“میرے نزدیک زبانیں، آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک بڑے ستارے کا روپ لے لیں کیونکہ اس کے لیے تو سورج موجود ہے لیکن سورج کے وجود کے بعد بھی یہ ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ستارے آسمان پر چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اس کا اپنا ستارہ ہو” – (داغستانی ادیب رسول حمزہ توف)۔

کوئی فرد اپنی مادری زبان میں نہیں لکھتا، اور اگر وہ دوسری زبان میں لکھتا ہے، تو اس لسانی ردو بدل سے اس شخص کی لسانی سیاست کا اظہار نہیں ہوتا۔ لکھنے والا ہمیشہ زیادہ سے زیادہ اور سنجیدہ قارئین کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اس کا لکھا ہوا پڑھا جائے۔

لکھنے والا اپنے آپ سے لڑتا اور آسان زبان تخلیق کرتا ہے؛ وہ اپنے متن اور پڑھنے والے کی ذہنی دنیا کے درمیان فاصلے کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔ ممکن ہے بعض اوقات کچھ لسانی پس منظر کے سبب بعض زبانیں کچھ معنیٰ ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور لکھنے والا اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد رہتا ہے کہ وہ کس زبان میں اپنا اظہار کرے۔

ایک فرد، کوئی لکھاری اگر کسی زبان میں لکھتا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکالنا منصفانہ نہیں کہ اس نے اپنی مادری زبان کسی اور زبان پر قربان کردی۔ یہ ذاتی فیصلہ ہے۔ شاید کسی کو پسند آئے اور کسی کے لیے ناپسندیدہ ٹھہرے۔

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں؛ وہاں سالگرہ نہیں، موت کا دن یادگار رہتا ہے۔ بلوچ روایات کی آزاد منشی نے مذہب کے بجائے سیکولر نیشلزم کو پروان چڑھایا۔ بلوچ کو اگر سمجھنا ہو تو یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ بلوچوں میں اپنائیت کا فلسفہ یہودیوں کی طرح دوسروں کے لیے خون کو خشک کردینے والا ہے۔

بنی اسرائیلی اپنے اور غیر میں ایک فرق کے ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ ان میں اپنا، اپنا ہوتا ہے اور غیر، غیر۔ بلوچوں میں بھی لفظ ” درامد “ نیشنلزم کے لیے سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے۔۔ جب ابھی بلوچ اپنی طرز کی سیاست کے ذائقے سے آشنا نہیں تھے، اپنے اور غیر کے درمیان فرق نے انہیں سنبھالے رکھا تھا۔ درامد یا غیر کا فیصلہ زبان کرتی رہی ہے۔

بلوچ ایک لسانی قوم نہیں۔ بلوچی، بروہی، جدگالی، دہواری و سرائیکی نے بلوچوں کی لسانی دنیا کے آسمان پر رنگ برنگے ستارے روشن کردیے ہیں تاہم زبان کے بکھیڑے ناپختہ ماہرین لسانیات کے ہاتھ لگ جائیں تو ایسی شاعری جیسا نمونہ سامنے آئے گا جس سے اچھی آوازیں سننے والے کانوں کو پُرہجوم ٹریفک سگنل پر تیز ٹرکوں کے ہارن کا غضب ناک شور سنائی دے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ شہروں سے دور رہنے والے ناخواندہ لوگ اچھی بامحاورہ مادری زبان بولتے ہیں کیونکہ انہیں اکثر و بیشتر دوسری زبانوں سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے خواندگی بڑھتی ہے مادری زبان پر دیگر زبانوں کا گہرا اثر پڑتا ہے اور جب زبان میں پروفیشنلزم بھی داخل ہوجائے تب وہ کچھ اور ہی بن جاتی ہے جس کا تعلق کسی ایک خاص طبقے سے باقی رہتا ہے۔

سیاست زبان پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟ بنگلہ یا عبرانی زبانیں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

ہرچند لسانیت اندھا عقیدہ نہیں، بلکہ زبانوں کی سیاسی، معاشرتی، ساختیاتی و تکنیکی نظاموں کا وسیع مطالعہ ہے۔ جس میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کیسے اپنی مادری زبان کو تعلیم کے مرکزی دھارے کا حصہ بناسکتے ہیں۔ ہم جس سیاسی و لسانی خطہ میں رہتے ہیں؛ وہ ان موضوعات کے سلسلے میں ایک گرم خطہ رہا ہے۔ ہر سال جب ہم 21 فروری کو مادری زبانوں کا دن مناتے ہیں تو ہم یہ کہتے ہوئے نہیں بھولتے کہ یہ بنگلہ زبان کی تحریک ہی تھی جس نے آگے چل کر خونی سیاسی تحریک کو جنم دیا تھا۔

ہم نے اس لسانی جبر کے خلاف مزاحمت سے کیا سیکھا؟ یہ مزاحمت دو طرح کے سبق دیتی ہے۔

وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں سیاسی اقتدار ہو، ان تجربات سے ضرور فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو دنیا بھر کے کثیر لسانی معاشروں میں اٹھائے گئے ہیں۔ زبانیں بے شمار ہیں۔ ان کے بولنے والے بھی کہیں کم ہیں اور کہیں زیادہ۔ بہرحال مادری زبان کوئی بھی ہو، ایک شخص کے لیے مادری زبان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا احمق ہوگا جو اپنی مادری زبان میں سوچنے کے بجائے کسی دوسری زبان میں سوچتا ہو۔

زبانوں کو برابری کے حقوق دینے کا فیصلہ لسانیات کے ماہرین کا نہیں، سیاسی قائدین کا ہوتا ہے۔ ماہرین زبان کی پیچید گیوں اور مشکلات کو آسان کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ہم لسانیاتی استعمار کے عہد میں جی رہے ہیں اورعموماً لسانی ماہرین مخصوص مفادات کے پیش نظر زبانوں کو مقامی اور چھوٹی زبانوں کے ڈبے میں بند کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جو بیشتر اوقات زبانوں کے پسماندہ رہنے کا باعث بنتے ہیں جبکہ وسیع یا چھوٹی تمام زبانوں کے حقوق برابر ہیں۔

بلوچ اور لسانی معاملات

بلوچ نیشنلزم کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں نظریاتی ناپختگی کو کبھی درست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو فرد جس شعبے میں، دوسروں سے کچھ بہتر دسترس رکھتا ہے، وہ اپنے شعبے کو سیاست کا امام قرار دیتا ہے۔ استاد کے ماننے والے صبح و شام اذانیں دینے کی ذمہ داری لے کر مؤذن بن جاتے ہیں۔ قوم کی کلاسیکی تعریف کے مطابق ہر قوم کی ایک زبان بھی ہوتی ہے لہٰذا بلوچ قوم کی زبان بلوچی ہے۔ اس سے بال برابر بھی انکار ممکن نہیں۔

کوئی قوم خالص خون سے نہیں بنتی۔ مختلف نسلی گروہ مل کر تاریخ کے طویل عمل کے دوران ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ سارے گروہ ایک ہی زبان بولتے ہوں بلکہ بہت ساری زبانیں بولتے ہیں جو ایک انفرادیت ہے۔ بلوچ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور یہ ایک نمایاں صفت ہے۔ جو لوگ لسانیات کی الف ب سے واقف نہیں، وہ شاید اس رنگا رنگی کو رکاوٹ قرار دیں۔ لیکن جو لوگ لسانیاتی مسائل سے سروکار رکھتے ہیں، وہ اسے دلچسپ قرار دیتے ہیں۔

بلوچی زبان میں لکھنے کے تکنیکی مسائل

بلوچی زبان کے پیچیدہ Socio-Linguistic مسائل کے علاوہ بلوچی زبان کو تاحال اسٹینڈرڈائزیشن کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اس ایشو پر دو سال کے دوران تین کانفرنسیں، کراچی، اسٹاک ہوم سویڈن اور کوئٹہ میں ہوئیں۔ دو کانفرنسوں میں، میں شریک بھی رہا اور ان کی رپورٹیں میں نے، کچھ دوستوں، انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ لنگویسٹکس کے سربراہ سعید زبیر، بلوچستان یونیورسٹی بلوچی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر رحیم مہر، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے جوائنٹ سیکریٹری ہیبتان عمرکے ساتھ مل کر، مرتب کی ہیں۔

ان کانفرنسوں میں ان آوازوں کا مسئلہ خاص طور پر زیر بحث رہا جو بلوچی زبان کی آوازیں نہیں ہیں بلکہ عربی، سرائیکی یا دیگر ہمسایہ زبانوں سے بلوچی زبان کا حصہ بن چکی ہیں۔ غرضیکہ ان آوازوں کے متعلق اہم فیصلے کیے گئے، جن کا عملی اظہار ہونا تاحال باقی ہے۔ بلوچی زبان کی ترقی کس بدبخت کو پسند نہیں۔ مجھے کسی ایسے شخص کا علم نہیں کیونکہ میں نے ہر فرد کو بلوچی زبان کی ترقی کا خواہاں پایا ہے۔ البتہ لسانی معاملات پر غیر دانشمندانہ طریقہ سے اصرار مزید ناراضگی اور پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے، جو شاید مناسب قدم نہیں۔

داغستانی ادیب و شاعر رسول حمزہ توف کی نوٹ بُک سے ایک کہانی

“پیرس میں میری ملاقات ایک مصور سے ہوئی جو داغستانی تھا۔ انقلاب کے کچھ ہی دن بعد وہ تعلیم کی غرض سے اٹلی چلاگیا۔ وہیں اس نے ایک اطالوی خاتون سے شادی کرلی اور ہمیشہ کے لیے بس گیا۔ بےچارہ پہاڑی رسم و رواج کا ساختہ پرداختہ تھا اس لیے اس نئے وطن میں بسنے اور وہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں اسے خاصی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود کو اس نئی دنیا کا عادی بنانے کے لیے اس نے سیرو سیاحت کا سہارا لیا۔ دور دراز ملکوں کی راجدھانیوں میں دل بہلانے کی کوشش کی مگر جہاں بھی گیا وطن کی یاد اور اپنے وطن سے جدائی کا احساس سایہ کی طرح اس کے ساتھ رہا۔

پیرس سے واپسی پر میں نے مصور کے عزیزوں کو تلاش کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کی ماں ابھی تک زندہ ہے۔ مصور کے عزیز افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں میرے اردگرد جمع ہوئے، اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لیے، جس نے ہمیشہ کے لیے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا اور ایک دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کردیا تھا اور یہ جان کر ان میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔

اچانک اس کی ماں نے مجھ سے ایک سوال کیا: “اس نے تم سے بات چیت تو آوار زبان میں کی ہوگی ناں؟”

“نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی”، میں نے جواب دیا۔

ماں نے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال لیا جس طرح ہمارے پہاڑوں میں بیٹے کی موت کی خبر سن کر مائیں کرتی ہیں۔

“رسول تم سے غلطی ہوئی”، ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا، “میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی۔ جس سے تم ملے ہو وہ میرا بیٹا نہ رہا ہوگا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی بھُلا نہیں سکتا جو میں نے، ایک ماں نے، ایک آوار ماں نے اسے سکھائی تھی”۔ ( میرا داغستان، رسول حمزہ توف ، ص 62 سے 64 )