سنگت حیربیار کا محمود خان اچکزئی سے ملاقات کی حقیقت جاننے کی باوجود ڈاکٹر اللہ نظر اور اسکے گروہ کی جانب سے ایسے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جن کا مقصد محض شکوک و شبہات پیدا کرکے اس ملاقات کو مشکوک ظاہر کرنا ہے ، اگر انہیں حقائق کا اندازہ نہ بھی ہوتا تو انکے حالیہ طرز فکر سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ انہیں معلومات یا حقائق کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ موقع کی جستجو ہے تاکہ کوئی بھی ایسا موقع ملے جسے توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے بعد استعمال کرتے ہوئے اپنے گذشتہ بے بنیاد الزامات کو استحکام پہنچائیں یا ان الزمات کے بوجھ کو برداشت کرنے کیلئے کوئی جواز پیدا کریں ، اگر ڈاکٹر اللہ نظر صاحب اور اسکا گروہ اس ملاقات کو حکومت سے ڈیل قرار دیں یا کوئی بھی اور معنی دیں اس بابت زیادہ حیرانی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ وہی گروہ ہے جو بلا ثبوت و گواہ رسمی طور پر اپنے تنظیم کے پلیٹ فارم سے سنگت حیربیار پر یہ الزام لگاچکے ہیں کہ انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ڈیل کیا ہوا ہے اور انکے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ، یاد رہے سنگت حیربیار کو نقصان دہ قرار دینا ہو یا پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرنا یہ بی ایل ایف اور بی این ایم کے پلیٹ فارم سے رسمی طور پر الزامات لگائے گئے ہیں بلکہ الزامات نہیں پالیسی بیان جاری کی گئی اب ایک شخص انفرادی طور پر اگر ایک الزام لگاتا ہے تو وہ اس شخص کا اپنا ذاتی رائے ہوسکتا ہے لیکن جب تنظیمی سطح پرایسی بات ہو تو وہ الزامات محض ہوا میں تیر نہیں ہوتے بلکہ رسمی ہوتے ہیں اسلئے انہیں ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے ، جس میں ابتک بی این ایم اور بی ایل ایف مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں ، سنگت حیربیار پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں اگر یہ ثابت ہوتے ہیں تو پھر سنگت حیربیار کا بلوچ سیاست میں موجودگی بلاجواز ہے لیکن اگر بی ایل ایف اور بی این ایم اپنے ان الزامات کو ثابت نہیں کرپاتے پھر بطورِ تنظیم مذکورہ دونوں تنظیمیں نا صرف بلوچ قوم کی نمائندگی کا جواز کھودیتے ہیں بلکہ عوام کے کٹہرے میں انہیں جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔ ذرا سوچیں اگر ڈاکٹر اللہ نظر اور گروہ صرف اپنے قیاسات کو رسمی شکل دیکر سنگت حیربیار کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ قرار دے سکتے ہیں تو پھر دن کی روشنی میں محمود خان اچکزئی کے ساتھ ملاقات کو وہ کیا سے کیا سے کیا رنگ دے سکتے ہیں اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور خاص طور پر اسوقت جب بی ایل ایف اور بی این ایم پہلے سے اپنے گذشتہ لگائے گئے الزامات کا بوجھ برداشت نہیں کرپا رہے اور ان کے نیچے دب رہے ہیں جان خلاصی کیلئے اگر انہیں کوئی بھی موقع ملے وہ چوکیں گے نہیں۔ اسلئے یار لوگوں کے موقف کو حقائق کے ترازو میں تولنے کے بجائے پوائنٹ اسکورنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم حقائق سے زیادہ قریب تر تجزیہ کرنے میں کامیاب ہونگے۔ اس ملاقات کے دو پہلو نکلتے ہیں اور دونوں پر غور کرنا ضروری ہے پہلی یہ کہ اگر کوئی فاتحہ خوانی کیلئے آنا چاہے تو اسے مذاکرات کہنا چاہئے یا نہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی حکومتی شخص کا فاتحہ وصول کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس حوالے سے پہلے بھی مختلف سنگت دلائل دے چکے ہیں کہ پختون بحیثیتِ قوم ہمارا دشمن نہیں اگر کوئی شخص بحیثیتِ ایک پختون قوم پرست آپ کے گھر فاتحے کیلئے آنا چاہتا ہو تو پھر آپ کے پاس اسکے فاتحے کو مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں اور جہاں تک محمود خان کا پارلیمنٹ میں ہونے کی بات ہے تو پھر ڈاکٹر اللہ نظر صاحب کو اپنے کچھ وقت پہلے کے اس بیان کو بھی یاد رکھنا چاہئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں اختر مینگل سے ملوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں حالانکہ اختر مینگل بھی اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہے اگر اختر مینگل سے ممبر پارلیمنٹ ہونے کے باوجود ملنا قباحت نہیں پھر ڈاکٹر اللہ نظر کو ایک پختون ممبر پارلیمنٹ محمود خان اچکزئی سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے یقیناً یہاں پھر مسئلہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ممبر پارلیمنٹ ہونا نہیں پھر کیا ڈاکٹر اللہ نظر وضاحت کرسکتے ہیں کہ کیا وہ محمود خان اچکزئی یا پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو بلوچ دشمن قرار دیتے ہیں یا نہیں ؟ اگر دشمنی کا معیار یہ ہے کہ محمود خان اس پارلیمنٹ کے ممبر ہے جہاں سے بلوچ نسل کشی کی توثیق کی جاتی ہے ( پارلیمنٹ کا محض شو پیس ہونا زیر بحث نہیں ) پھر اسی دلیل پر اختر مینگل بھی آتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس پارلیمنٹ کا تادم تحریر حصہ ہیں جہاں سے بلوچ نسل کشی کی توثیق ہورہی ہے، اسکا مطلب یہ نکلتا ہے ڈاکٹر اللہ نظر ٹوئٹ کرتے ہوئے محمود خان کو دشمن قرار دیتے ہوئے اسے ایک پختون قوم پرست کے حوالے سے دشمن ڈکلیئر کررہے ہیں تو پھر یہاں بات سمجھ آتی ہے کیونکہ شاید ڈاکٹر اللہ نظر پختون قوم کو دشمن سمجھتے ہوں لیکن اس وقت سنگت حیربیار اور اسکے فکری رفقاء کا اس بابت پالیسی پختونوں کو دشمن سمجھنا ہرگز نہیں۔ اسی طرح فاتحے کے بابت اعتراض سے پہلے اس بات کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ یار لوگ بے نظیر بھٹو کا بابامری کے گھر بالاچ کے فاتحے پر جانے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ آیا وہ بھی ایک ڈیل تھا ؟ کیونکہ اگر اختیار و اثر کے تناظر میں دیکھا جائے تو ڈیل کرنے کیلئے بینظیر بھٹو محمود خان سے کئی گنا زیادہ اختیار و اثر رکھتے تھے اور بہتر پوزیشن میں تھے ، جس طرح بابا مری نے بینظیر بھٹو سے ملاقات ایک سندھ کی بیٹی کی حیثیت سے کی اسی طرح محمود خان سے فاتحے پر ملاقات ایک پختون قوم پرست کے حوالے سے ہوئی اس طرز کی ملاقاتیں نہ کل مسئلہ تھے نہ آج مسئلے ہیں اور نا ہی مستقبل میں انہیں مسئلہ سمجھنا چاہئے۔ اسی طرح اگر ہم ملاقات کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالیں کہ آیا یہ پاکستان کے ساتھ رسمی مذاکرات یا ڈیل تھا ؟ اس بابت سنگت حیربیار کے موقف کو شروع دن سے دیکھیں تو وہ بالکل لگی لپٹی کے بغیر واضح ہے کہ سنگت حیربیار پاکستان سے مذاکرات کو رد نہیں کرتا اور مذاکرات پر راضی بھی ہے لیکن ایسے مذاکرات کیلئے ان کے دو شرط ہیں پہلی یہ کہ پاکستان سے مذاکرات صرف ایک انٹرنیشنل ضامن کے موجودگی میں ہونگے اور مذاکرات کا ایجنڈا بلوچستان سے پاکستانی فوج کا انخلاء اور آزادی ہوگا ، اگر محمود خان پاکستان کا نمائندہ بن کر مذاکرات کرنے آتے تو یقیناً ان بنیادی شرائط کے تحت ہی اس سے ملاقات ہوتی اور ایسے کسی بھی مذاکرات سے پہلے قوم کو اعتماد میں لیا جاتا صلح و مشورے ہوتے ، رسمی طور پر وفود کا اعلان ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن اگر پھر بھی کوئی شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتا ہے یا کسی کو لگتا ہے کہ محمود خان کا ملنا رسمی طور پر پاکستان سے مذاکرات یا ڈیل تھی تو پھر ایسے کسی بھی شخص کو اس بابت یہ ثابت کرنا بھی ہوگا کہ ان مذاکراتوں میں کیا ڈیل ہوئی ہے ، ایجنڈا کیا تھا ،سنگت حیربیار کو بدلے میں کیا ملا اور سب سے بڑھ کر یہ ثابت کرنا کہ کیا سنگت حیربیار یا کوئی بھی اور گروہ یا لیڈر اس پوزیشن میں ہے کہ وہ تن تنہا پاکستان سے مذاکرات کرسکے اور اس جنگ کو روک سکے ؟ زمینی حقائق کو دیکھیں تو یہ مذاکرات کے دعوے اور ڈیل کی باتیں احمقانہ ہی لگیں گے کیونکہ اس وقت تحریک میں اثر انگیزی کے مطابق دیکھا جائے تو بی ایل اے ، بی ایل ایف اور بی آر اے تقریباً برابر حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اگر اکیلے چھپ کر خدانخواستہ ڈیل کر بھی لیتا ہے تو اس سے نا تحریک رکے گی اور نا ہی ختم ہوگی الٹا ڈیل کرنے والی کی حیثیت تاریخ میں محض ایک غدار سے زیادہ نہیں رہے گی۔ اب ڈاکٹر اللہ نظر یا گروہ ایسے بے بنیاد شبہات کا اظہار کررہے ہیں یا انکا گروہ مختلف ناموں سے ڈیل کے الزامات لگارہے ہیں تو پھر انہیں ثابت بھی کرنا ہوگا کیونکہ جب ہم زمین پر دیکھتے ہیں تو ابھی تک مورچوں کو خالی نہیں پاتے۔ ویسے میرا ڈاکٹر اللہ نظر اور خلیل بلوچ کو ایک برادرانہ مشورہ ہے کہ وہ مزید اپنی جگ ہنسائی نہیں کرائیں اور ایک بار ٹھنڈے دماغ سے بیٹھ کر اچھی سی سیر حاصل بحث کرکے یہ فیصلہ کریں کے سنگت حیربیار ڈیل کرکے پاکستان کا ایجنٹ ہے یا پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کیونکہ اگر ملٹی نیشنل کمپنیاں بلوچستان میں کوئی پراکسی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اسکا مطلب واضح طور پر یہ ہوگا کہ انکے مفادات اور پاکستانی مفادات میں تضاد اور ٹکراو ہے اسلئے وہ پاکستان کے خلاف کسی بلوچ قوم پرست کو پراکسی کے حیثیت سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اب بھلا ملٹی نیشنل کمپنیاں کیا اتنے عقل سے عاری ہیں کہ وہ ایک پاکستانی ایجنٹ کو اپنا پراکسی بنائیں ؟ اسی طرح بات کو گھما کر دیکھیں اگر کوئی پاکستان کا ایجنٹ ہے تو پھر وہ کیوں پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی ملٹی نیشنل کمپنی سے معاہدہ کرکے پاکستانی مفادات کے خلاف جائے گا یعنی آپ ایک وقت میں ایک کا ہی ایجنٹ ہوسکتے ہیں تو براہ مہربانی بی ایل ایف اور بی این ایم اپنے اس بچگانہ پالیسی پر غور کریں اگر ہوسکے بی این ایم اور بی ایل ایف کے دانشوروں اور عالمی تجزیہ نگاروں کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ سنگت حیربیار در حقیقت کس کے ایجنٹ ہیں تاکہ اگر سنگت حیربیار کو وضاحت کرنی ہو تو اسے کم از کم یہ لگے کہ الزامات سنجیدہ ہیں محض ڈاکٹر اللہ نظر صاحب و چیئرمین خلیل صاحب کی ذہنی اختراع نہیں۔ جہاں تک بات ہے محمود خان سے ڈیل کرنے یا مذاکرات کرنے کی پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا محمود خان کے پاس اتنا اختیار ہے ؟ یا پاکستانی فوج ایک پختون قوم پرست کو اتنا قابلِ بھروسہ سمجھتے ہیں کہ اسکے ذریعے مذاکرات کریں ، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر محمود خان مذاکرات کرنے آتے ہیں تو پھر دوسری طرف پاکستانی جنرل راحیل شریف برطانیہ سے حیربیار مری کے حوالگی یا اسکے خلاف کاروائی کی کیوں استدعا کرتے ہیں ؟ اس ملاقات پر جس بھی پہلو سے غور کریں ڈیل کے الزامات احمقانہ ہی لگیں گے۔یہاں ایک سوال ابھر سکتا ہے کہ کیا محمود خان کے فاتحے کے درخواست کو مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ یا ایک پختون قوم پرست کی حیثیت سے بھی اس سے ملا کیوں گیا ؟ محمود خان اچکزئی ان پختون قوم پرستوں میں سے ہیں یا پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے صدر کی حیثیت سے ان پختونوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو انگریزوں کے گنڈ مک معاہدے کے تحت موجودہ بلوچستان میں موجود ہیں اور بلوچوں کے تاریخی سرحدوں سے متصل ہیں ، اسی لئے وہ ماضی میں حریف و حلیف دونوں شکلوں میں بلوچوں کے ساتھ جڑے رہے ہیں ، کوئٹہ سمیت باقی کئی بلوچ علاقوں میں پختون اور بلوچوں کے بیچ تنازعات موجود ہیں یا پیدا کیئے گئے ہیں ، ان تعلقات اور مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان سے ہٹ کر بھی ایک بلوچ لیڈر کے پاس کسی پختون لیڈر کے ساتھ بات کرنے کیلئے اور بہت سے مسائل ہیں ، اگر محمود خان اچکزئی سے مل کر پختونوں کو یہ باور کرایا جائے کہ موجودہ مشرقی بلوچستان میں موجود پختون علاقوں پر بلوچوں کا کوئی دعویٰ نہیں اگر وہ علیحدہ صوبہ بنائیں یا علیحدہ ملک بلوچوں کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تو پھر ان سے بات کرنے میں کیسی ممانعت یا قباحت ؟ میں سمجھتا ہوں کہ سنگت حیربیار مری کو پختون خواہ ملی عوامی پارٹی سے باقاعدہ رابطوں کا آغاز کرنا چاہئے اور مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہئے جس میں انہیں باور کرانا چاہئے کہ ہمارا موقف وہ نہیں جو اختر مینگل کا پختونوں کے حوالے سے ہے اور نہ ہی ہم پختونوں کو ڈاکٹر اللہ نظر کی طرح دشمن سمجھتے ہیں ، اختر مینگل نے اپنے پارلیمانی سیٹوں کیلئے پختونوں کے خلاف جو محاذ کھولا ہوا ہے اس سے آزادی پسندوں کا کوئی تعلق نہیں اور آزاد بلوچستان کے سیم و سر کے بارے میں ان سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے تاکہ پختون بحیثیت قوم کبھی ہمارے آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں ، ایک گولی سے پچیس فوجی مارنے کے دعویدار ڈاکٹر اللہ نظر کے باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جائے تو بہتر ہے کیونکہ وہ پہلے سے ہی اپنے سیاسی نا بالغی کی وجہ سے بلوچوں کیلئے ملا اور منشیات فروشوں سمیت سماجی اصلاح کے نام پر کئی اور غیر ضروری محاذ کھول چکا ہے اب وہ پختونوں کے خلاف بھی شاید محاذ کھولنا چاہتے ہیں لیکن اگر بلوچ و پختون تنازعات ایک یقین دہانی سے حل ہوسکتے ہیں اور ایک دشمن کم کیا جاسکتا ہے ، بغیر لڑے بلوچ کے سامنے سے ایک رکاوٹ ہٹایا جاسکتا ہے تو پھر میرے خیال میں یہ تدبر ہوگا ڈیل نہیں۔ (مکران میں بی ایل ایف کا پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک کارکن کا قتل اور پی ایس او کا اس قتل کی مذمت زیر بحث نہیں )۔ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان تعلقات اور مسائل کے موجودگی میں کسی پختون قوم پرست کے فاتحے کے درخواست کو مسترد کرنا دانشمندی ہوتی یا پھر انہیں دشمن کے کھاتے میں ڈال کر غیر ضروری طور پر ایک اور دشمن پیدا کرنا ہوتا ؟ یہاں ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ محمود خان کا یہ پہلا دورہ لندن نہیں تھا بلکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ لندن آچکے ہیں لیکن اس سے پہلے انہوں نے کیوں ملنے کی درخواست نہیں کی تھی ؟ درحقیقت وہ بھی ان تاریخی تعلقات اور بلوچ و پختون روایات سے مجبور ہوکر فاتحے کیلئے آئے تھے ، کیونکہ لندن آنے کے باوجود ایک بلوچ قوم پرست لیڈر کے گھر اسکے والد کے فاتحے پر نہ جانے کو وہ شاید اپنے لیئے نیک شگون خیال نہیں کرتے تھے ، وہ ملاقات بھی ایک خانہ پری سے زیادہ نہیں تھی جہاں وہ دن کی روشنی میں کئی لوگوں کے بیچ میں 15 ، 20 منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھتے اور کھانا تک کھائے بغیر چلے جاتے ہیں شاید ان کو ڈر تھا کہ کہیں اس ملاقات کو لیکر پاکستانی فوج انکی کھنچائی نا کردے ، جہاں تک انکے بیان کا تعلق ہے تو میں اسے اپنی صفائی دینے سے زیادہ نہیں سمجھتا شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ملاقات پر انکی کھنچائی ہوگئی ہو اور انہیں یہ بیان دلوایا گیا ہو اگر بیان پر غور کیا جائے تا وہ بھی گول مول ہی تھا جس میں صرف حیربیار سے ملاقات کا ذکر ہے باقی پارلیمنٹ کے بارے میں اپنے خیالات ایسے بیان کررہے ہیں کہ بادی النظر میں وہ سنگت حیربیار کی باتیں لگے اور اگر وضاحت طلب ہو یا باتوں کی تردید ہو تو یہ کہا جائے کہ یہ محمود خان کی اپنی رائے ہے۔ بہر حال یہاں بحیثیتِ بلوچ میں ایک بات واضح کرنا چاہوں گا کہ محمود خان سے ملاقات پختون و بلوچ تاریخی تعلقات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا اور ان سے بحیثیت ایک پختون ملا گیا تاکہ بلوچوں اور پختونوں کے تاریخی تعلقات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے لیکن اگر محمود خان یہاں پختون بن کر آتے ہیں اور اسلام آباد جاکر ایک پاکستانی بنتے ہیں تو پھر اس بات کا نوٹس پختون عوام لیکر محمود خان سے جواب طلبی کریں کہ وہ بلوچوں کے ساتھ پختونوں کے تعلقات خراب کررہا ہے بلوچ نہیں۔ قطع نظر ان باتوں کہ ویسے اتنا سوچا جائے کہ اگر یہ کوئی خفیہ ملاقات ہوتی یا کوئی ڈیل ہوتا تو پھر انہیں میڈیا میں ظاہر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ خود چاہتے کہ یہ بات چھپی رہے اور اگر حیربیار کو کوئی ڈیل کرنا ہوتا تو پھر وہ بھی کھلے عام سب لوگوں کے سامنے فاتحے پر ملاقاتیں نہیں کرتے۔ جہاں تک بات ہے کہ اس ملاقات کے بارے میں میڈیا کو کیوں آگاہ نہیں کیا گیا تو میرے خیال میں یہ ایک بچگانہ خیال ہے جیسے کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ محض فاتحہ تھا کوئی باقاعدہ مذاکرات نہیں کہ اسکے بارے میں میڈیا کو بریف کیا جاتا ، اسی طرح محمود خان کے علاوہ بہت سے اور پختون ، سندھی اور کشمیری قوم پرست بھی فاتحے کیلئے آتے رہے کیا ان سب کے بابت الگ الگ بیان جاری کیئے جاتے ؟ میرے خیال میں اگر محمود خان کے حوالے سے بالخصوص کوئی بیان جاری کیا جاتا تو یہ بلاوجہ اس ملاقات کو اہمیت دینا اور معنی خیز قرار دینا ہوتا جو کہ ایسا نہیں تھا۔جب تک سنگت حیربیار اور اسکے ہم فکر ڈاکٹر اللہ نظر اور اسکے گروہ کے سیاہ کارناموں کے بابت خاموش تھے تو حیربیار بھی قابلِ قبول تھا اور اسکے طرف سی ملنے والی کمک بھی۔ 2014 تک نہ اللہ نظر کو یاد آیا کہ حیربیار نقصان دہ ہے اور نا ہی خلیل کو پتہ چلا کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ ہے ( خلیل بلوچ کا یہ کہنا کہ انہیں 2009 میں ہی پتہ تھا کہ سنگت حیربیار ملٹی نیشنل ایجنٹ ہے لیکن پھر بھی 5 سال اسکا اظہار نا کرنا زیر بحث نہیں ) اور نا ہی کبھی کسی کو شک ہوا کہ سنگت حیربیار کس سے مل رہے ہیں اور نہ کبھی سنگت کے نیت اور کردار پر شبہات کا اظہار ہوا۔ یہ تبدیلی ، یہ الزامات اور یہ ہزرہ سرائیاں آخر تب کیوں سامنے آنے لگیں جب یار لوگوں کی حقیقت سوشل و پرنٹ میڈیا میں تحریروں کے شکل میں آشکار ہونا شروع ہوا ؟ میرے خیال میں یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ ان بے بنیاد الزامات کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں بلکہ لوگوں کی توجہ ان باتوں سے ہٹانا اور باتیں کرنے والوں کو متنازعہ بنانا ہے جو انکی حقیقت اور سیاہ کارنامے بلوچ عوام کے سامنے فاش کررہے ہیں ، ڈاکٹر اللہ نظر اور گروہ کے ان الزامات اور بے بنیاد باتوں کا سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا بلکہ تب تک روز نت نئے سازشی تھیوریاں گھڑی جائیں گی جب تک اس تنقیدی تحریر و تقریر کا سلسلہ جاری رہے گا اور میرا یقین کریں جس دن یہاں قلم رک گئے اس دن سنگت حیربیار یار لوگوں کی نظر میں سب سے بہترین انسان و لیڈر بن جائیں گے اور انکے ہم فکروں کو ایک بار پھر سے آزادی پسند اور انقلابی کے نام سے پکارا جائے گا۔ اب یہ دوستوں کے اوپر ہے کہ وہ اپنے روایتی احترام کا خیال رکھتے ہوئے ان الزامات سے بچنے کیلئے قلم پھینک کر زبانوں پر قفل لگا کر سچ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یا پرواہ کیئے بغیر موقع پرستی کے بیخ کنی کیلئے قرطاس پر سیاہی بکھیرتے رہتے ہیں۔