ہمگام کالم : اب تک ہزاروں بلوچ فرزند جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ جبکہ ایک بڑی تعداد میں لوگ فوجی اذیت گاہوں اور عقوبت خانوں میں نہ جانے کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اِس کے باوجود اِس جنگ کو جاری رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ کیونکہ اِس وقت تحریک کو سیاسی، سفارتی اور عسکری لحاظ سے کافی چیلنجز کا سامنا ہے۔ میری اِس بات سے شاید کسی کو اتفاق نہ ہو لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچ تحریک اپنی نازک ترین و مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ایک جانب تحریک کے بانی رہنماؤں میں سے ایک رہنما حیر بیار مری نے مشکل ترین حالات میں ایف بی ایم ( فری بلوچستان موومنٹ) کی بنیاد ڈال کر اپنے دوستوں کو ایک سیاسی فورم مہیا کر دیا ہے۔ جو مختصر سی مُدت میں انتہائی احتیاط و باریک بینی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ جبکہ پہلے سے موجود بی این ایف ( بلوچ نیشنل فرنٹ) کے بکھرے پارٹس بی آر پی، بی این ایم اور بی ایس او آزاد اپنی مضبوط پوزیشن کھو بیٹھے ہیں۔ بار بار اتحاد کی عوامی مطالبات بھی دم توڑ گئے ہیں۔ گویا قوم کی تحریک سے دلچسپیاں سلسلہ وار کم اور ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بی این ایف کے دورانیے میں عوامی جوش و ولولہ زوروں پر تھی۔ جبکہ عسکری تنظیمیں فعال اور متحرک تھیں۔ لیکن سیاسی میدان میں شہید غلام محمد جیسے نڈر لیڈر اور عسکری میدان میں شہید بالاچ خان کی شہادت کے بعد تحریک کی باگ ڈور قدرے کمزور ہاتھوں میں آگئی۔ اور عسکریت کو اکثریت پر حکمرانی کی شوق چھڑنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اختیارات سیاسی ہاتھوں سے نکل کر پہاڑوں میں منتقل ہو گئی۔ اور پھر وہی ہوا جو دشمن کی خواہش تھی۔ اچانک مکران میں قومی غدار اور ایجنٹ کے نام پر ذاتی و خاندانی دشمنیوں کے انتقام کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر دیہات گاؤں اور شہروں میں سیاسی و ذاتی دشمنوں کو مار کر کچھ لوگ تنظیم کے نام سے زمہ داریاں لیتی رہی۔ لوگ رو رو اور چیخ چیخ کر انصاف مانگنے لگے۔ اور اپنے پیاروں کے قتل کے ثبوت و شواہد مانگتے رہے مگر لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے دھمکیاں دے کر چھپ کرنے کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ایسا بھی نہیں کہ تنظیموں نے جتنے لوگ مار دیے تھے۔ سب کے سب بے گناہ تھے۔ لیکن اِس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ مشکے آواران سے لیکر مند تک اور گوادر سے لیکر حب تک سینکڑوں بے گناہ بلوچ مار دیے گئے۔ اول تو سرکاری مخبر و جاسوسوں کو مارنے کا طریقہ ہی غلط تھا۔ کسی تفتیش و تحقیق کے بغیر لوگوں کو اُٹھا کر پہاڈوں پر لیجانا اور وہاں اُنکو بندوق کی زور سے سب کچھ منوانا عدل و انصاف کی قتل سے کم نہیں۔ دوسری بات کسی بھی نامزد ملزم کو اسکے خاندان اور سرپرستوں کے ذریعے سے سمجھانا کوئی مشکل کام نہیں لیکن کسی کی جان لینے کو آخری آپشن کے طور پر نہ لینا نا صرف انصاف نہیں بلکہ یہ تو درندگی و وحشیت کی زمرے میں آتی ہے۔۔ ذرا سوچیئے یہ جو قابض دشمن روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ مشرقی و مغربی بلوچستان میں ہمارے بچوں اور بزرگوں کو اُٹھا کر لیجاتی ہے۔ اور اُنکو دہشت گردی و ریاست دشمنی کے نام پر قتل کرکے پھینک دیتی ہے تو ہمارے دلوں پر کیا گزرتی ہے؟ 2007 تک جب دشمن ہمارے تنظیمی ساتھیوں کو شہید کرتا تھا یا کسی دوست کو اٹھا کر لاپتہ کرتا تھا یا کہیں پر کوئی لاپتہ فرد کا مسخ شدہ لاش پھینکتا تھا، تو عوامی رد_عمل کس قدر شدید تھا۔ اور ایک زمانہ یہ بھی ہے کہ سادہ لوح بلوچ اپنی حفظ و پناہ کیلئے اپنے علاقے میں فوجی چوکیاں قائم ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ درد تو اُس وقت ہوتی ہے کہ جب ہمارا کوئی جوان فوج کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ تو بہت سے بلوچ خوشیاں مناتے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی سرمچاروں کی خدمت اور مدد کیلئے آگے آگے ہوتے تھے۔ مند ، تمپ، کیچ ، گوادر، پنجگور اور بہت سے شہروں کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا تھا۔ جہاں اسکولوں پر بھی پاکستانی پرچم کے بجائے بلوچ قومی پرچم لہراتا تھا۔ اور فوج کو یہ جرآت نہ ہوتی تھی کہ بلوچوں کے پرچم اُتار کر پاکستانی پرچم لہرا دے۔ لیکن آج انہی علاقوں میں شاذ و نادر ہی کوئی قومی بیرک لہراتا ہوا ملے۔ یہ سب کچھ کسی سحر جادو کا نتیجہ نہیں بلکہ اُن ناعاقبت اندیش لیڈر شپ اور نمائشی نامنہاد کماندڈروں کی قوم دشمن رویوں اور ناقص منصوبہ بندیوں کی دین ہے۔۔ دنیائے جہاں میں آزادی کی جنگ کے دوران منقسم و منتشر گروہ قریب تر آتے آتے ایک دوسرے میں مرج ہوا کرتے تھے۔ مسلکوں، قبیلوں، گروہوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے لوگ قوم کی شکل و روپ دھار لیتے ہیں۔ مگر ہم آہستہ آہستہ قوم سے نکل کر گروہوں ، ٹولیوں اور طبقوں میں تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نا مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسکری لحاظ سے ہم اپنی قوت کھو بیٹھے ہیں۔ محض دشمن کو یہ باور کرانے کی حد تک باقی ہیں کہ مہینے دو مہینے کے دوران دو چار فوجی مار کر اپنی موجودگی کی پیغام دیتے ہیں۔ یہ بات اب ہماری دشمن بھی محسوس کر رہی ہے۔ کیونکہ پہلے فوج پر روزانہ کہیں نا کہیں ایک مقام پر ضرور حملہ ہوتا تھا۔ جبکہ آجکل صورتحال مختلف ہے۔ اب فوج روزانہ کسی نہ کسی گاؤں دیہات میں ہلہ بول کر حملہ کرتا ہے۔ دو گھر جلاتا ہے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر چلا جاتا ہے۔۔ دوسرے نمبر پر سیاسی قوت ہے جسے پہلے نمبر پر ہونا تھا لیکن بدقسمتی سے اسے دوسرے نمبر پر رکھا گیا۔ چہ جائیکہ سیاسی قیادت عسکری تنظیموں کو گائیڈلین فراہم کرکے رہنمائی کرتے ۔ لیکن عسکری قیادت سیاسی لیڈر شپ کو بائی پاس کرکے اسے گراؤنڈ سے بھگا کر پہاڈوں تک لے گئے۔۔ یعنی سیاسی قوت کی حال عسکری قوتوں سے بھی بدتر ہے۔ تیسری طاقت سفارتی میدان ہے۔ یہاں پر بھی بیرون ملک چند ایک احتجاجی مظاہروں اور آگاہی مہم چلانے کے سوا کوئی خاطر خواہ عمل یا کار کردگی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ بھی ایف بی ایم کی وجود میں آنے کے بعد کیونکہ ایف بی ایم میں کچھ متحرک و تازہ دم ورکرز میدان میں اترے ہیں۔ شاید پہلے سے موجود دیگر تنظیم مقابلہ بازی کی حد تک آگے آہیں۔ کیونکہ ہماری تحریک پر فی الحال مقابلہ بازی، نمود و نمائش اور شو بازی کی بھوت سوار ہے۔ آج کی بدلتی دنیا میں آزادی کی جنگ کیلئے سفارت کاری سرفہرست ہے۔ لیکن ابھی تک ہم اپنے دو حمایتی ملک بھارت و افغانستان کو اِس بات پر کنوینس نہیں کر سکے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ یا کسی اور فورم پر ہماری قومی مقدمہ پیش کریں۔ لفاظی اور میڈیا کی حد تک بھارت اور افغانستان کبھی کبھار پاکستان کو چھیڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جو حمایت ایک قومی تحریک کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ حمایت حاصل نہیں۔ میرے خیال میں بلوچ آزادی پسند سفارت کار افغانستان اور بھارت کی انتظار میں اتنی وقت ضائع کرنے کے بجائے اسرائیل کا رُخ کرتے تو اب تک بلوچ قومی تحریک امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں فلش پوائنٹ اختیار کر لیتا۔ لیکن اِس طرف توجہ نہ دینے کی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ابھی تو پاکستان تیزی کیساتھ مختلف ذرائع سے اسرائیل کے قریب جانے کی کوشش میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت اور آرمی نے طے کر لیا ہے۔ کہ وہ اگلی حکومت قائم ہونے سے پہلے، پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ لیکن اس وقت پاکستان مسئلہ کشمیر میں الجھی ہوئی ہے۔ اور کسی اسلامی ملک کو مذہبی رہنماؤں کو منوانے کی ٹاسک بھی دی گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی وجود جنونی و جہادی ملاؤں اور کٹر مزہبی لوگوں کے رحم و کرم پر کھڑی ہے۔ اِس لیئے اس معاملے سے نمٹنے کیلئے پس و پیش اور بہت احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے۔ بلوچ آزادی پسند گروہ موقع سے فاہدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو نا صرف سیاسی پناہ کیلئے آمادہ کریں بلکہ اسرائیل میں جلا وطن بلوچ حکومت کا مطالبہ پیش کردیں۔ ورنہ پاکستان مشکلات سے نکلتے ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا غیر مشروط اعلان کر بیٹھے گا۔۔۔ بلوچ قوم زندہ باد بلوچستان پائندہ باد