حصہ دوئم
تحریر: شہزاد بلوچ
ہمگام کالم:
آج اگر سنگت حیر بیار مری کہتا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور دنیا کے قوانین ہم پر شدت سے لاگو ہونگے تو اس کے پیچھے ناکام آزادی کی تحریکیں ہیں جنہوں نے ایسے اعمال سر انجام دئیے جو دنیا کو بالخصوص مغرب کو پسند نہیں۔ چین ایک سپرپاور ملک ہوکر بھی ہانک کانگ کے متنظہ بل کی بابتمغربی دنیا میں اپنا لوہا منوا نہیں سک رہا۔ اس امر میں بلوچ تحریک کیونکر بچ پائے گی اگر پے در پے خود کش حملوں سے دنیا میں خود کو ایک سفاک اور غیر ذمہ دار قوم کے طور پر اسی طرح پیش کیا جاتا رہا تو آج کچھ حلقے ہماری بات سُن رہے ہیں کل کو وہ بھی منہ پھیر لیں گے اور پھر ہم ایک بند گلی میں ہونگے جہاں سے نکلنے کی راہیں نہ صرف مشکل سے مل سکیں۔ اگر طاقت اور خون ریزی ہی تشکیل ریاست کی بنیادی ترکیب ہوتی تو تاملوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس میں نہ صرف آپ کو خون ریزی کے شدید شواہد ملیں گے بلکہ طاقت کا مظاہرہ بھی اپنے عروج پر نظر آئے گا مگر آج ان کی تحریک وجود نہیں رکھتی اور وجہ صرف اور صرف بے لگامی اور بے ہنگم جنگی جرائم ہی نظر آئیں گے۔
اس سے زیادہ طاقت کتنی ہوسکتی ہے کہ سری لنکا میں وہ بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کردیتے ہیں اور اس حملے میں انتہائی تباہی مچا دیتے ہیں جس میں نہ صرف بین الاقوامی ہوائی اڈے کی عمارت تباہ ہوتی ہے بلکہ وہاں پر موجود بہت بڑی تعداد میں مختلف کمپنیوں کے ہوائی جہاز بھی تباہ ہوجاتے ہیں مگر حاصل حصول صفر ہی رہا، سیاسی شخصیات میں بھی انہوں نے صف اوّل کے لوگوں کو نشانہ بنایا جہاں سے نہ صرف ان کی طاقت کا ثابت ہوتی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں آئے کہ سری لنکا میں خوف کی علامت بن گئے بیرونی دنیا میں بھی ان کی طاقت کا اس قدر چرچا ہوا کہ ان کے متعلق یہ کہا جانے لگا کہ تامل ٹائیگرز سری لنکا اور ہمسایہ ممالک میں جب چاہیں جس طرح بھی چاہیں خطرناک حملے سرانجام دے سکتے ہیں مگر دنیا کی آنکھیں تب بھی نہ کھل سکیں۔
دنیا کی طاقتیں شائد ہی آپ کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کریں مگر تشکیل ریاست کا مرحلہ آپ کو کبھی بھی نصیب نہیں ہوگا اور ہماری قومی تحریک کا مقصد ہی تشکیل ریاست ہے نہ صرف اپنے لوگوں کو مروا کر ذاتی اور گروہی مفادات حاصل کرنا۔ تشکیل ریاست کا مرحلہ انتہائی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں آپ نے دنیا کے تمام طاقت ور ممالک اور اداروں کا اعتماد جیتنا ہوتا ہے کہ آپ ایک ذمہ دار قوم ہیں اور عالمی قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور اگر ہم اسی طرح ان قوانین کو توڑتے رہے اور عالمی طاقتوں کو یہ باور کراتے رہے کہ شدت پسند اور جنونی ہیں تو ہم پر اعتبار کون کریگا اور تشکیل ریاست میں ہم کس طرح سے کامیاب ہوسکتے ہیں؟
اس وقت ہمارے ہر عمل اور ہر اٹھائے قدم پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ دنیا ہماری بات نہیں سُن رہی مگر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ عالمی رائے عامہ ایک دن میں نہیں بنتی بگڑتی بلکہ اس کا مرحلہ بھی دیر پا ہوتا ہے۔ پہلے لابیئنگ ہوتی ہے، میڈیا میں مسائل اچھالے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ادارے اپنی رپورٹیں شائع کرتی ہیں پھر جاکر آہستہ آہستہ سے آپ کے حق میں اور آپ کے دشمن کے خلاف ایک بیانیہ وجود میں آتا ہے اور اس وقت ہم اُسی مرحلے میں ہیں جہاں ہمارے حق میں دنیا جان رہی ہے اور اس مرحلے میں ہی ہم دہشت گرد اور انتہا پسند کے نام سے متعارف ہوئے تو بھلا یہ داغ پھر کیسے دھویا جاسکے گا؟
بلوچ جہد کاروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی عمل سے پہلے قومی تحریک کے حوالے سے سوچھیں وہ مخلص جہدکار جو سر زمین کی آزادی کی آس لگائے  بیٹھے ہیں وہ ہر عمل سے پہلے ردعمل کی بابت بھی اپنی رائے  دیں۔ تنقیدی عمل پربھاکرن کو بھی پسند نہ تھا وہ ناقدین کو غدار سمجھ کر انہیں زدوکوپ کرتا تھا مگر تاریخ کے اوراق کو دیکھیں تو وہ ایک سچا جہدکار تو تھا مگر اس کی حکمت عملی نے پوری تحریک کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اگرچہ آج تامل تحریک کی روح بلوچ جہد میں  پیوست کر گئی ہے مگر اب بھی وقت ہے خاص کر ان مخلص جہدکاروں کے پاس کہ وہ پختہ ذہن سے تحریکی امور کو پرکھیں اور غلط حکمت عملی کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ببنیں تا کہ بلوچ جہد تامل کی طرح زمین بوس نہ ہو۔
اگر ہم اپنےرویے درست نہں کرتے تو وہ دن خداناخوستہ دور نہیں جب ہم آپس میں دست و گریباں ہو کر تاملوں کی طرح سیول وار کی طرف جائنگے اور شاطر دشمن ایران کی مدد سے عالمی راہ ہموار کرکے ہماری نسلوں کو تباہ کر دیگا۔ اب یہ امر تو کسی ذی شعور سے نہیں ڈھکا چھپا کہ جس طرح کے مراسم ایران بے چین کے ساتھ اسطوار کرلئے ہیں وہ آپ کے لئے شدید اور انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اس نقصان کے دو عوامل ہیں ایک اندرونی اور ایک بیرونی۔ اندرونی طور پر وہ آپ کو ایک دوسرے سے دور کردے گا اور جس میں وہ ایک خاطر خواہ حد تک کامیابی بھی حاصل کرچکا ہے اور بیرونی طور پر آپ کو اس وقت کے دنیا میں حکمران طبقے (امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان) کے سامنے بھی بے اعتبار ثابت کردے گا جس کے شدید قومی نقصانات مستقبل قریب میں ہمارے سامنے آجائیں گے۔
جیسا کہ سری لنکا نے انڈیا کی مدد سے تاملز کو عالمی سپورٹ سے ختم کر دیا کیونکہ انڈیا کے مفاد میں تامل تحریک کی کامیابی نہیں تھی اس کی وجہ انڈیا میں موجود تامل آبادی تھی اگر  ایل ٹی ٹی ای  اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتی تو اس کامیابی کی تپش انڈیا میں مقیم تاملوں کے لئے آزادی کی راہ ہموار کرلیتا۔ ٹھیک اسی طرح ہی ایران کبھی بھی بلوچستان کی آزادی نہیں چاہتا کیونکہ ایران جانتا ہے کہ اگر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان آزاد ہوا تو اس کے اثرات ایرانی زیر دست بلوچستان پر بھی بہت شدید ہونگے اور وہ حصہ بھی اُسے کھودینا پڑے گا۔ اس کی مثال تاملوں کے بعد کردوں کی آزادی کی تحریک میں بھی صاف اور خالص طریقے سے دیکھی جاسکتی ہے جہاں تُرکی براہ راست شامی کردوں پر حملہ آور ہے اور ایران عراقی کردوں کی نسل کُشی میں مصروف ہے کیونکہ عراقی کرد ایران کے لئے خطرہ ہیں اور شامی کرد تُرکی کے لئے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس طرح کی مثالوں اور واضح حالات ہونے کے باوجود ہم آنکھیں بند کرکے کھائی کی جانب کیوں جارہے ہیں۔ مخلص جہدکار جو خالصتاً بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مقصد کی خاطر اپنا قیمتی لہو بہا رہے ہیں کو چاہئیے کہ اس طرح کے اعمال کی نہ صرف حوصلہ شکنی کریں بلکہ اس طرح کے تمام عوامل سے دور رہیں تاکہ مخلصی اور وطن پرستی کی خاطر ان کی دی جانے والی قربانی کہیں قومی مقصد میں نقصان کا باعث نہ بن جائے۔
(ختم شُد)