تحریر: بھائیاں بلوچ
ہمگام کالم:
قومیں دنیا کی تاریخ میں ایسے ہی مقام نہیں  رکھتیں ان کے شہدا اپنی جانوں کی قربانی دے کر دنیا میں  اپنی قوم کو اعلیٰ مقام دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کے پنوں میں اں کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ شہدا نے اپنی قوم کیلئے خود کے آج کو قربان کرنے کا فلسفہ اپناتے ہوئے قوموں کو مستقبل میں آزادی کی ضمانت دی ہے ۔
یہ جو قومی تاریخ ہے اس کو کسی قلم کی سیاہی کی ضرورت نہیں بلکہ شہدا کے خون سے لکھی جاتی ہے۔ قوم کو مقام دے کر خود جسمانی طور پر رخصت ہوتے ہیں لیکن  قوم کی یادوں میں ہمیشہ امر رہتے ہیں ۔ شہادت کا رتبہ خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے جو عظیم مقصد پر گامزن ہوتے ہیں ۔
لہو جو ہے شہید کا ، وہ قوم کی زکوہ ہے
شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے
جب بلوچ آزادی پسند افغانستان سے جلاوطنی سے لوٹے تو شہید قیصر خان مری وہاں بلوچ بھائیوں کے ساتھ رہے تھے۔ ان کو قوم سے دوستی اور وطن سے بہت محبت تھی۔  اپنے علاقے میں ہر وقت لوگوں سے شفقت اور مہروانی سے ملتے تھے ۔
جب بلوچ آزادی کی جد و جہد از سر نو شروع ہوئی تو شہید قیصر خان کم عمر تھے لیکن قومی زمہ داریوں کے احساس نے ان کو گھر بیھٹنے نہ دیا اور انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی کے دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کا رخ کیا 47 سالانہ جنگی خدمات گمنامی میں دئیے۔ کئی محاذوں میں غزی بنے۔
 شہید گوریلہ جنگ کا مکمل عمل رکھتے تھے کبھی ہیروازم اور نمود و نمائش کے دلدل میں نہیں پھنسے  جو نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں اور ہر وقت اپنے دوستوں کو بھی یہی درس دیتے تھے کہ ” یہ کوئی خاندانی جنگ نہیں ہے ، غلامی سے آزادی کی جنگ ہے جہاں ہم نے ایک غیر فطری اور غیر مہذب ریاست کے قبضے سے اپنی قوم اور وطن کو آزاد کرنا ہے تو ہمیں اپنی پہچان چھپانی ہے تاکہ دشمن کو ہماری کوئی معلومات نہ پہنچ سکے اور ہم ان کے بیچ عام آدمی کی طرح رہ کر اس پر وار کرسکیں۔ ہم اگر اپنی پہچان اور تعداد کو راز رکھیں گے تو دشمن کو نفسیاتی شکست دینے میں کامیاب ہونگے ” شاید کوئی اس حقیقت سے انکاری ہو مگر ہر انسان کی خواہشات ہونگی، جذبات ہونگے مگر ان کو نفی کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ آزادی کی جنگ یا جدوجہد دشمن سے پہلے اپنے آپ سے ہوتی ہے، جنگ اپنی خواہشات سے، جنگ اپنی ذاتی مفادات سے، جنگ گرم و سرد سہنے اور مشکلات و مصیبتیں جھیلنے کے عمل سے، جنگ بھوکے پیاسے رہنے سے۔ جس وقت ایک جہد کار اپنے آپ سے لڑ کر جنگ جیت جاتا ہے اس کی منزل اس کو اُسی وقت مل جاتی ہے کیونکہ اس کی منزل قومی مقصد کو آگے بڑھانے کا ہوتا ہے جس میں وہ جہد کار شامل ہوکر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کی شروعات کرتا ہے۔ شہید قیصر خان مری سب کو درس دیتے تھے کہ کبھی اپنی ذاتی خواہشات کو قومی سوچ فکر و نظریے پر حاوی مت ہونے دینا جس وقت یہ آپ پر حاوی ہوگئیں یہ تمہاری اور ہماری شکست ہوگی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر گوریلہ جنگ لڑنی ہے تو ڈسپلین پر رہنا ہے۔وہ کہتے تھے کہ آپ کی بندوق قومی مفادات کی امین ہوتی ہے اور قوم کی طرف سے ایک امانت جس کو قومی مقصد، ضروریات اور صرف قومی مقصد کے لئے استعمال میں لایا جانا چاہئیے۔ شہید قیصر مری بلوچ لبریشن آرمی جیسی فوجی ڈسپلن سے سرشار تنظیم کے ساتھ رہے اور اپنا ہر قدم ڈسپلن کے ساتھ رکھتے رہے اور 47 سال مسلسل جد و جہد  کی نشان بن رہے مگر سیلفی بازی اور شوبازی سے کوسوں دور مگر مقصد سے جُڑے رہے۔
1973 سے لے کر شہادت تک وہ ثابت قدمی سے فکر اور نظریے پر ڈٹے رہے اور گوریلہ حکمت عملی سے بلوچ عوام کے حقیقی محافظ رہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی تعلیمی ڈگری نہیں تھی لیکن خود ایک درس گاہ تھے۔ اپنے دوستوں کیلئے کسی استاد سے کم نہ تھے۔ علاقے کے لوگ ان سے ملنے کیلئے آرزو رکھتے تھے کہ کہیں ہمیں مل جائیں اور ہم ان سے تحریک کے حوالے سے بات کرسکیں جہاں ہمیں ایسے کسی استاد سے کچھ سیکھنے کے لئے میسر آئے گا۔ جس مہروانی اور شفقت سے ملتے تھے اور شائستگی سے بات کرتے تھے ہر کوئی ان سے ملنے اور بات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کبھی قومی بندوق قوم کے خلاف استعمال نہیں کی اور وہ کسی عمل کے سخت خلاف تھے۔ وہ بہت نیک دل انسان تھے اور بلوچیت کی ساری نشانیاں ان میں موجود تھیں بہادری، وفاداری، مہمان نوازی جیسی تمام بلوچ روایات ان میں پائی جاتی تھیں۔ مالی حوالے سے کمزور ضرور تھے مگر کبھی بھی اس پر پریشان نہیں ہوتے بلکہ یہ چیز ان کے حوصلے کو اور توانا اور مضبوط بناتا کہ غلام ہونے کی وجہ سے روایات کی صورت بھی ہمیں غریب بنایا جارہا ہے تاکہ ہم اپنی جداگانہ حیثیت سے غافل رہیں۔
بلوچ دوستی اور قومی آزادی کے مقصد سے ان کو دیوانہ وار محبت تھی اور یہی تمنا لئے  کم عمری میں ہی قومی ذمہ داریوں کے احساس نے ان کو باشعور اور پختہ سوچ کا مالک بنادیا اسی وجہ سے انہوں نے کم عمری میں ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وطن کیلئے کچھ کرنا ہے۔ دشمن پاکستان سے قوم کو آزاد کرانا ان کا مقصد حیات بن گیا۔ وہ قومی فوج میں بحیثیت ایک جنگجو جب شامل ہوئے اور دشمن کے ساتھ اپنے آخری معرکے تک ایمانداری اور مخلصی سے قومی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ کئی محاذوں میں دشمن پر حملہ آور ہوئے دشمن کو شکست دی۔ وہ انتہائی بہادر اور نڈر سرمچار تھے  ہر وقت دشمن کو نقصان دینے پر سوچتے تھے اور گوریلہ جنگی حکمت عملی سے  پلان کرتا تھے۔
جولائی کا مہینہ ظالم مہینہ رہا جہاں بلوچ قوم ایک بہادر، نڈر ایماندار اور انصاف پسند گوریلہ جنگجو سے محروم ہوا 2020 جولائی 16 کو قابض ریاست کی آرمی اس کے گھر پر حملہ آور ہوئی اور شہید بہادری سے مقابلہ کر کے شہادت کا رتبہ اپنے نام کرگئے۔، شہید قیصرخان مری بلوچ تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ زندہ رہینگے۔