یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزپنجابی ربرسٹیمپ پارلیمنٹ اور بلوچ مداری

پنجابی ربرسٹیمپ پارلیمنٹ اور بلوچ مداری

تحریر : ڈاکٹر علی بیگ مینگل
ہمگام کالم : پنجابی پارلیمنٹ کے بلوچ پجاریوں سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ اخترمینگل نے عمران خان حکومت سے سیاسی طلاق لینے کا فیصلہ کیا ہے، یہ سن کر مجھے تو کسی زاویہ نظر سے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اس فلم کو شروع سے دیکھتے آرہا ہوں، اس کے اسکرپٹ لکھنے، اس فلم کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، ہدایتکار، اس کے اشتہار کنندگان ھیرو اور ولن ، اس فلم کی کلائیمکس سب سے واقف ہوں۔
یہ قوم کے جزبات سے کھیلنے کے لیے نواب بگٹی کی شہادت پر یہ کہہ کراستعفی دیتے ہیں کہ  اب اس پارلیمنٹ پر لعنت ہو، پھر اگلے سال اس لعنت کو گلے لگاکر پھر پنجابی پاکستان کے اسمبلی میں جاتے ہیں۔
گزشتہ بیس سالوں سے ان سب بلوچ پارلیمنٹیرینز کے کردار کو اگر جانچا اقر پرکھا جائے تو انہوں نے فوج و آئی ایس آئی کے لیے شاہ سے زیادہ شاہ کا کردار ادا کیا۔ بلوچ قومی غلامی سے چٹکارے کے لیے ان کا کردار صفر رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کی زندگیاں سنوارنے کے لیے انہوں نے ایک فیصد بھی کام نہیں کیا۔
یہ لوگ اپنے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے فوج کی ہر وہ خواہش پوری کرتے ہیں بھلے ہی ان کی اس عمل سے بلوچستان میں قبرستانوں ، لاشوں کی تعداد میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہو !
اپنے بنگلے کی منزل کو اونچا اور کشادہ کرنے کے لیے یہ قابض پنجابی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے بلوچ جھونپڑیوں کو آگ لگانے سے بھی نہیں کتراتے ہیں اور جب اقتدار ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو با اختیار نہیں تھے۔ ارے بھائی آپ کے پاس اختیار نہیں تھا تو کم از کم بلوچیت تو تھی یا وہ بھی نہیں تھی ؟
میرے خیال ان پیٹ پرستوں کی بلوچیت اور ضمیر دونوں مرچکے ہیں۔
دوسرے پارلیمنٹیرینز کی طرح بی این پی کے اخترمینگل بھی جی ایچ کیو کے راج دلارے ہیں، وہ فوج اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے اور ان کو بلیک میل کرنے کے لیے اپنی کارڈ کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
بلوچوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کہ وہ پارلیمنٹ میں بلوچوں کی آواز ہیں وہ لاپتہ افراد کے کیسز کی فہرست کو اسمبلی فلور میں لہرا کر سادہ لوح بلوچوں سے ہمدردی کا تڑکا بھی لگادیتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات کی اشتہاری مہم میں وہ اپنے ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب ہوسکے۔
یہ لوگ پاکستانی طرز سیاست سے اچھی طرح گھل مل گئے ہیں جس طرح پنجابی سیاستدان انتخابات کی تیاریوں سے کراچی اور لاھور کے ابلتے گٹروں اور سیلاب کے پانیوں میں پیدل چل کر ویڈیو بناتے ہیں تاکہ اگلے انتخابی مہم میں ٹی وی اشتہارات میں عوام کو دکھا سکے کہ ہم تو تم جیسے غریبوں کے لیے مسیحا ہیں۔
ڈاکٹر مالک اور ان کی نیشنل پارٹی نے سی پیک اور دوسرے ریاستی استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پینچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائی ہے اب اقتدار کی پھل دار درخت سے سایہ ہٹ گئی تو انہیں دھوب میں بلکتے بلوچ بچے یاد آگئے۔
بلوچ عوام کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے ان مدارویوں کی ڈگڈگی پر ناچنے کی بجائے اپنی قومی غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اس تحریک کو اپنا تحریک سمجھیں اور اپنی آنے والے مستقبل کو پارلیمنٹ کے دریچوں میں دیکھنے کی بجائے قومی آزادی کی حسین شاہراہ پر دیکھیں۔ یہ اسمبلیاں ، یہ پاکستانی نوکریاں، یہ پیکجز، یہ سبسڈی، یہ خیراتی و مراعاتی دست شفقت دراصل ہمیں ابدی غلام بنانے کے ریاستی حربے ہیں۔ اپنے قوم کے بچوں اور اپنی سرزمین کو دنیا کے دیگر باعزت اقوام کے سامنے لاکھڑا کرنے کے لیے ہمیں ابھی سے نظریاتی اور شعوری ہتھیار سے خود کو لیس کرنا ہوگا۔ اس وقت ہم سب غریب ہیں، اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر آپ قومی آزادی کی راہ پر مراعات عیش و آرام کو آج ٹھکرادیں گے تو غربت، بھوک، افلاس، اور تنگ دستی منہ کھولے آپ کا انتظار کررہا ہوگا اس سے گھبرانے کی بجائے آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ آج آپ ان مشکلات کا اگر مقابلہ کریں گے تو کل اپ کا دشمن انہیں بھوک و افلاس، غربت، تنگ دستی سے نبرد آزما ہوگا کیونکہ تب آپ اپنی آزادی لے لو گے ، اور آپ کے وسائل آپ کے اپنے تصرف میں ہونگے جسے دشمن بے رحمی سے استحصال کررہا ہے۔
اب یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ آج قوم بن کر ابھروگے، زور بازو اپنے وسائل چھینوگے یا پھر دشمن سے مل کر اپنا گھر بساو گے جبکہ قوم کو مفلس، اور اندھیرے میں یوں ہی دھکیلتے جاوگے ؟
اچھے مستقبل کی فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے، آزادی کی جنگ میں کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ، اور پانے کیلئے سب کچھ !
یہ بھی پڑھیں

فیچرز