ہمگام کالم : ایک رہنما اور لیڈر کے درمیان فرق ایجاد،طرز نو اور جدت ہے،کیونکہ ایک مایوس انسان ہوا کے بارے میں شکایت اور شکوہ کرتا ہے جبکہ پرامید شخص اسکو تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیڈر ہواؤں کے سمت میں بہہ جانے کی بجائے اپنے عوام کیلئے اسے موافق بنانے کی کوشش کرتا ہے۔دنیا کی تاریخ میں تمام قومیں عروج و زوال کی مراحل طے کی ہیں، اور قوموں کو عروج سے زوال تک پہنچانے میں بھی زیادہ تر کردار نااہل بدکردار اور کرپٹ لیڈرشپ کا رہا ہے اور قوموں کو زوال سے عروج کی طرف لے جانے میں بھی بڑا کردار لیڈرشپ کا رہا ہے جن لوگوں نے اپنی ایمانداری،علم اور صلاحیتوں سے اپنے قوموں کو زوال سے نکال کر عروج کی جانب گامزن کیا ہیں۔ انہی لیڈرشپ میں سے ہی ایک اسرائیل کے بانی اور یہودی قوم کو دوہزار سال کی غلامی اور تنگی سے نکال کر آزاد اور خوشحال بنانے والے لیڈر ‘ڈیوڈ بن گورین’ ہے Shimon Peres, David Landauکتاب Ben-Gurion: A Political Lifeمیں ڈیوڈ بن گورین کے بارے میں لکھتے ہے کہ ڈیوڈبن گورین ایک بے پرافسانھ انسان،اسرائیل کے بانی اورجدید دور کے پیغمبر کے ساتھ وہ ایک حقیقی اور نیچرل انسان بھی تھا کہ جس نے پوری تاریخ میں ایک انسانی ٹانگ پر سخت طوفانوں اور حالات کا مقابلہ کیا،وہ ایک بصیرت کے حامل حقیقت پسند یہودی قوم پرناز، مستقبل پر نظر رکھنے والے غیررقیق القلب و غیر جذباتی لیڈر تھے وہ اسرائیل کے جارج واشنگٹن اور جعفرسن تھے،ڈیوڈ بن گورین میپائیMapaiپارٹی کا رہنما تھا اور اس کی سخت ڈسپلن اور قانون تھا وہ چیزوں کو جذباتی بنیادوں پر نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھ رہا تھا تو 1937میں اس کے خلاف اسکی پارٹی کے بہت سے لوگوں نے بغاوت کیا اور اسکے خلاف سازش کرنا شروع کیا اور الزام لگایا کہ ڈیوڈ بن گورین ڈکٹیٹر ہے اور جمہوریت کے قائل نہیں اداروں کے خلاف ہے اور اسی کے پارٹی کے کچھ بائیں بازو سوشلسٹ اور کمیونسٹ تھے جن لوگوں نے نیشنلزم کے جہد کے دوران قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی حالانکہ خود ڈیوڈ بن گورین بھی سوشلسٹ بلاک سے مدد لے رہا تھا لیکن اس نے کہا کہ وہ نیشنل ازم کے ستونوں کو کمزور نہیں کرے گا بلکہ وہ قومی یکجہتی کو فروغ دے گا اور سوشل ازم و کمیونزم کی خاطر اپنی قوم اور تحریک کو تباہ و برباد نہیں کرے گا، انھیں معلوم تھا کہ سوشلزم اور کمیونزم کے طبقاتی نعرے سے انکی سماجی جدوجہد اور پوری قومی تحریک تباہ ہوجائیگا، اس لیے وہ اس طبقاتی تقسیم کے ناسور کو اسرائیل میں لانے کے خلاف تھے، تو اسی دوران سوشلزم اپنے عروج پر تھا اور کچھ لوگ ڈسپلن اور اپنے قومی مفادات کے بجائے روس کے مفادات کی خاطر استعمال ہو رہے تھے تو ڈیوڈ بن گورین نے ڈسپلن کو لاگو کرنے کی سخت کوشش کی جسکی وجہ سے اسکی پارٹی تقسیم ہوا اور سیابیتھ نے الگ سےAhduthaavadaاہداوتاڈا پارٹی بنائی پھر اس پارٹی نے لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے وقتی ڈرامہ کرکے Hashomer Hatzar کے ساتھ اتحاد اور انضمام کرکے Mapam بنائی پھر بعد میں اس سے الگ ہوکر الگ دھڑے بنائے اور انکے تقسیم درتقسیم اور سازشیں جاری رہے لیکن ڈیوڈ بن گورین اپنی مستقل مزاجی اور منصوبہ بندی سے قومی پالیسیاں بناتے رہے اسی طرح سوشلزم اور کمیونزم کے جذباتی ماحول سے بہت سے ڈیوڈ بن گورین کے کمانڈر اور لوگ متاثر تھے لیکن بن گورین اپنی پالیسیاں جذباتی و وقتی بنیادوں پر تبدیل کرنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ انکے مخالفین کا خیال تھا کہ روس کی جائز ناجائز ہر طریقہ سے کمک کیا جائے چاہے انکو اپنے قوم اور سماج کو کیونکر نقصان سے دوچار نہ کرنا پڑے لیکن ڈیوڈ بن گورین اس پر تیار نہیں تھا ڈیوڈ بن گورین سوشلزم اور کمیونزم جیسے نعرے میں پڑ کر اپنی قوم کو اپنا دُشمن نہیں بنانا چاہتا تھا بلکہ اس نے کہا اپنی پوری زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر آزاد ریاست تشکیل دینا پوری زمین سے بھی بہتر ہے،چھوٹے سے علاقے پر آزاد ریاست کا قیام پوری زمین کے قبضہ سے زیادہ بہتر ہے ملک چاہے چھوٹے سے زمین پر بھی ہو انکو ملے وہ اپنی پوری قوم کو غلامی غربت بھوک افلاس سے نجات دلائیں گے،اسکے حقیقت پسندانہ پالیسیاں زیادہ تر لوگوں کو پسند نہیں آئے اور تمام اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے والے لوگ انکے خلاف ہوئے انکے پارٹی کے اندر باہر زیادہ تر لوگ ڈیوڈ بن گورین کی پالیسوں کی وجہ سے انکے خلاف ہوئے اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ انتہائی گھٹیا انداز میں ان کی کردار کشی ہوئی لیکن یہ حققیت پسند لیڈر تمام رکاوٹوں کا سامنا کرتا رہا اوراس نے اپنی پالیسیوں اور موقف سے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ اور اپنی پالیسیوں کی تسلسل اور سخت موقف کے ساتھ اس نے اپنا مشن پورا کر کے اپنا قومی آزادی حاصل کر لیا ۔اسرائیل تشکیل ریاست کی جدوجہد، قدیم مخصوص مزاج،قومی اخلاق کاحصہ اور جز ہے جو سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم اور بہتریں لوگ اور باقی قوموں کے لیے روشنی ہیں۔بیسویں صدی میں یہودیوں کے لیے پورے یورپ اور زیادہ تر دنیا میں دو راستے تھے یا تو دوسری قوموں کے ساتھ یکساں ہونا اپنی الگ شناخت اور پہچان کو ختم کرنا یا کہ صیہونی ازم ۔ فرانس،جرمنی،اٹلی اور زیادہ تر مغربی یورپ میں یہودیوں نے اپنی شناخت ختم کرکے دوسری قوموں میں ضم ہوئے جبکہ مشرقی یورپ کے زیادہ تر لوگ صیہونی ازم میں شامل ہوئے بعد میں ڈریفس معاملہ نے یہودیوں کے درمیان قومی بحث کو عمل انگیز بنایا اس کے بعد کمیونسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ کے حامیوں اور طرفداروں کے درمیاں بحث ہوا اور آخر میں سوال ایک ہی رہا کہ یہودیوں پر ظلم جبر اور نفرت کیوں کیا جاتا ہے کب تک بغیر ملک کے ہم رہیں گے ؟ اور ریاست کی تشکیل کس طرح سے کیا جانا چاہیئے لیکن دونوں سائیڈ کے بحث کندہ اور رائے دینے والوں نے سوالوں کے ایک دوسرے کے برخلاف رائے اور جواب دیے کمیونسٹ نے کہا کہ ہمیں پوری دنیا کو تبدیل کرنا ہے جبکہ صیہونی نے کہا کہ ہمیں یہودیوں کو تبدیل کرنا ہیں۔ کمیونسٹوں نے دنیا کو طبقہ،مذہب،رنگ نسل کے تقسیم کے تناظر میں دیکھتے ہوئے یہودیوں کو بھی اسی طبقاتی تقسیم کا شکار اور مارا ہوا قرار دیکر جدوجہد کی۔Herzlنے شروع میں کہا کہ یہودیوں کو ریاست کے بغیر اپنی حالت تبدیل کرنے کی کوشش کرلینا چاہیئے جبکہ بن گورین نے کہا کہ یہودیوں کو اپنی الگ شناخت،پہچان اور قومی غیرت اور بے مثلی اور نرالا پن کی خاطر آزاد ریاست کی تشکیل کے لیے کام کرنا ہوگا۔اس نے کہا کہ ایک جرمن،فرنچ جب مارا جاتا ہے تو پوری جرمن یا فرنچ ملک دوسرے ملک کے خلاف ایکشن لیتے ہے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد میں یہودی مارے جاتے ہیں اور ریاست نا ہونے کی وجہ سے ہم اپنے لوگوں کا تحفظ بھی نہیں کرپارہے ہیں اور کوئی بھی باہر کے ممالک میں ہمیں مدد نہیں مل رہا، اس لیے ہمیں اپنی مدد خود کرنا ہے اورہمارا مستقبل صرف اور صرف ہم پر انحصار کرتا ہے کہ ہم اپنی قوم کو غلامی تنگی اور دربدری سے کس طرح بچا سکتے ہیں اور دوسرے ممالک چاہے روس ہو یا کوئی بھی ملک ہو انکی جی حضوری اور انکے سامنے ماتھا رگڑنے اور انکے سامنے کمتری سے بات کرنا ہماری قومی فخر اور دبدبہ کو کمزور کردے گا، اس لیے میں اپنی قوم کا نماہندہ ہوتے ہوئے اپنی قوم کو کسی دوسرے قوم یا ملک کے سامنے کمتر پیش کرنے کو اپنے ساتھ ساتھ اپنی قوم کے ساتھ دغا سمجھتا ہوں اور 1910میں اس نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ریاست کی تشکیل کے لیے ہماری سعی،تگ و دو اور جدوجہد کو ہماری سیاسی بیگانگی،جہالت،بے علمی اور ناواقفیت نے کمزور کیا ہے کیونکہ ہر کوئی بازیگر اور شاطر آکر انکو جذباتی کرکے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتا ہے
اور قوم کے لوگ جذباتی ماحول میں قومی مفادات کو سمجھنے سے قاصر ہو کر استعمال ہوتے ہیں اور اس سے مجموعی طور پر قومی پروگرام کو نقصان ہوتا ہے لیکن اس نے کھبی بھی لوگوں کے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلا اور اس نے کوشش کی کہ لوگ عقلی اور شعوری طور پر مستقبل کے حوالے سے اپنی قوم اور سرزمین کی خاطر پالیسیاں بنائیں اس نے کھبی بھی دوسرے قوموں اور ممالک کی خاطر اپنے قومی مفادات کا سودا نہیں کیا اور اس نے وقتی طور پر سب سے اپنے مشن کی کامیابی کی خاطر ٹکر لیا اور اسرائیل میں اسکو تنہا پسند لیڈر کہا جانے لگا اسکے بہت سے لوگ انکے خلاف ہوئے لیکن اس نے اپنے قومی ایجنڈے اور مقصد کی خاطر کسی سے بھی ساز باز نہیں کیا اور اپنی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا اسکی پارٹیاں ٹوٹتے گئے اسکے لوگ ان سے الگ ہوتے گئے لیکن اس نے قوم وطن اور سرزمین کی خاطر کسی کی پروا نہیں کیا اور اپنے کاز کی خاطر اس پر انکے اپنے دوستوں نظریاتی ساتھیوں نے کتنے حملے کیے لیکن بعد میں اسکی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی نے دو ہزار سال بعد یہودی قوم کو اسرائیل کی شکل میں ایک ملک تشکیل پایا، اور اس نے اپنی ریاست کی تشکیل کے خواب کو آخر کار پورا کیا اور آج اسکو جدید دور کا یہودی پیغمبر کہا جاتا ہے جن لوگوں نے ان کو ڈکٹیٹر،سخت گیر کہا اور ان پر حملہ کیا سب نے پھر اسکی سوچ وژن اور دور اندیشی کو سلام کیا اور اسکو اسرائیل کا بابائے قوم کالقب دیا۔جس طرح ڈیوڈ بن گورین نے اپنی قوم کو دو ہزار سال کی غلامی کی دلدل سے نکال کر آزادی کے در پر لاکھڑا کیا اسی طرح نئی ایجادات،طرز نو اورجدت سے بلوچ قومی لیڈر حیربیار مری نے بھی بلوچ قوم کو پاکستانی غلامی اور پارلیمانی دلدل سے نکال کر آزادی کے راستے کو دکھا کر ہواؤں کے سمت اور رُخ کو موافق بنایا،شروع میں اسکے لیے تن تنہا اپنے پاکستانی حمایت یافتہ بھائیوں،پاکستان کے حامی پارلیمانی نیم قوم پرستوں اور پاکستانی حمایت یافتہ لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرنا جہاں اس وقت اس عمل کو سر کو پہاڑ سے ٹکر مارنے کے مترادف کے طور پر سمجھا جارہا تھا لیکن اس پُر عزم اور ثابت قدم لیڈر نے پاکستانی ریاست اور اسکے حمایت یافتہ بلوچوں کے غیر فطری ہجوم کے بجائے اپنے نظریاتی لوگوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرکے جدوجہد کو پہلی بار مری بگٹی اور مینگل سے نکال کر بلوچ قومی جدوجہد بنا کر پورے بلوچستان تک وسعت دی ۔ شروع میں اگر دیکھا جائے تو تمام اخبارات میں پاکستان نے حیربیارمری کو نشانہ بنانے کے لیے جنگریز مری کاسہارا لیا جہاں انکے درمیان بیانات کے زریعے پروپیگنڈہ شروع کیا گیا اور ان لوگوں نے ان کو ٹارگٹ کیا پھر نیشنل پارٹی اور بی این پی اور اسکے بعد پاکستانی جنرل اور فوج نے ایک طرح کا منظم مہم ان کے خلاف شروع کیا اور اسکے بعد ثناالللہ زہری سمیت تمام لوگوں نے ان کے خلاف اپنے اپنے انداز میں اپنے غصے و نفرت کا اظہار کیا اور انہوں نے پاکستان کے حمایت یافتہ کسی بھی شخص سے تعلقات استوار نہیں کیے اور اپنا موقف واضح کیا کہ وہ قومی آزادی کے سوا کسی چیز پر راضی نہیں ہے،حیربیار مری نے بھی ڈیوڈ بن گورین کی طرح مستقبل کی خاطر اور بلوچ قومی آزاد ریاست کی تشکیل کی خاطر نا خاندان کا پروا کیا نا بھائیوں کا بلکہ بلوچ قومی مشن کی خاطر وہ سب سے ٹکر لیتا رہا ان کی زندگی کا مشن بلوچ قومی ریاست کی تشکیل رہا ہے اور اسٹیٹسکو کو ماننے والے اور مفاہمت اور سمجھوتہ کرنے والے لوگ زیادہ تر ان کے خلاف ہوتے گئے لیکن انہوں نے آج تک کسی کے ساتھ بلوچ قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اپنے اصولی موقف پر سیاھجی کے پہاڑوں کی طرح ڈٹا رہا ۔حیربیار مری نے جب 1996میں موجودہ تحریک کا سائنسی انداز میں بنیاد رکھا اور جس نے 2000میں عملی شکل اختیار کر گیا ۔ 2000سے لیکر 2008 تک جہاں انہوں نے پوری تحریک کے مالی معاملات چلائے اور پھر 2016 تک انہوں نے مکران سے لیکر کاہان تک سب کو مدد فراہم کردی ، اور آج تک کسی بھی بلوچ نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے مالی ضروریات اور کمک کی خاطر کسی بھی دوسری ریاست کی جی حضوری کی بلکہ انہوں نے اپنے بلوچی غیرت اور فخر کی وجہ سے بلوچ کا سر فخر سے بلند کیا اور بلوچ کو باقی ممالک اور دنیا میں ایک غیرت اور عزت کا مقام دیا لیکن دوسری طرف آزادی کا نام لینے والوں نے بھی پاکستانی پارلیمانی لوگوں کی طرح اپنے قوم اور لوگوں کے سامنے جو شیر بنے بیٹھے ہیں باہر کے کسی بھی ملک کے سامنے جی حضوری کا سمبل بنے بیٹھے ہیں جس طرح مودی نے پہلی بار بلوچ قوم کا نام کیا لیا کہ بہت سے لوگوں نے سبک انداز و چاپلوسی کے لیے سبی دربار کا ریکارڈ بھی توڑ دیا جس طرح انگریز کی چاپلوسی اور درباری کرتے ہوئے سبی دربار کے تمام سرداروں اور نوابوں نے اس وقت درباری بن کے انگریز کی بھگی کو کھینچ کر اسٹیشن تک لے گئے جس کے بدلے وقتی طور انہی کچھ فائدے ملے لیکن بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ ، ہمیشہ کے لیے وہ لوگ عبرت کا نشان بن گئے، اور مری قبائل کے آزاد منش اور نڈر لیڈر خیر بخش مری اول جو راست بازی اور مردانگی میں مشہور تھا انگریز کی بھگی کو کھینچنے سےصاف انکار کیا اور جہاں ہندوستانی لوگوں سمیت پورے برطانیہ قبضہ کے تمام لوگوں نے جنگ عظیم میں انگریز کی فوج میں بھرتی کے لیے اپنے لوگ دیے لیکن بلوچ لیجنڈ لیڈر نے اپنے لوگ دینے سے بھی انکار کیا جہاں انگریز اور انکے درمیان تاریخی گمبند اور لھڑب کی لڑائیاں لڑی گئی،خیر بخش مری کے دلیرانہ انکار نے تاریخ میں اسکو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے ملا مزار اپنی بلوچی نظم میں انکے بارے میں کہتے ہیں کہ
تھجے آفریں باد خیر بخش مری ہے آنکھوں میں تیری جو غیرت بھری
ہے تجھ پر حلال دودھ بھی مادری تیری عمرجتنی ہو کوہ چھلگری
اسی خیر بخش اول کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سپوت حیربیار مری نے بھی اپنے گرینڈ دادا کا کردار ادا کرتے ہوئے اکیسویں صدی میں ایران،پاکستان اور باقی ممالک کی بھگی کو کھینچنے سے صاف انکار کیا اور دنیا میں ایک واضح پیغام دیا کہ بلوچ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیا جانا چاہیے،بلوچ کسی بھی قوم سے کم نہیں ہے اور اس نے بھی نواب خیربخش اول اور ڈیوڈ بن گورین کی طرح اپنے قومی مفادات کا کسی بھی دوسری ریاست کی خاطر سمجھوتہ نہیں کیا،حیربیار مری کو بھی قابض دشمن ریاست اور نادان دوستوں نے بھی تنہا کرنے کی کوشش میں کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اور دنیا کے جتنے بھی عظیم لوگ گزرے سب نے وقتی طور پر اسی طرح کے مشکلات کا سامنا کرکے ہی اپنے قوم اور ملک کا فائدہ حاصل کیا ،غیر مصالحانہ ،بے لچک ثابت قدمی ،مستعد اور ایک طے شدہ نصب العین کے تحت کام کرنے والے لیڈر کے طور پھر دو سوسال بعد بلوچ قوم کو حیربیار مری کی شکل میں ایک رہبر ملا یے جس نے آج تک بھی اپنے ایک پالیسی،پروگرام اور موقف کو تبدیل نہیں کیا بلکہ ثابت قدمی اور دائمی اپنی پالیسیوں کے تحت جدوجہد کررہا ہے انہیں آج تک باقیوں کی طرح مصنوعی سہارے کی ضرورت نہیں ہوا ہے آج تک ان کو باقیوں کی طر ح غیر فطری ہجوم کی ضرورت نہیں پڑا،کیونکہ سہارا اور مصنوعی ہجوم اور مصنوعی پن کی ان لوگوں کو ضروت پڑتی ہے جن کی وجود خود مصنوعی یا نمائشی ستونوں پر قائم ہو۔ اورجو لوگ مصنوعی پن سے پاک ہوکر حقیقت پسند اور نیچرل ہو، انہیں مصنوعی سہاروں کی ضرورت نہیں پڑتا، اور حیربیار مری بھی ایک حقیقت پسند اور نیچرل بلوچ لیڈر ہے اور اپنے قومی مفادات کی خاطر وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا ،وہ نہیں دیکھتے ہیں کہ اس سے انکو یا انکی پارٹی کو کتنا نقصان ہوتا ہے بلکہ بلوچ قومی نجات کی تحریک کو کامیاب کرنے اور قومی غیرت اور فخر کی خاطر وہ کسی کا لحاظ نہیں رکھتے ہیں۔امریکہ کے صدر بارک اوباما نے جب ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات ہوئے تو اس وقت دنیا میں صرف ایک بیان بلوچ رہبر حیربیار مری کا دوسرا اسرائیل کے سربراہ کا تھا باقی سب نے ایران کے ساتھ امریکہ اور مغرب کے درمیان مزاکرات کو مثبت قرار دیکر انکی حمایت کی لیکن حیربیار مری کا وہ بیان آج بھی تاریخ کا حصہ رہا جس میں انہوں نے کہا کہ ایران سے نیوکلیئر ڈیل، طاقت کے خاتمے کے بغیر اس کے ساتھ امریکی مزاکرات ایسے ہی ہےجیسے کہ شیطان سے ڈیل کرنا۔ اور اسکے بعد پوری دنیا نے دیکھ کر سب نے کہا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل غلط ہوا لیکن اس وقت اوباما کی جی حضوری انہوں نے نہیں کیا بلکہ اپنے قومی مفاد میں اپنا موقف واضح کیا اسی طرح مودی کی بھی انہوں نے تعریف نہیں کیا اور بعد میں جب ہندوستان کے اخبار نے مودی کے حوالے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ مودی نے بلوچوں کا نام استعمال کیا اور کام کچھ نہیں کیا انہوں نے بھی مودی کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنا موقف واضح کیا بلکہ کہا کہ وہ ہندوستانی قوم سے توقع رکھتے ہے لیکن انہوں نے حکمرانوں کی تعریفیں کھبی بھی نہیں کیں کیونکہ وہ ایک قوم کی رہنمائی کررہے ہے اور بلوچ قوم پنجابی کی طرح چاپلوس اور موقع پرست نہیں ہے اور لیڈر قوم کے ترجمان ہوتے ہیں انکی باتیں بیانات قوم کی نماہندگی کرتے ہیں اور حیربیار مری نے کھبی بھی بلوچ قوم کی نماہندگی کرتے ہوئے بلوچ قوم کے فخر شان اور بلندی کو کم نہیں کیا ہے بلکہ روسی،جرمن فرنچ اور جاپانی قوم کی طرح بلوچ قوم کو بھی عزت شرف اور شان دیا ہے اسکا وقار بلند کیا ہے
Sunday Adelaja کہتا ہے کہ قوموں کی ترقی،ارتقا ،بڑھوتری اور تکمیل کی رازوں میں سے بڑی راز یہ ہے کہ انکا لیڈر سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے موقف اسٹینڈ پر سمجھوتہ نہ کرنے والا ہو اور ایماندار راست بازی سے اپنی قومی ریاست کی تشکیل کے پروگرام پر گامزن ہو اور اس قوم اور تحریک کو منزل تک پہنچنے میں کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے اس کے بقول کچھ مایوس لوگ اور جلد باز حالات کے معمولی سختی سے پریشان ہوکر سمجھوتہ کر
نے لگتے ہیں لیکن قومیں تعمیر کرنے والے لیڈر سمجھوتہ کرنے کے بجائے حالات کے طوفانی ہواؤں کے رخ یا سمت کو بدل دیتے ہیں اور انکو اپنے قوم اور ملک کی بہتری کے لیے مواقف بناتے ہیں دو سو سال بعد بلوچ قوم کو حیربیار مری کی شکل میں ایک لیڈر ملا ہے جو ڈیوڈ بن گورین کی طرح سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہے اورجہاں ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان یا کہ ایران کی بھگی کو کھینچ رہا ہے اور بھگی کو کھینچنے کے عیوض وقتی مفادات حاصل کررہا ہے لیکن واحد لیڈر حیربیار مری ہے کہ ان قابضین کے سامنے مسلسل ڈٹا ہوا ہے۔ان کے خلاف ایران اور پاکستان جو بھی سازشیں یا پروپیگنڈہ کررہے ہیں وہ سب کا مقابلہ کررہے ہے لیکن بلوچ قومی تحریک کو دنیا میں بدنام اور ناکام ہونے نہیں دے رہا ہے،جس قومی تحریک کی بنیاد انہوں نے رکھا اسکو منزل تک پہنچانے کے لیے حیربیار مری سچائی اور صداقت کی طرح سخت اور انصاف کی طرح بے لچک اورغیر مصلحت پسند ہے اور جو لوگ اسرائیل کی تحریک کی طرح بلوچ قومی تحریک کو خالص ایمانداری مخلصی، راست بازی،انصاف و قانون اور خلوص کی بنیاد پر کامیاب کرنا چاہتے ہیں جس طرح کے ایماندار اور مخلص لوگوں نے ڈیوڈ بن گورین کا ساتھ دیا تھا بلوچ قومی تحریک کے ایماندار اور مخلص لوگ حیربیار مری کا ساتھ دیں گے اور جو لوگ تحریک کے نام پر پیداگیری،عارضی گروہی مفادات حاصل کرنے پراکسی،چوری چکاری، نمود و نمائش اور سستی شوشا اور اسٹیٹسکو کو قائم کرنے والے لوگ ہونگے انکے لیے حیربیار مری ڈیوڈ بن گورین ہوگا ضرور اپنے وقتی مفادات کو خطرے میں دیکھ کر وہ لوگ انکے خلاف کام کریں گے، اسکے خلاف سازشیں بھی کریں گے لیکن تاریخ نے کھبی بھی بھگی کھینچنے والوں کا ساتھ نہیں دیا ہے بلکہ تاریخ کے ہیرو وہ لوگ ہوئے جنھوں نے بھگی کھینچنے سے انکار کیا ہے اور انے والے کل کا تاریخ حیربیارمری آج کے تمام لوگوں کی بھگی کھینچنے سے انکار کرکے بنارہا ہے اور یہ بھی ڈیوڈ بن گورین کی طرح اپنے چند ایماندار اور مخلص لوگوں کے ساتھ اپنے قومی موقف اور اسٹینڈ پر ڈٹ کر ہی بلوچ قومی آزاد ریاست کی تشکیل کو ممکن بنا سکیں گے.