تحریر: دیدگ بلوچ
ہمگام کالم:
ایک طرف بلوچ تحریک میں نوجوان اپنی جان ہتھلی پر رکھ کر ہنستے ہوئے خوشی سے قربان ہورہے ہیں تو دوسری طرف ایک پورا مائینڈ سیٹ تیار ہوچکا ہے کہ ہم مستقبل میں کیسے سیٹ ہونگے کہاں سیٹ ہونگے؟
یقینا آج بلوچ تحریک جس کھٹن دور سے گزر رہی ہے وہ نہایت ہی مشکل اور سخت حالت میں ہے لیکن چونکہ ایک جہد ہے بقول ایک لکھاری کے “انقلاب وہ شے ہے جو سب سے پہلے اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے”۔ آج لاکھوں لوگوں کی امیدیں بلوچ تحریک سے وابستہ ہیں لیکن وہی بظاہر ہمیں دوست نظر آتے ہیں محفلوں میں قوم پرستوں کے بڑے دعوے دار در اصل بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے باقاعدہ ایک مائنڈ سیٹ کیساتھ پچھلے تین سالوں سے بلوچ انٹلیجنشیاہ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں (آگے تحریر میں ان چیزوں کو پیش کیا ہے )
انقلاب کی راہ میں قیادت اور کارکنوں کے رشتے کی بنیاد نظریہ و فکر اور اس سے بھی مضبوط بنیاد بھروسہ ہوتا ہے۔ کارکن کو یہ بھروسہ سو فیصد ہو کہ جب خوشی، کامیابی، ترقی، غلط و صحیح، مشکل و آسان ، مصیبت و سکون، آرام و زوال، فائدہ و نقصان وغیرہ میں قیادت میرے ساتھ برابر شریک ہے تو وہ قیادت پر بھروسہ کر کے اپنی جان بھی بخوشی قربان کرلیتا ہے مگر جب اس کو یہ لگے کہ بُرا سب کچھ میرے حصے آئے گا تو جان کیا وہ اپنی نیند بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ حالیہ ایک بلوچ لکھاری نے انقلابی رویوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا، آئیے ہم اکتفا کرکے اس کے الفاظ کو ایک ساتھ پڑھتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ “جب کسی کارکن کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ ناکامی، رسوائی، نقصان اور غلطیوں کا تحفہ ایک وقت ضرور میرے کھاتے میں ہوگا، پھر جان، مال، خاندان قربان کرنا تو کیا وہ اپنی نیند بھی قیادت کے بھروسے پر قربان نہیں کرسکتا۔
بس وقت پاسی کی حد تک ساتھ ہوگا مگر ایمانداری و مخلصی کے ساتھ نہیں کیونکہ وہ جان چکا ہوگا کہ میں کارکن سے زیادہ ٹشو پیپر ہوں، پھر وہ ساتھ ہوگا لیکن زیادہ تر اپنی ذات، مستقبل اور خاندان کا سوچتا ہوگا”۔
ایک انقلابی جہد کار جب کسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے تو وہ ہمیشہ اس تنظیم کے آئین اور نظرئیے کی بنیاد پر شمولیت اختیار کرتا ہے لیکن جب بھی وہ یہ دیکھتا ہے کہ تنظیم کے اندر تنظیم کی پالیسوں میں ردوبدل کی ضرورت ہے وہ اپنی رائے بھی پیش کرتا ہے، غلط و صحیح کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ ہر سیاسی کارکن کا فرض ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے اندر غلط چیزوں کی نشاندگی کرئے اور ان پر بے رحم تنقید کرئے ۔
سنگت شاہ زیب بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( آزاد ) کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر ہیں چونکہ میں نے جب اس مقدس تنظیم میں شمولیت اختیار کی، تو میں نے یہ عہد کیا تھا کہ میں بلوچ تحریک کی آبیاری کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرونگا۔ ساتھیو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کسی فرد واحد کی تنظیم نہیں بلکہ یہ بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کی تحریک ہے اور آج بھی سینکڑوں افراد زندان میں اذیتیں کاٹ رہے ہیں۔ جب مرکزی ڈپٹی جنرل سیکٹری نے مجھے سنگت شاہ زیب کی رکنیت ختم کرنے کا ڈرافٹ بھیجا میں حیران ہوگیا کہ آخر کن وجوہات کی بنیاد پر سنگت شاہ زیب کو نکالا ہے جب میں نے مرکز کے اوپر اپنا ایک ڈرافٹ لکھ کر بھیج دیا اور اصل وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ میں نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ ریاست چاہے ہمیں سب کو ماردےلیکن ہم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد ) کیساتھ جُڑے رہینگے جس کیلئے ہم ہر قربانی کیلئے تیار ہیں اسی نظریے کی بنیاد پر میں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔سنگت شاہ زیب کو نکالنے کے اصل حقائق ابھی تک کسی بھی ممبر کے سامنے پیش نہیں کئے گئے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ تنظیمی دوست اتنے مایوس ہیں؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں، بقول ایک بلوچ لکھاری کے “بالکل ایسے مائنڈ سیٹ کے لوگ بھی تحریک یا کسی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں اور تحریک و قوم پرستی کے سب سے بڑے دعویدار ہوتے ہیں، کسی لیڈر کے پرستار اور جیالے بھی ہوتے ہیں، مگر یہ ہرگز انقلابی نہیں ہوتے، جب انقلابی نہیں ہوتے ہیں وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں”۔ جہاں اولین ترجیحات میں بندے کی ذات و خاندان بال بچے ہوں، ان کا مستقبل ہو، ان کی زندگی کا تحفظ اور سیٹ کرنے کا سوچ ہو پھر وہاں سے انقلاب، جنگ، تحریک، قربانی، کردار نبھانے کی بات و دلیل صرف لغویات کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ساتھیو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( آزاد) کے کچھ لوگوں ایک منصوبے کے تحت سیاسی تربیت، لٹریچر اور بلوچ قومی موومنٹ کو فروغ دینا نہیں چاہتے جنہوں نے مرکز کے پاور کو سینٹرل کیا ہے بس اپنی عیش و آرام اور اجاری داری کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں بدقسمتی سے اب فکری دوستوں کی ان کے سرکل میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اسکی واضح مثال ہمیں سنگت شاہ زیب بلوچ کی بغیر کسی دلیل اور جواز کے رکنیت ختم کرنے کو ملتی ہے۔
چند افراد نے ایک مرکزیت قائم کرکے گروپ بندی کو پروان چڑھا کر بی ایس او آزاد کو ایک مخصوص دائرے میں بند کیا ہے۔ مخصوص دائرے کی سوچ محدود رہتی ہے۔ اور تنظیمی کام جمود کا شکار ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہےکہ تنظیم صرف سوشل میڈیا میں اپنی موجودگی کا اظہار کر رہی ہے عملاََ کوئی سیاسی سرگرمی نہیں پائی جاتی۔ موجودہ قیادت میں چند فکری اور نظریاتی دوست تنظیمی کاموں میں اصطلاح اور بہتری لانے کی کوشش کر رہے تھے مگر انکا انجام کیا ہوا شاید اس بات کو تنظیمی کارکنوں کے علاوہ کوئی اور نہیں جان سکتا۔ اسکی مثال مرکزی کمیٹی کے ممبر سنگت شاہ زیب بلوچ کی ہے جس نے تنظیم کو صحیح سمت میں لانے کی کوشش کی مگر اس مخصوص دائرے کے اندر محدودانہ سوچ پر قائم گروپ نے اس مرکزیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک فکری و نظریاتی سنگت کو تنظیم سے فارغ کر دیا۔ یہاں میں ایک بات ایڈ کرنا چاہتا ہوں کہ معاملہ صرف شاہ زیب کے ساتھ نہیں بلکہ کئی ممبران کو درپیش آیا ہے۔ ہم اپنی شکایات کہاں پہنچائیں ؟؟ یہ عمل ایک طلبا تنظیم کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے جس میں کئی سالوں سے وابستہ دیرینہ اور مخلص مرکزی سنگت کو چند سیاسی نابلداپنے عہدے اور مرکزیت سے فائدہ اٹھا کر تنظیم سے فارغ کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ تنظیم پورے بلوچستان سے نکل کر ایک دو علاقوں میں اپنا وجود بمشکل قائم کر پارہی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تںظیم میں غلط چیزوں کیخلاف آواز بلند کرنا غلط ہے؟ کیا تنظیم میں غلط اور صیح چیزوں کی نشاندگی کرنا غلط ہے؟ کیا تنظیم میں فکری، علمی اور سیاسی چیزوں کو فروغ دینا غلط ہے؟ ساتھیو ہم ایک انقلابی جہد کار ہیں۔ ہم ان چیزوں پر بات نہیں کرینگے تو کیا پارلیمانی سیاست دانوں کی طرح اپنا ایما کچھ وقتی چیزوں سے جوڈ کر صرف جی حضور بن کر رہیں۔ یقینا ہم انقلابی جہد کار ہیں ہم بحث کرینگے، مباحثہ کرینگے، اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق بات کرینگے گلوبل دنیا کی نئی پالیسوں کو سامنے رکھ کر ان پر بات کرینگے اور اپنی آزادی کے مشن کو مستحکم کرینگے۔
ریاست کی نئی قوانین اور بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے وہ مختلف حربے استعمال کرتا آرہا ہے، جس سے ہر جہد کار کو اپنی صفحوں میں اس طرح کے لوگوں کو نکالنا چاہیے چونکہ ریاست نے ایک مائنڈ سیٹ تیار کیا ہے جو ہماری صفحوں میں موجود ہے۔ ایک امر انتہائی قابلِ غور ہے اور جسے ایک جہدکار کو جہد سے وابستگی کے پہلے دن سے فتح یا شہادت تک نہیں بھولنا چاہیئے کہ اس نے تحریک سے جڑنے کا فیصلہ کیوں لیا تھا؟ چاہے کوئی بیس سال سے تحریک سے منسلک ہو یا کوئی نوخیز نوجوان ہو، اسکا بنیاد وہی فیصلہ ہوتا ہے جو اسکے جڑت کا سبب بنا تھا۔ وہ فیصلہ ہمیشہ تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کا ہوتا ہے، جس میں کوئی ذاتی غرض و مقصد نہیں ہوتا۔ ایک جہدکار اس بنیاد سے جتنا دور ہٹتا جاتا ہے، وہ اتنا ہی عمومیت، مراعات، آسائش، آرام اور پروٹوکول کی جانب مائل ہوتا جاتا ہے۔ پھر وہ جہد کے اندر ہی ایک ایسی زندگی کی امید اور مانگ رکھنے لگتا ہے جو جہد کے بنیادی تقاضوں سے ہی متضاد ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اگر ایک بار وہ اس عمومیت کا عادی ہوجائے پھر وہ دوبارہ اپنے بنیادی فیصلے کی جانب لوٹنے، یعنی جہد میں ایک متحرک کردار ادا کرنے کو خود کے ساتھ زیادتی سمجھنے لگتا ہے۔ اگر اس سوچ کا جلد قلع قمع نہ کیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ ایسے جہدکاروں بلکہ لیڈروں کے حجم میں ایک غیرضروری اضافہ ہوتا جاتا ہے، جو تحریک کے اندرایک بیوروکریٹک سوچ کی آبیاری کرتے ہوئے ایک منفی غیر رسمی بیوروکریسی تشکیل دیکر تحریک کی رفتار، سمت اور فطرت کو ہائی جیک کرلیتے ہیں۔
ابھی فیصلہ ہر ایک کے اپنے ہاتھ میں ہے، کچھ کرینگے تو ضرور کچھ ہوگا، خاموش تماشائی بن کر بیٹھیں گے تو کچھ نہیں ہوگا، ظلم کے خلاف اٹھینگے، عمل کرینگے، جدوجہد کرینگے، آپکے عمل میں غلطی کا امکان ہوگا، مشکلات پیش آئینگی، جلدی موت ہوسکتی ہے، تنقید ہوگی، مخالفت ہوگی۔ کچھ نہیں کرینگے تو آرام و سکون ہوگا، مگر یہ اس وقت ہوگا جب اپنے ضمیر کو سب سے پہلے گلہ گھونٹ کر ختم کرینگے۔ یہ قومی درد رکھنے والے باشعور انسانوں کے بس کی بات نہیں، اس لیے جہاں تھوڑا بہت علم و شعور ہے، قوم کا درد ہے، آزادی کی چاہ ہے، وہ اجازت نہیں دیگا۔ جب تک یہ درد اور یہ شعور رکھنے والے بلوچ اس سرزمین پر رہینگے، آرام خود کو مسترد اور موت خود کو منتخب ہوتے دیکھتی رہیگی۔
بس آخر میں ہی کہوں گا کہ اگر کسی باغ پر آزادی کا بورڈ لگا ہو اور وہاں صرف گلاب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہو تو یہ باغ نہیں گلابوں کا جنگل ہے۔ اس طرح کسی دن اسی جنگل میں ہم بھی اندر جانے کی بات کرینگے ہمیں بھی سنگت شاہ زیب کیطرح اسی جنگل کے گیٹ کے سامنے خاموش کرا کر نکال دیا جائے گا۔