ہمگام کالم : رواں بلوچ قومی تحریک اپنی تمام نشیب و فراز ، اُتار چھڑاؤ اور بنتی بدلتی رنگ و روپ کیساتھ رو بہ سفر ہے۔ چونکہ دنیا میں قوموں کی جنگ_آزادی کی تاریخ اس طرح کے واقعات و سانحات سے بھری پڑی ہیں۔ لہذا بلوچ قوم کو بھی اپنے حوصلے بلند رکھنی چاہیں۔ ہر گُزرتے دن میں ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ اور ہر لمحہ اپنے تہیں مسائل و مشکلات کی ایک نئی لہر لیکر رونما ہوتی ہے۔ اِس لیئے کمزور اعصاب کے مالک جھدکار یا تو مفادات و مراعات کی لالچ میں آکر الگ راہیں ڈھونڈتی ہیں۔ یا ایک کمزور اسٹینڈ پالیسی و مبہم بیانیے کو لیکر تحریک کیساتھ جُڑے رہتے ہیں۔ تاکہ سخت اسٹینڈ لینے والے جھدکاروں اور اصول پرست رہنماؤں کی لعن طعن اور الزامات سے بچ سکے ۔ لیکن جوں ، جوں جنگ طول پکڑتی جائیگی۔ تو ایسے لوگ اپنے اعتماد و اعتبار کی ساتھیوں کیساتھ ملکر تحریک میں دھڑے بندیوں کی بنیاد ڈالینگے۔ اور اپنے ،اپنے دھڑوں، گروہوں اور ٹولیوں کو مضبوط بنانے کی خاطر ایک دوسرے کی دھڑے پر شب خون مار کر اتحاد و یکجہتی کی راہوں کو مسدود کرتے ہیں۔ اور یوں ہی تحریک پر مفروضات، الزامات، غلط فہمی و بدگمانیوں کی بادل چھا جاہینگے۔ اور دشمن کو تحریک پر وار کرنے اور مزید غلط فہمیاں پھیلانے کے مواقع ہاتھ آہینگے۔ بلوچ قومی تحریک بھی اپنی بیس سالہ سفر میں وہ سب کچھ دیکھ چکی ہے۔ جس کی ذکر اوپر کے بین السطور الفاظ میں درج ہیں۔ میرے ناقدین کا ہمیشہ یہی شکایت رہی ہے۔ کہ قومی تحریک کے حوالے سے میرے لکھے گئے تمام تحریر منافقت، کردار کُشی، ریاکاری و جانبداری پر مبنی کچھ جھدکاروں کے خلاف اور کچھ لوگوں کی تائید و حمایت میں لکھے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے میرا ہمیشہ یہی جواب اور مشورہ رہا ہے۔ کہ آپ اپنے چہرے صاف رکھیں اپنے داغ دھول دھو لیں۔ تحریک دشمن و بلوچ دشمن رویوں کو بدل دیں تو میں کیا بلا ہوں دنیا آپ کی معترف رہیگی۔ پوری قوم آپ کے ساتھ رہیگا۔ اور مجھ سمیت کسی میں بھی آپ کے خلاف لکھنے اور بولنے کا جرآت نہ ہوگا۔۔۔۔ میرا اپنے قوم سے ایک سادہ سی اور معصومانہ سوال ہے۔ کہ کیا آزادی کی جنگ اور قربانی کے نام پر کسی بھی جھدکار کسی بھی شخصیت یا تنظیم کو یہ رعایت حاصل ہونا چاہیے کہ وہ آزادی اور جنگ کے نام پر اپنے مخالف یا ناقد کو قتل کرے ؟ کیا قومی لشکر میں شریک کسی بھی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی بلوچستان میں ایران کے خلاف برسر_پیکار کسی بھی بلوچ خواہ وہ مزہبی ہو، سیاسی و قبائلی ہو، کارو باری یاتجارتی ہو کی مخبری کرکے اُسے گجر کے حوالے کرے یا گجر کی معاونت کرکے اسے قتل کرے یا کروا دے ؟ کیا کسی بھی تنظیم گروہ یا جنگجو کو چوری، ڈکیتی یا منشیات فروشوں کی کرایہ داری کا استثنی حاصل ہونا چاییے ؟ کیا کسی بھی تنظیمی کمانڈر و سپائی یا سرمچار کو بغیر تحقیق و تفتیش کسی بلوچ فرزند کی جان لینے کی اجازت ہونی چاہیے ؟ اگر جواب ناں میں ہے تو برائے کرم طیش میں آنے یا آپے سے باہر ہونے کی بجائے سنجیدگی و شائستگی کیساتھ مجھ سمیت کسی بھی لکھاری یا سوالی کے سوال کا جواب دے کر اسے مطمئن کیا جائے۔ یا غلطی مان کر اپنا اور اپنے دوستوں کی اصلاح کیجیئے۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ آزادی اور قربانی کے آڑ میں جو جی میں آئے کرے اور قومی جنگ کے نام پر جتنی گند و غلاظت پھیلا دے اور کوئی کچھ نا کہے تو معاف کیجیئے ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ کسی بھی تنظیمی جھدکار یا چھوٹے بڑے کمانڈر و سپاہی کے ہاتھ کی بندوق قومی امانت ہے۔ یہ امانت قوم کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ مجھے تو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ ہمارے مسلح تنظیموں کے سپاہیوں کی بھرتی کے پیمانے و پیرائے کیا ہیں۔ اور اُنکے حلف نامے میں قومی محافظ کے حدود و قیود مقرر بھی ہیں کہ نہیں ! کیونکہ ہمارے علاقہ مکران میں چند دوستوں کو چھوڑکر جن میں کچھ شہید ہوئے ، کچھ سرینڈر ہوئے اور کچھ مخلص و ایماندار ابھی تک محاذ پر موجود ہیں۔ باقی سب کو یا تو سرے سے کسی ڈسپلین و قوائد و ضوابط کی تربیت نہیں دی گئی ہے یا تنظیم میں شمولیت کرنے والے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے ایجنڈے لیکر تنظیموں میں گھس گئے اور اپنی شوق و شان دکھانے اور من مرضی چلانے کیلئے آزاد و بے لگام چھوڑے گئے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اپنی ذاتی و خاندانی دشمنوں سے انتقام لینے کی خاطر تنظیموں کو بہترین ذریعہ اور مؤثر مورچہ سمجھ کر شمولیت اختیار کیا۔ اور اپنے خاندانی دشمنوں پر مخبر و ایجنٹ کی تہمت لگا کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور اِس کام کیلئے بی ایل ایف کا پلیٹ فارم بہت زیادہ استعمال ہوا۔ اسکے علاوہ بی ایل ایف ، بی آر اے افرادی قوت کی دوڑ اور اکثریت کی مقابلہ بازی کے دوران مکران میں سرمچاروں کی بھرتی کیلئے کسی قسم کی لحاظ نہیں برتی گئی۔ 2002 سے 2004 تک علاقے میں موجود مسلح تنظیموں کی خوف سے مرعوب و مغلوب جراہم پیشہ افراد منظر عام سے غائب ہوتے چلے گئے اور عام لوگ چھین و سکون اور عِزت و آبرو کیساتھ بلوچ جھدکاروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنی بساط و توان کے مطابق قومی تحریک کی مدد کیلئے بڑھ چھڑ کر حصہ لینے لگے۔ جسکی مثال 2002 سے 2008 تک دشمن کے خلاف کامیاب عسکری حملے اور سرفیس پر بی این ایم اور بی ایس او کی عوامی اجتماعات و ریلیاں ہیں۔ لیکن کامیاب قومی تحریک نہ دشمن کو ہضم ہو سکا اور ناہی آستین میں موجود ناگ ناگنوں کو۔۔ جب بی ایل ایف اور بی آر اے نے دروازے کھول دیئے تو دیکھتے ہی دیکھتے دونوں تنظیم جراہم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن گئے۔ جب جراہم پیشہ افراد کی ہجوم تنظیموں میں داخل ہو گئے تو فوج اور ایجنسیوں کو بھی اپنے لوگ اندر بھیجنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اِس لیئے 2009 سے 2014 تک قومی تحریک کیلئے سیاہ ترین دور ثابت ہو گئی۔ کیونکہ اِس دور میں عسکری محاذ پر نا شہید اکبر خان جیسے بزرگ و معاملہ فہم شخصیت موجود تھے۔ نہ جنگی مہارت سے لیس شہید بالاچ خان مری اور شہید ڈاکٹر خالد بلوچ و شہید سگار امیر بخش بلوچ موجود تھے۔ اسی طرح سیاسی محاذ میں شہید غلام محمد بلوچ اور استاد شہید صبا دشتیاری جیسے رہنماؤں کی غیر موجودگی میں سیاسی چیلنجز کو فیس کرنے اور حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیئے مضبوط قیادت بھی موجود نہیں تھی۔ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے بی این ایم و بی ایس او جنوبی کوریا اور فرانس و کینیڈا کے علاوہ بلوچستان کے کسی بھی کونے میں کہیں دکھائی دے رہی ہے ۔۔۔۔؟؟؟ بی این ایم و بی ایس او کی قیادت کینیڈا لندن و جنوبی کوریا میں پہنچنے کے بعد غیر متشدد و غیر جزباتی سیاست اور پرامن جد و جھد یاد آگئی۔ جبکہ بلوچستان میں لوگوں کے جزبات کو ہوا دے کر یا تو پہاڑوں پر چھڑانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ یا سیاسی جلسے جلوسوں میں غیر مخفیانہ و نمائشی انداز میں لوگوں کو دشمن کیلئے آسان ہدف بنوا کر شہید کروادیا گیا یا ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ کروایا گیا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہوتا کہ اگر بابو یعقوب ، راشد پٹھان، مقبول شمبئے زئی اور یاسر بہرام کو بی ایل ایف میں موجود اُنکے مخالفین دیوار سے نہ لگاتے تو وہ اس جھد کے حصے اور تحریک کیلئے سودمند ثابت ہو سکتے تھے۔ مگر بی ایل ایف قیادت انکے زاتی و خاندانی دشمنوں کے بہکاوے میں آکر استعمال ہو گئی۔ حالانکہ بابو یعقوب اور یاسر بہرام کے اہل_خانہ چیخ چیخ کر التجاہ کرتے رہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے پیارے ہمارے خاندانی و زاتی دشمنوں نے مارے ہیں۔ لہذا تنظیم زمے داری لینے سے اجتناب کرے۔ یا اپنی بیان بھی واپس لے تو ہمیں تنظیم سے کوئی گلہ و شکوہ نہیں۔ لیکن غرور و گھمنڈ میں مست ترجمان صاحب اپنی بیان واپس لینے سے انکاری رہے۔ اور کولواہ و مکران میں سرکاری رٹ اور فوج کی خاتمے کا دعوی کرتے ہوئے ہر روز قوم کو دھمکیاں دیتا رہا۔ اب جب پندرہ سولہ سو بلوچ خاندان اپنے بیگناہ پیاروں کی قتل پر بی ایل ایف سمیت پوری تحریک سے بدظن و بیزار ہو کر اس جنگ سے علیحدہ ہوگئے ہیں تب بھی میجر گہرام ماضی کی خواب میں مگن اپنی حرکتوں سے باز آنے کی بجائے غلطیوں پر غلطیاں دھراتا جا رہا ہے۔ بیزار و ناراض بلوچوں کومنانے کے بجائے اپنے ہمسفر تنظیموں کو توڑنے اور کمزور کرنے پر عمل پیرا ہے۔ ماضی قریب میں اِس تحریک کے بانی تنظیم بی ایل اے کے معطل شدہ کمانڈر اور بی آر اے کے بیدخل کمانڈر کو انتہاہی عجلت کیساتھ اپنے ساتھ ملاکر متحد محاذ کا نام دے کر نیا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں کسی تنظیم کے منحرف و معطل شدہ شخص کیساتھ اتحاد کرنا خود تحریک دشمنی و خیانت کی زمرے میں آتی ہے ۔ لیکن اگر مان لیا جائے کہ بشیر ذیب و گلزار امام بے قصور ہیں تو بی ایل ایف قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ زمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوہے دونوں مزکورہ کمانڈروں کا اُنکے تنظیموں کی قیادت کیساتھ صلاح کرواتے نا کہ اسے موقعے غنیمت سمجھکر بی ایل اے اور بی آر اے کو کمزور کرنے کی خاطر اُنکے معطل شدہ کمانڈروں کو اپنے ساتھ ملاتے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بی ایل ایف قیادت نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے بجائے مزید کمزور اور بدنام کر دیا۔۔۔ اب اگر بشیر ذیب اور گلزار سے بی ایل اے اور بی آر اے کا نام چھین لیا جائے تو اُنکے پاس صرف ان کا نام اور کچھ ساتھی بچتے ہیں۔ لہذا بلوچ قوم اِس متحدہ (BRAS) محاذ کو بی ایل ایف، بشیر گلزار ( B B G ) اتحاد کے نام سے یاد کرتی ہے تو کیا ضرورت اور مجبوری تھی کہ بی ایل ایف نے کچھ اچھا کر دکھانے کے بجائے اپنی براہیوں میں اضافہ کرکے اپنے نام کو مزید بدنام کر دیا۔۔۔ میرے خیال میں بشیر صاحب و گلزار صاحب کے قربانیوں پر کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی اُنکے فیصلوں سے کسی کو اعتراض ہے اگر کچھ خراب ہے تو وہ یہ ہے کہ بشیر و گلزار اپنے اپنے تنظیموں کے سامنے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کے بجائے دونوں تنظیموں کے نام چرا کر جوابدہی کیلئے تاحال منکر ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ******** دوستو بلوچ قومی تحریک انتہاہی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اِس وقت ہم سب کو اپنی زاتی، سیاسی، گروہی، خاندانی و قبائلی رنجشوں کو بھول کر اپنی بساط و گنجائش کے مطابق تحریک کو پھر سے منظم و مضبوط کرنے کیلئے کردار ادا کریں۔ کیونکہ کچھ دوستوں کی ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ اقدامات کیوجہ سے تحریک کمزور پڑ گئی ہے۔ کبھی جو لوگ جوق در جوق قومی تحریک کے طرف مائل ہوتے گئے آج وہی لوگ ہمارے ساتھ چھوڑ رہے ہیں کوئی تھک ہار کر الگ ہوگیا کوئی تحریک میں شامل غلط لوگوں سے تنگ آکر الگ ہو گیا۔ کوئی دشمن کی خوف یا مراعات کی لالچ میں بہہ کر جدا ہوگیا۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو ہم نے اپنی زاتی، سیاسی و گروہی مفادات کی خاطر گہری زخم پہنچا کر خود سے علیحدہ کرنے پر مجبور کر دیا، بلکہ دشمن کے طرف دھکیل دیا۔ حالانکہ اِس کے ازالے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں تھی۔ بی ایل ایف ،بی آر اے قیادت اپنے سرکش و بے لگام سپاہیوں کے ہاتھوں بے گناہ بلوچ فرزندوں کی قتل کے اثبات و شوائد کو لیکر بے گناہ مقتولین کے اہل_خانہ کے گھر پہنچتے ۔ اُنکی غداری و مخبری کی ثبوت پیش کرتے۔ اگر کسی پر جرم ثابت نہ ہوسکا تو اُن گھرانوں سے معافیاں مانگ کر اپنے بیان واپس لیتے۔ ہرچند کہ چند معروف غدار و ایجنٹ اور ڈیتھ اسکواڈ کے افراد کو چھوڑ کر باقی اُن تمام مقتولین کی قتل پر مجھے شروع دن سے تحفظات رہے ہیں۔ اور میں نے ہمیشہ اس بات پر کھل کر بات کی ہے۔ لیکن اگر کسی بھی تنظیم کے جھدکاروں نے کسی بلوچ کو مارا ہے تو اُس کو جواب دینا ہوگا۔ چائے وہ بی ایل اے ہو، بی ایل ایف ہو ، یو بی اے ہو، لشکر بلوچستان ہو یا کوئی نیا پرانا تنظیم ہو۔ سب قوم کے سامنے جوابدہ ہیں۔ کیونکہ مزکورہ تمام تنظیموں کا تعلق و پہچان بلوچ قوم سے ہے۔ بلوچ قوم کا پہچان ان تنظیموں سے نہیں۔۔ میں بار بار کہتا اور لکھتا رہا ہوں کہ ہمارے مسلح تنظیموں میں غدار و ایجنٹ کو سزا دینے کے طور طریقے بلکل غیر منصفانہ ہیں۔ اسی ایک پوائنٹ نے قومی تحریک کی کایا پلٹ دیا ہے۔۔۔۔ کوئی بھی شخص مجرم ہونے سے پہلے ایک انسان ہے۔ ہر انسان کے ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار اور عزیز و اقارب کے علاوہ ہمسائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اگر آپ کو کسی زرائع سے کسی بھی شخص کے بارے اطلاع دیجاتی ہے کہ فلانے شخص ریاستی کارندہ ہے یا کسی تحریک دشمن عمل یا سازش کا حصہ ہے۔ تو آپ کو سب سے پہلے اُس شخص سے یا اسکے خاندان اور رشتے داروں کے ذریعے اسکو سمجھانا ہے۔ وہ خود نہ ملے تو اسکے والدین سے رجوع کرنا چاہیے۔ ماں باپ نہیں نا سہی، بہن بھائی نہیں نا سہی لیکن جہاں وہ رہتا ہے اُس شہر، گاؤں اور دیہات میں کوئی سفید پوش بزرگ ضرور ہوگا۔ کوئی عالم، مولوی، استاد ٹیچر یا سماجی ورکر ضرور ہوگا۔ انہی زرائع سے اسکو سمجھادو۔ اگر وہ بے قصور ہے یا کسی نے دشمنی کی بنیاد پر اس کا نام دیا تو وہ خود چل کر آپ کے پاس آہیگا۔ اور اپنی صفائی دیگا۔ اگر وہ مجرم ہے تو شاید باز آجائیگا۔ اور اگر وہ مجرم بھی ہے اور باز بھی نہیں آتا تو بے شک اُسکو پکڑ کر لیجاؤ ۔ سمجھانے کی کوشش کرو۔ اگر سدھر گیا تو چھوڑ دو اگر چاؤ تو مار ڈالو نہ پھر آپ کے خلاف آواز اٹھ سکتا اور نہ کوئی آپ کو الزام دے سکتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر کسی نے آپ کو کہہ دیا کہ فلان شخص مخبر ہے اور آپ نے فوراَِ مار دیا ۔ تو پھر لوگ آپ سے ثبوت کا تقاضہ نا کریں تو کیا کریں ؟ یا آپ اپنے کسی مخالف کو مار کر پاکستانی فوج کی طرح غدار کہہ دیا تو یقیناََ یہی دن دیکھنے پڑیں گے جو اِس وقت آپ دیکھ رہے ہیں۔۔ ثنا زہری کے قافلے پر حملہ ہوا ، شفیق مینگل پر حملہ ہوا۔ ڈیرہ بگٹی و کوہلوو کاہان میں بڑے نامی گرامی ڈیتھ اسکواڈ اور سرکاری کارندے مارے گئے لیکن قوم کی طرف سے کہیں پر بھی رد_عمل نہیں آیا۔۔۔ لیکن بی ایل ایف نے جتنے بھی لوگ مارے اُنکے مخبری، ایجنٹی اور غداری کا ایک ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ بلکہ جس پندرہ سولہ سو بلوچ جن میں خواتین بھی شامل ہیں قتل کرکے سب کو علی حیدر ، راشد پٹھان، ملا عمر، ڈاکٹر برکت، مقبول شمبئے زئی اور پتہ نہیں کس کس کے دست راست کا نام دیا۔ جبکہ بقول بی ایل ایف مزکورہ ڈیتھ اسکواڈ اور ریاستی کارندے بیس سال سے بلا روک ٹھوک اپنے نقل و عمل میں آزاد ہیں۔۔۔ دوستو ان تمام غلطیوں کی ماں مصلحت پسندی ہے مصلحت پسندی کی ناسُور نے تحریک کا ستیا ناس کر دیا۔ مکران،کولواہ و آواران میں کسی بھی سرمچار کے ڈاکو ، چور رشتے دار کو ہر جرم سے استثنی حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص کسی تنظیم میں موجود ہے تو اسکے باپ، بھائی، چچا کزن منشیات کے اڈے چلائے، گاڑی لوٹ لے، بدمعاشی پر اتر آئے تو اسکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لیکن اگر آپ کسی تنظیم کے خلاف مناسب و معقول سوال اُٹھائے یا کسی برے فعل و عمل پر تنقید کرے تو گالیوں کے ساتھ ساتھ گولیوں کی بھی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ میں سوال پوچھتا ہوں کہ بی ایل ایف اپنے درجنوں سرینڈر شدہ سپاہیوں کو کب سزا دیگی جو پورے مکران میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ تو فوج اور ایف سی کے لیئے سر عام کام کر رہے ہیں کچھ آزاد گھوم رہے ہیں اور کچھ چھپ چھپا کے گھومتے ہیں۔ فوج سے مسلئہ ہوا تو تنظیم پناہ دیتی ہے۔ تنظیم سے مسلئہ ہوا تو گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس تنظیم کے اہم راز موجود ہیں۔ یا وہ کسی کیپٹن، میجر رینک کے کمانڈر کے رشتے دار ہیں۔۔ ایسا نہیں چلے گا اپنا احتساب خود کریں ورنہ جب قوم نے احتساب کیلئے آستین چھڑا دیئے تو افغانستان و ایران تو کیا آپ یورپ و امریکہ میں بھی چھین سے نہیں بیٹھ سکتے ۔ختم کرو اِس مصلحت پسندی کو ختم کرو گروہی و زاتی رشتے داریوں کو۔۔۔۔کیونکہ آجکل تو آپ کے ساتھیوں کی شہادتوں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ قوم نے اب منشیات کی لوٹ مار میں مارے جانے والوں کو سرخ سلام پیش کرنا بند کر دیا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ایرانی گجر کے ہاتھوں شہید ہونے والوں پر خاموشی اختیار کیا ہوا ہے۔ بلوچ پنجابی کے ہاتھ میں مارا جائے یا گجر کے بلوچ قوم کا شہید کہلائے گا۔ مگر افسوس کہ آپ نے اپنے دو ساتھی شہید ظریف اور شہید سمیر کے قتل پر بھی چھپ کا سادھ لیا۔ جنکو ایرانی سپاہ پاسداران نے شہید کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ میں ایف بی ایم اور بی ایل اے کے خلاف نہیں لکھتا۔ کوئی مجھے بتلا دے کہ میں ایف بی ایم یا بی ایل اے کے خلاف کیا لکھوں؟ اگر وہ کچھ غلط کریں تو میرا فرض بنتا ہے کہ لکھوں کیونکہ بی ایل ایف یا بی آر اے میں میرے دشمن نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اُن کا تعلق بھی میری قوم سے ہے۔ وہ اگر غلطیاں نہ کریں تو ہم کبھی نہیں لکھیں گے۔ کیونکہ وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔ اُن میں سے خدا نخواستہ کوئی دشمن کے ہاتھوں مارا جائے تو ہمیں اتنا ہی دکھ ہوگا جتنا بی ایل اے ، بی آر اے کے دوستوں کا ہوتا ہے۔ میں نے بی آر اے کی سابق پالسیوں اور غلطیوں پر بہت لکھا لیکن نا کسی نے مجھے گالیاں دی اور نہ دھمکیاں اور الزام۔ لیکن بی ایل ایف کے عقیدت مند و مصلحت پسندوں کو میری لائیک کی پسند نہیں اور کمنٹس پر گالیاں برستے ہیں ۔۔۔۔ ایف بی ایم اور بی ایل اے کے دوست کسی خوش فہمی و مغالطے میں نہ ہر گز نہ رہیں کہ ہم انکی غلطیوں پر خاموش رہینگے۔ ہم ضرور لکھیں گے ایسے بہت سے نازک مزاج لوگ ایف بی ایم میں بھی ہونگے۔ جو شاید ہمارے سوالوں کے جواب میں طیش میں آئے، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ گالیاں نہیں بکیں گے۔ ہم تو اُس دن کے بھی انتظار میں ہیں۔ کہ ایف بی ایم ، بی این ایم اور بی آر پی کا کوئی اصولی اتحاد ہوگا۔ اور اسکے بعد تمام مسلح تنظیمون کی باگ ڈور ایک سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہوگا۔ اور اِنشااللہ وہ دن ضرور آئیگا۔ ہماری کوشش و خواہشوں سے نا سہی دشمن کی جبر و ظلم ہمیں مجبور کر دے گی کہ ہم اپنی دفاع و بقاء کیلئے متحد رہیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں مصلحت کی ناسُور سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ کیونکہ مصلحت پسندی نے اس مضبوط تحریک کو دیمک کیطرح چاٹ کر کھوکلا کر دیا ہے۔ قوم کی اعتماد و اعتبار ختم ہونے کی قریب پہنچ گیا ہے۔ فری بلوچستان موومنٹ کی قیام اندھیرے میں روشنی کی ایک جھلک ہے۔ جسے مکمل اُجالے میں بدلنے کیلئے شبانہ روز محنت و عرق ریزی کی ضرورت ہوگی۔ امید ہے کہ جناب حیربیار مری اپنی نومنتخب ٹیم کیساتھ ملکر قوم کو ایک مضبوط و منظم قیادت فراہم کریگی۔ جو آگے چل کر تحریک کے تمام بکھرے ہوئے حصوں کو سمیٹ کر تحریک میں نئی جان ڈال دیگی۔۔۔