کے تمام دھڑے بھی ایک دوسرے پر شک کرنے لگے تھے ۔ہر دھڑا صحیح نکسلائیٹ اور اصل سی پی آئی ( ایم ایل ) ہونے کا دعویٰ کررہا تھا۔ سی پی آئی ( ایم ) اور سی پی ایل ( ایم ایل ) کے پرتشدد جھگڑے کا آغاز بھی ہوچکا تھا جس میں سی پی آئی ایم ایل پر سی پی آئی ( ایم ) کے کیڈر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنے کے الزام بھی لگ رہے تھے‘ اس لئے اس لڑائی نے دنگل کا روپ اختیار کرلیا تھا۔ بیشتر دھڑوں کا دشمن کو انفرادی طور پر ڈھونڈ کر مارنے کے طریقہ کار پر اختلاف تھا تو کسی کو ان دھڑوں پر اعتراض تھا جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی حمایت کی تھی۔ طبقاتی جنگ کے مسلح دھڑے کو اب ریاستی مشینری یعنی مکمل اختیار رکھنے والی پولیس کے ساتھ مقابلوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ہر دوسرے دن پولیس کے ہاتھوں کامریڈوں کی مسخ کی گئی لاشوں کا ملنا معمول کی بات بن چکی تھی۔ صرف 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ کا بہانہ بنا کر کانگریس نے اپنے ملک کے شمالی بنگال کی تحریک کو کچلنے کیلئے فوج کشی کا آغاز کیا جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو انڈیا کی مختلف جیلوں میں ڈالا گیا اور کئی گوریلوں نے زون کا بوریا بستر گول کروادیا ۔ نتیجتاً سیکڑوں کامریڈ فوجی قتل عام کا شکار ہوئے۔ جولائی 1972ء میں پولیس نے مسلسل 12 دن کے تشدد کے بعد کامریڈ چارومزمدار کوقتل کردیا۔جہاں سے پھر اس کی پارٹی کی نئی تقسیم کاآغازہوا۔مرکزی نقطے کے خاتمے سے گویا تمام گوریلے دھڑے پارٹی نیٹ ورک ڈسپلن سے آزاد ہوگئے۔مغربی بنگال کے کھوکان مزمدار گروپ،جمہوری کثر کا ’’سراف‘‘ڈھرہ ،پنجاب ،کیرالا ،تامل ناڈو کے دھڑے سب اب آزاد ہوکر کام کررہے تھے۔ چارئیت قیادت بنیادی طورپر دودھڑوں میں تقسیم ہوئی ۔ایک مکھرجی اوردوسرا شرما۔ مکھرجی دھڑا پھرمزید دودھڑوں یعنیpro linbioاورAnti linbioدھڑوں میں تقسیم ہوا۔اینٹی لنبیاؤ دھڑا سی پی آئی (ایم ایل)کاپروچارئیت دھڑا تھا۔جو آگے چل کر ونود مشرا کی قیادت میں اپنے پیروں پرکھڑا ہوگیا۔چارئیت کاایک اوردھڑا کنود پالیہ سیشار امیا کے قیادت میں پیپلزوار گروپ کے نام سے سامنے آیا۔سینٹرل ری آرگنائزنگ کمیٹی کے نام سے ایک اوردھڑا بھی سامنے آیا۔اسی طرح وہ دھڑے جو سی پی آئی (ایم ایل)سے شروع سے ہی الگ تھے ،وہ بھی تقسیم درتقسیم کاشکار ہوئے۔ سی پی آئی (ایم ایل)کے اہم پرچار ومزمدار گروپ اور چارومزمدار مخالف گروپ کچھ اس طرح تھے۔ چارئیت حامی گروپ : 1۔سی پی آئی ایم،ایل ونود مشراگروپ‘2۔سی پی آئی ایم ایل پیپلزوار گروپ‘3۔سی پی آئی ایم ایل،سی آرسی گروپ‘4۔سی پی آئی ایم ایل،سیکنڈ سینٹرل کمیٹی گروپ۔ چارئیت مخالف گروپ دھڑے: 1۔سی پی آئی ۔ایل ایم،ایس این سنگھ گروپ‘2۔سی پی آئی ۔ایل ایم ،پالاری گروپ‘3۔سی پی آئی ،ایل ایم ،سی او سی گروپ‘4۔او سی سی ،کانوسیال گروپ‘5۔یوسی سی آر آئی(ایم ،ایل)ناگی ریدی گروپ‘6۔ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر(MCC)‘7۔لبریشن فرنٹ‘8۔سی پی آئی ،ایم ایل ،سینٹرل ٹیم۔ ان دونوں گروپوں میں بار بار متحد ہونے اور پھر الگ ہونے کاسلسلہ بھی جاری رہا ہے۔اصل میں وقت کے ساتھ ساتھ سوال صرف یہ نہیں رہا تھا کہ کون سادھڑا چاروئیت (چار ومذمدار)کی حکمت عملی پر ہے اورکون نہیں؟۔۔۔اورمتحدہونے کے لئے یہی ایک سوال نہیں تھاکہ آئیں چاروئیت کی حکمت عملی اختیارکریں بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ متحدہونا ممکن ہی نہیں تھا۔جب تمام چاروئیت مخالف دھڑے الزام ہی یہ لگائیں کہ مزمدار ساری نکسلائیٹ تحریک کوتباہی کی طرف لے گئے ہیں۔ماؤزے تنگ کی حکمت عملی اختیار کرنے والوں کوبھی اب سوالوں کے ڈھیر لے کرچلنا پڑرہا تھا چائینیز کمیونسٹ پارٹی کارویہ خود سوال بن چکا تھا۔چائنہ سے امپورٹ شدہ Three world theoryخود تضادات کاشکار ہوچکی تھی۔اس کے علاوہ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے اورنہ لینے پر بھی اختلافات پیدا ہوچکے تھے ۔انفرادی فرد کا خاتمہ ،مسلح جدوجہد کے طریقہ کار پراختلافات الگ سے تھے۔عوام میں بیداری پیداکرنے اورانہیں آرگنائزکرنے پربھی اختلافات تھے۔اس لئے ساتھ مل کر چلنے کی امید کم ہی تھی۔ جہاں تک سی پی آئی (ایم)کاتعلق ہے توانہوں نے شروع سے ہی ان نوجوانوں کوتنبیہ کی تھی کہ یہ مہم ایک ایڈونچر سے مختلف نہیں اور انہیں بار بارکہتے رہے کہ وہ تاریخی طورپر ان چیزوں کوسمجھنے سے قاصر ہیں اوران (نکسلائیٹ)کایہ خیال کہ روس ترمیم پسند اورامپریلسٹ بن چکا ہے۔اور’روس سوشلسٹ کیمپ کاخاتمہ بھی لازماً ہوناچاہئے‘بالکل غلط تھا۔یہ کہاں لے جائے گا‘یہ مکمل بے مقصدیت کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں۔ جیساکہ نکسلائیٹ کامرکز ماؤ تھا‘وہ بین الالقوامی اور مقامی حالات کوماؤ کی آئیڈیالوجی کے تحت followکررہے تھے۔اس لئے ہردھڑا دوسرے دھڑے پر ماؤ سے غداری یاماؤسٹ ترمیم پسند وغیرہ کے الزامات بھی لگاتا رہا۔لیکن اس وقت نکسلائیٹ نے defensiveپوزیشن اختیار کرلی جب کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے چار کی ٹول کوٹوکا،جس نے سوشلسٹ کاز کو نقصان پہنچایا تھا اوران کا(کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ )یہ تجزیہ کہ ماؤ کی قیادت میں بھی بعض غلط خیال پروان چڑھے تھے،نکسلائیٹ کے لئے بڑا دھماکہ ثابت ہوئے۔نتیجتاً چاروئیت گروپوں میں سے ونودمشرا گروپ نے حکمت عملی تبدیل کرنے کی بات کی لیکن باقی تمام دھڑوں نے اسی انقلابی راہ پر چلنے کے دعویٰ کو قائم رکھا۔ نہ صرف اتنا بلکہ چاروئیت گروپ کے وہ دھڑے جوماؤ کوگائیڈ لائن کے طورپر لے کر چل رہے تھے۔اب وہی گروپ چائنہ پر بھی ترمیم پسندسامراجی روپ کے الزامات لگانے لگے۔بالخصوص پرولن بیاؤ دھڑے جوچائنہ پرسوشلسٹ امپریلسٹ ہونے کے الزامات لگارہے تھے۔ لیکن اس سے قبل جوچیز زیادہ بحث اورتضاد کے زیراثر رہی وہ تھی ماؤ کے نام پر پروموٹ ہونے والی Three world theoryجس کے مطابق دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔پہلے اسٹیج پر دوسپر پاور ممالک،بغیراس فرق کے کہ ایک سامراج ہے اوردوسرا سوشلسٹ ۔دوسری دنیا جس میں سامراج ممالک آتے ہیں اورتیسری دنیا جس میں تمام پسماندہ اورترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے اس تھیوری کو1947ء میں ہی یہ کہہ کررد کردیا تھا کہ یہ تھیوری مارکس ازم اورلینن ازم کے غداری کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ۔کیونکہ دنیا کے طبقاتی فرق کے علاوہ اس قسم کی تشریح طبقاتی سوال کی ہی نفی ہے،جس پرسارا مارکس ازم کھڑا ہوا ہے۔کہاجاتا ہے کہ نکسلائیٹ نے خود کو جسٹیفائے کرنے کے لئے حالات کوموقع پرستی کے روپ میں اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے تھیوری کابہت استعمال کیا ۔کیونکہ اس تھیوری سے امریکہ اورروس دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں سمجھاجارہا تھا۔اس لئے امریکہ کی طرف نرم اورComromisingرویہ رکھنابھی ان دھڑوں کے لئے معمول بن گیا۔مثال کے طور پرستیانارائن دھڑے پریہ الزام لگایا گیا کہ وہ پُروامریکن انڈیا کے اقتداری طبقے کے ساتھ اتحاد کی تھیوریز پیش کررہے ہیں یاپھر امریکی چھتری تلے بننے والی تنظیم ’آسیان ‘جس میں سامراجی دم چھلے فلپائن ،انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائیشیاء سنگاپور وغیرہ شامل تھے‘کونکسلائیٹ دھڑے نہایت پرامید نظروں سے دیکھتے تھے۔وہ انہیں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کابہترین اتحادی سمجھتے ہوئے،ماؤ کی تھری ورلڈ تھیوری سے جوڑ کر ’’سوشلسٹ امپریلسٹ روس‘‘کی قبضہ گیریت کی جارحیت کوروکنے کے لئے ایک فرنٹ تصور کرتے تھے۔کیونکہ وہ امریکہ کی افریقن ممالک میں قبضہ گیریت اورروس کی ایشیا میں قبضہ گیریت ،دونوں کوایک ہی سامراجی روپ تصور کرتے تھے۔جیساکہ روس ،انڈیا سے جغرافیائی طورپر زیادہ قریب ہے‘اس لئے انہیں امریکہ کی نسبت روس سے زیادہ خطرات کی بوآتی تھی۔ نکسلائیٹ کے کچھ دھڑے جیسے کہ سی آر سی (وینو گروپ)یاسراف گروپ ماؤ کی تھری ورلڈ تھیوری پرسخت تنقید کرکے اسے رد کرتے تھے۔ان کا کہنا تھاکہ یہ تھیوری ماؤ کے نام پرامپورٹ کی گئی ہے۔جبکہ ماؤ دنیا کو محض خارجہ پالیسی کے حوالے سے حکمت عملی کے تحت اس طرح دیکھ رہے تھے۔جبکہ ماؤز نے کبھی کبھی اسے تھیوری بناکر پیش ہی نہیں کیاتھا۔لیکن بہت سے دھڑے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کیونکہ یہ مان لینے سے ان کے برسوں کے کئے ہوئے کام پرایک دم لکیرپھر جاتی تھی۔موصوفین نہ کسی کام کے رہتے تھے نہ کاج کے۔اس لئے ردکرنا تو ایک طرف،قابل استہزا غلطیاں آنے والی وقت میں بھی ہوتی رہیں۔مثال کے طورپر 1980ء کی دہائی میں ایس این سنگھ اورپائیلا ریڈی اتحاد سوویت مخالف فرنٹ کی بنیاد پر ٹوٹا۔ایک نے کہا کہ کانگریس حکومت(اِندرا فاشزم)کامقابلہ کرنے کے لئے پروامریکی اتحاد کے ساتھ اتحاد کیاجائے جبکہ دوسرا دھڑا اس بات کوماننے سے ہی انکار کررہاتھا۔ 80ء کی دہائی میں ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد تمام دھڑوں نے خود کو Re-assesکرنے کی کوشش کی ،سب نے اپناSelf critical Analysisکیا اوراپنے اپنے پیپر شائع کئے۔جواکثر ایک دوسرے کوکمتر دکھانے اورخود کوجسٹیفائے کرنے پر محلول تھے۔سب انڈیا کے بنیادی سیاسی تضاد کو اپنی اپنی تھیوریز کا رنگ دے رہے تھے ۔ایک نے کہا کہ انڈیا آزادنہیں ہوابلکہ سامراج کی نیم کالونی ہے۔دوسروں نے کہا کہ آزاد ملک ہے لیکن امریکہ روس دونوں کی نئی کالونی ہے۔ایک نے کہا کہ ملک کا دشمن سامراج پٹھو،بورژوا اورفیوڈل ہے۔دوسروں نے کہا کہ عوام کے دشمن نیشنل بورژوا نہیں بلکہ کمپراڈور بورژوا اورفیوڈل ہیں۔سب ماؤ کو فالو کررہے تھے ،بعدمیں اسے ردکرنے لگے ۔یہ ایک چیزوں کوطے نہ کرنے اورالجھانے والا مرحلہ تھاجو مزید الجھتا چلاگیا۔ شروع میں سب مسلح جدوجہد کی حمایت کررہے تھے اورAnihilation Theoryکی سپورٹ کرتے رہے‘ بعدمیں بیشتر اس تھیوری سے دستبردار ہوکر Mass Movementکاساتھ دینے لگے،گوکہ کسی بھی دھڑے نے مسلح جدوجہد کے طریقہ کار سے مکمل انکار ہرگزنہیں کیاتھا۔ شروع میں پارلیمان الیکشن میں حصہ لینا ،بالکل ہی حرام تھا۔بعدمیں کئی دھڑے اس موقف سے دستبردار ہوگئے۔کچھ دھڑے عوامی حمایتی یونٹ نہ جوڑ پانے کے باعث یاعوام کواپنا نہ کرپانے کے احساس کوختم کرنے کے لئے سول لبرٹی اورکلچر کے نام پر لوگوں کو جمع کرنے لگے اوراس سلسلے میں وہ بی جے پی اورآر ایس ایس والوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کوتیارتھے۔کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسے حلقے درحقیقت روس مخالف فرنٹ تھے۔ نکسلائیٹ کاایک المیاتی پہلو قومی سوال پر بھی تھا۔جیسے کہ انہوں نے انڈیا کونیم نوآبادیاتی اورنیم جاگیرداری ریاست بیان کیا اس لئے انہوں نے ملک کی تمام اقوام کے لئے Right of self determenationکی بات کی۔یہاں تک توبات قابل قبول تھی لیکن اس بنیادپر وہ ان تمام علیحدگی پسند پارٹیوں اورتحریکوں کی بھی آنکھیں بند کرکے حمایت کرنے لگے جو امریکی سامراج کی سپورٹ سے ورکنگ کلاس کولڑانے اوراکیلا کرنے کے لئے چل رہی تھیں‘ جیسے کہ پنجاب ،آسام ،جھار کھنڈ (پاکستان کی بنگلہ دیش تحریک)وغیرہ کی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کی گئی ۔ کئی نکسلائیٹ دھڑوں میں اس لئے بھی انتشار پھیلاکہ وہ پارٹی کے لئے پارٹی کے ہی سماجی کاموں جیسے کہ سکول کھولنے ،صحت وغیرہ کی سہولیات دینے کے نام پر مغرب اورمغرب کے دلال اداروں اورسرمایہ داروں سے چندہ لے رہے تھے۔یعنی امریکی اورمغربی سامراج کے لئے سیڑھی کے طورپر کام کیا۔ اس ساری ڈیڑھ دو،دہائیوں کے دوران چلنے والی نکسلائیٹ تحریک کی شاید ہی اتنی حاصلات ہوں،جتنی ان کی غلطیاں اور پچھتاوے ہیں۔کسی بھی تنظیم اور آدرش کااس سے زیادہ اورکیا المیہ ہوسکتا ہے جب اس قدر لہو اورقوت گنوانے کے بعد انہیں پتہ چلے کہ وہ سوار ہی غلط ٹرین میں ہوئے تھے۔ ان کے تمام کردار گویا کسی Pessimistناول نگار کے کردار تھے۔جواپنی زندگیاں ویران اوربرباد کربیٹھے اورمنزل پرکبھی نہ پہنچ سکے۔Left SecterianismاورPetty bouheoise Frustration کے الزامات لینے والے نکسلائیٹ درحقیقت دنیا میں کوئی پہلاایڈونچرز نہ تھے اورنہ ہی خوامخواہ Logicallyبات بنتی ہے کہ یہ عمل Premature(قبل از وقت)تھا ۔اصل میں بات چیزوں اورحالات کوصحیح اندازمیں سمجھنے ،Understandکرنے کی ہے۔جب آپ بورژوازی جمہوریت انقلاب کی طرف Smothlyجارہے ہوں تویہ بہتر ہے کہ Capitalsimکواس کے فطری دشمنFeudalismسے جان چھڑانے دیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ فیوڈل ازم کے منہدم ادارے کوCapitalismکے ابھرتے ہوئے ادارے کی مدد سے گرائیں۔مارکسی ،لیننی نقطہ نظر سے صحیح ہے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ فیوڈل ازم کا خاتمہ کرکے براہ راست سوشلزم بھی لاسکتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے لازمی بات یہ ہے کہ آپ کاعوامی طبقاتی بیداری کے ساتھ مضبوط ومنظم نیٹ ورک ہو۔ اپنی نظریاتی قوت،عوامی بیداری کی صورتحال اوردشمن کی طاقت کااندازہ اہم ہے ۔آپ جب فیوڈل ازم کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تواس وقت بورژوا اورسامراجی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ عمل کس طرف لے جائے گا۔اس لئے سامراج بورژوا طبقہ ،اس کی ریاستی مشینری ایک دم تحرک میں آجاتے ہیں۔تواس صورت میں دشمن ایک نہایت بلکہ دس گناہ بڑھ جاتے ہیں‘ نتیجتاً انقلابی Defensiveہوجاتے ہیں اورانقلاب دشمن Offensiveہوجاتے ہیں۔مارکس پیرس کمیون کے بعدیہ کہنے پرمجبور ہوئے تھے کہ یاتوآپ اتنی طاقت میں ہوں کہ پہلا حملہ ہی آپ کاہوورنہ ایسا انقلاب لانے کی ضروریات ہی نہیں جس میں آپ ایک دم دفاعی پوزیشن میں آجائیں اور دشمن اپنے ساتھی اورطاقت حاصل کرلے۔لینن نے انقلاب کے بعد کسانوں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات واضح کی تھی کہ کسان اس وقت تک آپ کے ساتھ نہیں ہوگا جب تک اُسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ بورژوافیوڈل کو کچلاجاسکتا ہے اوردوسری طرف کسانوں کو اپنے کام کے نعم البدل کے طورپر روزگار کے حصول کے مواقع میسر ہوں‘یعنی صنعتی نیٹ ورک موجود ہو۔