حالیہ دنوں سننے کو بہت مل رہا ہیں کہ پاکستان کی معیشت تاریخ کے نچھلے ترین سطح تک پہنچ چکا ہے جو کہ پاکستان اپنے کچھ نام نہاد دوست ملکوں اور عالمی مالیاتی ادارے یعنی IMF سے قرضہ لے کر اس بحران پر قابو کرنا چاہتا ہے معاشی بحران اس وقت اتنا شدید ہے کہ میڈیا میں سننے کو مل رہا ہے وزیر خزانہ خود اس بات کی اعتراف کر رہا ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس قدر پریشان ہے کہ اس نے صبح سویرے walk پہ جانا بند کیا ہے۔ معاشی بحران کی شدت اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے چھ ارب ڈالر کے لیے اپنے ہی پارٹی کے سارے کارکنوں کو IMF کے کہنے پر برطرف کیا اور اسی کے سارے لوگوں کو ٹاپ پوزیشن پر بٹھا دیا جن میں حفیظ شیخ ( مشیر خزانہ)، باقر شاہ (گورنر سٹیٹ بینک) اور شبر زیدی ( چیئرمین ایف بی آر قابل ذکر ہیں- اس آرٹیکل میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت کس قدر نیچے گر کئی ہے اور اس کا بحران کتنا شدید ہے سب سے پہلے اگر اس وقت پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ گردشی قرضوں کو دیکھی جائے تو یہ سب اس وقت تاریخ کے بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو اس سال 9.2 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں اور اگلے پانچ سال تک 37 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے جو یقیناً پاکستان کے لیے ناممکن ہے کیونکہ اس وقت اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کے نچھلے ترین سطح پر ہیں یعنی 10 ارب ڈالر سے کم، اور یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے اس وقت 90 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں- دوسری سب سے بڑی مسئلہ اس وقت مہنگائی ہے جو رمضان کے مبارک مہینے کے آنے کے بعد اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پٹرول، گیس، بجلی، اشیائے خورد و نوش اور دیگر روزمرہ کے ساز وسامان کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے- معاشی ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ افراط زر کی ہے جو 2013 سے لیکر 2019 میں 10 فیصد سے بھی نیچے گر گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی مزید بڑھنے کے امکانات ہیں، اگلے مہینوں یا سالوں کے اندر یہ حیران کن حد تک بڑھ سکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ پاکستانی روپے کی قدر اور ڈالر کے قیمت کی ہے۔ اس معاشی سال کے بعد ڈالر نے کئی مرتبہ اونچی اڑان بھری ہے جو اس وقت تاریخ کے بلند ترین سطح یعنی ایک ڈالر153 روپے کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب چونکہ پاکستان اور IMF کے درمیان مذاکرات ہو گئے ہیں اور پاکستان کو شرائط تسلیم کرنے ہیں تو ڈالر کی قیمت اور بھی بڑے گا تقریباً ایک ڈالر 170 تک جانے کا امکان ہے، جو یقیناً پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ اسکے بڑھنے سے گردشی، اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو گا- دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ اگلے تین سالوں میں عام لوگوں سے 340 ارب روپے ٹیکس جمع کرنا ہے اور اس آنے والے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے محصولات بھی لگانی ہے۔ اسکے علاوہ IMF اس بات کو ماننے سے بھی انکاری تھا کہ 4700 ارب ٹیکس collection ہو جائے بلکہ یہ 5200 یا 5300 محصولات لگانا چاہتے تھے۔ اس سارے معاملات کو دیکھنے کے لیے IMF نے اپنے لوگ وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور FBR کے ٹاپ پوزیشنوں پر بٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر بھی ماہرین معیشت کا کہنا ہے یہ سب کچھ پاکستان کی بیمار اور معزور معیشت کے بس کی بات نہیں ہے۔ ادھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں لے جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے جسکے آنے والے اجلاس اس سال جون میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہو رہے ہیں۔ اگر اس نے عالمی طاقتوں کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا تو پاکستان کی معیشت ختم ہو سکتی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کار اور ریاستیں یہاں سرمایہ لگانے اور تجارت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات روز بروز ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔اگر حکومت نے subsidies ختم کیے جو عالمی مالیاتی اداروں کی ڈیمانڈ تھی تو اس سے عام لوگوں پر بوجھ اور بڑے گا اور وہ اپوزیشن کی احتجاج میں بھر پور حکومت کے خلاف شرکت کر سکتے ہیں جو عید کے بعد متوقع ہے جو پاکستان کے لیے ایک وارننگ اور سیکورٹی مسئلہ ہو گا۔ اسکے علاوہ پاکستان کے stock exchange مارکیٹ میں اس وقت شدید مندی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں اس میں مسلسل مندی کا رجحان ہے۔ 8 اور 9 مئی میں سرمایہ کاروں کے 120 اور 39 ارب روپے ڈوب گئے۔ 13 اور 14 مئی میں بھی 1 کھرب 81 ارب 32 کروڈ اور 19 ارب بھی سرمایہ کاروں کو نقصان ہوا۔ اس غیر یقینی صورتحال میں مجموعی طور پر نقصان پاکستان کی مجموعی معیشت اور اسکے قومی خزانے کو ہے اب چونکہ پاکستان نے loan لیے ہیں تو اسکو عالمی مالیاتی ادارے کی سارے شرائط تسلیم کرنے ہیں جس سے مہنگائی مزید بڑے گی اور جس سے ایک عوامی احتجاج،سماجی انارکی کی لہر انقلابی صورت میں اٹھ سکتا ہے جو خود بخود اس مصنوعی اور قابض ریاست کے لیے ایک اسٹریٹجک threat ہو گا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں جو کسی بھی وقت جنگ کی باعث بن سکتی ہے۔ گزشتہ مہینوں میں انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان نے گٹھنے ٹھیک دیے تھے کیونکہ اسکی معیشت اتنی بدحال ہے کہ یہ جنگ کرنا تو دور کی بات وہ تو جنگ کرنے کے سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح افغانستان سے تعلقات بھی بہت خراب ہیں کیونکہ افغانستان کے مطابق پاکستان طالبان کی مدد کر رہا ہے جو کافی حد تک درست بات ہے ۔ آج کل ایران ( جو بلوچستان کے مغربی حصے پر قابض ہے) بھی تھوڈا ناراضگی دکھا رہا ہے لیکن اسکے پاکستان کے ساتھ دور رس مفادات بھی وابستہ ہیں وہ شاید حملہ نہ کرے۔ اگر معاملات کشیدہ ہوئے تو وہ سب سے پہلے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی بات کریگا جو ابھی کر رہا ہے کہ پاکستان کو 2015 سے روزانہ کی حساب سے 10 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ مندرجہ بالا باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مقبوضہ بلوچستان (مشرقی بلوچستان) کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ جائے گا کہ بلوچستان کی جاری شورش اور بلوچ آزادی کی تحریک میں حالیہ دنوں شدت آ گیا ہے ان کے حملوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ریلوے ٹریک، بجلی کے کھمبوں، گیس پائپ لائنوں، قابض فورسز اور اس کے معاون کاروں اور سی پیک پر معمور اہلکاروں اور اسکے معاون کاروں اور دیگر سرکاری تنصیبات پر حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہیں۔ جو پاکستانی کی سکڑتی ہوئی معیشت کے لیے ایک سرخ لکیر ہے۔ مہزب دنیا کے لیے پاکستان کو شکست دینا اب وقت کی ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں نظر آ رہا ہے لیکن اس سب کے لیے خطے کی ریاستوں اور قوموں خاص طور پر بلوچ قوم کو اپنے قومی مسئلوں میں متفق اور متحد ہونا پڑیگا۔ کیونکہ اتفاق و اتحاد ہی بلوچ کو آزادی دلا سکتی ہے وگرنہ ہم دنیا کے دوسرے محکوم قوموں کی طرح بس تاریخ کے صفحات میں رہ جائینگے ہمارا وجود اس دنیا میں نہیں ہو گا۔ اتحاد کے لیے میرا ذاتی رائے یہ ہے کہ بلوچوں کو پہلے اپنے خارجہ پالیسی پر متفقہ قرارداد منظور کرنی ہے اور اسکے بعد سیاسی و عسکری سطح پر تمام پارٹیوں اور سیاسی ورکروں کے نقطہ نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہو گی جس سے آگے کی پالیسیاں واضح ہو۔ اس وقت بلوچستان لبریشن چارٹر BLC موجود ہے جو بلوچستان کی آزادی کے لیے ایک روڈ میپ ہےاس پر عمل کیا جائے۔ اگر جن لوگوں کو اس پر اعتراض ہے تو اسکو amend کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہو جانا ہے۔ اور اسکو amend کرے ۔ BLC میں صاف طور پر لکھا ہے اگر بلوچ قیادت کی اکثریت چاہے تو اسے 99 فیصد تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے سوائے اسکے دو شکوں ( آزادی اور جمہوریت والی)۔ حرف آخر میں عرض ہے کہ یہ ساری باتوں کے عملدرآمد کے لیے بلوچ پارٹیوں اور اسکے تمام ورکروں کو ایک ساتھ جمع ہو کر اس پر سوچنا اور آگے کا ایک متفقہ راستہ نکالنے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ اگر مسائل ڈسکس نہیں ہونگے تو وہ نہ صرف مزید پیچیدہ ہونگے بلکہ مستقبل میں کسی طرح بھی حل نہیں ہونگے اور ایک دوسرے کے اندر دوری کے سبب بنیں گے جو ابھی بلوچستان کے تحریک کے اندر نظر آرہے ہیں۔