مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر کا کہنا ہے کہ \”آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے قطعی متفق نہیں لیکن آپ کے کہنے کے حق کیلئے میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں\” اس سے بہترین مثال کہی نہیں ملتی کہ کسی کی آزادی رائے کو مہذب دنیا میں کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اب یہاں یہ بھی کہنا مناسب ہو گا اس کی بھی کچھ حد و حدود ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ا یک صاحب سڑک پہ جا رہے تھے اور اپنی چھڑی کو چاروں طرف زور زور سے گھما رہے تھے. یہ گھومتی ہوئی چھڑی ایک دوسرے صاحب کے چہرے کے قریب سے گزر گئی تو انہوں نے پہلے صاحب کو روکا اور پوچھا کہ حضرت آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ جواب ملا کہ میں اپنی آزادی کا مظاہرہ کر رہا ہوں. دوسرے صاحب نے کہا: \”لیکن یاد رہے کہ آپ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے.\” آزادی رائے انسان کا بنیادی حق میں شمار ہوتاہے ، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ یہ حق اقلیت میں کم پایا جاتا ہے خواہ وہ خیال ہو ، لوگ ہو ، غریب و غربا ہو یا پھر ایک ادنیٰ سا کارکن ہی کیوں نہ ہو ۔ اور یہی چیز مغریی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کچھ ممالکوں میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں آزادی رائے کا شمار اس وقت مثبت ہوتا ہے جب وہ کسی استحصالی طبقہ،، معاشرتی نقص ، سیاسی بحران کا حل اور ثقافتی حدود یا پر مذہبی شمارات سے دستبردار ہونے کیلئے اٹھایا جاتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس میں پہلے آواز اٹھانے والا ہمیشہ کافر ، ملحد ، اور غدار کے زمرے میں آجاتا ہے ، جس کے نشانے پر ماضی میں بڑے بڑے ادیبوں کی کردار کشی کی گئی اور ہر طرح سے راستے میں کانٹے بچائی گئی ، کہی زہر دے کر مارا تو کہی جیل کی سلاخوں میں قید کیا گیا ، کہی کافر قرار دیے گے تو کبھی سولی پر چڑھایا گیا ۔ آئیے زرا بلوچ سماج پر نظر دوڑاتے ہیں کہیہاں بھی کچھ ایسے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اس وقت تنقید کے نام پر جو بحث کا آغاز کیا گیا وہ محض کسی پر ذاتی یلغار نہیں بلکہ تنظیمی پالیسیوں پر نکتہ چینی ضرور ہیں اور ہر کمزوریوں پر بول اٹھنا ہر انساں کا حق ہے اور یہی حق کا استعمال آج کچھ دوستو ں نے 4 سال کے اندرونی ذرائع کا استعمال کرنے کے بعد کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلنے پر قوم کے سامنے فیس بک کے ذریعے رکھا گیا جو نہ صرف مثبت رہا اور عوام تک کوئی دشواری کے گھر بیٹھے بیٹھے ان کا تذکرہ کسی بھی توقف کے با آسانی سے کیا جانے لگا لیکن اس میں کس طرح کی دشواریا ں اور ذرائع استعمال کیے گئے ، وہ قوم کے سامنے واضع ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ اختلاف رائے کا پاداشت رکھ کر اپنے موقف اور پارٹی پالیسیوں پر سوال اٹھائے جانے پر ایک مثبت انداز سے جواب دیا جاتا مگر افسوس انقلابی پارٹی ہونے کے دعویدار انقلابی اصولوں سے عاری نہیں ۔اور جواب کچھ اس انداز میں دیئے گئے ، شروع شروع میں تنقید والوں کو بلوچ سماج سے ہی فارغ کیا گیا کہ وہ بلوچ ہی نہیں اور آئی ایس آئی کے کارندے ہے جو ایک کنفوژن کو جنم دے رہی ہے جو پہلے تو ایجنٹ پھر ، بیمار ، پھر تحریک کے لئے خطرہ قرار دے دیے گئے جبکہ فیس بک پر کچھ ایسے کردار کو سرگرم رکھا گیا کہ وہ محض گالیوں اور طرح طرح کی کردار کشیوں سے ابہام پیدا کریں جس میں شروع شروع میں شکاری ازمائیل ، وطن یار، پھر دیدگ رحمان و مست توکلی،پھر زور آور و چلوچلو لندن چلواور پھر ان سے بات نہیں بنی تو ترند و آدینک کے نام سے نگ و ناموس کو تار تار کیا گیااور آج بھی جان بی بی اور خلیل ودین کے نام سے آئی ڈی ایسی روش پر عمل پیرا ہے ۔ آج ہم ایک جمہوری نظام کا دعویدار ہیں جس کا اہم جز ہی آزادی رائے ہیں، لیکن ہم نے کچھ لیڈروں کو ایک فرشتے کی حیثیت دی ہے اور اگر سلام اٹھ کا کسی کے بارے امیں ایک آرٹیکل لکھتاا ہے تو، ءیک دھڑم، ایک سنگت سے پٹھان کا شرف حاصل کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ پشتون ہونا جرم ہے کہ نہیں ( اور یہاں بتاتا چلو کہ ہماری تحریک میں اچھا خاصہ کردار رہا ہے ، لیکن ڈاکٹر اللہ نظر کی طرح نہیں جو اپنی علاج افغان سر زمین پر کرنے کے باوجود واپسی میں آکر مکران میں پٹھانوں پر یلغار کر دیتے ہیں ، جو ان کی لیڈری کا منہ بھولتا ثبوت ہیں) مگر سوال اٹھانے لیڈر کی زمہ داری بڑھتی ہے کہ وہ صحیح و درست کا احساس برتنے کے ساتھ ساتھ تضاد و نقص کا احاطہ کرے مگر یہاں تو ایک عجیب سی کیفیت پائی جاتی ہیں کہ ڈاکٹر کی ناکامی بلوچ قوم کی ناکامی ہیں یا پر ، حیر بیار ، مہران ، برہمداغ کی ناکامی بلوچ قوم کی ناکامی ہیں گویا ان کی حکمت عملی ناکام ہوئی تو قومی تحریک زوال پزیر ہو جائے گئی جو کہ قطعاََ درست سوچ نہیں ہے ۔ آخر کار بلوچ قوم ایک بڑی قوم ہے اس میں چند درجن لیڈروں کے تابع کیسے اور کیونکر کیا جاسکتا ہے ، یہ سب وہ خیال و جمود کی نشانی ہین جس میں ترمیم پچھلے 66 سالوں سے نہیں دیکھی گی جس کی سب سے بڑی عنصر آزادی رائے کو قدغن لگانے سے پیش آیا ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلا شکار \”سچ\” اور \”حقیقت \” کا ہوتا ہیں ، دوسرے جنگ عظیم سے لے کر آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی اور لڑی جارہی ہیں ان سب میں پہلے مسخ سچ کو کیا گیا ۔ جبکہ گوریلہ جنگ میں کچھ تو حکمت عملی کے تحت جو دشمن کے مورال کو ٹھیس پہنچانے کے لئے ہوتی ہیں لیکن ایسی سچ کو اگر اپنی عوام سے دور رکھا جاے تو اس کے نتائج بہت ہی مہلک ہوتے ہیں ، جس کو مارٹین کینگ لوتھر بڑی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ \” میں اس بے معنی سچ کو حقیقت سمجھتا ہو ں اور حقیقت تو یہی ہیں کہ ایک بیانک جیت کے نسبت ایک عارضی ہار زیادہ مضبوط ہوتی ۔\”اور یہی وہ کچھ چیزیں جس کی پردہ زنی کی جارہی ہیں اور اگر اس پردہ کو کچھ دوست اٹھا کر حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تو سامنے سے زبردست قسم کا الزام تراشی ،گالم گلوچ اور اب تو قبائلی سردار اور کوئلہ چور جیسی الزامات کا سہارا لیا جا رہا ہیں ۔جبکہ آزادی رائے اس کے بر عکس حقیقت سے روشناس کر کے سب سے پہلے ان کمزوریوں کی نشاندہی کر رہی ہیں جن کی اصلاح ہر صورت میں لازم و ملزوم ہوتی ہیں ۔ \”اگر آزادی رائے کی آزادی سلب ہو پھر ہمیں خاموشی کے ساتھ بھیڑ بکریوں کی طرح زبح کرنے کےلئے مذبح خانوں کی طرف لے جایا جائے گا \”جارج وشنگٹن ، ،۔۔ چنانچہ ایک قومی ادارے کہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر کسی کا اپنا اپنا پارٹی چارٹر وغیرہ سے فیس بک پر جس طرح آزادی رائے بمع حد بندیوں کے ساتھ( جو ذات کے علاوہ )جن جن پالیسیوں پر سوال اٹھایا جارہا ہیں وہ ایک معنی خیز غور و فکر کا عنصر عوامی سوچ میں پیوست کر رہی ہیں ، جس سے قطعی طور پر روگردانی نہیں کی جاسکتی ہیں اور اس عمل کو جتنی بھی چوٹ دی جائے اتنی ہی خوش آئند بات ہوگی ، آخر میں یہ تو رہے یار لوگ جن کی سوچ و فکر ایک لمحہ فکریہ ہیں ، اب دیکھنا ہے کہ کیا ہم بھی فرشتے ہے یا نہیں اگر ہمارے بیچ جو کوتاہیاں رونما ہو رہی ہیں ان کاادراک اگر نہ ہو تو نتیجہ کیا ہوگا ۔ فرض کرے اگر کوئی دوست مرحوم نواب مری کے بارے کوئی کمی دیکھتے ہیں تو لکھ کر اس کا اظہار کرتے ہیں جس کے بعد اس کا حشر ہمارے سامنے ہیں لیکن اگر کچھ دوست اپنے ہی دوستوں میں کوئی کمی بیشی دیکھیں تو کیا اس دوست کو بھی آزادی رائے دینے کا حق ہے یا نہیں ، ؟؟ کیونکہ ہمیں برداشت اور تنقید ی اصلاح سے عاری ہونا پڑھے گا تا کہ ہم میں ارتقائی عمل کا سفر شروع ہو سکے