جمعه, اکتوبر 4, 2024
Homeآرٹیکلزفلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ

فلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ

تحریر: زربار بلوچ

گزشتہ سے پیوستہ (حصہ سوئم)


کوئی بھی ریاست اس طرح کے لوگوں کی مدد نہیں کرے گا ہاں داعش اور جھنگوی جیسے کردار دنیا کی طاقتیں بناتے ہیں ۔ پریشر گروپ کی طرح انکو خفیہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کرکے بعد میں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں یا انکو پھر خود ہی مرواتے ہیں۔لیکن آزادی اور قومی تحریک ایک طرح کی ریاست کی بحالی کی تحریک ہے اس میں دنیا کی کمک اور مدد کے بغیر کسی بھی جہد کی کامیابی ناممکن ہے اور اس کے لئے سفارت کاری، سیاست اور مسلح جدوجہد کے ملاپ سے آزادی کی جہد کی کامیابی ممکن ہے۔ اب ہمارے ہاں وہ لوگ جو خود باہر بیٹھے اپنی سفارتکاری کے لئے احساس کمتری یا رومانس کا شکار ہیں یا ذہنی عیاشی کرتے ہیں وہ دو سال سے گراؤنڈ گراؤنڈ کا بڑا رٹا لگاتے رہے جبکہ انکے برعکس ہم تو روز اول سے اپنے اسی موقف پر قائم ہیں لیکن وہ لوگ گراؤنڈ گراؤنڈ کرتے رہے اب اچانک انکو ایک نیا خیال آیا کہ بلوچ کی سفارتکاری صحیح نہیں ہے ۔ اگر مسلح جدوجہد کا طریقہ لشکر جھنگوی اور داعش کی ہو تو سفارت کار اگر ہنری کسنجر ، جمی کارٹر اور بسمارک ہوں، لیڈر منڈیلا، چرچل اور گاندھی ہوں اور گوریلا کمانڈر ہوچی منہ، سن ژواور جارج واشنگٹن بھی ہوں اگر وہ بلوچستان کو آزاد کرسکے تو میرے کان کاٹ لو ۔ کیونکہ جب تک سیاست، سفارت کاری اور مسلح جدوجہد کاملاپ نہیں ہوگا وہ ہم آہنگ نہیں ہونگے تو نتیجہ ہمیشہ صفر ہی نکلے گا۔ چاہئے جتنے بھی تجربے کرلو ۔
اس میں میں یقین سے کہتا ہوں کہ فری بلوچستان مومنٹ ،بی ار پی ، بی این ایم ،بی ایل ایف ،بی ایل اے اور بی ار اے میں بھی اچھے لوگ ہیں جو قومی جہد کو کامیاب کروانا چاہیتے ہیں جس کے لئے ان لوگوں نے اپنا گھر، مال اور سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے اور ہزاروں لوگ ایسے ہیں کہ جو زندانوں میں اس احساس کے تحت ریاستی اذیت برداشت کررہے ہیں کہ باہر موجود انکے ساتھی اس جہد کو منزل تک پہنچائیں گے۔ لیکن سوال وہیں آکر رکتا ہے کیا تقسیم درتقسیم، بھڑک بازی ،ذہنی عیاشی [جو ایک بندہ باہر ہے اور وہ باہر کام کرنے کی بجائے دن رات گراؤنڈ گراؤنڈ کا رٹا لگاکرذہنی عیاشی کرتا رہے جب گراؤنڈ کی بات آئے تو چھوٹے چھوٹے طلبا کو جذباتی کرکے بھیجے اور خود گراؤنڈ میں آنے سے لیت لعل کرتا رہے]اور پنجابی طرز کی گندی دونمبری سیاست منافقت، دروغ گوئی اور فریب سے کیا کوئی جاکر ایک ریاست کی تشکیل کرسکتا ہے؟ قومی تحریک کو دشمن سے نکال کر آپس میں چاہیے قوم کی طاقت قوم کے خلاف استعمال کے تناظر میں ہو یا کہ قومی تنظیموں کو تقسیم درتقسیم کرکے انکو آپس میں دست وگریبان کرکے قابض کے ایجنڈے کلاس اور قوم قومی نیشنلزم کی جہد کو ستر کی طرح کلاس، طبقہ، علاقوں میں تقسیم کرنے کا بیج کون ڈال رہا ہے، وہ شاطر دماغ جو بلوچ کا لبادہ پہن کر بلوچ قوم کو آپس میں تقسیم کرکے دشمن کو فائدہ دے رہا ہے وہ کون ہے؟ قومی جہد اور تنظیموں کو لشکر جھنگوی اور داعش کا اپ گریڈ شکل میں نمودار کرکے دنیا میں بدنام کرنے والا کون ہے؟ جہاں تک ہمارا تجزیہ اور سابقہ تجربہ کہتا ہے کہ معطل ٹولے کی ذہنیت، اپروچ اور سازشی حربہ دیکر مجھے کہنے میں کسی بھی طرح ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی ہے بلکہ میرا تجزیہ ہے دویا تین سال کے بعد بی این ایم اور بی ایل ایف کے حقیقی جہدکاروں کے کام آئے اور وہ اس وقت بہت پشیمان اور افسوس کریں گے لیکن میرا یہ تجزیہ آج بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوگا لیکن اس وقت انکے کام آئے گا جب معطل ٹولہ نے جو کچھ دوستوں کے ساتھ رہ کر کیا وہ وہاں بی این ایم اور بی ایل ایف میں دہرارہے ہیں کیونکہ ان کی فطرت سازشی لڑاؤ اور پارٹیوں کو تقسیم درتقسیم کرو کی پالیسی ہے اورانسان کی فطرت کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی ہے ہاں کچھ وقتوں کے لیے پالش ہوسکتی ہے مگر مکمل تبدیل نہیں ہوتی ہے جس بی ایل ایف اور بی این ایم کا کندھا استعمال کرکے ان لوگوں نے بی ایل اے اور بی آر اے کو تقسیم کیا وہ اس کھیل کا آغاز سازشی طریقے سے وہاں کرچکے ہیں ۔ یہ بی این ایم کے لوگوں کو آپس میں اختلافات پیدا کرکے تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے اور انکے اچھے اور ایماندار لوگوں کو مایوس کروائیں گے یا بہت سے لوگوں کو سرنڈر بھی کروائیں گے ۔ اسی دوران انکے اندر اپنے سرایت کردہ جاسوسوں سے بھی وہاں اختلافات کو شدت دینے کی کوشش کریں گے ۔ ہمارے کسی بھی پارٹی سے اختلافات کے باجود ہم اپنے ذاتی مفادات اور فائدے کے لئے جمی قومی سوچ فکر اور پروگرام کو نقصان دینا سرزمین کے ساتھ ایک طرح کا دغا سمجھتے ہیں۔ بی این ایم ،بی آر پی ، بی ایل ایف اور بی آر اے کے ساتھ اختلافات کے باوجود ہم انکو کمزور کرنا اور انکو تقسیم درتقسیم کرکے مزید پارٹیاں بنانے کے عمل کو قومی جہد پر ایک خودکش حملہ تصور کرتے ہیں کیونکہ اس عمل کے منفی نتائج کل کو پوری قوم اور سرزمین اور تحریک کو بھگتنا پڑیں گے۔ سوسال بعد نا بی این ایم ،فری بلوچستان مومنٹ اوربی آر  پی کا لیڈر اور انکے کارکنان زندہ ہونگے نا ہی یہ نسل لیکن انکے اعمال کردار کرتوت اور صحیح یا غلط پالیسیاں  وہ تو جب تک بلوچ زندہ ہے زندہ رہیں گے ،آنے والی نسل انکو دیکھ کر انکے کردار کا تعین کرے گی ۔ اگر ہم اپنی ذات اور خاندان کے لئے کام کررہے ہیں تو بی این ایم ٹوٹتا ہے بی آر سے ٹوٹتا ہے یا بی ایل اے ہوسکتا ہے ذاتی حوالے فائدہ ہو لیکن قومی قلعے کمزور سے کمزور تر ہوتے جائیں گے ۔ صرف ایک بندہ یا گروہ جو سازش سازباز منافقت دھوکہ دہی کرکے کچھ وقتوں کے لئے فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا لیکن جمعی حوالے سے قومی تحریک کمزور ہوگی قوم کی غلامی طول پکڑے گی ۔ باہر کی دنیا میں مزید پارٹیوں سے تقسیم درتقسیم کا تہمت اور شگان بلوچ جہد کو سست روی کا شکار بناتا رہے گا، اس لئے ہمارے دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم بلوچ قومی تحریک میں مزید تقسیم درتقسیم اور نئی پارٹیاں جو بن رہی ہیں انکی حمایت نہیں کریں گے ۔ جس میں ہمگام میں سنگت حیر بیار مری اور فری بلوچستان مومنٹ کے دوست اسکا عملی نمونہ دے چکے ہیں ۔ ہمگام بلوچستان کی آزادی پسندوں کا واحد ادارہ ہے کہ جو نا قابض کے حمایت یافتہ لوگوں کے بیانات دے کر انکو پروجیکٹ کررہا ہے اور نہ ہی جس کسی نے کوئی قومی جرم کرکے پارٹیاں اور تنظیمیں توڑی ہیں انکے بیانات دے رہا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قومی تاریخ میں دو لوگوں کو قومی مجرم کہا جاتا ہے وطن فروش اور پارٹی فروش، اور ہمگام نا وطن فروشوں کے بیانات دے رہا ہے اور نا ہی پارٹی فروشوں کے۔ جو لوگ تحریک کے حقیقی دوست اور ہمدرد ہیں ان سے ایک اپیل ہے کہ وہ کسی کی بھی باتوں پر اندھا دھند اعتبار نا کریں بلکہ اپنے عقل سے کام لیں کیونکہ یہ عقل کا سب سے بڑا وصف ہے کہ یہ صاحب تر جیحات ہے اسکو قدرتی طور پر اپنی ترجیحات کا علم ہوتا ہے بقول ایک دانشور کے کہ عقل کا سب سے بڑا وصف ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو اسکی ترجیحات کا لسٹ دے سکتا ہے اسکو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی ترجیحات کیا ہیں اور کونسے ہونے چاہئیں۔ 
عقل کی وصف یہ ہے کہ یہ کسی بچے تک کو بتا سکتا ہے کہ اسکا کونسا کام ضروری ہے اور کونسا غیر ضروری ہے اور عقل فلسفہ ترجیحات کو مرتب کرتی ہے۔ ترجیحات کے دورانیئے مختلف ہوسکتے ہیں کسی کے دس سال کی ترجیحات تو کسی کے سو سال کی ترجیحات ہوسکتی ہیں کسی کے اپنی پوری زندگی کی ترجیحات ہوسکتی ہیں جبکہ جذباتی پن عقل کے دروازے کو بند کرتا ہے اور جو لوگ منافقت، دروغ گوئی اور فریب کا سہارہ لیتے ہیں وہ عموماً جذباتی پن کاسہارہ لیکر عقل کے دروازے کو بند کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی ریاست کی تشکیل کی خاطر جہد کرنے والے کا شیوا نہیں کہ وہ عقل اور شعور سوچ ،غور وفکر کے دروازے کو بند کرکے تمام جہدکاروں کو جانور بنالے اور ان جانوروں کو جہاں چاہے قربانی کا بکرہ بنالے۔ اس لیے بلوچ جہدکاروں چاہیے کہ وہ جس بھی مسلح یا سیاسی تنظیم سے ہوں وہ اپنے عقل کے دروازے کو کھول دیں تو عقل انکے فلسفہ ترجیحات کو خود بہ خود مرتب کرتی ہے ۔ ایک قوم ہزار سال کی ترجیحات مرتب کرتی ہے ہزار سال کو چھوڑ دو کیا ہم نے سوسال یا کہ پچاس سال کی ترجیحات مرتب کی ہیں؟ ا گر مرتب کی گئی ہوتیں تو کیا ہم قومی تحریک میں تقسیم درتقسیم کے لئے دروازے کھولتے؟ کیا آج ہم دودن پہلے بی این پی مینگل ،نیشنل پارٹی کو مخبر ڈیتھ اسکواڈ قراردیکر رسوا کرتے اور دوسرے دن انکو اپنے اداروں میں انٹرویوکرکے ہیرو قرار دیتے؟ اگر ہماری قومی ترجیحات ہوتیں تو کیا ہم مولا بخش دشتی سمیت نیشنل پارٹی کے دسیؤں اچھے لوگوں کو مار کرنیشنل پارٹی میں موجود تحریک کے حمایتی سارے لوگوں کو اپنے قومی جہد کے مخالف بنا تے اور پھر  تین سال بعد اسکے لیڈرکو ہیرو قرار دیتے؟ نیشنل پارٹی کے تحریک کے حمایتی لوگوں کو مار کربی این پی کے منظور بلوچ کو قومی اعزاز سے نوازتے؟ ایک بندے کو مخبر ڈیتھ اسکواڈ ،دلال قرار دیکر پھر اسکو اپنی پارٹیوں میں ذمہداری دیتے؟ کیا ہم نے عقل شعور اورسوچ سے کام لیکر سوسال یا پچاس سال کی ترجیحات مرتب کرکے باقی کامیاب تحریکوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تحریک کو سفارت کاری،سیاست اور مسلح جدوجہد سے منسلک کرکے دنیا میں کامیابی حاصل کیا یا کہ چند لوگوں کے ذاتی فائدے اور مفادات کی خاطر جذباتی پن کا شکار ہوکر پوری قومی تحریک کو داعش لشکر جھنگوی اور چیچن تحریک کی طرح نقصان سے دوچار کیا؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے اگر تمام تحریکوں میں موجود حقیقی لوگ جو تحریک کو بھڑک بازی ،ذہنی عیاشی اور جذباتی پن سے ہٹ کر خالص قومی جہد کو کامیاب کروانے کے لیے چاہیے بلوچستان کے پہاڈوں ،میدانوں ،تعیلمی اداروں میں ہوں یا باہر ممالک میں نیک نیتی اور خلوص سے قومی کاز کے لئے جہد کررہےطہو وہ کم ازکم ان سولات کے لیے سوچ بچار کرے تو ان کی عقل انکی ترجیحات کو کم از کم مرتب کرنے میں مدد دےگی اور تمام پارٹیوں میں اسے اچھے خلوص اور ایمانداری سے کام کرنے والے اگر جہدکے لئے سوچ بچار کرکے پارٹی اور گروہ کے لائن کو بالائے طاق رکھ کر قوم کےلیے توانائی خرچ کرے ایک دن ضرور سازشی عناصر ،موقع پرست ،اور جوڑ توڑی اور جنگی منافع خوروں کا راستہ بند ہوگا اور یہ تمام پارٹیوں کے لوگ خود ایک فطری اتحاد اور یکجتی کی جانب گامزن ہونگے۔

***ختم شُد*** 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز