کوبانی کی حالیہ واقعات سے یہ بات ثاب ہوئی ہے کہ جب کرد چاروں اطراف سے متحد ہونگے تو کامیابی ان کی قدم چھومے گی۔ کسی بھی سوسائٹی میں متضاد نظریے اور مختلف پارٹیاں شدید اختلافات کے سبب بنتے ہیں، اور یہی صورتحال دنیا میں ہرجگہ سیاست میں پائی جاتی ہے۔ جب الیکشنوں کا وقت آتا ہے تو مہینوں پہلے ایک دوسرے کو بدنام کرنے جیسے مہم اور محاذ آرائیاں شروع ہوجاتیں ہیں جیساکہ آج کل برطانیہ اور ترکی میں ہورہا ہے۔ گر چہ کرد آزادی کی خواب بننے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں مگر اتحاد جیسا شے ان کے ہاں ناپید ہے۔ مگر پھر بھی تمام تباہیوں کے باوجود امید کا ایک کرن اب بھی ہے۔ صرف ایک دفعہ کردستان کے تمام بڑے فرقوں کے سرمچار کوبانی کے محاذ پر یکجاہ ہوکر لڑے۔ عراقی کردستان کے دونوں دھڑوں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (کے ڈی پی) اور (پی یو کے) نے کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے )، ڈیموکرٹیک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) اور سب سے خطرناک اور مضبوط پارٹی پیپلز پروٹکشن یونیٹس (وائی پی جی) نے مل کر اس جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ قوتوں کے اس مشترکہ محاذ نے جنوری کے آخر میں داعش کے جہادیوں کو کوبانی سے بے دخل کیا۔چارماہ کی اس سفاک جنگ نے تمام دنیا کی توجہ اپنی طرف مبزول کروایا، اور صرف اس دفعہ کرد کا مسئلہ مثبت انداز میں واپس دنیا کے میڈیا کی ہیڈلائن بن گئی۔ ISIS داعش دنیا کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے، اور کردوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ انہیں شکست دینے کا مرکزی کردار کا حامل ہیں۔ 2014 میں اپریل کے مہینے اسلامی ریاست نے کردوں کی قدیم مذہبی فرقہ یزیدی آبادی کا قتل عام کیا ، ہزاروں کے حساب میں لوگ مارے گئے۔ اس قتل عام سے بچنے کی غرض سے جو یزیدی اپنا علاقہ گھر بار چھوڑ کر سنجار کے پہاڑی علاقہ جاکر پھنس گئے ، بھوک ، پیاس اور گرمی کی شدت کی وجہ سے ہزاروں کے حساب میں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ کرد ش سیاست کے رہنماؤں کا مکانیزم کچھ بھی ہو، مگر کوبانی ان کے لوگوں کی خواہشوں کا سنبل ہے ۔ تاریخ کے تمام واقعات اب اس بات کو سچ ثابت کرچکے ہیں کہ ہر آزادی کی جہد کی بنیاد عام عوام مرد اور خواتین ہوتے ہیں۔ تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ برطانیہ یا امریکہ نے کسی ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ ہوتے بغیر ان کے عوام کو آزادی دلائی ہو۔ کردوں نے سالوں کی مظالم کا مقابلہ کیا ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی مستقبل کا تعین کریں۔ اس کے علاوہ دنیا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کرد اپنی سرزمین کے باہر کوئی عزائم نہیں رکھتے۔ ان کی ترجیحات صرف اپنی لوگوں اور سرزمین کی دفاع ہے۔ پیش مرگہ جس کے معنی سرمچار ہیں کو ہمسایہ ممالک ، امریکہ اور برطانیہ نے سالوں جنگی تربیت دی ہے، نے اپنی دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے بڑی کامیابی سے اپنے علاقوں کی کنٹرول سنھبا لی ہے۔ لیکن حال ہی میں یہ انکشاف ہوئی ہے کہ کردش علاقی حکومت نے پیش مرگہ کو حالیہ عرصے میں اچھی تربیت نہیں دی ہے ۔ یہ کہے بغیر رہا نہیں جاسکتا کہ پیش مرگہ اپنے خاندانوں اور زمین کی حفاظت کا عزم مصمم کیے ہوئے ہیں،یہ بلا شک کہی جاسکتی ہے کہ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے،جیمس ریڈ ، ان دو سابقہ برطانیوی فوجی سپاہیوں میں سے ایک ہے جس نے نومبر 2014 میں پیش مرگہ کو جوائن کیا ، اس نے دعوی کیا کہ پیش مرگہ جنگی اصولوں کے تربیت یافتہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے بہت کوشش کی کہ جنگی معارت کے کچھ بنیادی طریقوں کو ان تک منتقل کرے، مگر وہ اس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے کیوں کہ یہ ان کی نظریات کے برخلاف تھی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ (KRG ) عراقی کردش علاقائی حکومت والے تنقید کو مانتے ہیں خاص کر جب تنقید تعمیراتی ہو، یعنی ایسا تنقید نہیں جس سے محض ان کی تمام کاوشوں کا بیخ کنی ہو۔ ان کو یہ احساس ہے کہ تعمیری تنقید سے پیش مرگہ اپنی تنظیمی اور تزویراتی معملات میں مزید بہتری لاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ لوگوں کو مزید یقین ہوگا کہ پیش مرگہ ان کی تحفظ دے سکتا ہے اور مستقبل میں بھی تحفظ دیگی بھی، یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے حوالے حال ہی میں کردستان میں کرسچن پارٹی کے لیڈر یونادن کنہ نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ یہ واقعی ایک ایشو ہے۔ KRG کو چاہیے کہ سنجار کی ناکامیابی کے بارے احتساب کا سامنا کرے اور اس میں پیش مرگہ کی مستقبل کو تعین کرنے کیلئے پیشہ ور زانتکاروں اور عالموں کو بھی شامل کیاجائے کیونکہ پیش مرگہ ایک ایسی قوت ہے جس پر تمام قوم تحفظ کیلئے انحصار کررہی ہے،جنوبی کردستان کا سوسائٹی قوم پرستی پرمشتمل ہے، جو اس کی سیاست کو زیادہ قابل فہم بنادیتی ہے، لیکن آگے پیشرفت کرنے کیلئے مسائل کھڑا کرسکتی ہے۔ اب یہ KRG کے لیے بہت ضروری ہوچلا ہے کہ وہ ایک ایسے فلسفہ پر کاربند ہو جس سے تمام علاقوں کے لوگوں کیلئے مشترکہ یکساں سوچ کی زمین ہموار ہوسکے۔ یہ نہ صرف ایک مضبوط سیاسی موقف بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرسکتا ہے بلکہ سماجی ترقی کیلئے بھی مفید ہوگا خاص کر سوسائٹی کے ان اہم ایشوز کیلئے جنہیں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ قانون سازی کی عمل میں عورتوں کی حصہ کو مزید بڑھانے کیلئے رجوا کی ڈیموکرٹیک یونین پارٹی کی طرف سے 10 نومبر 2014 میں جو Equality Degree یا جنسی ہم برابری کی مرسوم ایشو کیا گیا وہ آگے کی طرف بڑھنے کیلئے بہت بڑی پیش قدمی تھی۔ کردش قانون سازی میں عملی طور عورتوں کی ضروتوں اور مرضی کو شامل و نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ قوانیں تمام اداروں میں فکری صورت میں اور زندگی کے طورطریقوں کے مطابق نافذہوں ، محض نافذ شدہ قانون کی شکل میں نہ ہوں! ۱۱۱ سیٹوں والی کردستان پارلمنٹ میں عورتوں کی ۴۲ سیٹیں ہیں۔ مالکم ایکس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ \” محض ٹیبل پر بیٹھنے سے تو تمہارا ڈنر نہیں ہوسکتا جب تک پلیٹ سے کچھ نہیں کھاؤگے۔\” جولائی 2014 میں اسلامی ریاست نے ایربیل پر دھاوا بول دیا تھا جسے PPK نے ناقابل تردید طور پر پسپا کردیا۔ جبکہ عراقی کردوں کی سربراہ جناب برزانی نے پیش مرگہ کے دستوں کو کوبانی کے محاذ پر بھیجا تاکہ وہ YPG/J، کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے خون خوار درندوں کو شکست دیں۔ یہKRG کی وقار کیلئے ایک بہت بڑی کارنامہ تھی۔ مجھے امید ہے کہ یہ تمام آپسی تعاون و اشتراک عمل آگے جاکر چاروں علاقوں کے کردوں کو متحد کرنے میں نئے سنگ میل ثابت ہونگے۔\” کہاں کا کرد \” یعنی عراقی ایرانی ترکی یا سوریا جیسے سوالوں کے بجائے کردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آ پ کو صرف کردستان کی کرد کے طور متعارف کروائیں۔ کرد دنیا کی وہ سب سے بڑی نسلی گروہ ہے جسے مغربی میڈیا نے کبھی درخوراعتنا نہیں سمجھا،دنیا میں اپنی قومی حیثیت کو تسلیم کروانے کیلئے کردوں کو شاید مزید سالیں لگیں، لیکن بین الاقوامی طاقتوں کے نظروں میں اب مثبت کردار کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ اپنی منزل مقصود کے قریب تر ہوچکے ہیں، کردوں کیلئے مستقبل کا نقشہ کچھ بھی ہو، مگر یہ کہے بغیر رہا نہیں جا سکتا کہ اگر پیش مرگہ کی اپنی قوم کو ہر حال میں تحفظ دینے کی قوم پرستانہ جوش ولولہ اور مصمم ارادہ اور PKK کی مضبوط تنظیم اور ترقی پسندانہ نظریہ کا ملاپ ہو تو مزید متحد و مضبوط ہونگے۔ Rojava or Western Kurdistan ( Syria) The Kurdistan Democratic Party (KDP) Kurdistan Workers Party (PKK), Democratic Union Party (PYD) Peoples Protection Units (YPG) Kurdish Regional Government (KRG) بشکریہ :KURDISH QUESTION http://kurdishquestion.com/index.php/kurdistan/what-kobane-taught-the-kurds.html