ہمگام کالم : سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلوچ ، پاکستان سے ،تامل سری لنکا،چیچن روس،کیوبک کینیڈا ،آئرش برطانیہ سے کیونکر آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں ؟ بلوچ ،تامل چیچن،آئرش،اورکیوبک اس لیے آزادی کے لیے سیاسی یا کہ مسلح جدوجہد کررہے ہیں کہ وہ معاشی، سے خوشحال ہو۔ اگر صرف معاشی حوالے سے خوشحالی کی ان کا مطالبہ ہوتا تو افریقہ کے غریب اور غربت میں زندگی بسر کرنے والے چاڈ ،انگولا ،سوڈان نے کیونکر یورپی مالدار اور دولت سے مالا مال ممالک کی قبضہ سے خود کو آزاد کروانے کے لیے سروں کی قربانیاں دی ؟ مسئلہ معاشی برابری کا نہیں بلکہ قومی وقار اور الگ شناخت کا ہوتا ہے ۔ دنیا میں ہر قوم اپنی الگ شناخت اور وقار کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں تاک دنیا کے نقشے میں انکی قوم کا بھی نام ہو۔ انکی بھی سرزمین اور ملک کا نام ہو ۔ سوال پیدا ہوتا ہے قوم کیا ہے؟ تو قوم کی تعریف اس طرح سے کیا گیا ہے کہ مشترکہ نسبِ وراثت ،جغرافیہ ،تاریخ،ثقافت ،رسم ورواج،زبان سے متحدہ لوگ جو کسی خاص علاقے یا ملک میں رہنے والے ہو اس کو قوم کہا جاتا ہے ۔قوم کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ ایک قوم کو دوسرے قوم سے اسکی رسم ورواج،ثقافت،تاریخ الگ کرتا ہے پنجابی اور بلوچ کو کیا چیز الگ کرتا ہے ؟ بلوچ قوم کو اسکی کلچر ،رسم رواج اور اسکی تاریخ اور جدا قومی خصوصیات الگ کرتے ہے ،جغرافیہ کو قابض نے اپنے طاقت قوت اور چالاکی سے قبضہ کیاہوا ہے اور جغرافیہ کے قبضہ کے ساتھ قابض نے بلوچ تاریخ کو ملیا میٹ اور تبدیل کرنے کی خاطر بلوچ قوم کو حقیقی بلوچیت کے دائرے سے نکال کر غیر فطری پاکستانی قوم بنانے کے لیے اپنے مقرر کردہ درسیات اور نصابی کتابوں میں بلوچ قومی ہیروز چاکرخان ،گہرام ،حمل جیند،دادشاہ ،مہراب خان ،بہرام خان ،بیورغ اور بالاچ کی جگہ سنٹرل ایشاء کے قزاقوں ،چوروں اور لوٹ مار کی غرض سے ہندوستان جانے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے ،نئی بلوچ نسل کے سوچ دماغ سے بلوچیت کوصاف کرکے اس میں پاکستانیت کا زہر ڈال رہا ہے انکو بلوچیت کے بجائے نامنہاد پاکستانی بنانے کی کوشش کررہا ہے اور اس میں قابض کی نصابی کتابیں اور مقررہ درسیات دماغ تبدیل کرنے والا اور بدل گیر کا کردار ادا کررہے ہیں ۔قابض کے نصابی کتابیں اور مقررہ درسیات بلوچ ،سندھی اور پشتون کی الگ قوم کی تردید ،نفی اور انکار کا کام کررہا ہے حالانکہ پاکستانیت کوئی قوم نہیں ہے بلکہ وہ زور ،طاقت و قوت کے بل پر بلوچ ،سندھی پشتون سرزمین کو قبضہ کرنے کے بل بوتے اور سنٹرل ایشیا کے چور اور قزاقوں کو پاکستانی ہیرو بناکر ایک مصنوعی قوم بنانے کے لیے بلوچ شناخت کلچر،رسم ورواج کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے ،کیونکہ جب تک بلوچ اپنے تاریخ ،رسم ورواج اور الگ شناخت کے ساتھ اپنے سرزمین پر رہینگے تو وہ خود پاکستان کی نفی سمجھا جائے گا پاکستان کسی طرح سے چاہے گا کہ اسکی نفی ہو اس لیے بلوچ کے لیے بلوچ یا پاکستانی دونوں ایک ہی وقت میں ہونا ممکن نہیں ہے بقول نواب خیر بخش مری کے بلوچ جسکا باپ دادا بلوچ رہے ہیں اور وہ خود کو پاکستانی کہے یہ ایک گالی ہے ،حقیقت میں قوموں کی جس طرح سے الگ پہچان بنایا گیاہے اسی کے روشنی میں ایک بلوچ خود کو پنجابی یا پاکستانی قرار دے سمجھو اس نے خود کو گالی دی ۔بلوچ کی سرزمین قابض کے تسلط میں جبکہ بلوچ قومی تاریخ پاکستانی نصابی کتابوں اور مقررہ درسی نصاب کے نشانے پر ہے ، متبادل بلوچ تعلیمی ادارے اور نصاب پاکستانی جھوٹ اور فریب بے بنیاد وبےتکی تعلیمی نصاب اور مقررہ درسیات کی حقیقت واضع کرسکتا ہے ۔دوسرا بلوچ قومی ثقافت رسم رواج اور الگ قومی پہچان و خصوصیات ہے جس نے ہزاروں سال سے بلوچ قوم اور سرزمین کے حفاظت ،بچاوُ اور تحفظ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ، سکندر اعظم ، پرتگالی ،ہلاکوخان ،چنگیز خان ،غوری ،غزنوی ،مغل ،موریہ ،انگریز سمیت سب نے بلوچ سرزمین پر قبضہ جمایا بلوچ سرزمین کو اپنے تسلط اور ضبط میں لینے میں کامیاب ہوئے لیکن بلوچ غیرت مند قوم نے اپنی الگ پہچان ،شناخت ،رسم ورواج اور قومی خصوصیات پر سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ غیروں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے آزادی کی خاطر قربانیاں دیکر اپنے وطن کو طاقتور دُشمنوں سے بھی محفوظ کیا ۔آج بھی بلوچ سرزمین پنجابی ،و ایرانی گجر کے قبضہ اور تسلط میں ہے لیکن بلوچ چاہئے پولیس ، پارلیمنٹ میں ہو یا کسی اور جگہ ہو اپنے الگ ثقافت ،رسم ورواج کو مناتے دیکھ کر فخر وخوشی محسوس کرتا ہے اور دُشمن پر یہ بات بھی واضع ہوا ہے کہ پاکستانی مصنوعی اور بناوٹی ریاست کے لیے بلوچ اپنے رسم ورواج اور کلچر کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بلوچ قوم کے لیے بھی یہ ایک مثبت چیز ہے کہ بلوچ اپنے سرزمین کے دفاع کرنے والی سب سے مضبوط آلہ حرب ،ہتھیار اور قابض کے خلاف محفوظ بنانے کا آلہ اپنے قومی کلچر رسم و رواج اور قومی خصوصیات کے ساتھ سختی کے ساتھ وابستہ ہے ،حالانکہ پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ بلوچ کلچر،رسم ورواج اور الگ قومی شناخت کا خاتمہ کریں اور بلوچ قوم کو پاکستانی مصنوعی ریاست کا حصہ بنائیں اس نے بی ایس او کے کلچرل پروگرام پر حملہ کیا جہاں وہ بلوچ کلچر ڈے منارے تھے کیونکہ قابض کو بلوچ کی الگ نام ونشان ،حقیقت یکسانی اور شناخت ناخوشگوارناقابل قبول تھی۔کیونکہ بلوچ الگ پہچان شناخت اور کلچر مصنوعی پاکستانیت کے نفی کی معنی میں ہے ،تمام بلوچ قوم جب اپنی الگ شناخت اور پہچان کے لیے اپنے رسم رواج کو قائم کرکے کلچر ڈے مناتے ہیں تو وہ مصنوعی پاکستانیت سے انکار اور ا پنے قوم اور سرزمین سے وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔دنیا میں بڑی مصنوعی ریاستوں نے پاکستان کی طرح کوشش کی کہ وہ باقی ماندہ قومیتوں کی الگ شناخت ،کلچر رسم رواج،اور قومی خصوصیات کا خاتمہ کرکے انکو مصنوعی ریاست کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رکھ سکیں لیکن زندہ قوموں نے اپنی الگ پہچان ،شناخت ،کلچر اور قومی خصوصیات کو قائم کرکے بڑی سلطنتوں اور ریاستوں کو ختم کیا ،سلطنت عثمانیہ جو موجودہ 44ریاستوں پر مشتمل تھا جہاں مصنوعی ریاست عثمانیہ جو ایشیا میں سب سے زیادہ طاقتور اور قوت کے مالک تھا لیکن وہ ان قوموں کو زیادہ دیر تک غلام نہ رکھ سکا جو اپنے الگ شناخت ،کلچر اور رسم رواج پر نازان تھے۔ ان قوموں نے جنگ عظیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی الگ قومی ریاستیں تشکیل کی اور سلطنت عثمانیہ کی تقسیم سے 44ریاستیں دنیا کے نقشے میں ملک کے طور پر شامل ہوئے ،روس جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑے ہتھیار اور ایٹم بم تھے اور جو دنیا کا سپرپاور بھی تھا لیکن وہ بھی باقی ماندہ قوموں کو غلام بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اور اس کی تقسیم سے بہت سے قومیں آزاد ہوئے ،سلطنت گرین کولمبیا بھی بڑا ایک مضبوط اور طاقتور ریاست تھا لیکن جہاں باقی ماندہ قوموں نے اپنے الگ شناخت ،پہچان اور کلچر رسم ورواج اور قومی خصوصیات کوقائم رکھ کر آخرکار سلطنت گرین کولمبیا کا بھی حال سلطنت عثمانیہ اور روس جیسا کرکے وہاں قومیتوں نے اس سے آزادی لیکر دنیا کے نقشے میں اپنی الگ قومی ریاست کے طور پر کیا۔ جبکہ بہت سی جگہ قابض نے بہت سی قومیتوں کو مکمل انکی الگ پہچان شناخت کلچر اور قومی وقار سے جدا اور الگ کرکے قابض کی شناخت اور پہچان اپنانے پر انکو مجبور کیا جہاں ان قومیتوں کا نام نشان اور پہچان ابھی دنیا میں باقی نہیں رہا جس میں ابورجینز،ریڈ انڈین ،اوربہت سی قومیں تھی جو مکمل مٹ گئے ہیں کیونکہ انکی کلچر،رسم رواج اور قومی خصوصیات نمایاں تھے۔انھی چیزوں نے دُشمن کے خلاف دیوار،رکاوٹ اورحفاظت کا کردار ادا نہیں کیا اس لیے وہ قابض قوتوں کے لیے آسان ہدف بن گئے اور قابض طاقتوں نے انکو اپنے اندر جزب کرکے ایک آمیزش بنایا اسی طرح انکا اپنا الگ نام ونشان ،پہچان،کلچر،قوم ختم ہوکر رہ گئے لیکن بلوچ قوم کا کلچر ،رسم رواج اور الگ قومی نمایاں خصوصیات ہی تمام قابض قوتوں کے سامنے رکاوٹ ،کا کردار اداکرکے بلوچ سرزمین کو آغیار سے بچاتے رہے اور آج بھی قابض پاکستان لاکھ چاہنے کے باوجود بھی اس رکاوٹ اور مزامت کو پار کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ یہی رسم ورواج ،کلچر الگ بلوچی پہچان تو ہم سب بلوچ قوم کی مجموعی،اور مشترکہ ملکیت ہے ۔جو ہمیں ہمارے اباواجداد سے ملا ہے ،ایک ہی چیز ہماری پہچان ،الگ کلچر رسم ورواج ہے کہ جہاں پوری بلوچ قوم متفق اور یکجا ہے اور خوش نصیبی سے یہی چیز ہی ہمیں پاکستان سمیت خطے کے تمام باقی قومیتوں سے الگ کرتا ہے ،دنیا کی اصول ہے کہ کلچر،رسم ورواج ،الگ پہچان اور قومی خصوصیت سے قوموں کے الگ پہچان ہوتی ہیں اور پھر الگ الگ قوموں کے لیے انکے ریاست کا ہونا ضروری ہوتا ہے کہ جو اس قوم کی الگ خصوصیات کو بہتر طور پر دنیا کے سامنے ظاہر کرکے اپنے قوم کی بہتری کے لیے کام کریں ،قوم اور ریاست ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں اگر قوم جسم تو ریاست اسکی روح اور جسم ہے ۔نیشنلزم کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایک قوم جو سیاسی اورثقافتی حوالے سے کسی دوسری ریاست کے قبضہ یا کہ تسلط میں ہے وہ اپنی آزادی کے خوآہش کا اظہار کریں اسکو قوم پرستی یا کہ نیشنلزم کہتے ہیں ،بلوچ نیشنلزم میں بھی بلوچ سیاسی اور ثقافتی طور پر الگ ایک قوم اور ملک کے مالک تھے لیکن قابض پاکستان نے طاقت وقوت کے زور پر بلوچوں کو غلام بنایا اور انکی سرزمین پر بزورشمشیر تسلط قائم کیا ہوا ہے اور قابض کے خلاف جدوجہد بھی بلوچ قوم اپنی کلچر رسم رواج الگ قومی پہچان اور خصوصیات کے تحفظ اور قومی ریاست کی تشکیل کے لیے کرررہا ہے اور جو پارٹیاں اور تنظیمیں قوم پرستی کے نظریہ کے تحت ہیں وہ ریاست کا نعم البدل ہیں یہ آزادی پسند تنظیمیں اور انکے لیڈر قوم کا سمبل اورعلامت ہیں ۔بلوچ قوم میں ستر سے لیکر نوے تک بلوچ قومی سیاست تکون پر مشتمل تھا ،ساری قوم اور دنیا انہی تکون کو پہچانتے تھے اسی دوران اسی سے لیکر نوے تک قوم اپنی الگ پہچان اور شناخت کو کسی حد تک فراموش کرکے پاکستانی پرچم و ترانہ اور پاکستانی ہیروز کو اپنا ہیروز ماننے لگے وہ کسی حد تک خود سے بیگانہ تھے اور پاکستانی پارلیمانی نظام اور سسٹم میں زیادہ تر لوگوں نے خود کو ایڈجسٹ کیا ہوا تھا اسکے بعد 1996میں حیربیار مری نے جدید سائنسی انداز میں قومی جدوجہد کی بنیاد رکھ کر بلوچ سیاست کا رُخ موڑ دیا اور 2000 میں ایک نئی صبح مقبوضہ بلوچستان کی سرزمین میں اسی وقت طلوع ہوا جب بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے قابض کے خلاف حملہ کرکے آزاد دھرتی کا قومی پروگرام بی بی سی کے زریعے دیا اس سے قوم کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں خاص کر نوجوانوں میں ایک نئی امید، جوش ،و ولولہ پیدا ہوا اور قوم نے بھرپور طریقہ سے قومی پرگروام کا ساتھ دیا ۔تاریخ میں پہلی بار حیربیار مری نے خود کو مری قبائل یا باقی قبائلوں کی طرح محدود کرنے کے بجائے قومی تحریک کو وسعت دیا اسکو تمام بلوچستان میں عام کیا اورقوم کے سب لوگوں نے اس تحریک کو اپنا کر اسے قومی تحریک بنایا اور دنیا کے بہت سے محقق اس بات کو ماننے پر تیار ہوئے کہ بلوچ قومی تحریک ایک سائنسی تحریک ہے اور تاریخ میں پہلی بار بلوچ قومی تحریک بلوچستان کے پہاڑوں ،ریگستانوں ،میدانوں اور بازاروں سے نکل کر پوری دنیا تک پہنچ گیا اور بلوچ قومی تحریک مثالی تحریک رہا ۔حیربیار مری نے ماضی کی تمام کمزوریوں اور ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس قومی تحریک کا بنیاد رکھا ،حیربیار مری نے تحریک کی خاطر اپنے وزارت ،اختیارات ،مراعات ،پیسہ ،نوکرچاکر سب کچھ چھوڑ کرقومی تحریک کا عقلی اور شعوری طور پر بنیاد رکھاکیونکہ یہ دنیا کا قانون ہے کہ لوگوں کے پاس اختیارات ،وسائل مال مڈی اور طاقت اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی خوشحال گزار سکیں لیکن کچھ لوگ ایک خیال اور پروگرام کی خاطر اسکو چھوڑ کر خیال سوچ اور پروگرام کے لیے کام پر نکلتے ہیں وہ پھر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے اور اختیارات ،مراعات ،پیسہ اور نوکر چاکر کے لیے اپنے خیال ائیڈیااور پروگرام کو قربان نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے اپنے مراعات ،آسائش،دولت ،نوکرچاکر سب کچھ ایک خیال ،نظریہ سوچ اور پروگرام کے لیے قربان کرچکے ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کو دولت شہرت اور لالچ کمزور نہیں کرسکتا ہے کیونکہ انکے پاس پہلے سے ساری چیزیں موجود تھی جن لوگوں نے انکو ایک خیال اور پرگرام کی نزرکیا تو پھر اسے لوگ کس طرح سے چھوڑے ہوئی پیسہ دولت اختیارات اور لالچ کی خاطر نظریہ اور فکر پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں بلکہ انکا سرمایہ اور دولت وہی سوچ فکر خیال اور نظریہ ہوگا جس کی کامیابی انکی زندگی کا مشن ہوگا۔ اسی طرح حیربیار مری بھی مری قبائل کے نواب خاندان کانوابزادہ تھا وہ وزیر رہا اورانکا آبائی علاقہ تیل گیس اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے انکے پاس اختیارات تھے اور اگر چاہتے باقی سرداروں نوابوں کی طرح وزیر اور علاقے کے اختیارات دار ہوتے ہوئے وہ بلوچستان میں شاہ اور شیخوں کی طرح مالا مال ہوکر انکی طرح کا زندگی گزارسکتے بقول ایک دوست کے انکو وزارت کے دوران ایک روڈ کی تعمیر کی خاطر7 سو کروڑ پیش کش ہوا ،لیکن اس نے اپنے وزارت کے دوران اس پیش کش کو ٹکرایا اور روڑ بننے نہیں دیا اور اگر وہ اپنے ذاتی زندگی کو عیش عشرت اور خوشحالی میں گزارنا چاہتے تووہ نہیں بلکہ نواب اکبر خان بگٹی ،براہمدغ بگٹی سمیت بعض لوگ ہیں کہ جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں اپنے مالی اختیارات ،طاقت اور اثررسوخ کو تحریک کی خاطر چھوڑ دیا ہے یہ لوگ صاحب اختیاردار تھے لیکن ان لوگوں نے تحریک کی خاطر انکو چھوڑ دیا، لیکن کچھ لوگ ہیں جو تحریک سے پہلے جنکا مالی پوزیشن اوراختیارات کا سطح علامتِ صفر میں تھا لیکن تحریک کی بدولت وہ لوگ مسلح اور سیاسی تنظیموں میں سنڈیمن کی طرح کے خود ساختہ ٹکری بن گئے ہیں اور مالی حوالے سے وہ اتنے تنگ دست تھے کہ انکو پڑھانے کے لیے انکے کالج کے دوست اپنے ماہوار پیسوں سے انکو چلاتے تھے ،تحریک نے انکی سماجی رتبہ تبدیل کیا محتاج ،کنگال اور تنگ دستی سے انکومالدار دولت مند بناکر گاڑیوں ،مکانوں اور بنگلوں کا مالک بنایا بجائے کہ یہ لوگ بدلے میں تحریک کو صحیع سمت دیتے الٹا تحریک کو جرائم پیشہ بنانے اور قومی تحریک کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرکے ا سکی ساکھ کو تباہ و برباد کرنے میں ان لوگوں کو ید طولہ حاصل رہا ہے اور ریاست کے سرایت کردہ لوگوں کی وجہ سے مضبوط اور منظم قومی تحریک کو طبقاتی علاقائی ،تقسیم درتقسیم اور پراکسی کا شکار کرکے یوسف کی قطب تک لے گئے ،اور جو تحریک بلوچ قومی اقدار رسم رواج اور ضابطہ اخلاق ،اور قومی خصوصیات کا علامت ہے جو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر بلوچ سرزمین ،اپنے خطے اور دنیا میں بلوچ قوم کی الگ خصوصیات کا شبیہ ہے کیونکہ تحریک زیادہ وقت تک چلتے ہیں وہ چند سالوں کا پروگرام نہیں بلکہ نسلوں کا قومی پروگرام ہوتا ہے جس طرح آئرش تحریک سو سال سے جاری ہے لیکن تحریک سے وابستہ لوگ قومی تحریک میں اپنے قوم ،کلچر رسم رواج اور قومی اقدار اور قومی خصوصیات کا ترجمان ہوتے ہیں حیربیار مری بلوچ قومی کلچر رسم و رواج اور قومی خصوصیات کا عکس ہے ،جس لیڈرنے بلوچ کلچر ،ثقافت ،رسم ورواج،تاریخ اور سرزمین پر مصنوعی پاکستانیت کے تعمیر کردہ مینار کو گرانے کے لیے قوم کو بلوچ نیشنلزم کا واضح نظریہ سوچ ،فکر اور پروگرام دیا وہ لیڈرحیربیارمری کی شکل میں آج بھی اپنے قول فعل ،باتوں ،بیانات ،پر کوہ چلتن کے پہاڑوں کی طرح قائم ہے اور بلوچ قومی تحریک میں نواب اکبر بگٹی کے بعد وہ پہلا شخص ہے کہ وہ کسی بھی علاقائی ،خطے اور بین القوامی طاقتوں کی جی حضوری نہیں کررہا ہے بلکہ بلوچ قومی فخر سے اپنی قوم کا وقار قائم کیا ہوا ہے ،جبکہ دوسری طرف ایک معطل شدہ شخص سنگت حیربیار مری کی ہندوستان کے حوالے بیان پر لکھ چکا ہے کہ بلوچی اقدار کو پامال کرتے ہوئے اس نے ہندوستان کی تعریف کی ہے حالانکہ اسی دن دو ٹیوٹ ہندوستان کے حوالے آئے ایک حیر بیار مری کا دوسری بی این ایم کے لیڈر خلیل بلوچ کا تھا ،خلیل بلوچ نے کھل کر مودی کی تعریف کی کہ مودی جیسا بے باک ،دلیر،نڈر منچلا لیڈر کم آئے ہیں حالانکہ وہ بی این ایم کے لیڈر ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے وہ جو بیانات دیتے ہیں اسکی پارٹی کا نقطہ نظر ہوتا ہے باہر کی دنیا میں کسی بھی بلوچ کے لیے مناسب بھی نہیں ہوتا ہے اسکی مخالفت کریں لیکن ان کے ہندوستان کی میڈیا میں نائلہ قادری اور جمعہ مری کی طرح ارزاں اور کم مورال کے بیانات اور بھڑک بازیاں چاپلوسیاں ڈاکٹر مالک اور حئی کا عملی عکس و نمونہ پیش کررہے ہیں ،جس طرح پورے پاکستان میں ڈاکٹر مالک اور حئی شور سے کہتے تھے کہ نیشنل پارٹی بلوچ ماس اور بلوچ نمائندہ پارٹی ہے اور پوری قوم کی ترجمان ہے اور پاکستانی لوگ انکی چاپلوسانہ مزاج کو خاطر میں لائے بغیر زندگی بھر نواب خیر بخش مری سے ملنے کے لیے بیقرارتھے اور نواب بگٹی نے زندگی میں نہیں کہا کہ وہ بلوچ قوم کا نمائندہ ہے اور اسکے پاس قومی مینڈیٹ ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا کے لوگ اسکے گھر ڈیرہ بگٹی میں خود جاکر اسکا احترام اور عزت کرتے تھے اج بھی اسی کے نواسے ہیں جو پاکستان کی چاپلوسی میں کسی سے کم نہیں پھر کیونکر انکا عزت واحترام نہیں ہے بلکل ان مڈل کلاسوں نے ان قومی تنظیموں کو ہندوستان کے سامنے بھکاری اور فقیر بنایا ہوا ہے جس طرح پاکستانی پارلیمانی سیاست میں مڈل کلاس اور پارلیمانی چاپلوسی جس کسی کی حکومت ہو اسکی خوب تعریف کرتے ہیں اسکے چوکھٹ پر ماتھا رگڑتے ہیں لیکن جوں ہی وہ حکمران اقتدار سے محروم کیا جاتا ہے تو یہ قصیدہ گو اپنا قبلہ کا رخ بدل کر دوسرے کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں اب مڈل کلاس اپنے پارلیمانی پیش روں کی طرح مودی کا اسی طرح سے تعریفیں کررہے ہیں لیکن میں دعوی سے کہتا ہوں کل کو مودی کی جگہ دوسرا آئے تو یہ لوگ پاکستانی پارلیمانی لوگوں کی طرح انکی بھی اسی طرح آو بھگت کریں گے لیکن اس وقت یہ پوری بلوچ قوم کا وقار عزت و احترام کو پامال کرچکے ہونگے حالانکہ ہندوستان یا کہ دنیا میں باقی جگہ حیربیارمری کے دوستوں نے آرٹیکل لکھے ان سے ملاقاتیں کی کھبی بھی بلوچ کے اندرونی مسئلوں پر ان کو مداخلت کرنے کا موقع نہیں دیا اور انکے اخبارات میں حیربیارمری اور فری بلوچستان مومنٹ کے دوستوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ بی این ایم اور بی آر پی کا ذکر بھی کیا کہ وہ بلوچ قوم کے لیے کام کررے ہیں اور بی این ایم کے سربراہ کا انٹرویو ہندوستان کے اخبار میں ایسا لگتا ہے کہ نائلہ قادی جمعہ مری اور واحد بلوچ نے وہ انٹرویو دیا ہوا اپنی منہ سے میاں مٹو اور ہر بندہ جسکا توڑا سا سیاسی سوج بوجھ ہو وہ اسکو بلوچ قوم کو سبک کرنے کے مترادف سمجھیں گے،اسی طرح کا بیان امریکہ میں مقیم واحد بلوچ نے دیا اور ہندوستان کے تمام بڑی بڑی اخبارات میں بھی اسکو کوریج دیا جس نے خلیل بلوچ کی طرح کا موقف اپناکر قوم کو ہلکا کیا لیکن اسکی باتوں کو عام بلوچ کوئی اہمیت نہیں دیتے کہ وہ بلوچ قومی تحریک میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہے کل کو وہ جمعہ مری کی طرح کا جو عمل کرے گا اسکا ذمہ دار بلوچ نہیں بلکہ ہندوستانی خود ہونگے لیکن جمعہ مری ،نائلہ قادری اور واحد کی طرح بی این ایم جیسی پارٹی کو بنانا قوم کے لیے ندامت کا سبب بنے گا حالانکہ انسان کو قومی فخر ہوتا ہے کہ کوئی باہر کا آکر بلوچ لیڈروں کی تعریف کریں ایک ہندوستان کی چینل میں انٹرویو میں را کے سابقہ آفیسر نے نواب خیربخش مری نواب بگٹی سمیت بلوچوں کی تعریف کی کہ وہ خوددار اور غیرت مندلیڈر رہے ہیں وہ پنجابیوں کی طرح چاپلوس اور ہلکے نہیں ہیں وہ اپنے قول و قرار کے پابند تھے۔ اب ایسے لیڈر جو پنچابیوں کی فطرت کا نمونہ پیش کررے ہیں تو کیا اس سے بلوچ قوم کا اچھا امیج باہر جائے گا حالانکہ اندرونی حوالے سے انکے جرائم پیشہ کارکردگی اور ایران کی پراکسی سمیت بہت کچھ ہے کہ جس سے بلوچ قوم ان جرائم پیشہ لوگوں کی وجہ سے قومی تحریک سے بیزار ہوا ہے لیکن آج تک فری بلوچستان موومنٹ کے دوستوں نے باہر ان پر نہیں لکھا ہے حالانکہ معطل ٹولہ نے کارلوس کو انٹرویو دیا تھا کہ یہ جرائم پیشہ لوگ منشیات کا کاروبار کرتے ہیں اور تحریک دُشمن ہیں لیکن سنگت حیربیار مری کے دوستوں نے بین لاقوامی سطح پر اس انٹرویو کو جاری کرنے سے روک لیا کیونکہ وہ کوشش کررے تھے کہ انکی وجہ سے تحریک دنیا کے نظروں میں تماشہ بن کر کمزور نہ ہوں اوربلوچ میں اتنی طاقت اور قوت ہو کہ وہ اندرونی اور بیرونی سطح پر اختلافات کے فرق کو جانتا ہو لیکن دوسری طرف حیربیار مری کا بیان ہے جس نے نا مودی نا راہول گاندھی کی تعریف کی بلکہ الٹا ان پر تنقید کی کہ وہ بلوچوں کو ہر وقت نااتفاقی اور تقسیم درتقسیم کا سبق پڑھا تے ہیں لیکن جنگ کے دوران اپنے ملک کی حمایت کے بجائے اس پر سیاست کرتے ہیں اور حیربیار مری نے بلوچوں پر تنقید کا مناسب وقت میں جواب دیا۔ حالانکہ بلوچ قوم کو تقسیم درتقسیم کا شکاربھی یہی جرائم پیشہ ،معطل شدہ لوگ کرچکے ہیں لیکن بلوچ قوم کو بھی زندہ قوموں کی طرح کسی تیسری فریق کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھی اجازت نہیں دیناچاہئے کیونکہ زندہ قومیں اسکو اپنی قوم اور قومی وقار کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ حیربیار مری نے ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کے ساتھ ہر وقت تعلقات پر زور دیا ہے اور وہ ہندوستانی حکمران جماعت مودی کی تعریف کے بجائے وہاں کے عوام اور ریاست کے ساتھ بلوچ قوم اور ہندوستانی عوام کا فطری اتحاد پر زور دیتا رہا ہے اور وہ انکے ان لیڈروں پر تنقید کرتا ہے جو بلوچ قومی تحریک کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہندوستانی عوام افغان عوام بلوچ قوم کے فطری اتحادی ہیں اور وہ اس اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے شروع سے کوشش کررہا ہے جبکہ دوسری طرف مودی کے پہلے بیان اور حالیہ بیانات میں کس نے کیا کہا وہ بھی بلوچ قومی تاریخ کا حصہ بن چکے۔ افغانستان کے حوالے حیربیارمری پر کس نے کس طرح تنقید کیا پھر موقع ملتے ہوئے کس طرح ان لوگوں نے اپنا قبلہ تبدیل کیا وہ ساری چیزیں بلوچ تاریخ میں درج ہیں اور لوگوں کی یادداشت اتنا بھی کمزور نہیں کہ وہ دو سال کی باتوں کوفراموش کرجائے۔ اور تو اور خان قلات جو کہ اپنے حوالے الگ سیاست کرتے ہیں اور انکا اپنا الگ ایک موقف ہے اس نے جب الطاف حسین سے ملاقات کی تو مڈل کلاس والوں نے الطاف کے بارے میں کیا رائے تھا اور اسکے آڑ میں سنگت حیربیار مری کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اسکے اتحادی خان بلوچوں کے قاتل اور پاکستانی ایجنٹ الطاف حسین سے مل رہا ہے لیکن دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ کل انکے بقول یہی بلوچوں کے قاتل اور پاکستانی ایجنٹ الطاف حسین انکو ملنے کا دعوت دیں یہ بغیر شرط و شرائط دوڑ کے جاکر اسے ملنے کے بجائے اسکے چھوٹو بن کر انکے ساتھ کام بھی کریں گے۔ بلوچ قوم کو فخر ہے کہ حیربیار مری نے ہندوستان کے حکمران جماعت کی تعریف وتوصیف نہیں کیا ہے بلکہ اس نے بلوچ کا وقار قائم کیا ہوا ہے کیونکہ وہ بلو چ قوم کو دنیا میں کسی بھی طاقت کے سامنے حقیر ،لاچار کمزور اور چاپلوس دیکھنا پسند نہیں کرتے ہے اور اس نے نیشنلزم کا یہ درس اپنے اسلاف اور روس کے درسگاہ سے بھی سیکھا ہے روس میں جہاں نیشنلزم کی خاطر وہ ہر چیز کو عبورکرتے ہیں انکا قبلہ ایمان اور دین ہی انکا ملک اور قوم ہے اسی درسگاہ سے اس نے جو سیکھا اسی طرح وہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا میں بلوچ قوم کو لوگ انکے قومی اقدار اور قومی خصوصیات کے تحت پہچان کر ان سے تعلقات بنائیں لیکن دوسری طرف مڈل کلاسوں سمیت ہم سب کا بھی زیادہ قصور نہیں ہے کہ ہم لوگوں نے پاکستانی درسگاہ اور مقررہ درسیات سے تعلیم حاصل کیا جہاں ہمیں پنجابی خصلت اور جوڑ توڑ کا عادی بناکر اورسب کو اپنے کلچر رسم ورواج اور قومی اقدار کے حوالے احساس کمتری کا شکارکیا گیا ہے ،حالانکہ مودی نے پہلی بار جب بلوچستان کانام لیا ماسواے حیربیار مری کے باقی سب نے مودی کو انسان سے دیوتا پیش کیا ،اورحالیہ دنوں ہندوستان کے ایک نامی گرامی شخص نے ایک دوست کو کہا کہ مودی نے بلوچ قومی تحریک کو بات چیت کے چپ کے طور پر استعمال کرکے تم لوگوں کے تمام لوگوں کو بندر کی طرح رقص کروایا لیکن حیربیار مری سیاست کی داوپیچ کو سمجھ چکا تھا اور وہ ان بندروں کے ہجوم میں شامل نہیں ہوا اور تو اور معطل شدہ ٹولہ نے کراچی میں جو کام کیا تھا اسکو انڈیا نے دہشت گردی قرار دینے کے ساتھ ساتھ انکو پاکستانی ایجنٹ کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اداروں نے اپنے لوگوں کے زریعے یہ معطل شدہ ٹولہ سے یہ کام کیا تاکہ چین اور ہندوستان کے تعلقات کو خراب کیا جاسکے اور بلوچ قومی تحریک کو دنیا میں دہشت گرد قرار دیا جاسکے کیونکہ مودی کی حکومت نے وون کانفرنس میں چین کے ساتھ مزاکرات کیے تھے اور پھر پاکستان کو خطرہ تھا کہ چین اور ہندوستان کی نزدیکی میں چین پاکستان کے خلاف ہوگا اسی لیے ہندوستان کی حکومت نے دو بیان معطل ٹولہ کے خلاف دیا اور پھر چین میں جاکر اپنی صفائی بھی دی معطل ٹولہ نے اپنے لوگوں کوجذباتی کرکے استعمال کیا لیکن ہندوستان نے انکو کچلنے اور دہشت گرد قرار دینے کے باوجود بھی انکی زبان گنگ تھی کیا کوئی عام بلوچ تصور کرتا ہے کہ وہ حیربیارمری کے دوست ہوتے اور ہندوستان اس طرح انکو رسوا کرتے تو کیا وہ خاموش رہ سکتے تھے حالانکہ ہندوستان کی بے جے پی کے لیڈر وں نے سنگت حیربیارمری کی خود تعریف کی کہ وہ انکے لیے رول ماڈل ہے اور انکے سابقہ فوجی جنرل بھی حیربیارمری کی ٹیوٹ کو اپنے قوم کے لیے پیغام سمجھ رہے تھے کیونکہ حیربیارمری نے پیسوں مال مڈی کی خاطر کسی کے سامنے اپنی تحریک اور قوم کو ہلکا اور حقیر نہیں بنایا ہے بلکہ اسکی وجہ سے قوم کا وقار بلند ہوا ہے لیکن باقی لوگوں نے ڈاکٹر حئی کا کردار ادا کیا جس طرح حئی والے مڈل کلاس نے اسلام اباد میں قوم کے وقار سربلندی کو کم کرکے بلوچ اور پنجابی کے فرق کو ختم کیا تو جرائم پیشہ اور معطل شدہ لوگوں نے دنیا میں قومی تحریک کے ساتھ ساتھ قوم کی فخر اور سربلندی کو نقصان پہنچا کر بلوچ کے باقی قوموں کے درمیان فرق کوملیا میٹ کیا ہے ایک دفع صبا دشتیاری نے کراچی میں کہا کہ ڈاکٹر حئی کا ہر وقت دعوہ رہا ہے کہ انکی پارٹی پورے بلوچستان میں زیادہ پارلیمانی سیٹ لیتا ہے اور انکی پارٹی سارے بلوچستان میں مضبوط پارٹی ہے اور وہ بلوچ قوم کی نماہندہ پارٹی ہیں لیکن اسلام اباد والے اسکو اسلام اباد میں وہ شرف عزت احترام اور حیثیت نہیں دیتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی کے گھر میں جاکر اسکی ہربات مان لیتے ہیں اور انکو عزت شرف اور حیثیت دیتے ہیں تو صبا دشتیاری نے کہا میں نے کہا کہ کوئی اور کسی کو عزت نہیں دیتا ہر انسان اپنے آپکو خو د عزت دیتا ہے تو آج بلوچ قومی تحریک میں بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے بلوچ کی وقار اور احترام بڑھانے کے بجائے اپنے کرتوتوں سے کم کیا ہے حالانکہ بلوچ قوم اور قومی تحریک ایک فرد گروہ یا قبائل کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ملکیت ہے اور قوم کے سب لوگوں کو اپنی الگ شناخت ،کلچر رسم ورواج کے تحت اپنی الگ قومی خصوصیات کو بھی زندہ کرکے اپنی الگ پہچان اور قومی خصوصیات کا عملی نمونہ بھی دیکھنا ہوگا تب جاکر وہ قومیں اپنے قومی ریاست کی تشکیل کرسکیں گے.