یکشنبه, جنوري 12, 2025
Homeخبریںملا عمر کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں...

ملا عمر کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جایا کرتے تھے،ڈچ صحافی کےانکشافات

ایمسٹرڈیم (ہمگام نیوزڈیسک) ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم نے اپنی نئی کتاب ‘دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ میں انھوں نے افغان طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

صحافی بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔

بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی۔ انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی جنھوں نے سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمات سر انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔کتاب کے مطابق، امریکہ میں 9/11 کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی۔ ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔

صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔

اس کے بعد انھیں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف 3 میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔

صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔

اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے۔ البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔نومبر 2001 میں امریکی افواج کے حملوں کے بعد دسمبر 2001 میں ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے وزیر دفاع ملا عبید اللہ کو سونپ دی تھی ۔تلاشی سے بچنے کے لیے ملا عمر کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جایا کرتے تھے۔

ملا عمر کی موت اپریل 2013 میں ہوئی اور انھیں بغیر نشان والی ایک قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔افغانستان میں سویت جارحیت کے دور میں ملا عمر مزاحمت کرنے والوں میں نچلے درجے کے کمانڈر تھے۔

اس کے بعد 1994 میں سابق مجاہدین کے سرداروں کے خلاف قندھار سے اٹھنے والی تحریک کی انھوں نے سربراہی کی اور اسی تحریک نے آگے چل کر طالبان کی شکل اختیار کر لی جس نے دو سال بعد 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا۔

ملا عمر اور اسامہ بن لادن نے طالبان کا نظام سنبھالا ہوا تھا لیکن 9/11 کے بعد وہ تتر بتر ہو گئے اور امریکی افواج سے بچنے کے لیے مختلف مقامت پر چھپ گئے۔

مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد بھی ملا عمر امریکی افواج کے ہاتھ نہ آئے۔

کئی سینئر امریکی رہنماؤں نے شک کا اظہار کیا کہ انھوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی تھی۔صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں ان کی رہائش جبار عمری کے سابق ڈرائیور عبدالصمد استاذ کے گھر میں تھی جو ایک چھوٹا سا کمپاؤنڈ تھا تاہم افغستان کی روایت کے مطابق اونچی دیواریں تھیں جس کے کونے پر ایک خفیہ کمرہ بنایا گیا تھا اور اس کے دروازے کو چھپانے کے لیے دیوار میں ایک بڑی الماری کی شکل دی گئی تھی۔

ڈچ صحافی نے لکھا ہے کہ گھر کے مکینوں کو بھی مہمان کی شناخت کے حوالےسے کچھ نہیں بتایا گیا تھا تاہم اتنا معلوم تھا کہ طالبان کے اعلیٰ سطح کے رہنما ہیں جبکہ معلومات کو ظاہر کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔امریکی فوجیوں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز دو مرتبہ ملاعمر کے اتنے قریب آگئے تھے کہ وہ ٹھوکر بھی مارسکتے تھے جن میں سے پہلی دفعہ ملاعمر اور جبار عمری برآمدے میں تھے لیکن فوجی اندر داخل ہوئے بغیر چلے گئے۔

ڈچ صحافی کے مطابق امریکی فورسز نے دوسری مرتبہ ان کے گھر کی تلاشی لی لیکن وہ خفیہ کمرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد انہوں نے اپنا ٹھکانا بدل لیا اور قالات کے قریبی ضلع شینکہ منتقل ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز