سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلزاللہ نظر کا سرخے بھائیوں پر وار تحریر : نود بندگ بلوچ...

اللہ نظر کا سرخے بھائیوں پر وار تحریر : نود بندگ بلوچ

تربت میں 20 پنجابیوں کے قتل کو بلوچ قومی غلامی اور پاکستان کے جبری قبضے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک حوصلہ افزاء اور قابلِ ستائش عمل کہلایا جاسکتا ہے اور کسی طور میں اس واقعے کو غلط نہیں کہہ سکتا لیکن جب اس واقعے کی ذمہ داری بی ایل ایف نے قبول کی تو مجھے تضادات کے پٹھاری سے ایک اور ناگ پھن پھلاتے نظر آنے لگا، بی ایل ایف ہو یا انکے پاکٹ جماعتیں بی این ایم و بی ایس او آزاد ان کے بارے میں یہ رائے اب تقویت پاچکی ہے کہ انکا سوچ ، نظریہ اور ہر عمل و کردار موقع پرستی و ابن الوقتی کے کوکھ سے جنم لیتا ہے ، کیونکہ ایک طرف یہ عناصر گذشتہ طویل عرصے سے سنگت حیربیار مری کیخلاف ایک محاذ کھولے اسے سرمایہ داروں کا ایجنٹ قرار دینے پر تلے نظر آتے ہیں اور اپنے بابت سوشلزم کے اتنے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ فیڈل کاسترو تک انکے سامنے احساس کمتری کا شکار ہوجائے اور اپنے کٹر اشتراکی نظریات کو ڈاکٹر اللہ نظر سے نتھی کرکے موصوف کو وقت کا چی گویرا اور بقول شوکت بلیدی کاسترو کا چہیتا انقلابی قرار دیتے ہیں لیکن انکے سوشلزم کے غبارے سے فوراً اس وقت ہوا نکل جاتا ہے جب پنجابی مزدور کہیں نہتے نظر آتے ہیں ، اب اس تضاد کے بابت مجھے کوئی “نظری ” دانشور سمجھائے کہ لینن ، ماؤ اور کاسترو نے کب اور کہاں کہا ہے اور داس کیپیٹل و کمیونسٹ مینی فیسٹو کے کس پرنے پر یہ تحریر کندہ ہے کہ ایک سوشلسٹ جماعت نہتے مزدوروں کو گولیوں سے بھونے گا ؟ اب یہ نا کہنا کہ یہ ایف ڈبلیو وغیرہ کے مزدور تھے کیونکہ بطور سوشلسٹ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ وہ فوج کیلئے کام کرتے تھے بلکہ آپ یہ کہیں گے کہ ان مزدوروں کے محنت کا استحصال فوجی کررہے تھے اور بطور سوشلسٹ آپکی ذمہ داری اپنے مزدور مظلوم بھائیوں کو ان زنجیروں سے آزاد کرنا ہے نا کہ انہیں قتل کرنا ہے ( اس بابت بی ایل اے پر سوال نہیں اٹھ سکتا کیونکہ اسکی پالیسی آبادکاروں اور سوشلزم کے بابت واضح ہے )۔
آج کل تو بی بی کریمہ اور ادا کمال کے بیانات اور تقریروں کے متن کا آغاز ہی دنیا بھر کے شہیدوں کو سرخ سلام سے ہوتا ہے جو یقیناً سوشلزم کی نیک روایت ہے اب یہی نہتے مزدور سوشلزم کے رو سے بلا شک و شبہہ شہید ہیں یعنی محنت بیچتے ہوئے جان سے گئے مطلب ان پنجابیوں کو ایک طرف سے نظریاتی استاد اللہ نظر قتل کررہا ہے اور چھوٹو تنظیم سرخ سلامیں پیش کررہا ہے۔ ایک طرف بی ایل ایف لائن میں 20 پنجابی کھڑے کرکے مار دیتا ہے اور دوسری طرف ان کے ” مقدس و فطری اتحادی ” بی بی کریمہ کے ساتھ خرم و نور مریم بی ایس او آزاد کے اسٹیج پر تقریریں کرتے ہیں ، جب جب ان پنجابی سوشلٹوں کی بلوچ تحریک میں عمل دخل پر سوال اٹھایا گیا ہے تو بی بی کریمہ اور ادا کمالو بشمولِ بالگتری و مشکوی سرخے منان و خلیل یہ دلائل دیتے نظر آئے ہیں کہ ہم سوشلسٹ ہیں اور دنیا کے تمام مظلوم و محکوم قوموں اور طبقات کی جنگ لڑرہے ہیں پنجابی سے ہمارا کوئی دشمنی نہیں بلکہ دشمن پاکستانی فوج ہے لیکن اب دیکھتے ہیں کہ ان ” مظلوم ” پنجابیوں کیلئے یہ کتنا آواز اٹھاتے ہیں اور بی ایل ایف کے رد سامراج بیانات کو ان ہلاکتوں پر کیسے سچ اور تضادات سے پاک ثابت کیا جاسکتا ہے ؟
ان آبادکاروں کے مارنے کا بلوچ تحریک کو کوئی فائدہ ہو یا نا ہو لیکن بی بی کریمہ کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا ، کیونکہ لطیف جوہر کی لاہور یاتروں کا سلسلہ ختم ہوگا ، نورمریم کے اسلام آباد کے کوٹھی کی چابیاں واپس لی جائیں گی اور مہنگے لیپ ٹاپوں و آئی فونوں کے گفٹ آنا بھی بند ہوجائیں گے لیکن پھر بھی امید نہیں توڑنی چاہئے موقع پرستی کے جس گھاٹ سے انہوں نے پانی پیا ہے بعید نہیں ہے کہ وہ ایک بار پھر سوشلزم کے گنگا میں غوطہ لگا کر سرخ سرخ ہوکر نکلیں کیونکہ موقف اور اصول معلوم نہیں ان کیلئے کس گھر کی لونڈی ہیں ، جب بیس پنجابی ایک ساتھ نظر آگئے تو سوشلزم کو جبری رخصتی پر بھیج دی جاتی ہے اور جب پنجابیوں سے کچھ تقریریں اور تحفے تحائف ملنے کا موقع میسر آئے تو فوراً سوشلزم کا تخت سجا کر اس پر براجمان ہوکر بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں اور باقی سب رد انقلابی کہلاتے ہیں ، حد یہ ہے کہ حال ہی میں جب بی ایل اے نے کوئٹہ میں سخی سلطان نامی آبادکار اور ایک پنجابی ڈاکٹر کو قتل کیا اور اس سے پہلے بولان میں 11 آبادکاروں کو گاڈیوں سے اتار کر قتل کیا گیا حتیٰ کے 5 سال پہلے جب ناظمہ طالب کو مارا گیا تو ان سب کو لیکر کراچی کے روڈوں پر بی ایس او بالگتر اور مشکے میں بی این ایم ، مہوش احمد کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نظر ، لندن کے چوراہوں پر حمل حیدر اور فیس بک پر انکے خصوصی دستے از معروف گالم گلوچ گینگ ( منظور بسمل ، حنیف شریف ، تاج بلیدی وغیرہ) ان مقتولوں سے ہمدردی جتا کر بی ایل اے کو انسانیت کا دشمن قرار دیکر خوب تنقید کرتے رہے اور پنجابی آبادکاروں کو نسلی بنیاد پر مارنے کی بھر پور مخالفت کرتے رہے لیکن اب اسی عمل کو خود دہرانے کے بعد وہ اسکا کیسے دفاع کرسکیں گے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا؟۔
خیر بی ایل اے نے آج تک نا سوشلزم کا دم بھرا ہے اور نا ہی دنیا بھر کے مظلوموں و محکوموں کیلئے جنگ لڑنے کی بھڑک بازی میں پیش پیش رہا ہے ، بی ایل اے ہمیشہ سے بلوچ نیشنلزم کے بنیاد پر آبادکاروں کو قبضے کا ایک جز قرار دیکر تنبیہہ کے بعد آباد کاری ختم کرنے کیلئے مارتا رہا ہے انہیں کبھی بھائی قرار دینے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے نظر نہیں آیا ہے ، لیکن اللہ نظر اور اسکے یرغمالی تو پنجابی مزدروں کو بھائی قرار دیتے رہے ہیں خیر حیرت کی بات نہیں بھائی بناکر وار کرنا سنگت اللہ نظر کی پرانی عادت ہے ، قصہ المختصر یار لوگ نا سوشلسٹ ہیں ، نا کیپٹلسٹ اور نا ہی نیشنلسٹ یہ بس مطلب کے یار ہیں چند تقریروں کی خاطر پنجابی بھائی بن جاتا ہے اور خبروں میں نام چلوانے کی خاطر وہی بھائی گولی کا حقدار بنتا ہے ، ایک بلوچ نیشنلسٹ ہونے کی حیثیت سے میں پنجابی آباد کار یا اسکے مزدور کے شکل میں آمد کو قومی مفادات کے تحت ایک ناسور سمجھ کر اسکے صفائے کا حمایت کروں گا اور ایسے کسی بھی عمل کا حمایت کرتا رہوں گا لیکن آج بی ایل ایف یہ کاروائی ایک واضح سوچ اور مقصد کے تحت کرتا تو میں زور سے چلا کر بولتا ” بی ایل ایف زندہ باد ” مجھے دشمن کے مرنے کا خوشی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب سینے پر ماما مھندو کا نیا نیا زخم لگا ہے لیکن میں ساتھ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس قتال کا تحریک کو اتنا ہی فائدہ ہوگا جتنا طالبان کے کسی حملے میں پنجابیوں کے مارے جانے سے ہوسکتا ہے یعنی صفر کیونکہ دونوں صورتوں میں مرے گا دشمن لیکن اس مارنے کے محرکات بلوچ قوم پرستی کے تقاضوں و ضروریات سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے کچھ مخصوص گروہی مفادات کے تحت ہی ہونگے ، طالبان کا قتل عام ہو یا بی ایل ایف کا قتال ان کے پوشیدہ تضادات کی وجہ سے یہ بات طشت ازبام ہوتی ہے کہ مارنے کے پیچھے وہ نیت و مقصد نہیں جو مجھے اور میری قوم کو مطلوب ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز