کانٹوں سے سجی ہوئی پر خار درد بھری دشوار گزار سفر پر چلنے والے مسافر انسان کو کوئی پاگل بے وقوف کوئی جاہل کوئی گمراہ ہی کہے گا ، میری رائے کے مطابق پاگل پن ، جاہلیت، مست گمرائیت کی آخری حد بھی ہو لیکن موت قبول کرنا گہوارہ نہیں ہوتا، گلی شہروں میں گھومنے پھرنے والے گالی گلوچ دینے والے پاگل بھی موت سے ڈرتے ہیں جتنا بھی پاگل ہو آگ یا پانی میں کھودنا گہوارا نہیں کرتا پھر یہ پاگل انسان کون جو اپنے پاگل پن کی وجہ سے موت کو آغوش میں لینا اپنے لئے فخر محسوس کرتے ہیں پھر یہ تو پاگل عاشق ہوتے ہیں عشق یعنی گھر کا عشق نہیں پیسے کا عشق نہیں گھر والوں کا عشق نہیں ،سیرتفریح کا عشق نہیں ،ماں باپ خاندان والوں کا عشق نہیں ،نوکری روزگارکمائی کا عشق نہیں بلکہ وطن کی عشق ، میں اپنی قلم کی نوک سے مادر وطن کی ایک سچے عاشق کی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اسے میں اپنے آپ سے زندگی میں بہت قریب سے پایا تھا وہ عاشق وہ بہادر وغیرت مند اور کون ہوسکتا ۔ نوشکی کی گلیوں میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس کے فیصلوں اور مستقبل کے حوالے سے نوشکی بھی بے خبر تھا جب اس بچے کا جنم ہوا تو نا جانے باپ نے کیا سوچ کر حق نواز نام رکھا ہوگا جب لڑکپن میں داخل ہوا یہ دور کسی بچے کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں لیکن تم تو عام بچوں سے زراہٹ کے تھے تمہارے عمر کے بچے نوشکی کے گلیوں میں فٹبال کرکٹ کھیلتے ہیں اور تم شہید فدا ، شہید حمید کے تصاویر کو سینے سے لگا کر سوتے جب شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کی خبر ہر طرف پھیلی تو باقی بلوچوں کی طرح تم بھی اپنے جذبات کو کنٹرول نہ کرسکے اور گھر سے نکلنے ،اپنی بساط کے مطابق دشمن کو نقصان دینے لگے تمہیں دیکھ کر کہتے کہ تم بچے ہو گھر جاؤ لیکن ان کی باتوں کو ان سنی کرکے اپنے کام مصروف ہوتے ،اس کے بعد بی ایس او (آزاد) میں شمولیت کی تو دن رات تنظیمی کاموں میں ایک کرتے تھے ہر کال پر حاضر تھے جب دشمن نے تمہیں مسلسل کام کرتے دیکھا تمہاری مخلصی کو بلوچ قوم کے ساتھ دیکھ کر تم پہ جھوٹے قتل کا مقدمہ کر ڈالا اس مقدمہ سے بھی بور جان نہیں گھبرایا بلکہ اپنے ارادے کو مزید مضبوط کی اور بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھایا تمہاری بہادری کا دشمن کو اچھی طرح اندازہ تھا اس کے بعد نوشکی میں جتنے بھی تنظیمی کام ہوئیں ان کے اکثر ایف آئی آر تمہارے نام درج ہے میرے دوست بلوچ سرزمین بانج تو نہیں لیکن تمہارے بعد نوشکی میں بی ایس او کو تمہاری طرح کا زونل صدر اور بی ایل اے کو بہادر سرمچار نہیں ملا۔ سنگت تم نے زندگی کو اچھی طرح دیکھا تک نہیں تھا کہ وطن نے قربانی کی آواز دی اور تم نے بے دھڑک مادر وطن کی آواز پر لبیک کہہ کر امر ہوگئے تم میں ذاتی غرض نہیں تھا زندہ رہنے کا لالچ نہ تھا نہ اپنے دشمن کو آرام کرتے ہوئے دیکھتے تو پریشان ہوتے حکمت عملی بنا کر دشمن پر حملہ کرتے تو تم خود ہر حملے میں پہلے صف میں ہوتے بولان ہو یا قلات پارود میں یا نوشکی ہو جہاں بھی دوست آپ کو بھیجتے آپ کامیاب ہوکر لوٹتے تم تو بنے تھے دشمن کو برباد کرنے کے لئے ، حق نواز جان 19فروری کو بھی پہلے مورچے میں تھا بزدل دشمن بھیس بدل کر اندر داخل ہونا چاہتے تھے لیکن حق نواز جان نے اسے ناکام بنا دیا دوستوں کی حفاظت کی اور خود قربان ہوگیا بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بے غرض ہوکر بغیر کسی لالچ کے جیتے ہیں اور وہی اس راستے میں کامیاب ہوتے ہیں کامیاب بھی حق نواز، حئی، امیر ، گزین اور شیرا جیسے سنگت ہوتے ہیں ایسے تو نام کے بہت سے آئے ،کسی نے کہا کہ میں فدا ہوں لیکن فدا ہین نہ بن سکا ،کسی نے کہا میں زبیر ہوں لیکن پھلین زبیر نہ بن سکا کسی نے کہا میں پھلین ہوں لیکن وطن پر قربان نہ ہوسکا ،کسی نے کہا کہ میں بابو ہوں لیکن وفا نہ کرسکا ،حق نواز جان تمہارے بعد بہت سے آئے گئے لیکن ان میں سے حق نواز کوئی نہ بن سکا آج بھی آنکھیں نوشکی کے راستوں پر لگے ہیں کہ شاہد کوئی حق نواز آئے گا اور امید ہے کہ ایک نہ ایک دن وہی حق نواز وہی سوچ وہی کام کا جنون وہی مادر وطن سے عشق کا جنون لیکر ضرور آئے گا۔ آج دوست تمہیں گزرے دو سال ہوگئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے کہ ہم سب ایک ساتھ تھے آج جب ان راہوں سے ان گزرگاہوں سے گزرتا ہوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم اب بھی ساتھ ہو ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر چڑتا ہوں تو تمہیں ساتھ پاتا ہوں ہر لمحہ ہر پل تم یاد آتے ہو تمہاری دوستی تمہارا خلوص تمہاری بہادری آج بھی یاد ہے سنگت تم نے تو وطن سے وفا کی اور مکمل ہوگئے۔ ٓٓآج بھی یاد ہے شہید حئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشن بیرگیر کو انجام دینے کے سلسلے میں شہید ہوگئے تو کام کے سلسلے میں شہر گئے ہوئے تھے جب تمہیں اطلاع ملی کہ حئی شہید ہوا ہے تو تم سب کام چھوڑ کر کیمپ چلے آئے اور حئی کی شہادت پر بہت افسردہ تھے اکثر سوچوں میں گم رہتے تھے حئی جان کی شہادت کے چار ماہ بعد دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی میں سنگت حق نواز بھی شہید ہوگئے سنگت تمہاری فکر آج بھی زندہ ہے لیکن کبھی کبھی اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے کہ مجھ جیسا کمزور انسان کم سوچ رکھنے والا شخص کم ہمت کو تم جیسا دوست ملا تھا۔