تحریر: سعید بلوچ
ہمگام کالم
بلوچ قوم اپنی ارتقاء سے لیکر لمحہ حاضر تک اپنی بقا اور تشخص کی دفاع میں عظیم قربانیوں کی تاریخ رقم کرتی آرہی ہے. بلوچ قوم کی تاریخ عظیم فرزندان بلوچوں کے عظیم کارناموں کا مجموعہ ہے ان فرزندان بلوچوں نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی جانوں کا نزرانہ دے کر قومی بقا اور قومی تشخص کا دفاع کیا ہے. بلوچ وطن کے باسی کبھی سکندر اعظم سے برسرپکار رہے تو کبھی مغل قبضہ گیر کے خلاف اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے میدان جنگ میں اترے. عربوں کی یلغار ہو یا شاہِ ایران کے مظالم، انگریز کے سامراجی عزائم، یا پاکستانی فوج کی لشکر کشی، بلوچ سپوتوں نے ہمیشہ سر جھکانے کی بجائے وطن کی سالمیت پر خون کی ندیاں بہائیں اور تاریخ کے اوراق پر عظیم مثال کے نقوش چھوڑے.
تیرہ نومبر انہی بلوچ سپوتوں کی سوچ، نظریے و فلسفے کی ترویج کا دن ہے، 13 نومبر محض ایک دن نہیں بلکہ ایک فلسفہ، ایک نظریہ ہے. اس دن کو محض یاددہانی کے طور پر منانا انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، کیونکہ یہ دن تجدید عہد کا دن ہے، یہ دن اپنی تاریخی پس منظر میں ایک عظیم کردار کا مظہر ہے، ہمارا وجود اور قومی شناخت کی سربلندی اسی دن کی جڑوں میں پوست ہے.
13 نومبر 1839 کو محراب خان نے بلوچ تاریخ کےتسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انگریز سامراج کے خلاف بلوچ قومی خودمختاری و سالمیت کی مدافعت کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جام شہادت نوش کی، بلوچ تاریخ میں اس دن کو ایک عظیم درجہ حاصل ہے، اس دن کو بلوچ سرزمین پر مر مٹنے والے تمام شہدا کے یاد میں مناکر ان کی سوچ و نظریے کی پرچار کی جاتی ہے. بلوچ قوم ان عظیم اقوام کی صف میں شامل ہے جس کی تاریخ میں شہدا کی ایک لمبی فہرست ہے. یہی وہ فہرست ہے جو ہماری شناخت و وجود کی تشہیر کرکے دنیا میں ہمیں ایک منفرد اور زندہ قوم کی حیثیت بخشتی ہے.
ابورجنیز اور ریڈ انڈینز اقوام کی تاریخی پسپائی اور دنیا کے نقشے سے مٹ جانے کا محرک محض یہ ہے کہ یہ اقوام اپنے تاریخی سفر میں تیرہ نومبر جیسے ایک دن کی تشکیل کرنے میں ناکام رہے، کسی بھی قوم کا کردار، عظمت و ضابطے کا مجموعہ ان کی تاریخ پر مشتمل ہے، جو ان اقوام کو اپنے وطن و قومی شناخت کے دفاع کرنے کے لیے جزبہِ قربانی کا شعور دیتا ہے ،جن اقوام کی تاریخ کے قرطاس پر لکھے الفاظ کے بدن پر لہو کی بوند نہ ٹپکے، اس قوم کا فنا ہونا اور مٹ جانا ایک فطری و آفاقی حقیت ہے.
دنیا کی تاریخ میں کئی قومیں فنا ہوئیں اور کئی اقوام سربلندی و عظمت کے عروج تک پہنچیں،انسانی تاریخ چالس ڈارون کے نظریہ ارتقا کے فطری انتخاب کے طریقے سے کام کرتا ہے ، جس میں کمزور اور طاقتور اقوام کے مابین ہر وقت ایک کشمکش اور ایک تضاد کارفرما ہوتی ہے، اس کشمش اور تضاد کے اندر وہ اقوام اپنی بقا و شناخت کے بچاؤ میں کامران ہوجاتے ہیں، جو اپنے آپ میں اپنا سر قربان کرنے اور قربانیاں دینے کی قوت و طاقت رکھتی ہیں. وہ اقوام نیست و نابود ہوجاتے ہیں جو پرکھٹن حالات کے سامنے سرتسلیم خم ہوجاتے ہیں.
بلوچ قوم اپنی ارتقاء سے لیکر دور حاضر تک تاریخ کے اس کشمکش سے گزرتی آرہی ہے، اس بقا کی جنگ میں بلوچوں نے سروں کی بجائے قومی شناخت و تشخص کو زیادہ ترجیح دی ہے، یہی وجہ ہے آج بلوچ اس کراہ ارض پر ایک زندہ قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے.
آؤ! اپنی تاریخی عظمت کے اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ان شہداء کی سوچ و نظریہ کی پیروئی کریں، تیرہ نومبر ہم سے عزم الامور و بالجزم کا تقاضا کرتی ہے، شہدائے بلوچستان اپنی عظیم ذمہ داریوں کی تکمیل کرکے ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ چھوڑ کر امر ہوگئے، انہی ذمہ داریوں کو خلوص سے نبھانہ ہمارے حصے میں آئی ہے.
آؤ عہد کریں کہ ہم ان ذمہ داریوں کو خلوص سے نبھا کر تیرہ نومبر کے فلسفے کے فروغ کے لیے اپنے دن رات ایک کریں، پارٹی پرستی و گروہی مفاد سے بالاتر ہوکر اس عظیم مقصد کے لیے متحد ہوجائیں، جس کی تکمیل ہماری بقا کا ضامن ہے.