ھمگام کالم
تحریر: سلام سنجر
ایک طرف ہم بلوچ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں اور ہر روز مزید تقسیم ہو رہے ہیں دوسری طرف دشمن ہماری خون سے لت پت گلزمین کو مزید چار حصوں میں تقسیم کر رہا ہے اس تقسیم سے نہ صرف بلوچستان کا نام غائب ہوجائے گا بلکہ بلوچ بھی دنیا سے غائب ہوجائیں گے جہاں تک میرا خیال ہے ایرانی زیر قبضہ بلوچستان کی تقسیم کے بعد بلوچستان کا نام نہ صرف دنیا کے نقشے پر ختم ہوجائیں گے بلکہ اسے گوگل پر بھی سرچ کرنے سے آپ کو نہیں ملے گی دوسری جانب ہوسکتا کل ایران یہ پابندی عائد کرے کہ کوئ بلوچ اپنے نام کے آگے بلوچ لکھنا چھوڑ دیں خلاف ورزی کرنے پر پھانسی کا پھندہ تیار ہے ـ کیونکہ ایرانی زیر قبضہ بلوچستان میں آپ اپنے بچے کا نام بالاچ، دودا، داشاہ یا میرین نہیں رکھ سکتے ہیں کہ قابض ایران نے پابندی لگائ ہے ـ اور کل آپ کا وجود بھی نہیں رہے گا اگر آپ نے سردار سردار یا مڈل کلاس کا نعرہ لگانا بند نہیں کیا تو!
میں بتاتا ہوں ہماری اوقات، ایران کی سامنے ہماری اوقات بہت ہی گر چکی ہے اس کی وجہ ہماری تقسیم در تقسیم ہے دوسری وجہ اپنے بھائ کی ٹانگ کھینچائ کرنا، انا پرستی کے علاوہ ایران ہماری نفسیات سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہ قوم بلوچ کبھی بھی متحد نہیں ہوسکتی اس لیئے وہ ببانگ دہل بلوچستان کو تقریباً تقسیم کرچکا ہے ـ
پاکستان کی ستر سالہ غلامی اور ایران کی 92 سالہ غلامی نے ہماری بلوچی وجود کو اس طرح چھکنا چور کر دیا ہے کہ اگر ہم چائیں تو بھی متحد نہیں ہو سکتے اگر دشمن ہماری دہلیز پر آ کر ہماری ماؤں بہنوں کی اٹھا کر لے جائیں تو ہم چاکر و گوھرام کی نرمزاریں اولاد نہیں بن سکتے کیونکہ ہماری بلوچی غیرت مرچکی ہے ہماری بلوچی ضمیر مدفن ہوچکا ہے اور ہماری وجود پر احساس کمتری نے پردہ ڈال دیا ہے ـ
اب ہمیں صرف یہی کرنا چاہیئے کہ گزشتہ 20 سال کی جنگ کے دوران جتنے ہماری نسل پھل پھول کر بڑا ہوچکا ہے انہیں کل کے لیئے تیار کریں ان کی ذہن سازی کریں اور انہیں جنگ کرنے بجائے پہلا یہ سبق سکھائیں کہ کسی غلام قوم کو کیسے متحد کیا جاسکتا ہے شاید اگلے 20 سال تک ہماری موجودہ نسل کسی اتحاد کی جانب اپنا پرچم اٹھا کر یکجہت ہو کر دشمن کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں ـ لیکن افسوس کی بات یہ کہ ہماری 20 سالہ جنگ کے دوران پھل پھول کر ہماری نسل کے ذہنوں پر دشمن تیزی قبضہ کر رہا ہے ـ
اب اپنی موجودہ نسل کو بچانے کے لیئے پہلے انہیں احساس کمتری سے نکال دیں، پھر ان کی اچھی طرح پرورش کریں اس کے بعد انہیں بلوچی تمام کوڈ آف کنڈٹ سکھائیں کوڈ کنڈکٹ میں ایک یہ بھی پوائنٹ آتا ہے کہ جب بھی دو گروہوں کے درمیان جاری ہوتا ہے تو اگر اس جنگ کے درمیان بلوچ عورت کھود جائیں تو خونی جنگ روک دی جاتی ہے اور اس عورت کا احترام کرکے عورت کہے کہ جنگ بند کر دیا جائے تو وہ جنگ بند کیا جاتا ہے ـ
دوسرا کوڈ آف کنڈکٹ یہ ہے کہ سولہ سے لے کر اٹھارا سال تک کے بچے کو بلوچ سماج میں قتل نہیں کیا جاتا ہے ـ تیسرا اور اہم کوڈ آف کنڈکٹ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے ـ یہ تھے چند بلوچی کوڈ آف کنڈکٹ، ان کو اپنے بچوں کے سکھانا چاہیئے ـ اس کے علاوہ بلوچستان کے تمام تاریخی ہیروز یعنی کرداروں کے بارے میں مکمل پڑھایا جائے کہ چاکر و گوھرام کون تھے کیوں انہوں نے تیس سال تک آپس مین جنگ کی اور اس جنگ کے نقصانات بلوچ وحدت کو کیسے پہنچے ؟ کیونکہ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ چاکر و گوھرام برادر کش سردار تھے لیکن ہمیں یہ نہیں سکھایا یا کہا گیا تھا کہ ان کے آپسی جنگوں کی بنیادی وجہ کیا تھی؟ آیا وہ بلوچی کوڈ آف کنڈکٹ ( میار جل) پر جنگوں میں کھود پڑے تھے؟ یا کسی ذاتی مفادات کے لیئے ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے رہے؟ ایک اور اہم نقطہ ہماری ادب اور زبان بھی ہماری نئ نسل کے لیئے بہت اہم ہے ہماری بلوچی کہاوتیں، بتل، شعر و شاعری عہدی قصہ و داستان بہت اہم ہیں شیھ مرید ھانی کون تھے؟ للہ گراناز کی عشقی داستان کیا ہے ملا فاضل اور جوانسال کی شاعری کیا تھی اس میں چاشنی کیا تھی ہمارے لیئے کیا کیا سبق آموز پیغامات ہیں ؟
سب سے اہم نقطہ یہ کہ بلوچستان تاریخ اور جغرافیہ کیا ہے بلوچستان کی سرحدیں کہاں تک ہیں بلوچستان کے سیاسی و معاشی حالات پہلے کیا تھے اور آج کیا ہیں؟ بلوچ قوم کی قدیم سیاست اور نظام بادشاہت کیا تھے یہ تمام نقاط بہت ضروری ہیں اگر ہماری موجودہ نسل جان سکے تو وہ خود ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے بجائے ہر ایک کہ ڈیڈھ اینچ کی مسجد بنانے کے۔ اس کے علاوہ اپنے بچوں کو اپنے دشمن کے تمام منصوبات اور ان کی سازشوں اور قبضہ گیریت کے بارے مکمل آگاہی دینا چاہیے یہ کہنا کہ ہماری دشمن ہیرا منڈی کی پیداوار ہے اور چرکی ہے غلط ہے کیونکہ اسی چرکی اور ہیرا منڈی کی پیداوار نے ہم پر ستر سال سے زیادہ عرصے تک قبضہ کر رکھا ہے۔
جب موجودہ نسل کی لگام ہم بلوچوں کے ہاتھوں میں ہوگی ان کی ذہنی پرورش ہم بلوچ قوم کریں گے بجائے دشمن کے تو تب جا کے ہماری نسل نہ صرف محفوظ ہوگی بلکہ بہت طاقتور اور ناقابل تسخیر ہوگی اور خود آگے جا کر متحد ہوگی۔ کیونکہ ہم اس قابل نہیں کہ متحد ہوجائیں ہمارے اندر منافقت، چغل خوری، اپنے برادر پر ہاتھ اٹھانا، جھوٹ بولنا ہے، دشمن کے سامنے سجدہ ریزاں ہونا، دروغ گوہی لچی، مکاری اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑنا عام ہو چکا ہے اب جبکہ نئ نسل کو ان خرابیوں سے نکال دیا جائے گا تو اس پر کوئ بھی طاقت زور نہیں آزمائے گا۔
تب نہ ایران بلوچستان کو تقسیم کرے گا نہ پاکستان ہماری گدانوں پر بمباری کرے گا اور نہ کوئ ہم پر حکمرانی کا خواب دیکھے گا ـ