ہمگام کالم
بلوچستان کی آزادی کی تحریک قربانی اور خون بہانے کی ہزاروں داستانوں سے بھری بڑی ہے۔ وطن کی محبت، حرمت اور آزادی کے لئے ہزاروں فرزندان خاک نے اس مٹی کی آبیاری اپنے قیمتی لہو سے کی اور یہ داستان یونہی جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندان وطن سر پر کفن باندھے مٹی اور مادر وطن کی خاطر فدا ہونے کے لئے شہادت دیکر بلوچ بشمول انسانی عظمت و معراج کی تاریخ میں نمیران ہونے کے لئے موت کا انتظار کررہے ہیں۔ اس خون آلود تاریخ میں وطن کے ایسے سپاہی بھی قربان ہوئے جو مفادات کی بھینٹ بھی چڑھے اور ان کے لئے اگر یہ کہا جائے کہ وہ تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان کی عظیم قربانی ہم میں سے کچھ لوگوں کے چہروں اور ہاتھوں پر اپنے پاک لہو کی چھینٹیں چھوڑ گئے۔
انگریز کے ہاتھوں بلوچستان کی تقسیم اور پھر ٹکڑوں میں بنٹے کمزور حالت کا فائدہ اٹھا کر جس طرح سے مذہبی جنون سے لبریز دو شدت پسند ریاستوں نے بلوچ وطن پر قبضہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ تقسیم دشمن نے کی تاکہ ہم کمزور رہیں اور وہ ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہم پر اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے اور ہم پر حکومت جاری رکھ سکے۔ وہ تقسیم شائد ہمارے لئے اتنا بڑا گناہ نہ تصور ہو مگر اپنے مفادات کی خاطر جو تقسیم کی لکیریں قوم میں ہم نے کھینچ دیں تاریخ اس پر ہم سے سوال ضرور کرے گا اور ہم تاریخ کے کٹہرے میں ضرور اپنے گناہوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو ہمارے کردار کے ساتھ بہت ہی عمدہ انداز میں فیصلہ کرکے انصاف کریگا۔
ہماری تخلیق کردہ تقسیم کا ہمیں اب تک بہت زیادہ نقصان اور دشمن کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تقسیم اور مجموعی طور پر قوم کو ہونے والے نقصانات کا ادراک ہمیں کس حد تک ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ اپنے مفادات کے سمندر میں ہم اس قدر غرق ہیں کہ وہ نقصانات ہمیں نظر ہی نہیں آتے کیونکہ ہمارے رویے بہتری کی بجائے بد سے بدتری کی جانب جارہے ہیں۔ ایسے میں قوم کے نوجوان مایوس کا شکار ہورہے ہیں اور جو مایوس نہیں ہورہے اور جہد مسلسل پر یقین رکھ کر اپنے وطن سے آخری حد تک وفادار ہیں وہ شہید ہوکر ہم سے جدا ہورہے ہیں۔ ایسے قیمتی اور انمول نگینوں کا کھو جانا یقیناً تکلیف کی آخری حد ہوتے ہیں لیکن رویے وہی، کوئی تبدیلی نہیں۔ عوامی پریشر اور قوم کی پیشانیوں پر ابھرنے والے سوالیہ نشانوں کو ہم “آسریچ” کے لالی پاپ کے پیچھے چھپا کر مدھم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میری رائے کے مطابق یہ جذباتی بھلونگڑے پھیلانے کی بجائے ہم اپنی اثاثہ جات کی حفاظت کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ جس انداز میں ہمارا سرمایہ ضائع کیا جارہا ہے وہ یقیناً ایک قومی سانحہ اور وسیع نقصان ہے لیکن ہم ہیں کہ ہوش میں ہی نہیں آتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کہنے اور کرنے سے ہمارے داغ دھل جائیں گے لیکن حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہماری ہٹ دھرمی میں بہتا ہوا خون آسمان سے برسے گا اور ہم سب کو رنگ دیگا تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ ایک عظیم مقصد کے لئے تیار قومی سرمایہ کو ہم نے کس قدر اپنے مفادات میں آسانی سے بہا دیا۔
اگر چیدہ چیدہ کچھ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر مفادات، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا سیاہ باب ہمارے سامنے ابلیس کی طرح آ کھڑا ہوگا۔ ابراہیم کے ساتھ تو مدد خداوندی تھی جو ابلیس کو پتھر بنا گئی لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی مدد نہیں جو اس کوہ گراں کا بوج کم کرسکے اور آنے والے وقت میں ہم بحیثیت قوم ایسے نقصانات کے اثرات کو کم کر سکیں۔
آج سے کچھ وقت پہلے بی ایل ایف کے جانباز ساتھی شہید چیسل جان ایک دیگر دوست کے ساتھ شہید ہوئے۔ ذرائع ابلاگ کو بیان جاری کیا گیا کہ ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ جھڑپ میں ان کی شہادت ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ منشیات فروشوں سے منشیات کی لوٹ کی کوشش میں دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہوئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ جالگی میں بھی ہوا جہاں بی ایل ایف کے دوست اسی نوعیت کی ایک کاروائی کے لئے گئے اور مسلح تصادم کے نتیجے میں بی ایل ایف کا ایک ساتھی شہید ہوا اور مخالف گروپ کا بھی ایک شخص کی جان ضائع ہوئی۔ جہاں دو بلوچوں کی جانیں گئیں کیا یہ اپنے آپ میں ایک عظیم نقصان نہیں تھا؟ اسی واقعہ میں شامل بی ایل ایف کے تمام دوست غیر مسلح ہوکر مخالف گروپ کے ہاتھ لگے مگر جان سے جانے والے نوجوان کے والد نے جوش اور بلوچ روایات کو پس پُشت ڈال کر اپنے جوانسال بیٹے کے تمام قاتلوں کو چھوڑ دیا، مختصراً یہ کہ اگر دو نوجوان ضائع ہوگئے اور باقی 15 سے 20 لوگ علاقے کے دور اندیش لوگوں کی دور اندیشانہ فیصلے کی وجہ سے بچ گئے۔ کیا اس کو مفادات کی تاریک راہوں مارا جانا نہیں کہا جاسکتا؟
پچھلے دنوں “براس” کے پانچ ساتھی ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر شہید ہوئے، اگلے دن بیان جاری کیا گیا کہ یہ دوست ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں لیکن کیا کسی نے سوچا یا سوال کیا کہ ایسا اتنی آسانی سے کیسے ہوگیا؟ اسی واقعے پر اگر تھوڑی تحقیق اور بحث کی جائے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ پانچوں دوست کسی عام سڑک پر نہیں بلکہ ایک خفیہ راستے پر محو سفر تھے جبکہ “ڈیتھ اسکواڑ” کے مسلح لوگ پہلے سے موقع واردات پر موجود تھے جو انہی دوستوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اب کیا یہ قیادت کی لاپرواہی یا غیر ذمہ داری نہیں کہ وہ ان قومی اثاثہ جات کی حفاظت کے پیش نظر تھوڑے سے حفاظتی اقدامات اٹھاتے؟ میں نے معلومات لینے کی اپنے تئیں کچھ کوششیں کیں جس سے معلوم ہوا کہ مارنے والے لوگ تین لینڈ کروزر گاڑیوں میں سوار تھے جو دوستوں کے اس مقام سے گزرنے کے بہت پہلے سے آکر اس جگہ مورچہ زن ہوئے تھے اور تب تک انتظار کرتے رہے جب تک یہ دوست وہاں نہ پہنچے تھے۔ پانچ دوستوں کو آسانی سے بڑے اطمینان سے شہید کرنے کے بعد باحفاظت واپس اپنی منزل پر پہنچ گئے نہ آپ کو یہ پتہ چلا کہ وہ کون تھے، نہ یہ معلوم ہوا کہ کہاں سے آئے تھے اور نہ ہی آپ کو یہ علم ہوا کہ واردات سرانجام دینے کے بعد کہاں گئے، کیا یہ واقعہ اپنے آپ میں آپ کی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کی زندہ اور جاوداں تصویر نہیں؟ہمارے نام نہاد لکھاری جنگی تدابیر پر لکھتے ہوئے اپنی تحریروں میں دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سے گوریلا جنگی تدابیر پر خوب “دانش خوری” جھاڑتے ہیں مگر کیا ان کے خیال میں گوریلا جنگی اصولوں میں یہ اصول کسی جگہ نہیں کہ گوریلا اپنے ٹھکانوں اور گزر گاہوں کو کس طرح محفوظ بناتے ہیں خاص کر ایسے ماحول میں جب ریاستی فوج اور اس کے “کرائے کے مزدور” ہر جگہ پھیل چُکے ہیں جو ریاست کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ کو شدت سے نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر پانچ دوستوں کی دردناک و کربناک شہادت کے بعد قوم کو “آسریچ” کا لولی پاپ تھما نے کی بجائے اس مسئلے کو وقت سے پہلے روک کر نہ ہونے دیتے تو وہ قوم کے بہتر مفاد میں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر کوئی نہ لکھے گا نہ بولے گا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں کافی چہروں سے نقاب اترنے کا خطرہ ہوجاتا ہے۔ شہید ہونے والے دوست ایسے سفر کررہے تھے جیسے انہوں نے ان تمام علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور جگہ جگہ ریاستی چیک پوسٹیں اور کیمپ نہیں بلکہ ان کی چیک پوسٹیں اور کیمپ ہیں جہاں وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر گزرنے والے کی باقاعدہ اسکریننگ ہوتی ہے۔
یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی اس طرح کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جہاں قوم کے ایسے انمول جانثار ساتھی شہید ہوئے ہیں بطور مثال، تربت میں شہید مراد جان گچکی اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے، تربت ہی میں ایک دیگر واقعہ میں شہید عقیل اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ شہید کردئیے گئے، پیدارک میں بھی اسی نوعیت کے ایک واقعے میں واجہ کمال کہدائی اپنے دیگر پانچ ساتھیوں کے ساتھ شہید کئے گئے، ان سب کی فہرست بہت ہی لمبی ہے اگر گنوانا شروع کروں تو یہ تحریر ختم ہی نہ ہو لیکن ہم ان تمام واقعات سے نہ کچھ سیکھ پائے اور نہ سیکھنے کے موڈ میں لگتے ہیں کیونکہ اس طرح پے در پے ایک جیسی نوعیت کے واقعات کا یوں تسلسل سے ہوتے رہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں، بس قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ایک اخباری بیان میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ دشمن فوج کے ساتھ شدید نوعیت کی جھڑپوں کے دوران تنظیم کے انتہائی نڈر ساتھی شہید ہوگئے، دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں دشمن کے “دو درجن” کے قریب فوجی ہلاک کردئیے یا پھرایک “آسریچ” جیسا جذباتی لولی پاپ قوم کو تھما دیتے ہیں مگر نہ کوئی صف بندی کرتے ہیں، نہ اپنی غلطیوں، کمزوریوں، کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں پر کوئی نظر کرم کرتے ہیں اور نہ ہی کچھ اچھا اور بہتر کرنے کا ارادہ، بس وہی رفتار بے ڈھنگی جو کل بھی تھی، سو اب بھی ہے۔
بلوچوں میں دو کہاوتیں بہت مشہور ہیں اور دونوں کہاوتوں کو بطور مثال ایسی صورتحال میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ “مرد ءِ نا پُحتا یکیں ھونڈ ءِ دپ ءَ ترا دو بر آں مار موارت” جس کا مطلب ہے کہ “ارے نادان ایک ہی بِل کے پاس تمہیں دو دفعہ تو سانپ نہ ڈس پائے”۔ اگر اس کہاوت کی تھوڑی تشریح کی جائے تو وہ یوں بنتی ہے کہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے سوچھنے اور سمجھنے کے لئے عقل دیا ہے، اس کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے لئے منصوبہ بندی کرے تو اس عقل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر حال اور مستقبل میں ان غلطیوں سے اپنے آپ کو بچائے جن سے اس کو نقصان پہنچا ہو۔ ایک دوسری کہاوت ہے کہ “مار وارتگیں مردءَ چہ کمبریں ریزءَ تُرسیت” جس کا مفہوم کچھ یوں ہے “سانپ کا ڈسا ہوا شخص رسی سے بھی ڈرتا ہے”۔ اس پر اگر مزید بات کی جائے اس کہاوت کی تشریح دیکھی جائے تو وہ یوں ہے کہ جہاں انسان ایک چیز یا عمل کے ذریعے کوئی نقصان اٹھاتا ہے تو اتنا محتاط ہوتا ہے کہ ممکنات کے بارے میں سوچ سمجھ کر ایک ایسا رستہ چُنتا ہے جہاں غلطی اور نقصان کی گنجائش نہ بچے، اگر نقصان ہو بھی جائے تو اس پر اتنی تیاری ہوچکی ہوتی ہے کہ نقصان کم سے کم ہی ہو۔
ذرا سوچھیں کہ اگر یہی لوگ زندہ رہ کر جنگ میں شامل ہوکر کردار ادا کرتے رہتے تو قومی مقصد کے لئے کتنا فائدہ مند ہوتے اور کس قدر نتیجہ خیز ہوتے۔ کیا ہمیں کوئی اندازہ بھی ہے کہ ایک جہد کار شعور کے اس حد تک کس طرح پہنچتا ہے جہاں وہ بندوق اٹھا کر سر پر کفن باندھے وطن مادر کی دفاع میں اپنے لئے زندگی، گرم بستر، اچھی خوراک، خاندان، بیوی بچے، مستقبل اور دولت کمانے کی حوس پر قومی غلامی کے خلاف جنگ میں موت کو چُن کر اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے؟ دشمن کے فوجی لاکھوں میں ہیں اور ان کی محاذ پر موجودگی کسی شعوری جدوجہد کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ تنخواہ دار ہوتے ہیں، غربت اور بے روزگاری کے اس دور میں ایک اگر چلا بھی جائے تو دوسرا اس کی جگہ پُر کرنے آگے آجاتا ہے مگر ہمارے جہدکار سالوں کی محنت اور تعلیم کے بعد جاکر اس حد تک تیار ہوتے ہیں اس لئے ہم میں ایسی سکت، طاقت اور حوصلہ نہیں ہونا چاہئیے کہ ہم ان کو یوں ہی تاریک راہوں میں واری کریں۔
ہمارے پاس ہماری نظر میں ایک مظبوط مگر انتہائی کمزور دلیل یہ ہوتی ہے کہ جنگ ہے، جنگ میں شہادتیں ہوتی ہیں۔ یہ بات بلکل صحیح ہے مگر کیا آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ ایک کمانڈر کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ کمانڈر کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنے لوگوں کی حفاظت ہوتی ہے جہاں میدان جنگ میں بھی منصوبہ بندی کرتے وقت ایک اچھے اور “ذمہ دار کمانڈر” کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ میدان جنگ سے باحفاظت اپنے ساتھیوں کو کیسے نکال سکتا ہے اور کبھی کبھی جب کسی کمانڈر کے کسی مشن پر توقعات کے مطابق نتائج نہیں آتے تو وہ اخلاقی طور پر اس نقصان کا ذمہ دار اپنے آپ کو تصور کرکے اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتا ہے اور اگر کہیں پر ساتھیوں کا نقصان ہوتا ہے تو کمانڈر کے خلاف انکوائری بھی کرائی جاتی ہے، مگر ہماری طرف اس طرح کی ترجیحات تو کُجا اپنے ساتھیوں کے سفر وغیرہ کے وقت بھی وہ تیاری نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح بچپن میں ہم قریبی دکان میں انڈے لینے جاتے تھے تو ماں نیک دعا دے کر بھیجتی کہ جا بیٹا اللہ تیرا نگہبان، اس طرح کی لاپروائیوں اور غیر ذمہ داریوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کمانڈر صاحبان صرف یہ کہہ کر اپنے جنگجوؤں کو رخصت کرتے ہیں کہ جا تیرا بھی اللہ نگہبان۔
جب سے کچھ مفاد پرست لیڈروں اور کمانڈروں نے ایران سے ساز باز کرکے اپنی ڈوریاں قابض گجر کے ہاتھ میں تھما دی ہیں اب نقصان بھی دو جانب سے ہونا شروع ہوا ہے۔ ایک جانب تو مشرقی مقبوضہ بلوچستان میں قابض پاکستانی آرمی ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے تو دوسری جانب قابض گجر ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ اب تک دسیوں بلوچ جہد کار گجر کی مہمان نوازی میں شہید ہوچکے ہیں لیکن ہمارے پاس اخباری بیان کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے، نہ کوئی پالیسی اور نہ ہی کوئی اسٹینڈ، کیونکہ جو نام نہاد کمانڈر اور لیڈر ہیں ان کے مفادات کو تو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچ رہا۔ وہ آرام سے بیٹھے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ عیش کررہے ہیں قربان ہورہا ہے وہ جہد کار جس نے سرزمین کی آزادی کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے۔
اگر ہم سرزمین بلوچستان کی تاریخی حیثیت کو چھوڑ بھی دیں اور اس بات پر غور کریں کہ 70 کی دھائی میں ایران نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟ گجر قابض پاکستان آرمی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے بلوچ عوام پر حملہ آور تھا اور دونوں دشمنوں نے مل کر بلوچوں کے خلاف خونی آپریشن کیا جس میں کئی فرزند شہید و زخمی ہوئے۔
کردستان کا مسئلہ بھی تھوڑا سا بلوچستان کے مسئلے سے قدر مشترک مسئلہ ہے جہاں یہ بدقسمت قوم کی سرزمین بھی ٹکڑوں میں بنٹی ہوئی ہے (قطع نظر کہ وہ پورے کردستان کی آزادی کو اپنا مقصد بنا چکے ہیں)۔ عراق جنگ کے بعد عراقی کرد کافی زیادہ ابھر کر سامنے آئے اور جب شام پر جنگ مسلط ہوئی تو کرد عوام دیگر دشمن ریاستوں کو کھٹکنے لگی۔ اس بنیاد پر ترکی نے شامی کردوں پر براہ راست حملہ کردیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شام میں کرد اپنا ایک نظام تشکیل دیں اور ترکی کے کردوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر میرے ملک کے خلاف کوئی نئی محاذ نہ کھولیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر ترکی شام میں کردوں پر حملہ کرکے ان کی نسل کُشی کررہا ہے۔ جب شام کے کرد مضبوط ہونگے تو وہ ترکی کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک خطرہ بن جائیں گے۔ یہ صرف ترکی نہیں کررہا بلکہ ہر ملکی حکومت کریگی اور یہی ایران بھی کررہا ہے مگر ٹیکنیکل انداز میں کیونکہ اب یہ 70 کی دھائی تو ہے نہیں لہٰذا عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں نہ دیکھتے ہوئے اس طرح کے کسی عمل (انتہائی فوجی طاقت کا استعمال) سے فی الحال گریزاں ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کے لئے ایسی کوئی ضرورت بھی نہیں باقی چھوڑی جہاں ہم خود ذبح ہونے کے لئے مقتل گاہ میں “گتاچ گُرکءِ میار” کی مصداق انتظار کررہے ہیں کہ ہماری باری کب آتی ہے۔
ایران نہ صرف ہمارے جہد کاروں کی شہادت میں براہ راست ملوث ہے بلکہ قومی حوالے سے ایران نے ہمیں تقسیم بھی کردیا ہے وگرنہ بلوچ قومی جنگ اور قومی تحریک میں مجھے اس کے علاوہ کوئی دوسری نظریاتی اختلاف نظر نہیں آتی۔
نقصان تو بہت ہوچکا، قیمتی جانیں بھی بہت ضائع ہوئیں مگر اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم اب بھی ہوش میں آکر اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظر ثانی کرکے دیکھیں تو ہم سب کچھ بہتر اور اچھا کرسکیں گے۔ اگر ہم بحیثیت قوم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو جس طرح سے ہمارا قومی سرمایہ بے دردی اور تاریک راہوں میں ضائع ہورہا ہے وہ اسی طرح ضائع ہوتا رہے گا۔ قوم بھی یوں ہی تقسیم ہوتی رہیگی۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ فیصلہ کمانڈر صاحبان اور با اختیار لوگ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے لئے تو بلوچستان آزاد ہے۔ ان کے لئے آزادی کا مطلب ذاتی خوشحالی اور آرام کی زندگی ہے جو ان کو میسر ہے اسی وجہ سے ہی دن بدن ان کے وزن گرامی اور جسامت میں اضافہ ہورہا ہے۔ آرام دہ زندگی اور بے حرکتی کے عالم میں “شوگر” اور “کولیسٹرول” کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ فیصلہ عام جہدکاروں کو کرنا ہے کہ وہ قومی مقصد اور قومی جنگ کو قومی ضرورت اور امنگوں کے مطابق آگے بڑھائیں گے یا یونہی اپنے اپنے کمانڈروں کو آرام مہیا کرتے رہیں گے اور خود دونوں اطراف سے اپنے فطری دشمن ایران اور پاکستان کے ہاتھوں مرتے رہیں گے۔۔۔۔