ہمگام کالم : اس وقت بلوچ قوم کی موجودہ تحریک آزادی کے اُبھار کو کوئی بیس سال کے لگ بھگ ہوگئے ہیں جس کی شروعات بہت ہی کم وسائل اور معدود افرادی قوت کے ساتھ ہوئی ، مگر رفتہ رفتہ اس میں بلوچ نوجوانوں کی قربانی دینے کے جذبے سے لیس ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے اس تحریک کو مزید توانا کردیا، نا مسائد حالات کے باوجود اس کو اب تک روانی کے ساتھ جاری ہے۔ اس بیس سالہ سفر میں ہم نے کئی مدوجزر دیکھے مگر جس جگہ آج ہم کھڑے ہیں شاید اس سے پہلے نہیں تھے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ کیا جہاں ہم اس وقت ہیں وہ مقام ہمارے ماضی کی کارکردگی کو دیکھ کر تسلی بخش ہے؟ اگر نہیں تو کون سے ایسے حالات و واقعات ہیں جن کو لیکر ہم ترقی کی سیڑھیاں اوپر سے نیچے کی طرف چڑھ رہے ہیں؟ بعض لوگ اس انتشار کوایک تھکاوٹ اور خاموش دستبرداری گردانتے ہیں مگر میری رائے میں یہ ہمارے رویے ہی ہیں جن کی ہمیں کافی حد تک ہماری گنجائش سے زیادہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ اگر ہم بلوچ قومی تحریک کے حالیہ تضادات و انتشار کی طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ایک حد تک کچھ چیزیں کھل کر ہمارے سامنے آتی ہیں اور اگر انہی کو ہم اپنے درپیش مسائل کی وجہ جانیں تو شاید ہمیں مستقبل قریب میں جھوٹا اور منافق جیسے خطابات نہ عطا ہوں مگر شاید یہ ہماری فطرت میں رچ بس گیا ہو جس کی وجہ سے ہم منافقت کرنےاور جھوٹ بولنے سے باز نہیں آ سکتے۔ چلیں اب خاص کچھ چیزوں کو کریدنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ چیزیں ہیں تو اتنی نازک کہ ان کو کریدنے سے کافی شفاف کرداروں کا ڈھونگ رچانے والوں کے زخم ہرے ہوں مگر ان پر صرف خاموشی اختیار کرنا بھی ایک منافقانہ عمل سے کم نہ ہوگا لہٰذا میری دانست میں جب تک ہم ماضی کو دیکھ کر اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور اچھے اعمال کو نکھارنے کی کوشش نہیں کرتے تب تک آگے بڑھنا تو دور اسی مقام پر ہی زیادہ دیر تک رکے رہنا ہی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔چونکہ ماضی اور اب تک کے رویے صرف منفی رجحانات کو بڑھاوا دینے کے سبب بنے ہیں اس لیئے ان رویوں کو تبدیل کیئے بنا ہماری کامیابیاں اور فائدے کم جبکہ ناکامیاں اور نقصانات زیادہ ہی رہیں گے۔ اس وقت جو نقصانات اب تک ہم نے بلوچ قومی تحریک میں دیکھے ہیں ان سب کے پیچھے اگر چند ایک واضح وجوہات پر ہی بات کی جائے تو شاید وہ چند مسائل کی نشاندہی کرنے کے قابل ہو، جو اب تک اسی رفتار سے محو سفر ہیں جسے ہمیں ان رویوں کو وجہ سے کوئی نقصان ہی نہ ہوا ہو۔ وہی رفتار بے ڈھنگی جو کل بھی تھی سو اب بھی ہے۔ سب سے پہلی وجہ قوم کی دی ہوئی طاقت کو قوم کے ہی خلاف استعمال کرنا ہے جس نے ہماری عوام کا تحریک کی حمایت کی شیرازہ بکھیر دی۔ اور اس امر سے کوئی ذی الشعور انکار نہیں کرسکتا کہ کسی بھی عوامی و قومی تحریک کا دارومدار آپکے عوامی حمایت میں ہی مضمر ہوتا ہے مگر جس نادانی سے اس کو ایک حد تک ختم کیا گیا وہ سب قوم کے سامنے عیاں ہے اور اس پر شاید ہی مزید کچھ کہنے یا لکھنے کی ضرورت ہو مگر رویے وہی جو کل تھے۔ ان میں اب تک بہتری کی طرف جانے یا لیجانے کی کوئی واضح کوشش یا خواہش دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اسی نقطے میں ریاستی مظالم، جبر اور ننگی جارحیت بھی سما جاتے ہیں کہ عوام کو جبراً آپ سے دور رکھا گیا اور جس میں ریاست نے ہمارے بیش بہا نگینے ہم سے چھین لئے، وہ مسلح جدوجہد ہو یا سیاسی مگر ہم نے ہمیشہ ہی دشمن کو ہمیں مارنے، دبانے اور کرش کرنے کی دعوت دی جس کی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جہاں ہم میڈیا میں آکر ذاتی طور پر حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے لگے حالانکہ اگر زرا سا بھی گوریلا جنگ اور گوریلا حکمت عملی کا مطالعہ کرتے، تو گوریلا کی سب سے بڑی طاقت اس کی پوشیدگی ہی ہے۔ مگر ہم ہیرو ازم میں اتنے فلمی ہوگئے کہ گوریلا اصول ہی بھلا بیٹھے اور ذاتی نمود و نمائش میں اس قدر آگے بڑھے کہ دشمن کیلئے آسان سی شکار بن گئے ۔ اب ایک کردار کے بعد اپنی غلطی کا احساس کرکے اس کے تدارک کے بجائے اپنی ایک اور کردار میدان میں اتار دیا وہ اس لئے کہ میری ذات کا نام ہی اونچا رہے اور اسی سے ہی کچھ مکروہ عزائم کی تکمیل کی جاسکے۔ اور ایک شخص کو جذباتیت کی حد تک دیوار سے لگانے میں کامیابی میسر ہو۔ ایک شخص اپنے بیس سال قومی تحریک کے حوالے کرتا ہے، کام کرتا ہے، نتائج بھی سمیٹتا ہے، عزت بھی پاتا ہے مگر پوشیدہ رہتا ہے جس سے دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی اس تک پہنچنے میں ناکام رہتا ہے مگر جوں ہی وہی شخص اپنی ذاتی نمودونمائش پر اتر آتا ہے تو دشمن کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ یہ یقیناً سوچھنے کا مقام ہے اور اس سے سبق حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہوگی نہ کہ کردار کی بے جا نمودونمائش کے ذریعے ایک جذباتی ماحول پیدا کرکے گمراہ کن عوامل کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوششیں جس کے آخر و اختتام اجتماعی نقصان کا باعث بنیں۔ دوسری جو سب سے بڑی وجہ ہماری موٹی کھوپڑی میں اترتی ہے وہ تنظیموں کو توڑنا ہے اور اس قسم کے بد اعمالیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ بی ایل ایف سے اختلافات کی بنیاد پر بی ایل این ایف کا وجود میں آنا نظریاتی تضادات تھے کہ کچھ اور اس پر بحث کئے بغیر اگر ہم اس وقت بی ایل اے کی دور اندیشی اور اصولوں پر قیام کو دیکھیں تو ایک چیز کم از کم واضح ہوجاتی ہے کہ جگو بشمول دیگر رفقاء نے کافی رابطے کرکے یہ کوشش کی کہ ان کو بی ایل اے کا پلیٹ فارم میسر ہو مگر بی ایل ایف سے اختلافات کے باوجود بھی بی ایل اے نے اس کو ایک غلط روش اور طریقہ کار مان کر اپنے آپ کو اس الزام سے دور رکھا تاکہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ جبکہ دوسری طرف ہم نے ایسا بھی دیکھا کہ تنظیمیں توڑنا نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی اس سے آپ کا وجود اچھوت پن سمجھا گیا، بلکہ ایک اور پلیٹ فارم آپ کی جائے پناہ بننے کیلئے منتظرگاہ بنایا گیا۔ جس سے آپ مجرم ہیں یا نہیں کے قطع نظر آپ کو احتساب اور جواب دہ بنائے جانے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تنظیمیں توڑنے والوں کو نہ صرف گلے لگایا گیا بلکہ منافقت اور موقع پرستی میں ان کو اتحادی بھی بنایا گیا نتیجہ کیا نکلا، یہ واقعہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہوتا گیا جس سے جرائم پیشہ افراد بھی بے اصول و بے لگام ہوئے،جن کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حوصلہ افزائی کی گئی۔ جو اب منشیات کی لوٹ مار کے علاوہ دیگر سیاسی ،سماجی جرائم بھی تنظیم کے نام پر کرنے لگے اور جن کے ہر روز کے بڑھتے قومی نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔ بلوچی میں کہاوت ہے “ گار کُتگ ھاکاں نوں پراں دست موش کنءِ” اور آج ہماری ویسی ہی حالت ہو چلی ہے کہ کھویا ہم نے کہیں تھا اور ڈھونڈ کہیں اور رہے ہیں۔ بے اصولی کا وہ عالم ہے کہ ٹینکر و ڈیزل کے لاروبار کرنے والے غریبوں سے بھتہ لینا بھی میڈیا کی زینت بن گئے۔ مگر اس سب کی ذمہ دار کون ہے اس پر دلیل سے کوئی بھی بات نہیں کرسکتا ، بلکہ ساری توپوں کا رخ ایک شخص کی جانب موڈ دیا گیا ہے اور اپنی پوری توانائیاں صرف اس امر پر صرف کی جارہی ہیں کہ کس طرح سے اس شخص کو مائنس کردیا جائے۔ ہم نے ماضی قریب میں بہت سے اعلیٰ صفت شخصیات کو دیکھا جنھوں نے اپنے شب و روز ایک مخصوص گروہ کو یہ ثابت کرنے کے لئے تگ و دو کرتے دیکھا کہ وہ قومی قوت کی منتشری کے ذمہ داروں میں سے ایک ہے مگر پھر اسی کی بعیت کی جو کل تک مسائل کے ذمہ دار اور ان کے حل میں رکاوٹ ہوا کرتے تھے۔ اب اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو کافی حد تک نقصانات اور ان کی وجوہات ہمارے سامنے بلکل عیاں ہوگئے ہیں تو کیا ہم ذہنی طور پر تیار ہیں کہ ان کا تدارک کرکے نئی راہیں کھولنے کی کوشش کریں اگر ہاں تو کس حد تک، کب اور کیسے اگر نہیں تو کیا ان وجوہات کی بنیاد پر منفی اعمال کرنے، ان کو بڑھاوا دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے کردار ہی اس تمام انتشار اور تضادات کے ذمہ دار نہیں ہیں؟