تحریر ڈاکٹر حضور بخش بلوچ
ہمگام کالم:
ہر ذی شعور و بالغ نظر انسان اِس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ قوائد و ضوابط اور قوانین و اصولوں کے بغیر ایک گھر کا چلانا بھی مشکل ہے تو کیا قومی آزادی کی جنگ یا جنگ سے حاصل شدہ ایک ملک بغیر قانون کے چلایا جا سکتا ہے؟ یقیناََ نہیں تو کیوں نہ ہم اپنی بیس سالہ جنگ کے نفع و نقصان کو اصولوں کے ترازو میں تول کر اپنی حاصل وصول کامیابی و ناکامیوں کا تخمینہ لگا کر یہ دیکھیں کہ آج تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
اس سے پہلے کہ میں اپنے آزادی پسند سیاسی و عسکری قیادت کی کوتاہیوں پر لب کشائی کروں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے نزدیک تمام سیاسی و عسکری تنظیم یکساں عِِزّت، احترام و محبت کے مستحق ہیں اور میں اپنا پوائنٹ آف ویو یا نقطہ نظر بغیر کسی پسند و نا پسند اور بغض و عناد کے سامنے لانے کی کوشش کرونگا۔ ضروری نہیں کہ میری رائے کو تسلیم کیا جائے اور یہ امر بھی انصاف پر مبنی کوئی منطق نہیں ہوگا کہ میری اس رائے کو رد کیا جائے لیکن میرے اُٹھائے گئے سوالات کے جواب سنجیدگی و شائستگی اور دلائل و فضائل کے ساتھ دے کر میرے ساتھ ساتھ دیگر کنفیوز دوستوں کی بھی رہنمائی فرمائیے گا۔۔۔
سوال نمبر ایک۔
ایک قابض ریاست کے خلاف مقبوضہ قوم کی مزاحمتی یا دفاعی جنگ کی خد و خال اور نوعیت کیا ہونی چاہیے ؟
کیا ہم قوم و وطن کے نام پر دشمن کے خلاف صف آرا ہو کر ٹولی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟
سوال نمبر2 ۔۔۔ یہ جنگ ایک ریاست میں موجود نظام کی تبدیلی کیلئے لڑی جا رہی ہے یا کوئی زیر دست طبقہ اپنے بالا دست طبقے کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے؟
یا پھر ایک قوم اپنے مفتوحہ و مقبوضہ سرزمین اور غلام قوم کی آزادی کیلئے برسر پیکار ہے؟
تیسرا اور اہم سوال۔
کیا بیس سال سے جاری اِس قومی تحریک کے بانی اراکین نے جنگی حدود و قیود اور ضوابط و قواعد کی کوئی قانونی دستاویز یا آہین و منشور مرتب کی ہے یا نہیں؟
مجھے اُس وقت بہت مایوسی ہوئی جب میں نے اِس تحریک کے ایک بانی رکن اور مسلح کمانڈر سے سوال کیا کہ آپ کے آئین میں جنگی اہداف اور سزا و جزا کی کوئی قانونی شق موجود ہے یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی بھی مسلح تنظیم کے پاس آئینی ڈھانچہ اپنی جگہ چار سطور کی کوئی تحریری منشور بھی موجود نہیں ماسوائے زبانی کلامی ہدایات کے۔میری طرح شاید آپ میں سے بھی بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہ ہو۔
ہم ایک طاقتور دشمن کے خلاف پچھلے بیس برس سے بغیر جنگی قوانین و ضابطہ اخلاق سے لڑتے آ رہے ہیں۔ ذرا غور و فکر کے ساتھ سوچھیں کہ ایک انتہائی درندہ صفت مگر مّکار و چالباز فوج کے خلاف بیس سال سے نامکمل منصوبہ بندی و جنگی حکمت عملی کے بغیر لڑنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
مگر یہ معاملہ نہ شروع سے اتنا سادہ و عام فہم تھا اور نہ ہی آج اسے سمجھنے دیا جا رہا ہے۔ کسی کی نیت پر شک کرنا اچھی بات نہیں مگر تحریک کے ابتدائی دنوں سے کچھ لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تحریک کیلئے مسائل و مشکلات پیدا کرتے آ رہے ہیں۔
ویسے آپس میں لڑنے جھگڑنے کی روایت بلوچ قوم کو ورثے میں ملی ہے لیکن دنیا میں کسی بھی قوم پر غیروں نے یلغار کیا تو وہ قوم اپنی ذاتی، خاندانی و طبقاتی جھگڑوں کو بھول کر دشمن کے خلاف صف آرا ہو گئی، ایک ہماری ہی قوم ہے جو غیروں کی یلغار اور قابض دشمنوں کے حملوں کا سہارا لیکر اپنوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔
اور یہ بھی محض اتفاق کی بات نہیں اسکے پیچے بھی بلوچ کوڈ کا ایک عنصر (ضد) کار فرما ہے۔ جی ہاں اگر آپ طاقتور ہوکر کسی بلوچ کو نقصان پہنچاتے ہو تو اِس بات کو ذہن نشین کرلو کہ طاقت حاصل کرکے وہی بلوچ دہاہیوں بعد اپنا انتقام ضرور لے گا۔ اسکے لیئے چاہے اُسے کسی دشمن کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
آج جو ہماری تحریک میں جس زور و شور سے ڈیتھ اسکواڈ یا سرکاری ایجنٹ و کارندوں کا نام لیا جاتا ہے اُن میں سے بہت کم لوگ ہیں جو فوج اور ایجنسیوں سے رفاقت رکھتے ہیں۔ باقی سب کسی نا کسی تنظیم کی زیادتیوں کے ردعمل کے طور پر دشمن کی صفوں میں شریک ہوئے ہیں۔ اِس بارے میں اگر تفصیل سے لکھا جائے تو اپنوں کی غلطیوں کا ایک دو ہزار صفحے کی کتاب چھپ سکتی ہے۔ لیکن ہمیں اُن تلخیوں میں نہیں جانا ہے جہاں کسی تنظیم یا کمانڈر کی ساکھ کو زک پہنچے، ہم صرف وہ سوال اُٹھانے کی جسارت کرینگے جو قوم کی مجموعی سود و ضیاں سے وابسطہ ہوں۔
اب گِن لیجئے سب سے پہلی غلطی اُس وقت ہوئی جب بی ایل اے کے نام پر مسلح تنظیم معرض وجود میں آئی مگر کچھ دوست بضد رہے کہ بی ایل ایف کے نام سے ایک اور تنظیم کا اضافہ ہونا چاہیے، لیکن یہاں کوہلو کاہان اور بولان و جھالاوان والے کسی دوست نے اِس مطالبے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن مکران والے کچھ دوستوں نے اپنے سرکلوں میں پہلی بار یہ کہہ کر تفریق کے بیج بویے کہ جی قبائلی نواب و سرداروں کا کوئی بھروسہ نہیں کل اگر یہ لوگ ریاست کے ساتھ کوئی ڈیل یا سودا بازی کرکے الگ ہو جاہیں تو بی ایل ایف اپنی جنگ جاری رکھے گی۔
خیال بہت خوبصورت مگر ورغلانے و بہکانے کیلئے کافی تھا۔ اِس لیئے آج دن تک بی ایل ایف کا ہر حمایتی دوست خواہ وہ مورچوں میں ہو، بی این ایم میں ہو، بی ایس او آزاد میں ہو یا بیرونی ممالک اور سوشل میڈیا میں ہو۔ سردار و نواب کے نام پر تحریک کو ٹکڑوں میں بکھرتے ہوئے دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن کسی سردار و نواب کی سرپرستی میں قومی و اجتماعی یکجہتی کو پسند نہیں کرتے۔ جسکا اندازہ روز فیسبُک میں شائع کچھ لوگوں کی بغض و عناد سے بھری پوسٹوں اور لمبی چھوڑی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سردار کے نام سے یاد آیا۔۔
1948 میں پاکستان کے خلاف آغا عبدلکریم کی بغاوت کو خوانین قلات کی جنگ کا نام دے کر پاکستانی بیانیے کو تقویت پہنچائی گئی۔ 1958 میں نواب نوروز خان اور اُن کے ساتھیوں کے قومی جہد کو نوابوں کی بغاوت سے تعبیر کرکے پاکستانی بیانیے کو مضبوط کیا گیا۔ 62 اور 74 کے مزاحمت کو نواب و سرداروں تک محدود کرکے پاکستانی بیانیے کو درست قرار دیا گیا اور ان جنگوں کو مینگل مری بغاوت کا نام دینے والے بھی مکران سے ہی نام نہاد دانشور حضرات تھے۔
ایک اور بات جو سب کی سمجھ میں آنے کے باوجود بھی بار بار دہرائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی پاکستانی فوج، سیاستدان، پنجابی دانشور و صحافی جب بلوچستان کی تباہی و بربادی، پسماندگی و بد حالی کی ذمے داری سرداروں کے سر تھونپتے ہیں تو اُن کا لُبِ لباب اور ہدف تنقید نواب بگٹی، نواب مری اور سردار مینگل ہوا کرتے رہے ہیں اور اُس زمانے میں پاکستانی بیانیے کی پیروی کرنے والے بھی نام نہاد بلوچ متوسط طبقے کی لیڈر شپ ہوا کرتی تھی۔
کیونکہ پاکستانی جرنیل خود اعتراف کرچکے ہیں کہ بلوچستان کے 72 سردار ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں۔ آج بھی اگر کوئی پاکستانی لیڈر، جنرل، دانشور سرداروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو اُن کا نشانہ حیربیار، مہران، براہمدغ اور جاوید مینگل ہیں، اور ہمارے نئے زمانے کے متوسط طبقے کی سوئی بھی یہاں آکر رُک جاتی ہے تو ہم اسے کس طرح محض اّتفاق سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ کیونکہ نواب بگٹی نواب مری اور سردار مینگل کے متوسط سیاسی مخالف ماشااللہ سردار سردار کا سبق پڑھ کر وزارتوں اور اعلی عہدوں سے مستفید ہو گئے تو کیا گارنٹی ہے کہ آج کے متوسط طبقے کی لیڈر شپ پانچ دس سال بعد سردار مخالف بیانیے کو بیچ کر ریاستی مراعات و مفادات حاصل نہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ آثار تو نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
جن کے اپنے پاس کوئی منشور نہیں وہ حیربیار مری اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے تیار کردہ لبریشن چارٹر کی بھی مخالفت کررہے ہیں جو باقاعدہ جنگ_آزادی سے لیکر ایک آزاد ریاست کے قیام کے بعد بھی ایک ضابطہ حیات کی اہمیت کا حامل ہے۔
چلو مان لیا کہ آپ کو چارٹر قبول نہیں تو آپ اپنا کوئی قومی منشور و مسودہ لے آئیں تاکہ کوئی حیر بیار، براہمدغ، مہران و جاوید کو مطمئن کرسکے۔ایسا تو نہیں چلے گا کہ آپ ہر قسم کی قواعد و ضوابط سے مبرا بن کر اپنے سلطانی نظام کے ذریعے قومی تحریک کا ستیا ناس کر دیں۔
آپ کے تھنک ٹینک ایک ایک کرکے اپنے نریٹیو تبدیل کرتے جا رہے ہیں۔ کسی نے تحریک کو انسانی حقوق کی حد تک محدود کر دیا تو کسی نے بلوچ سرزمین کی تقسیم کو قبول کرکے ایران کیلئے کام کرنا شروع کر دیا۔ سرینڈر کرنے والوں میںاب تو یاسین صالح جیسے مڈل کلاس میکروں کے بھی آڈیو شائع ہو رہے ہیں۔
براس اتحاد کو تو ہر طرف سے شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اِس اتحاد میں ایک دوسرے کو بے ننگ گالیاں دینے والے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ براس دراصل بکھرے ہوئے متوسطوں کی وہ کمین گاہ ہے جہاں تنظیموں سے معطل کیئے گئے کمانڈر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کیلئے مورچہ زن ہیں۔
بس کرو اور قوم پر رحم کرو قوم کے بچے شہید، گھر تباہ روزگار منقطع بھائی باپ لاپتہ اور آپ مادر وطن کے سینے پر خنجر سے لکیر کھینچ کر بلوچستان کو دو لخت کیئے ہوئے ہیں۔ قابض ایران کے ظلم و زیادتیوں اور بلوچ پالیسیوں پر چھپ کا سادھ لیکر کون سی قومی خدمت سرانجام دے رہے ہو اور پھر اتحاد اتحاد کے رٹ لگا کر حقیقی اتحاد سے دامن کھینچتے پھرتے ہو۔
برائے کرم اگر آپ اپنے قول و فعل میں یکسانیت چاہتے ہو تو سردار نواب، مغربی مشرقی اور قبائلی و غیر قبائلی نعروں کے عفریت سے نکل کر صرف قومی نعرہ لگائیں کیونکہ اس جنگ میں نواب سرداروں کی قربانیاں مجھ سے اور آپ سے کمتر نہیں۔ ہمارے پاس ایک جھونپڑی یا کچے کے ایک مکان کے نقصان کے سوا اور کچھ نہیں جبکہ شہید نواب اکبر خان بگٹی اپنی شاہانہ زندگی اور محلات و جاگیر کو قربان کرکے وطن پر نثار ہوگئے۔ نواب خیر بخش مری نے شہید بالاچ کو قربان کرکے کوہلو و کاہان سے اپنی سرداری اختیارات کو خیرباد کہہ کر کراچی شہر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی، آپ کو نوابوں اور سرداروں کی کون کون سا قربانیاں شمار کروا دوں آپ تو بیس سال پہلے چین و سکون کیساتھ رہ رہے تھے، اور آپ اپنے بیس سالہ جہد کے معاوضے کے بدلے ہر برائی و زیادتی سے چھوٹ چاہتے ہیں جنہوں نے پاکستان کی وجود سے صدیوں پہلے اس وطن کیلئے قربانیاں دی ہیں اُنکے خلاف آپ دشمن کے ہم پلہ بننا چاہتے ہیں؟