ہمگام کالم قابض ریاستیں ہمہ وقت محکوم کی سیاسی طاقت کو منتشر کرنے کے لیے بے دریغ طاقت کا استعمال کرتی ہیں۔ ان مظالم میں ریاست کے پاس موجود تمام ذرائع اور ریاستی مشنری کا استعمال شامل ہے۔ ہم نے اکثر اوقات پاکستان کے فوجی اور فوج کے تابعدار اور کٹھ پتھلی وزیروں ، مشیروں سے بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لیے تمام ذرائع کے استعمال کی باتیں سنی ہیں۔ ان ذرائع میں ایٹم بم کے علاوہ وہ تمام ذرائع استعمال ہورہے ہیں۔ بلوچستان کے طول و ارض میں جاری دیہاتوں پر متواتر فوجی جارحیت پاکستان کی تمام ذرائع استعمال کرنے کی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے، بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں جیٹ طیاروں ، جنگی ہیلی کاپٹروں سے نہتے مالداروں، کسانوں، خانہ بدوش بلوچوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا جارہاہے۔ پہاڑوں میں رہنے والے بلوچوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت عالمی ذرائع ابلاغ کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے لہذا یہاں فوج روزانہ کی بنیاد پر بمباری، اور سرچ اینڈ ڈسٹرائے کی پالیسی کے تحت خون کی ہولی میں مصروف ہے۔ پہاڑوں اور شہروں سے دور علاقوں پر دور مار میزائلوں، توپ خانوں سے بمباریوں کا مقصد عوام کے اندر خوف و ہراس برقرار رکھنا ہے تاکہ وہ مزاحمت کاروں کے لیے ٹھکانے کے طور پر استعمال نہ ہوں اور بلوچ عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ ان (بلوچ مزاحمت کاروں) کی موجودگی ان پر اندھی بمباریوں کا سبب بن رہا ہے گو کہ اس علاقے میں مزاحمت کاروں کے ناٹھکانے ہوتے ہیں نہ رہن سہن کیونکہ بلوچ اس وقت گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں اور گوریلا جنگجو کھبی بھی ایک مخصوص علاقے میں بسیرا نہیں کرتے وہ اپنی حکمت عملیوں کو روزانہ کی بنیاد پر تبدیل کرتے رہتے ہیں جن کا وہ کھبی بھی تشہیر نہیں کرتے۔ جب بھی دور دراز علاقوں میں بمباری کے متاثرین جرات کرکے پوچھتے ہیں تو فوج یہ موقف اختیارکرتا ہے کہ وہ مزاحمت کاروں کو راستہ اور راشن دیتے ہیں لہٰذا سزا کے لیے تیار رہیں۔ یہ پنجابی فوج کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ پہاڑوں میں بسنے والے مالدار اور خانہ بدوش آبادیوں کو بیدخل کیا جاسکے تاکہ بلوچ مزاحمت کاروں کو ذرائع رسد نہ مل پائے، اس سوچھی سمجھی پالیسی کے تحت فوج علاقے میں عوامی مالداروں کی گائے، بھینس اور ریوڑوں کو جمع کرکے چرواہوں پر دباو ڈالتے ہیں کہ وہ صبح و شام سڑک پر مویشیاں لے جائیں تاکہ بارودی سرنگ اگر بچھائے گئے ہیں تو مال مویشی اس کا شکار ہوں اور فوج بحفاظت آمد و رفت کرسکے۔ دشمن فوج دور افتادہ علاقوں میں بمباری، گولہ باری سے جب مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا تو وہاں کے خانہ بدوشوں کے پورے خاندان اغوا کرنا شروع کئے۔ مشرف دور میں بھی درجن سے زائد مری کنبے سبی کے مضافاتی، ڈیرہ بگٹی سانگان، اور کئی گھرانے کاہان کے علاقوں سے زبردستی اغوا کرکے سبی چھاونی میں منتقل کئے گئے تھے۔ بلوچ قبائلی معاشرے میں خواتین کے اغوا کو حساس ترین معاملہ سمجھا جاتا ہے لہذا پنجابی کا خیال ہے بلوچ خواتین کو اغوا کرکے ان کے اعصاب کو کمزور کیا جاسکے۔ بلوچ سیاسی کارکنوں کے رشتے داروں کا اغوا معمول بنتا جارہا ہے۔ بلوچ جہد کاروں کے اہلنخانہ ، چھوٹے بچوں اور کنبے کے دیگر افراد کو اٹھاکر غائب کرنے کا مقصد ان کو جہد سے دستبردار کرانے کے حربے ہیں جو پاکستان نے آج سے پچاس سال پہلے بنگلہ دیش میں بنگالی آزادی پسند عوام کے خلاف بھی استعمال کئے تھے۔ راولپنڈی کے جرنیلوں کا خیال ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی طرز پر مظالم ڈھاکر بلوچوں کو زیر کرپائے گی۔ بلوچستان میں پاکستان کے جنگی جرائم کا پیمانہ ناپنے کا بہترین ذریعہ خود پاکستانی جرنیلوں کے وہ بیانات ہیں جس میں ببانگ دھل کہتے ہیں کہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہم (فوج، خفیہ ادارے) ہر حد تک جاسکتے ہیں اور تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائیں گے۔ بلوچ قیادت بھی مسلسل عالمی دنیا سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اب ہر حد پار کررہا ہے اور تمام دستیاب وسائل جن میں جنگی جہاز، اغوا کرکے مسخ لاشیں پھینکنا، انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑنا، سکولوں کو نظر آتش کرنا، بلوچوں کی معاشی ناکہ بندی، سماجی میل ملاپ پر پابندی، سیاسی، اور پر امن جدوجہد پر قدغن لگانا، بچیوں کے ہاسٹلز ،تشناب خانوں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب اور مخفی و نازیبا انداز سے ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز لیکر بچیوں کو جنسی طور پر بلیک میل کرکے ان کو تعلیمی اداروں سے غیر اعلانیہ طور پر بیدخل کرنا، آپسی چپقلشوں کو ہوا دے کر قبائل کو دست و گریباں کرنا، معمولی مراعات کا جھانسہ دیکرکے لوگوں کی ہمدردیاں خریدنا، پارلیمنٹ کو آب زم زم میں دھوکر بلوچوں کو گھٹی کے طور پر پلانا، تعلیمی اداروں میں نشے کو فروغ دینا، یونیورسٹیوں، سکولوں میں فوج تعینات کرکے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا، سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹس میں سفر کرنے والے بلوچ باشندوں کو سواریوں سے اتار کر بچوں، عورتوں، بزرگوں کی حساس جسمانی اعضا پر ہاتھ مارکر تلاشیاں لینا، خانہ بدوش بلوچوں کے زیر استعمال قدرتی تالابوں، جوہڑوں میں زہریلی مواد ڈال کر ان کے مال مویشیوں اور لوگوں کی نسل کشی، گھروں میں چھاپوں کے دوران تلاشی اور فوجی جارحیت کے ذریعے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ سب بلا شبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی بھی رائج بین الاقوامی قوانین ان جیسے ہتھکنڈوں کی اجازت نہیں دیتا لیکن ہم نے دیکھا پاکستان نے تب بھی ان عالمی قوانین کو پاوں تلے روندہ جب بنگالیوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی۔ ہمیں دشمن فوج کی تمام تر جنگی بازیگریوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنا ضروری ہے، جنگی داوپیچ سے واقفیت رکھنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دشمن ہر وقت اس کوشش میں رہتا ہے کہ سیاسی قیادت کو کمزور پالیسیوں کی ڈگر پر روانہ کرے تاکہ سیاسی تحریک کو غلط سمت میں موڑا جائے یعنی بڑے اور قومی معاملات کو فوقیت نہ دے کر شخصی اور پارٹی مفادات کو اجزائے کل سجھنے کی سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔ اس کے علاوہ دشمن بیک وقت کئی زاویوں پر کام کررہا ہوتا ہے، جیسے کہ مزاحمت کاروں کو اشتعال دلانے کےلیے وہ جان بوجھ گھٹیا ترین اعمال کرتا ہے، جیسے کوہستان مری، ڈیرہ بگٹی، سبی، اور اب آواران میں بلوچ خواتین کا اغوا شامل ہے۔ یہ واقعات یقینی طور پر ناقابل برداشت کاروائیاں ہیں اور انتہائی تشویشناک رخ اختیار کررہے ہیں۔ بلوچ مزاحمت کاروں کو ان ریاستی ہتھکنڈوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے، ان کی روک تھام کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ ایسے واقعات کے بدلے میں اسی نوعیت کی کاروائیاں کرنی چاہیئں یا اپنی تحریک کو عوام کے اندر اس انداز سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی پنجابی جرنیل کو ہماری عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی جرت نہ ہو۔ پاکستانی فوج جان بوجھ کر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے تاکہ بلوچ مزاحمت کاروں سے بھی اسی طرح کی جنگی جرائم سرزد ہوں تاکہ ریاست عالمی سطح پر ڈھنڈورا پیٹ کر بلوچ تحریک کی شبیہ کو مسخ کرے۔ ان کے پاس میڈیا ہے، وہ اٹھاتا ہے، سالوں تک اذیت گاہوں میں رکھتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، ہماے اوپر ہر طرح کا مظالم ڈھاکر بھی کہتا ہے فوج کچھ غلط نہی کررہا۔ وہ بلوچ مزاحمت کاروں کے معمول کی کاروائیوں کو لیکر آسمان سر پر اٹھاتا رہاہے اگر عالمی اصولوں سے عاری کوئی بھی کاروائی بلوچ مزاحمت کاروں سے سرزد ہو تو چالاک دشمن اسے غنیمت جان کر خوب اچھالے گی۔ اس تحریر کو اس پیرائے پر قطعا نہیں دیکھنا کہ میں ریاستی مظالم اور اندھی بربریت کا جواب دینے سے کسی کو روک رہا ہوں ۔ بلوچوں کو اپنی مزاحمت بالکل تیز تر کرنی چاہیے، ہر ممکن حد تک اپنی دفاعی جنگ کو وسعت دینا ان کا حق ہے لیکن انتہائی دانائی کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے تاکہ دشمن کو یہ موقع نہ مل سکے کہ ہماری تحریک کو عالمی اداروں کے سامنے دہشت گرد قرار دینے کا بہانانہ ڈھونڈ سکے۔ پنجابی فوج کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اب سے ڈیڈھ دہائی قبل بلوچ مزاحمت کاروں نے طلبا کو اغوا اور مارنے کے بدلے طلبا کو اغوا اور مارا نہیں، اساتذہ کے بدلے اساتذہ، مال مویشیاں جلانے کے بدلے مال مویشی نہیں چھینے، عورتوں کے اغوا بدلے پنجاب سے عورتیں اغوا نہیں کئے، اس ہوشیار مزاحمت کی وجہ سے پاکستان دنیا کے سامنے بلوچ تحریک کو دہشت گرد قرار دینے میں بری طرح ناکام رہا۔ آزادی کی تحریکوں کو عالمی سطح پر اگر حمایت سے محروم کرانا ہوتوقابض قوتیں، مسلح گروہوں سے ایسی کاروائیاں کرانے پر جان بوجھ کر اکساتی ہے تاکہ انہیں جال میں پھنسا کر بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاسکے۔ دنیا ہمیشہ طاقتور کی سنتی، اور کمزور قوم کا طاقت دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کا واحد ہتھیار ہے، عالمی اصولوں سے آشنائی اور اپنی جدوجہد کو عالمی جنگی اصولوں کے تابع رکھ کر مزاحمت کرنا ہے۔ اگر دشمن آپ کی عورتوں کو اغوا کرتا ہے تو آپ ان کے معاشی شاہرگ پر وار کریں تاکہ وہ اپنی فوج کی نقل و حمل میں درکار وسائل سے محروم ہو، جتنی جنگی وسائل، اور محنت آپ ان کی عورتوں کو نشانہ بنانے میں سرف کرتے ہیں اتنی لاگت میں آپ دوسرے ٹارگٹ کو بھی چن سکتے ہیں جن میں عالمی جنگی قوانین کی پامالی کا احتمال نہیں ہوتا۔ اگر فوج آپ کی بچوں، بچیوں کو اٹھاتا ہے تو آپ ان کے فوج کے اہل خانہ اور بچوں کو نقصان پہنچانے کی بچائے فوجی چھاونی، کسی عسکری ہدف کو نشانہ بنائیں تاکہ ان کے بچے خود سوال کرنے لگیں کہ ان کے فوجی پاپا نے بلوچ بچوں کو مارا تھا اسی لئے ان کا پاپا بھی نہیں رہا اسی طرح آپ کی تحریک بچوں کو، عورتوں کو مارنے کی جنگی جرائم سے بھی بچ جاتی ہے اور اپنے ہدف اور مقصد کے حصول میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔