تحریر :  پروفیسر حسن جانان

گزشتہ دن بی ایس او آزاد کی طرف سے کونسل سیشن بنام معلم آجوئی شہید صبا دشیاری و درسگاہ آجوئی باباخیر بخش مری کے نام سے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ اس کھٹن و گھمبیر صورتحال میں بی ایس او آزاد اپنی بساط کے مطابق اپنے نظریے پر قائم رہا ہے اور ریاستی پابندیوں کے باوجود اپنی جہد جاری رکھی ہوئی ہے ایک اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے ان کھٹن حالات میں جو بن سکا ہے انھوں نے کیا ہے شاہد اگر دیکھا جائے تو کمزوریوں کی کمی بھی نہیں رہی ہے اور حالات کے تحت پالیسیوں میں تبدیلی نہ آنے کی وجوہات ہزارہا رہے ہونگے لیکن پھر بھی صحیح وقت و حالات میں کونسل سیشن اور رابطوں سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے بی ایس او وہ ادارہ ہے جو ہر بلوچ بچے کو گود میں لیکر ایک ماں کی طرح اسکی پرورش کرتا رہا ہے اور یہی وہ ادارہ ہے جس سے مختلف الخیال طلباء جڑ کر سیاسی تربیت لیکر قوم کے لئے سرمایہ بنتے ہیں ویسے تو ماضی میں یہ ادارہ بہت ہی مضبوط و پائیدار رہا ہے لیکن ماضی قریب میں پابندیوں و ریاستی جبر کی وجہ سے وہ سرگرمی جو ان کے ذمے تھے ان کو بہ خوبی نبھا نہ سکے لیکن کچھ ایسے کام جو ریاستی ظلم و بربریت سے ہٹ کر تھے ان پر بھی وہ بہتر طریقے سے کام نہ کرسکے میں خصوصاً ایک نقطے کی طرف اشارہ کرونگا وہ یہ کہ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کا ویب سائٹ اس دوران جس سے وہ اپنے پروگرام و سوچ کی تشہیر کرتے تھے نجانے کن وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ جمود کا شکار رہا، وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک ادارے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ میڈیا کو ہاتھ سے جانے نہ دے بحیثیت ایک ادارہ اپنے اس پروگرام کو تواتر کے ساتھ جاری رکھتے اس پر وہ ناکام رہے اس دور میں جہاں بی ایس او پر پابندی ہے اور ان کے بیانات شاذونادر کسی اخبار میں چھپے اور اگر چھپے بھی تو ان کے موقف کو سنسر کر کے چھاپا گیا البتہ وہ کمزوریاں یا مجبوریاں وہ اپنی کونسل سیشن کے بعد اس پر باقاعدگی سے اس پر کاربند رہیں گے بی ایس او خصوصا ان حالات میں اپنی توجہ میڈیا پر دے تاکہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنے پروگرام کو آگے بڑھا کر اپنے تنظیمی لٹریچر کو تسلسل کے ساتھ شائع کریں اگر وہ چھپ نہیں سکتے تو الیکڑانک میڈیا میں انھیں اپنے سائیٹ پر شائع کر سکتے ہیں. اور ایسے حالات میں وہ بلوچ طلباء و طالبات میں قومی آزادی کا شعور بذریعہ میڈیا دے سکتے ہیں اب حالات وہ نہیں رہے کہ وہ سرکلز کا انعقاد کر کے نوجوانوں میں غلامی و ظلم و جبر کے خلاف بیداری پیدا کر سکے اس لیے وہ الیکڑانک میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرکے اپنے سوچ و فکر کو بلوچ قوم تک پہنچا سکتے ہیں. بی ایس او بحیثیت ایک طلباء تنظیم بلوچ طلباء کی آواز رہنے کے ساتھ بلوچ سیاسی پارٹیوں و بلوچ حقوق و بلوچستان کی آزادی کی آواز رہی ہے اور ہر دور میں اس پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا رہا سیاسی پارٹیوں کی اندرونی اختلافات کی وجہ اکثر یہ طلباء تنظیم پارٹیوں کے زیر عتاب رہا ہے اس وجہ سے اس میں دراڑیں پڑتی رہی اور یہ ادارہ بکھرتا رہا موجودہ حالات میں بی ایس او آزاد و بی آر ایس او وہ واحد تنظیمیں ہے جو بلوچ آزادی کے فکر پر ڈٹے رہے ہیں بی ایس او بحیثیت ایک طلبا تنظیم اپنے آئین کے تحت ایک آزادہ ادارہ ہے اسکی تمام سیاسی پارٹیوں سے تعلقات رہے ہیں البتہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ روابط کی وجہ سے اس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کی پشت پناہی کر رہا ہے ایک آزاد ادارہ ہونے کی وجہ سے یہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ جس ادارے کے سیاسی موقف کو مضبوط و بہتر سمجھتے ہیں تو ان کے ساتھ انکی نزدیکی ہو سکتی ہے البتہ مجموعی حوالے سے وہ ایک آزاد ادارہ رہ کر سب کو اپنا سمجھ کر ان کے ساتھ ہم قدم ہو تو یہ زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے کیونکہ ہر پارٹی کی کوکھ اسی ادارے سے بھری پڑی ہے اسی ادارے سے تربیت لیکر وہ دیگر سیاسی اداروں میں شامل ہوئے ہیں اگر یہ ادارہ آزاد رہ کر ہر پارٹی کے موقف پر اپنا صادقانہ رائے دے اور ہر پارٹی کی قربانیوں کی قدر کرنے کے ساتھ انکے کمزور موقف پر ادارتی سطح پر سوال اٹھائے اور ان سے رابطے میں رہے تو کسی حد تک ممکن ہے کہ وہ سب اداروں کے لئے قابل قدر ہو پیچیدگیوں میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاسی پیچیدگیوں سے بڑھ کر بات موقف فکر و نظریے کی ہے اس پر قطعا کسی کو اعتراض نہیں البتہ خرافات و قیاس آرائیوں کو لے کر کسی پارٹی یا پارٹی سربراہ کے بیان کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ صادر کرنا کہ وہ تو آزادی نہیں چاہتا، یا کسی ایک ڈپلومیٹک بیان سے کسی پارٹی کی مجموعی سوچ کو مسترد کرنا، یا کسی ایک فرد کی رائے یا خیال کو پارٹی کی پالیسی سمجھ کر اس سے ناطہ توڑنا، میرے خیال میں یہ غیر مناسب رویے ہیں کیونکہ قیاس آرائی درست نہیں ہو سکتی اگر ماضی قریب میں دیکھیں تو ایسے ہی چھوٹے چھوٹے مسئلوں کی وجہ سے اس آزاد ادارے کو ہر ایک اپنا بنانا چاہتا تھا آج بھی یہ ادارہ کتنا آزاد ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اتنا امید کر سکتا ہوں کہ تمام سیاسی پارٹیاں یہ عہد کریں کہ اس طلباء ادارے کو اپنا یرغمال بنانے سے گریز کرینگے اور اس ادارے کو آزاد رہ کر آزادانہ جہد کرنے دینگے تو یہ ادارہ تمام پارٹیوں کو پروڈکشن دیتا رہے گا اور سب کے پیٹ بھرتا رہے گا موجود کونسل سیشن سے بہت سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ اپنے تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے کے ساتھ اپنے آزادانہ ادارے کو آزادانہ رہنے دیں تو اس سے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اور بی ایس او نے اس دوران اپنے پالیسیوں میں بہت سی تبدیلیاں لائی ہیں البتہ اس پر انھیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اگر بی ایس او میں دیگر سیاسی اداروں کی اثر رسوخ کو روکا جائے تو یہ ممکن ہے کہ بحیثیت ایک طلباء تنظیم بلوچ تحریک آزادی میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے شاہد وقت و حالات سے تمام پارٹیاں یہ سمجھ چکے ہیں کہ طلباء تنظیم کے اندر مداخلت سے مسائل بگڑ سکتے ہیں بلکہ بہتر نہیں ہوسکتے، اگر طلباء تنظیم میں موقف پر اختلاف رائے سامنے آئے گا تو انھیں انکے طریقہ کار کے تحت اسے ڈیل کرنے دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسئلوں کو اپنے اداروں میں خود حل کریں اگر وہ حل نہ کرسکے تو بہتر یہی رہے گا کہ سابقہ طلباء قیادت ان مسائل کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے انھیں نیک نیتی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرے تو ممکن ہے یہ طلباء تنظیم ایک آزاد ادارہ کی حیثیت سے زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکے. اور طلباء قیادت پر موجودہ حالات میں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ریاستی جبر و بربریت کے خلاف اپنے سیاسی طریقہ کار و حکمت عملیوں میں تبدیلی لائے کیونکہ ان کے طریقہ کار میں کچھ ایسی غلطیاں ضرور رہی ہو نگی کہ ان کے مرکزی قیادت ریاستی عقوبت خانوں کی نذر ہو چکے ہیں ان پر سوچ و بچار کر کے ہی ایک منظم لائحہ عمل بنانا ہی انکی کامیابی کا ضامن ہوگا۔ بی ایس او سے ہر بلوچ کی امیدیں وابستہ ہیں اور رہیں گے کیونکہ یہی وہ ابتدائی ادارہ ہے جو ہر بلوچ نوجوان کو اپنے اندر سمو کر اسے قومی آزادی کے شعور سے لیس کرتا ہے اور وہ اس ادارہ میں رہ کر وطن کی آزادی کا خواب گھر گھر پہنچانے کا ذمہ اٹھاتا ہےاس کونسل سیشن کو اس امید کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ وقت و حالات کی نزاکت کو بلوچ طلباء سمیت ہر سیاسی ورکر سمجھ چکا ہے اور سیاسی کیھنچا تانی کی بجائے اس ادارے کی پشت پناہی ہر سیاسی پارٹی پر فرض ہوگا کہ وہ اس ادارے کی آئینی ساکھ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے، اور بی ایس او کی لیڈرشپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک طلباء تنظیم کی حیثیت سے اپنی جدوجہد کو دیکھے کہ وہ قومی تحریک میں ایک جزو کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے نہ کہ وہ تحریک کا کل نہیں، اگر وہ یہ سمجھتے ہیں تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ بی ایس او بحیثیت ایک ادارہ نئے پالیسی کے تحت قومی جہد آزادی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوگا.