بلوچ قومی تحریک آزادی ایک طویل تسلسل رکھتی ہے اس اٹوٹ تسلسل کو کئی نشیب فراز اور کئی داؤ پیچ سے گزرنا پڑا ہے کوئی بھی تحریک ہمیشہ ارتقائی عمل سے گزرتی ہے ہر زندہ اور متحرک شے کو ہمیشہ ارتقائی مسافت طے کرنے پڑتی ہے دنیا کے بڑے بڑے فلاسفر اور دانشور اس بات پر متفق ہے کہ تحریکیں ایک دم اس مقام پر نہیں آتی جہان سے واپسی ممکن نہیں بلکہ تحریکوں کو اس مقام تک لانے میں قربانیوں کا ایک بحر درکار ہوتا ہے فینن کہتاہے کہ آزادی کی تحریکوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہ ابتداء میں شہری کے حقوق کے مطالبات اور کچھ دیگر مراعات پر ٹکی رہتی ہے غلامی کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے ایک بے ہودہ مصالحت عوام کی تقدیر بن جاتی ہے یہی سوچ تحریک کے ابتدائی مراحل میں ہمیشہ رہاہے یہ تجربہ بلوچ زمینی سیاست پر بھی موجود رہاہے موقع پرست مروجہ قیادت جو فتوی جو نعرہ بلوچ قوم کو دیاہے بلوچ قوم انہی کو اپنی مسیحا اور غلامی کے عذابوں سے نجات کا نعرہ سمجھ اس قیادت کی پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس گھن چکر میں اسے اپنی ناخدا اور ہیرو سمجھتے ہوئے سنگینوں کے سائے تلے سے گزرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے ہیں لیکن قیادت کی نظر محض اس کی ووٹ اور ہمدردی پر رہی ہے اس کی ذلت اس کے غلامی کے زخم اور اجیرن زندگی سمیت اس کی جفاکشی مخلصی پاک جذبات اور کمٹمنٹ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جذبوں اور روح کو مجروح کرتاآرہاہے تحریک کے ٹہراؤ میں ہاتھ انہی بد نیت مصلحت پسند اور مفاد پرست سیاسی پنڈتوں کے مرہوں منت ہے جنہوں نے قومی قوت کو منتشر کر کے قوم کو ان کی منزل آزادی سے دور کرنے کے لئے ہمیشہ اصلاح پسندی سے کام لیکر چار اکائیوں کی سیاست کرکے بلوچ قوم کو غلامی کا تحفہ دیئے ہیں سامراج کی گماشتگی اور اسکے عوض اقتدار میں حصہ داری ان کی سیاست کی محور و مرکز رہاہے ان کی سیاست کھبی بھی ایک آزاد وطن یا بلوچ قوم کے آزاد و خوشحال مستقبل کے لئے نہیں رہاہے وہ اقتدار میں رہ کر ہمیشہ قومی آزادی کی سوچ کو متذبذب اور مجروح کرنے کی کوشش کی ہے ان کا ریاست کے ساتھ ایک مستقبل بلاک کا جڑت اور رشتہ رہاہے جو اب تک موجود ہے لیکن مفادپرست اور انتخابی سیاست کے ٹھیکداروں نے اپنی لاکھ کوشش کے باوجود بھی بلوچ جدوجہد آزادی کے بہاؤ اور تسلسل کو روکنے میں مکمل ناکام رہے انتخابی قیادت کے علاوہ ماضی قریب اور حال میں ایسے کئی عوامل ہے جنہیں قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انہی رویوں نے بلوچ قومی تحریک میں نظریاتی و فکری یکجہتی کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا پارلیمانی قیادت تو اپنے جگہ آج ان کے اور آزادی کے جدوجہدبات کرنے والے لشکر میں ایک نمایاں اور واضح لکیر موجود ہے یا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کے درمیان ایک میکانکی دیوار اور تفریق موجود ہے لیکن اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے کہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے بعض صفوں میں اب تک پارلیمانی سوچ اور ریاستی سوچ کا زنگ برابر موجود ہے آج بھی تحریک آزادی میں سرداری نوابی قبائلی گروہی اور علاقائی فرسودگیاں مختلف شکلوں میں اپنی وجود رکھتے ہیں پوری تحریکی زمین پر گروہیت کی سوچ موجود ہے آج ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں علاقائیت کے ڈیڈھ انچ سوچ کا شکار ہیں جب کہ ان ہی رویوں کو آج ہدف تنقید بنایا جارہاہے قلم اٹھا یا جارہاہے تاکہ ان کی بیخ کنی کرکے کثیر الجہتی جدوجہد کی بنیاد ڈالی جاسکے لیکن تنگ نظری اتنی زیادہ ہے کہ اسے کچھ لوگ دشمنی سمجھ بیٹھے ہوئے ہیں آج ان ہی رویوں اور گروہی زہن کو جس چیلنج کا سامنا ہے شاید ماضی

میں ایسا چیلنج کھبی نہیں رہا آہنی ڈسپلن کے دعویداراور نام نہاد وژنری قیادت روایت پسند قبائلی سوچ رکھنے والے گروہ اور جتھے غور و فکر اور فکری مکالمہ کے اس انقلابی اور اصولی روایت کو نہ صرف اپنی شان میں گستاخی سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ یہ اسے اپنی انا پر کاری ضرب سمجھتے ہیں سوال کرنے اورتنقیدی عمل کے اس سلسلے کو وہ ایک بوجھ سمجھ کر اسے دشمنی سے تعبیر کررہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ادارے اور تنظیمیں عوام اور قوم کی جائیداد ہوتے ہیں یہ چند لوگوں کے کاسہ لیسی کے لئے تشکیل نہیں دیئے جاتے جس طرح کہ یہ لوگ ادارے ادارے اور وژنری کے قیادت کے رٹ لگائے ہوئے اداروں کے اندر ایک آمرانہ رجحان کوتقویت دے رہے ہیں کہ اگر ہم نے نہیں کا ٹا تو حلال نہیںیا پالیسوں اور طریقہ کار کی ناکامی پر بحث ومباحثہ بات چیت مکالمہ اور سوال اٹھانے اور تنقید کو تحمل اور صبر کے ساتھ سننے اور لچک پیدا کرنے کے بجائے اس کی روایت اور گنجائش بلکل ختم کی گئی ہے کسی بھی ایسے عمل کو مداخلت کا نام دیکر تیزی کے ساتھ گروہی رجحانات کی پردہ پوشی کی جارہی ہے اگربحث و مباحثہ کی روایت کا احترام نہ کیا جائے پالیسیوں پر اصلاح کی نیت سے تنقید اور انگلی اٹھانے کے بدلہ میں زاتی حملوں کے صورت میں غصہ کو اظہار بیا نا جائے تو کیا یہ سیاسی پن ہے یا کیایہ سیاسی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں ہمارے خیال میں نہیں کیا اظہار کا صرف ایک صورت ہے کہ اس کے بدلہ میں کسی کو الزام دیا جائے کسی کے زات پر حملہ کیا جائے کردارکشی اور تضحیک کی جائے میرے خلاف بانک کریمہ کا ترجمان اخباری بیان اور ایک کالم جو اخباری صفحوں کی زینت بن گئی صرف اور صرف الزام تراشی کردار کشی اور زاتی حملہ بازی تھی مجھے افسوس ہے کہ بی ایس او کی قیادت ایک ایسے ہاتھوں میں ہے جو سیاسی اخلاقیات اور اقدار سے محروم ہے جن کو سیاسی سطوروں سے بات کرنے کی جرائت نہیں جسے تنقید اور غور فکر کے نام سے ابکائی آتی ہے ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ اور ان کی وژنری قیادت اپنے ناکام پالیسیوں اور طریقہ کا رکی ناکامی سے سبق لیتے غور وفکرکرتے ہیرو ازم کے بتوں کو ٹھوکر مارتے ایک خاکسار انقلابی کی طرح اس مکالمہ کا حصہ بن جاتے لیکن وائے افسوس وہ اپنی توانیاں ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں بلوچ قومی رہنماء میر حیر بیار مری کے خلاف استعمال کررہے ہیں بلکہ اس سوچ کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو سماجی بنیادوں میں تبدیلی کی ایک کوشش ہے اس سوچ کی پزیرائی سے بانک کریمہ اور ان کے اتحادیوں کواپنا حلقہ تنگ اور محدود نظر آرہاہے اس لئے وہ مسلسل کیچڑ اچھال رہے ہیں بانک کریمہ کی سیاسی سوچ تجزیہ اور ادراک کی اہلیت یہ ہے کہ وہ اس فکری مکالمہ کو جن الفاظ میں یاد کرکے دشنام طرازی کرتے ہیں کہ ان کے اپنے الفاظ میں سے اخذکئے گئے جملے جس میں وہ کہتی ہے کہ بی ایس اوآزاد کے خلاف تنقید اور غور و فکر کے نام پر سوشل میڈیا میں جو کیمپنگ چل رہی ہے وہ صرف اور صر ف بی ایس او آزاد کو کمزور کرنے کے لئے ہیں اور جو لوگ اس مکالمہ کا حصہ ہے وہ باقائدہ تنخواہ اور مراعات کے بدلے میں ایسا کررہے ہیں لیکن زمینی حقائق اور اس پروپیگنڈہ کا اگر موازنہ کیا جائے تو معذرت کے ساتھ کریمہ بلوچ کس نچلی معیار کے ساتھ غلط بیانی کررہے ہیں تنخواہ پیسہ یا بی ایس او کے کو کمزور کرنے اور توڑنے کے تمام تر باتیں مضحکہ خیز اورمٖفروضہ ہے یہ کریمہ اور ان کی لابی کا تخیل ہے اس میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں کوئی بھی نہ تو بی ایس او کے خلاف لابنگ کررہاہے ہے نہ ہی کسی کے خلاف کمپئن چلائی جارہی ہے نہ کوئی بحران پیدا کیا جارہاہے نہ انتشاراورنہ ہی کسی کی زات کو نشانہ بنایا جارہاہے بلکہ پالیسوں اور طریقہ کار پر اختلافات موجود ہے اصولی اختلافات سے نہ ہم انکار کرتے ہیں اور نہ ہی ہم اس سے خوف زدہ ہے لیکن جن کی نظر میں دوسرے تنظیمیں یک فردی یا دو فردی ہے یا محدود پیمانے کی اتحاد یں ہے نام نہاد ہے یا کوئی ان کے لئے فرد واحد ہے لیکن وہ کیوں خوف زدہ ہے ان کی ہاں خوف تذبذب اور تضاد بیانی کیوں وہ تو ماس پارٹی ہے ان کے ہزاروں کارکن ہے وہ وژنری قیادت ہے ان کی پارٹی اور تنظیموں کی جڑیں گلی کوچوں تک ہے انہیں وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے وہ مرد آہن ہے ہیرو ازم کے ہزارون تاج ان کے سرپہ ہے۔ کریمہ بلوچ موجودہ صورتحال اور اختلافات کی نوعیت بلکل واضح ہے اس کے مشاہدہ کے لئے کسی جادوئی شبیہ کی ضرورت نہیں بلکہ سائنسی نقطہ نگا ہ کی ضروت ہے کریمہ یہ ایک رجعتی اور جنونی سوچ ہے جسے آپ اپنے تکیہ کلام سمجھتے ہیں جس طرح کے بعض جنونی کہتے ہیں ہم سب سے افضل جنتی اور مقدس ہے باقی سارے دوزخی اور گنہگار ہے بلکل وہی سوچ ہمیں آپ کے ہاں نظر آرہاہے مجموعی طور پر اس بحث کا مقصداور غور فکر کے اس سلسلہ کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں طریقہ کار کے مختلف انداز اور زاویوں کو مزید تراشنے کی ضرورت ہے تحریک کی نبض اور پرکھ کو سمجھنے کی ضرورت ہے آج ہمارے بیچ میں رہ کرکوئی اپنی نوابی کو چھوڑنے کے لئے تیا ر نہیں ہے ایک ہی مرکزیت اور ایک نیو کلیس کو تسلیم نہیں کیا جارہاہر ایک خود رو انداز میں کام کررہاہے ہر ایک اپنی ہی پالیسیوں کو تحریک کا جو ہر سمجھتا ہے کسی کو زاتی دشمنی پر قتل کرکے مخبر قرار دیکر مارنا اب معمول بن چکاہے کوئی ضابطہ اور ڈسپلن نہیں کوئی اپنی طرہ اور نوابی کے لئے تحریک کو ڈھال سمجھ کر استعمال کرتا ہے انقلابی اصولوں کے لئے کوئی اپنی نوابی اور سرداری کی قربانی نہیں دے سکتا صلاحیت محنت اور میرٹ کی اہمیت نہیں ہے عوام کو خاندانوں قبائلوں اور علاقوں میں باٹننا اور اسی ترتیب سے تقسیم اور نفرت کی نشود نماء کی جارہی ہے کوئی اگر ان پالیسوں پر سوال اٹھائے تو انہیں انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے اس عمل کو پارٹی اغراض و مقاصد کی خلاف ورزی سمجھاجاتا ہے کسی پر ریاست کی ایجنٹ کا ٹھپہ لگانا تو اب بہت آسان ہوگئی ہے کیا یہ انقلابی رویہ ہے یا رد انقلابی سوچ جو آپ اور آپ کے جتھوں کی جانب سے کیا جارہاہے ڈاکٹر اللہ نذر ایک طرف سرداروں کی خلاف بات کرتا ہے دوسری طرف سرداری رویوں کو’’سیف ایگزٹ‘‘ اور آکسیجن دینے میں دو قدم آگے ہیںآج ڈاکٹر اللہ نذر کا جھکاؤ اسی اتحاد ثلاثہ کی جانب ہے جو اپنی قبائلی سرداری اور نوابیت کے رشتوں کو لے کر قومی جدوجہد کے نام پر عوام کو فریب دے رہے ہیں سطح زمین اور زیرزمین کئی قسم کے مسائل موجود ہے لیکن فی الحال میرا موضوع بحث کریمہ کے کالم اور ان کے مضحکہ خیز اخباری بیان کے حوالہ سے ہے جس نے میرے انٹریو کے متن اور خلاصہ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی اور میرے اس انٹریو کو زاہد بلوچ کے ساتھ دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے جس طرح کا بازاری زبان استعما ل کیا گیااور میرے کردار کا موازنہ سرفراز بگٹی سے کرتے ہوئے میرے خلاف زہر افشانی کی گئی وہ قابل مذمت ہے غیر سیاسی زبان استعمال کرکے جس طرح کی سفید جھوٹ بول کر عوامی رائے کو کو گمراہ اور آلودہ کرنے کی جو کوشش کی گئی مجھے کریمہ کی کی سیاسی بصیرت کا اندازہ نہیں تھا کہ ایک قومی تنظیم کے زمہ دار یاں لیتے ہوئے کوئی اس حد تک جا سکتا ہے جس کے معلومات ناقص اور سیاسی اقدار و اخلاقیات سے نا آشنا ایک ایسے فرد بی ایس او کے باگ دوڑ کے مالک ہے جودلیل علم اور مکالمہ کے بجائے محض دروغ بیانی اور کردار کشی کو ہی سیاست اور سیاسی عمل سمجھتی ہے 29نومبر 2014کو دیئے گئے میرے وش نیوز کے انٹریو وش ٹی وی کے ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے میں نے وہاں فوجی عدالتوں کی حمایت کی ہے اور نہ ہی ریاست کے کسی بھی ادارے سے انصاف کے توقع رکھنے کا متحمل ہوسکتا ہوں جس طرح کہ کریمہ نے اپنے کالم میں مجھ سے یہ جملے منسوب کی ہے کہ میں نے فوجی عدالتوں کی حمایت ہے یہ سراسر لغو بے بنیاد اور سفید جھوٹ ہے یہ سیاست کریمہ بلوچ کو مبارک جو پنجاب کے چھپے چھپے چھان کر ان کے اداروں سے انصاف کی آس لئے جو سفر طے کئے وہی لوگ اور وہی ادارے تو ریاست کے لئے بطور سٹپنی کام سر انجام دے رہے ہیں ان کی نظر میں شاید وہ ایک نئی تجربہ اور نئی دور سے گزر رہے تھے اس لئے وہ لطیف جوہر کو بھوک ہڑتال پر بھٹاکر سردار مری کے با رہا اپیل کو ٹکرا کر انسانی حقوق کے ایک خواتیں عہدیدار کے اپیل پر لطیف جوہر کی طویل بھوک ہڑتال ختم کرکے پنجاب کی یاترا کرنے نکلے لیکن وائے ناکامی پنجاب کی رویہ میں بھی وہ ایک انچ بھی تبدیلی پید نہ کرسکی وہ ناکام اور نامراد لوٹے حیرت ہے کہ آزادی کی موقف رکھنے والے پنجاب میں جھولیاں پھیلاتے ہوئے نظر آئے جو بلوچ قومی وجدوجہد کی توہین کی مترادف ہے اس نے پنجاب جا کرنواب مری کا یہ قول بھی بھول گئے کہ پنجاب کا مزدور میرا ہم پیشہ ضرور ہے لیکن میرا ہم خیال نہیں انسانی حقو ق کی پاکستانی تنظیمیں یا پنجاب کے ترقی پسند دانشوراور تنظیمیں کھبی بھی بلوچ قوم آزادی کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ انہوں قومی آزادی کے مطالبہ کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے بلوچ قوم کی محرومی غربت معاشی تنگ دستی پسماندگی اور روٹی کے سوال کہہ کر ہمیشہ مسترد کیا ہے ان کے اور بلوچ پارلیمانی جماعتوں کے موقف میں زرہ برابر فرق نہیں معلوم نہیں کہ کریمہ بلوچ اور ان کے لابی کو پنجاب یا ترا کے لئے کیسے سبز خواب نظر آئے اور وہ کچھ اس طرح یوٹرن لئے کہ ریاست کے تابع اور مطیع اداروں کو مسیحا سمجھ بیٹھے بہر حال میرے انٹریو میں ایسے کوئی بات نہیں تھی جس طرح کریمہ نے اپنے کالم اور پریس ریلیز زمینی حقائق کو جھٹلانے کی سعی کی ہے ۔ زاہد بلوچ کے ساتھ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن زاہد بلوچ کی دشمنی کا تصور بھی نہیں کر سکتے یہ ایک پست زہنیت کا خیال ہوسکتا ہے میرا نہیں شاید کریمہ اور ان کے لابی کے لئے سیاسی اختلاف رکھنے والوں کے لئے یہی رویہ موجود ہے جو اپنی پست زہنی معیار کو دیکھتے ہوئے ہمارے لئے بھی ان کا نقطہ نظر ہوبہو ان کا اپنا نقطہ نظر بن جا تا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کریمہ اپنی زہنیت کا عکس ہم میں تلاش نہ کریںآج زاہد بلوچ ہمارے درمیان نہیں ہر صورت میں ان کی اغواء قابل مذمت ہے کوئی بھی زی شعور اور زندہ ضمیر انسان دوست وطن دوست ان کی اغواء کی حمایت نہیں کرسکتا ہم ان کی بازیابی اور سلامتی کے لئے ان تمام لوگوں کی طرح دعا گو ہے جو ان کی بازیابی کے لئے کوشش کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے زاہد کیسے اغواء ہوا اس کی حراستی بندوبست میں کس کا ہاتھ ہے زاہد بلوچ جیسے ہائی پروفائل ٹارگٹ کوکس طرح ریاست کے ہاتھوں میں دیا گیا انہیں شال کیوں اور کس لئے بھیجاگیا حالات کی حساسیت سے واقفیت کے باوجود اسے کس طرح غیر محفوظ رکھا گیا ایک مہینہ تک ان کے اغواء کے واقعہ کو کیوں چھپا گیا یہ رازداری کے کونسے اصول تھے مقصد کیا تھا ہم نے اپنے انٹریومیں جو کچھ بھی کہا وہ سب کے سامنے ہیں وہی مطالبہ کریمہ اپنی بھوک ہڑتال کیمپ کے دوران سے کرتے آ رہے ہیں ہم نے بھی وہی دہرایا ہماری لہجہ میں کونسی کرختگی کریمہ نے محسوس کی جس سے اس کے ہواس اس کے ساتھ نہیں دے رہے ہیں کریمہ آپ نے جو کچھ مجھ سے منسوب کی ہے وہ صرف الزام تراشی ہے جھوٹ ہے بہتاں ہے آج کے اس تیزتریں معلوماتی زرائع میں کسی کا بھی جھوٹ چھپ نہیں سکتا ماضی بعید اور ماضی قریب کے حدتک تو لوگ جھوٹ بول کر کسی کو گمراہ کر سکتے تھے لیکن اب شاید ایسا ممکن نہیں میں نے وش سے بات چیت میں ایسا کوئی تاثر نہیں دیاکہ زاہد کوئی مسلح کیمپ چلا رہاتھا آج بی ایس او کو جو نقصان ہواہے بی ایس او کے کارکن جو مصائب اورتکالیف جھیل رہے ہیں اس کی زمہ دار کریمہ اور ان کے وہ ساتھی ہے جو ان کے ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں کریمہ کا کہناہے بی ایس او سرفیس پہ پر امن جدوجہد کررہاہے بی ایس او ایک سیاسی تنظیم ہے اسے مسلح جدوجہد سے جوڑنا غلط ہے ان کا کہناہے کہ زاہد بلوچ شال میں سیاسی سرگرمیوں اور تنظیم کاری کے سلسلہ میں آئے تھے ٹھیک ہے ہم نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وہ بندوق بردار تھے ہم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ کہیں کوئی محاز پر کمان کرر ہاتھا جب کہ یہ تاثر خود بی ایس او کے اپنے بیانات سے ملتا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے جو اخباروں میں چھپ چکے ہیں اپنے پالیسی بیانات کے ریکارڈ پر ایک نظر کریں کہ یہ تاثر میرے انٹریو سے ملتا ہے یا آپ کی بیانات اور آپ کی سرگرمیوں سے آپ کے فرضی ناموں سے آپ کی زیر زمین ہیت سٹرکچر اور تنظیمی ساخت سے کریمہ آپ زاہد بلوچ کے حراست کے بعد اپنی پریس ریلیز کا زاویہ ایک دم سے تبدیل کرکے پر امن ہوگئے اس سے قبل کے اپنے تمام اخباری موقف کو ضرور چیک کریں کہ آپ دانستہ یا غیر دانستہ تنظیم کو کہاں لے جارہے تھے تنظیم کو کس کے لئے بطور مرسری استعمال کرتے تھے مشکے کونسل سیشن کے بعد تنظیم کے باگیں کس کے پاس تھی بی ایس او کا کونسل سیشن کس مسلح تنظیم کے پہلو میں منعقد کیا جارہاتھا بند اجلاس میں کون کوں سے لوگوں کو دعوت خطاب دی گئی تھی سیشن میں کون کس کے لئے لابنگ کررہی تھی بی ایس او کو کس کا نمائندہ اور ترجمان بنانے کی کوشش کی جارہی تھے کونسے ٹولہ اس تاک میں تھے کہ وہ بی ایس او میں اپنے منظور نظرقیادت کے حوالہ کریں آپ کی کمزور سیکورٹی کا یہ حال ہے کہ مشکے کونسل کے تمام تصاویر اور آف دی ریکارڈ اجلاس کے رپورٹ ریاست کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں زاہد بلوچ کوئٹہ آکر کیموفلاج روپ کے باوجود غائب ہوجاتاہے کیوں؟ اس کی زمہ دار کون ہے میں یا آپ کیا بی ایس او پر پابندی اور بی ایس او کو کلعدم قرار دینے کا اعلان ریاست کی جانب سے سیکورٹی تھریٹ نہیں تھی کہ آپ زاہد بلوچ کو لے کر اوپن سر گرمیان کریں اور پھر الزام ہمیں دیں اس حساس صورتحال میں زاہد بلوچ کا کوئٹہ آنا کیون اتنی ضروری تھی کریمہ بی ایس او بحیثیت ایک ادارہ ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن ہمیں آپ کی اور ڈاکٹر اللہ کی اعزازی سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں اب بی ایس او کے اندر سے آپ کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں آپ اور آپ کی پالیسیون اور متنازعہ کردار نے بی ایس او کو بند گلی میں کھڑا کرچکی ہے کانسٹیوٹشنل بلاک بن چکاہے وہ آپ کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے آپ نے بی ایس او کو یرغمال بنایا ہے اب آپ کے بی ایس او کے قیادت کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں رہا آپ نے بی ایس او کو جس بحران اور تبائی سے دوچار کرچکے ہی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی بی ایس اوآزاد کے مخلص کارکن اور کیڈر آپ کے قیادت سے بغاوت کررہے ہیں آپ جس ادارہ سے وابسطہ ہے وہان سے ٹوٹل بی ایس او آپ کے ہاتھوں سے نکل چکاہے گنتی کے چند لوگ آپ کے گرد جمع ہے ہمیں الزام دینے سے پہلے آپ بی ایس او کو بحیثیت ادارہ جواب دہ ہے کریمہ بلوچ آج بی ایس او کو کوں کمزور کررہاہے اور کون بی ایس او کا دفاع کررہاہے یہ سب عوام کے سامنے ہیں پارلیمانی پارٹیوں سے جان خلاصی کے بعد آج بی ایس او پھر پاکٹ بن چکاہے پہلے یہ ریاستی پارٹیوں کے لئے بطور ونگ کام کرتا تھا آج اسے ڈاکٹر اللہ نذرا ور ان کے رفقاء حاشیہ بردار اپنے لئے باجگزار کے طور پر استعمال کر رہاہے حقائق کو کھبی بھی جھٹلا یا جاسکتا اور دوسری بات یہ کہ آپ کا کہناہے کہ زاہد بلوچ کے ساتھ ہماری کوئی ضد یا اختلاف ہے اور اسی سبب کو لے کر میں زاہد کامخالف ہوں کیونکہ انہوں نے بلوچ وطن موومنٹ کی رکنیت ختم کردی تھی اس لئے اس کے ساتھ میرا ضد یا اختلاف زاتی نوعیت کا ہے لیکن بانک کریمہ مجھے آپ کی ایمانداری پر شک ہے فرد واحد کے پاس جواز کیا ہے کہ وہ کسی الائنس سے کسی تنظیم کے رکنیت ختم کردے یہ حق اور یہ فیصلہ فرنٹ کا ضابطہ اخلاق نہ تو فرد واحد کو دے سکتا تھا اور نہ ہی کسی آئین یا قانوں کے روسے اس کے پاس ایسا کوئی اختیار تھا میں اس وقت ہدہ جیل میں تھا کہ آغا الطاف کے گھر قلات میں زاہد بلوچ نے بشیر عظیم کے ساتھ ایک اجلاس میں یہ تجویز پیش کیا کہ بلوچ رائٹس کونسل بلوچ وطن موومنٹ اور بلوچ بار کونسل کو اتحاد سے فارغ کردیا جائے لیکن بشیر عظیم الائنس کی کلیدی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود زاہد کے اس تجویز کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اسے فرنٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس تجویز پر اتفاق نہیں کیا لیکن خلیل اور ان کی لابی کا مسلسل اسرار تھا کہ ان کی پارٹیوں کی رکنیت فوری طور پر ختم کیا جائے زاہدپر دباؤ ڈالا جارہاتھا کہ وہ فرنٹ لائن کا کردار اداکرے بعد میں اسی اجلاس کو جواز بناکر غیر آئینی طریقہ سے بلوچ وطن موومنٹ اور رائٹس کونسل کوا لائنس سے علیحدہ کیا گیااور یہی سے بلوچ نیشنل فرنٹ جنازہ نکالا کیا گیا تاریخی اتحاد ٹوٹ کر تقسیم ہوگئی اور آج دو فریقی اتحاد کو بلوچ نیشنل فرنٹ کا نا م دیکر قوم کو فریب دیا جارہاہے کریمہ کا کہناہے کہ بلوچ وطن موومنٹ فرنٹ کے مقررہ کردہ معیار پورا نہیں اترتا تھا تو کیا زاہد اور کریمہ غلام محمد سے زیادہ سیاسی بصیرت رکھتے تھے نواب مری سے زیادہ مدبر دور اندیش اور داناتھے غلام محمد اور خیر بخش مری سمیت اس وقت کے بی ایس او آزاد کے چیرمیں بشیر زیب بلوچ نے بلوچ وطن موومنٹ کوقبول کیا بی آرپی سمیت فرنٹ میں شامل تما م اتحادی پارٹی تنظیموں کے لئے بلوچ وطن موومنٹ قابل قبول تھا کیا زاہد بشیر زیب سے زیادہ سیاسی طور پر پختہ اور فہم و فراست کے مالک تھے جب کہ بشیر زیب غلام محمد اور جملہ اتحادی پارٹی اورتنظیموں کے لئے بلوچ وطن موومنٹ قابل قبول لیکن ڈاکٹر اللہ نذر خلیل اور منان کے لئے میں قابل قبول نہیں تھا اور اسی وجہ سے بی ڈبلیوایم ست دو دیگر تنظیموں کو اتحاد سے الگ کیا گیااول اول تو ہم پر دباؤ ڈالاگیا کہ ہم اپنی تنظیموں کو بی این ایم میں ضم کریں اور ہم نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے یہی آخری حربہ مناسب سمجھ کر فرنٹ کے ٹکرے ٹکرے کردیئے کیونکہ بلوچ نیشنل فرنٹ کسی بیرونی مداخلت کے قائل نہیں تھے اور ہم ڈاکٹر اللہ نذر کو فالو کرنے کے بجائے تمام سٹیک ہولڈرز کے سیاسی و اخلاقی حمایت کا حامی تھے میں اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھا اور بلوچ نیشنل فرنٹ بابت سیاسی سرگرمیوں پر میرے خلاف درجن بھر مقدمات تھے میرے اوپر کل12مقدمات عائد کئے گئے تھے جن میں تین مقدمہ ختم ہوگئے ہیں اور باقی مقدمات میرے اوپر اب بھی عائد ہے میرے وکیل ظاہر بلوچ اس کا گواہ ہے کہ حسا س اداروں کی طرف سے باقائدہ ان جلسوں کی سیڈیز اور میرے تقریروں کی ویڈیو ریکارڈنگ عدالت میں پیش کی گئی تھی میرے اوپر تین قسم کے فوجداری مقدمہ تھے لیکن وہ عدم ثبوت کے وجہ سے وہ ختم ہوگئے باقی سیاسی مقدمات اب بھی میرے اوپر قائم ہے جب کہ ہم کیسے فرنٹ کے معیار پر پورا نہیں اترتے پھر زاہد کی ہٹ دھرمی دیکھئے کہ انہوں نے فرنٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچ نیشنل فرنٹ کے کابینہ اور ایگزیکٹو باڈی کو مکمل بائی پاس کرکے ہمارے خلاف انتقامی کاروائی کرکے فرنٹ کے دو کلیدی اورنتظامی عہدوں کو ایک دوسرے میں بانٹ کر بلوچ نیشل فرنٹ کا نام استعما ل کیا انہوں نے جس مہم جوہانہ انداز میں عہدوں پر براجمان ہوگئے اس کی روایت مثال میں بھی نہیں ملتی کوئی ان سے پوچھے کہ جب بلوچ نیشنل فرنٹ کے پورے بلوچستان میں جلسوں اور عوامی موبلائزیشن کا سلسلہ جاری تھا تیزی سے ہم اور ہمارے ساتھی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے ہم ان لوگوں سے پوچھنے میں حق بجانب کہ منا ن زاہد اور خلیل اس وقت کہا ں تھے جن مشکلات میں ساتھی کام کررہے تھے سردی گرمی دھوپ اور تکالیف اور انجام کا پرواہ کئے بغیر ہم زمین پر موجود تھے لیکن یہ لوگ کہاں تھیں وہ کیوں اس وقت پر اسرار طور پر غائب تھے پورے بلوچ قوم جانتا ہے کہ فرنٹ کو فعال کرنے میں کس نے کردار اد کیا جلیل ریکی اور ثنا ہ سنگت کو شہید کردیئے گئے صادق رہیسانی پر مقدمات قائم کئے گئے مجھے جیل میں ڈال کر میرے اوپر مقدمات قائم کئے گئے لیکن دوسری طرف باہر سے ریاست کے کام آسان کرنے کے لئے ہمیں فرنٹ سے علیحدہ کیا گیا حالانکہ ہمیں نکالنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا جن لوگوں نے ہماری پارٹیوں کی رکنیت ختم کئے بلوچ نیشنل فرنٹ میں ان کی کسی قسم کی زمہ دارانہ حیثیت نہیں تھی نہ وہ تو کلیدی عہدوں پر فائز تھے اور نہ ہی بااختیار چور دروازے سے آکر بلوچ نیشنل فرنٹ کو ہائی جیک کیا گیا ہمارے لئے دوفردی فیصلہ قابل قبول نہیں تھا فرنٹ چھ پارٹی اور تنظیموں پر مشتمل اتحاد کا نام تھا جس کا باقائدہ آئینی ادارہ موجود تھا اس سے ہٹ کر دوفردکی ہٹ دھرمی ضد اور چالبازی کا کوئی آئینی اور اصولی جواز نہ تھا نہ انہیں فیصلہ کا حق فرنٹ کا دستور دیتا تھااور نہ ہی ان کے پاس کوئی اورجواز ہم نے ابتداء ہی میں میڈیا کو اپنی پارٹی پالیسی جاری کردی تھی کہ بلوچ نیشنل فرنٹ کے نام سے جس اتحاد کا نام لیا جارہا ہے اس کی آئینی اور زمینی جواز کچھ نہیں فرنٹ اپنی اتحادی حیثیت کھو چکی ہے فرنٹ کے نام پر اب کوئی اتحاد وجود نہیں رکھتاجو لوگ فرنٹ کا نام لے کر اسے قومی محاز کا نام دیتے ہیں وہ رائے عامہ کیساتھ جھوٹ بول رہاہے اسی طرح آگے چل کر کریمہ اپنی آرٹیکل میں یہ کہتے ہوئے جھجک تک محسوس نہیں کرتے اور کہتی ہے کہ بلوچ سالویشن فرنٹ سرفیس پر وجود نہیں رکھتاہمیں اس پہ حیرت نہیں المیہ یہ ہے کہ یہ شروع ہی دن سے بلوچ سالویشن فرنٹ کے مخالفت کررہے ہیں بلوچ سالویشن فرنٹ کے وجود اور سٹرکچر سے انکاری ہے حالانکہ بلوچ سالویشن فرنٹ ان ہی کی شتر بے مہا رویوں کے بعد قیام عمل میں لائی گئی گوکہ بلوچ سالویشن فرنٹ ایک وسیع قومی اتحاد نہیں محدود پیمانے کا اشتراک عمل ہے ایک عظیم اور وسیع تر عوامی و قومی اتحاد یا متحدہ محاذ جیسے دعووں سے بالاتر ہوکر ہم ایک محدود سطح پر اشتراک عمل سے آگے بڑھ رہے ہیں ہیں سوشل میڈیا میں کریمہ اور خلیل کے سائبر ٹیم کی طرف سے ہماری خلاف جو کمپیئننگ کی گئی جس طرح سوشل میڈیا کو مچھلی بازار بنایا گیا کیا ہمارے خلاف زاتی حملہ کئے گئے ہماری کردار کشی کی گئی کیا وہ انہی رویوں سے باور کروارہے ہیں کہ وہ قوم کے لئے رول ماڈل ہے کیا وہ اسی طرح کی جملے کسنے اور بازرای زبان استعمال کرکے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ قوم کے بڑے چیمپئن ہے ان کے سیاسی اور زہنی معیار کا عالم یہ ہے کہ وہ بنیادی انتظامی اور اصولی تضادات پر پردہ ڈال کر اپنی گروہی سوچ کو مزید منظم اور تقویت دینے پر کاربند ہے جو لوگ صلاحیت محنت اور جفاکشی کے بجائے ہجوم کی پیداوار ہوتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے اسے سیاست کے نبض اور پرکھ کا علم نہیں ہوتا وہ اجارہ داری کے سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں یاد رہے کہ بلوچ سالویشن فرنٹ نمبر سکورنگ کے گیم یا کسی ریس دوڑ یا مقابلہ کے لئے نہیں اور نہ ہم الیکشن لڑنے جارہے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بہت بڑے ہجوم ہو ہمارے دائیں بائیں لوگ زندہ باد اور مردہ باد کا نعرہ لگائیں ہمیں بلوچ عوام کی مہر و محبت حاصل ہے عوام کی بھر پور ہمدریاں اور والہانہ محبت ہمیں حاصل ہے ہمیں عوام کی قوت پر بھروسہ ہے ہم نے یہ دعوی تک نہیں کیا کہ ہماری جڑیں وسیع تر سماجی بنیادوں تک پھیلے ہوئے اور بد قسمتی سے یہ اعزاز کسی بھی بلوچ آزادی پسند پارٹی اور تنظیم کو حاصل نہیں بی این ایم کی ظاہری پبلسٹی اپنی جگہ لیکن اندورنی طور پر کھوکھلا ہے کہیں علاقوں میں ان کے سٹرکچر موجود نہیں ماسوائے مکران کے چند علاقوں کے دوسرے علاقوں میں ان کے تنظیم کاری کاغذی کاروائی تک محدود ہے اور یہی حال بی ایس او کا ہے اس حوالہ سے جو کمزوریا ں موجود ہے ان کمزوریوں سے کوئی پاک نہیں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کو جو بھیڑ اکھٹا کیا جاتا ہے کیا یہ ہجوم یا بھیڑ قومی نظریات سے مکمل لیس ہے یا یہ عوام کی نجات دہندہ تلاش جذبوں سے فائدہ اٹھا کر صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ عوام کا سمندر ان کے پاس ہے کیا یہ بھیڑ ان کا مین سٹریم پاور ہے یانظریاتی یا معیاری طاقت شاید ایسا نہیں مجھے بانک کریمہ کی غیر دانشمندانہ سوچ اور سیاسی بصیرت پر افسوس ہے کہ وہ ابھی تک فردی اور انفرادی الجھنوں کی سیاسی حصارسے نہیں نکلے ہیں اسے بلوچ سالویشن فرنٹ دو فردی نظر آتا ہے میر حیر بیار مری کی حیثیت ان کی نظر میں انفرادی ہے ادارے تنظیم پارٹیاں اور عسکری مزاحمتی طاقت صرف ان کے پاس ہے باقی سارے فرد ہے بلوچستان لبریشن چارٹر کو اس لئے مسترد کیا جاتا ہے کہ میر حیر بیار کی کوئی پارٹی نہیں بی ایس ایف کی وجود سے اس لے انکاری ہے وہ پیرو کاری کی بجائے خود کاری کے فلسفہ پر یقین رکتاہے کم یا زیادہ دو یا چار کوئی فرق نہیں نظریاتی معیار میں بڑھوتری ناگزیر طور پر تنظیم کی بڑھوتری ہے ہم نے پہلا قد م اٹھایا یا ہے جدوجہد ایک بڑی چوٹی اہے اس کو سر کرنے کے لئے اگلے قدم بھی حوصلہ اور عزم کے ساتھ چلیں گے کریمہ کو چاہیے کہ وہ اپنی اداروں کو شخصی تسلط کی چھاپ سے نکالیں ہیروتراشی کو بند کریں کریمہ کی معلومات کے لئے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بلوچ سالویشن فرنٹ تین تنظیموں کا اتحاد ہے اس میں بلوچ وطن موومنٹ بلوچستان انڈیپیندنس موومنٹ اور بلوچ گہار موومنٹ شامل ہے یہ تنظیمیں باقائدتنظیمی سٹرکچر بھی رکھتے ہیں بلوچستان انڈیپیندنس موومنٹ شال زہری اور قلات میں باقائدہ فعال ہے اسی طرح بلوچ گہار موومنٹ جو نوشکی شال اور خضدار میں تنظیمی ساخت رکھتا ہے جبکہ بلوچ وطن موومنٹ کے شال زہری اور مستونگ میں زونل کابینہ اور یونٹ موجود ہے کئی دیہی علاقوں میں بلوچ سالویشن فرنٹ سرگرم اور متحرک ہیں الیکشن بائیکاٹ کے خلاف بلوچ سالویشن فرنٹ رخشان اور جہالاواں سمیت سراوان کے بعض علاقوں میں الیکشن کے خلاف مہم چلائی چاکنگ کی اور پمفلٹ تقسیم کی حتی کہ پنجگور اور تربت میں بھی بلوچ سالویشن فرنٹ کے جانب سے پمفلٹ تقسیم کئے گئے کیا یہ کا م صرف دو فرد کرسکتے تھے ہم یہدعوی نہیں کرتے کہ ہم بڑے پارٹیاں ہیں ہمارا تحریک میں ایک معمولی سی کوشش اور کنٹریبیوشن ہے ہم بی این ایم کی طر ح بھڑک بازی نہیں ہی کرتے بلوچ سالویشن فرنٹ کے قیام کے بعد سے 27 مارچ اور 13نومبر کے شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال پر عوام کی بھر پور لبیک بلوچ سالویشن فرنٹ کے مظاہروں میں سینکڑون کی تعداد میں لوگوں کی شرکت کیا یہ بلوچ سالویشن فرنٹ کی وجود کی علامت نہیں کیا کریمہ اور ان کے ٹیم اس طرح مضحکہ خیزہتھکنڈوں سے زمینی حقائق کی شکل و ہیت تبدیل کرسکیں گے کسی کی زات پر حملہ اس کی پگڑی اچھالنے اور اس کی تضحیک کی کوششوں سے تضادات پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے کیا غیر اہم یشوز کو ابھار کرصولی اور انتظامی نوعیت کے تضادات سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات کو مزید پیچیدہ نہیں بنا یا جارہاجن معاملات پر بات کرنے کی ضرورت ہے ان سے راہ فرار کا مقصد کیا ہوسکتا ہے اس احتسابی سوچ کی راہیں مسدود کرکے وژنری لیڈرز کو ’’سیف ایگزٹ‘‘ دینے کا حاصل وصول کیا ہوگاکیا موجودہ مسائل کی سیاسی اور سماجی مضمرات نقصانات کو انداز کرکے محض ہٹ دھرمی سے کوئی مسئلہ حل ہوگا